Sunday 2 June 2019

حضرت مولانا مفتی افتخارالحسن صاحب کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ

حضرت مولانا مفتی افتخارالحسن صاحب کاندھلوی رحمۃاللہ علیہ

آپ کی پیدائش 10 جمادی الأول 1340 ھ مطابق 10 جنوری 1922 کو غالباً کاندھلہ میں ہوئی. غالباً اس لئے لکھا گیا کیونکہ آپ کے والد محترم ایک مدت تک مظفر نگر میں مقیم رہے
آپ کا شجرہ اس طرح سے ہے. افتخار الحسن ابن رؤف الحسن ابن ضیاء الحسن محمد صادق ابن نور الحسن ابن ابو الحسن ابن مفتی الٰہی بخش رحمۃ اللہ علیہم
آپ کے والد محترم مولانا رؤف الحسن صاحب نے یکے بعد دیگرے دو شادیاں کی جس سے کل پانچ بھائی اور تین بہنیں  ہوئے
پہلی اہلیہ سے مولانا نجم الحسن و مولانا احتشام الحسن خلیفہ و رفیق خاص بانی تبلیغ حضرت مولانا محمد الیاس صاحب رحمہ اللہ و حکیم قمر الحسن و تین صاحبزادیاں جویریہ خاتون زوجہ حضرت مولانا محمد الیاس صاحب بانی تبلیغ و امۃ المتین خاتون زوجہ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی مہاجر مدنی و امۃ الدیان خاتون زوجہ مولوی ظہیر الحسن شہید اور دوسری اہلیہ سے حضرت مولانا اظہار الحسن صاحب و حضرت مولانا مفتی افتخار الحسن صاحب
اس اعتبار سے آپ بانی تبلیغ مولانا الیاس اور حضرت شیخ زکریا صاحب کے برادر نسبتی ہوئے آپ مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور کے قابل ترین فضلاء میں سے ہیں
1948 میں آپ کی فراغت ہوئی اور 1947 میں آپ کو حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالقادر صاحب رائے پوری نور اللہ مرقدہ کی طرف اجازت و خلافت سے نوازا گیا آپ کے پیرجی یعنی حضرت رائے پوری نے آپ کو صوفی جی کا لقب دیا تھا جس کا بہت سی جگہوں پر حضرت شیخ الحدیث نے اپنی آپ بیتی میں بھی تذکرہ کیا ہے صوفی افتخار کے نام سے
آپ کے خلفاء کی تعداد 50 سے زائد ہے جس میں حضرت مولانا عبد العزیز صاحب رائے پوری سابق ناظم مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور حضرت مولانا محمد کامل صاحب رحمہ اللہ گڑھی دولت حضرت مولانا زبیر الحسن صاحب کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا محمد سعد صاحب کاندھلوی دامت برکاتہ بھی شامل ہیں 
آپ اپنے وقت کے عظیم مفسر قرآن تھے پورے 52 سال تک کاندھلہ کی جامع مسجد پھر اپنے محلے کی مسجد میں فجر بعد ایک ڈیڑھ گھنٹے تفسیر کی جس میں 5 دور مکمل فرمائے جس کا آخری ختم غالباً 1992 یا 1993 میں ہوا جس میں بڑا عظیم الشان اجتماع ہوا کاندھلہ کی پوری عیدگاہ بھرگئی اور حضرت مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ نے شرکت فرمائی.
حضرت مولانا اپنی آپ بیتی میں تحریر فرماتے ہیں کہ ایسی نورانی مجلس میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی.
روزانہ کی ہونے والی مجلس بھی بڑی با برکت ہوتی تھی
ایک ایک آیت پر علم کا جو دریا بہنا شروع ہوتا تو اس کو مکمل کرنے میں کئی کئی دن لگ جاتے تھے
سورۃ بقرہ کی صرف ایک آیت وإذ قال ربك الملائكة إني جاعل في الأرض خليفه کی تفسیر  کا نا مکمل مواد کتابی شکل میں منظر عام پر آ چکا ہے وہ بھی صرف 9 دن کی تقریر ہے حالانکہ آپ نے اس آیت پر کم و بیش 45 دن تک کلام فرمایا تھا
اس کتاب کا نام تقاریر تفسیر قرآن مجید ہے
آپ ایک طویل عرصے سے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ اور مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور کی مجلس شوریٰ کے رکن تھے اور تا حیات باقی رہے
مراداباد دہلی میرٹھ مظفر نگر بلند شہر نیز ہریانہ پنجاب میں آپ کے بے شمار دینی و دعوتی اسفار ہوئے اور پورا علاقہ آپ کو اپنا پیر مانتا ہے
آپ کی کل 7 اولاد ہیں تین صاحب زادگان جن میں عظیم مؤرخ مولانا نور الحسن راشد جو کہ جانشین بھی ہیں مولانا ضیاء الحسن اور مولانا بدر الحسن اور چار صاحب زادیاں اہلیہ مرحومہ پیر صاحب حضرت مولانا محمد طلحہ کاندھلوی ( اس رشتے سے آپ حضرت شیخ الحدیث کے سمدھی بھی تھے) و اہلیہ مولانا احترام الحسن رحمۃاللہ کاندھلوی و اہلیہ مولانا محمد حشیم صاحب عثمانی ناظم مدسہ صولتیہ مکہ مکرمہ و اہلیہ مولانا محمد الھاشمی سہارنپوری ( راقم سطور کی والدہ محترمہ) ہیں
آپ تقریباً ایک ڈیڑھ سال سے صاحب فراش تھے اور اب آخری ایک ہفتے سے پیشاب بند تھا کھانا پینا سب چھوٹ گیا تھا
آج صبح فجر بعد سے طبیعت زیادہ خراب تھی شام 5 بجکر 40 منٹ پر اب زمزم کے چند قطرے مونھ میں ڈالے اور اسی دوران روح پرواز کرگئی
انا للہ وانا الیہ راجعون
موت العالِم موت العالَم
تدفین سے قبل یہ چند سطور تحریر کرسکا ہوں
نماز جنازہ کل صبح پیر کے روز 8 بجے عیدگاہ کاندھلہ میں ادا کی جائے گی اور خاندانی قبرستان میں سپرد خاک کیا جائے گا
باقی مزید تفصیلی مضمون انشاءاللہ تعالیٰ جلد لکھنے کی کوشش کروں گا
آپ تمام حضرات سے گزارش ہے کہ آپ اس مبارک مہینے میں اور اس کے بعد بھی مغفرت تامہ اور بلند درجات کی دعاؤں میں یاد رکھیں اور ایصال ثواب فرمائیں
جزاکم اللہ خیرا
احمد ھاشمی سہارنپوری
مقیم حال کاندھلہ
------------------------------------------
آہ حضرت مولانا افتخار الحسن کاندھلوی
مؤرخہ 2 جون 2019 بوقت چھ بجے اچانک معلوم ہوا کہ حضرت مولانا افتخار الحسن کاندھلوی نوراللہ مرقدہ اپنے مالک حقیقی سے جا ملے. اللہ رب العزت حضرت والا کو غریق رحمت فرمائے.بندہ ذرا دور تھا. اس لیے رات گیارہ بجے تک ہی کاندھلہ پہنچ پایا. اس خبر کے ساتھ  زندگی کے گزشتہ تیس سال میرے ذہن و دماغ پر چھا گئے. حضرت والا کے ساتھ چوتھائی صدی سے بھی زیادہ کا میرا تعلق بار بار ماضی کے جھروکوں سے  آوازیں دینے لگا. ان کی یادیں ان کی باتیں رہ رہ کر ایک ٹیس مارنے لگیں.
راقم الحروف نے شعور کی آنکھیں کھولنا شروع کیں تو گھر میں جس شخصیت کا سب سے زیادہ تذکرہ پایا وہ حضرت مولانا افتخار الحسن کاندھلوی نوراللہ مرقدہ تھے. میری عمر چار پانچ برس رہی ہوگی تب سے حضرت مولانا کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا. اس وقت راقم الحروف حضرت والا کے گھر جاتا اور بچوں کے ساتھ کھیل کود کیا کرتا تھا. برادرم احمد ہاشمی میرے اسی وقت کے دوستوں میں ہیں. حضرت والا کی پہلی خصوصیت جس نے مجھے سن طفولیت میں ہی متاثر کیا وہ بچوں سے آپ کا پیار تھا. ہم حضرت والا کو پیار سے دادا  ابا کہا کرتے تھے. راقم الحروف کو حضرت والا کے ساتھ متعدد اسفار کا موقع بھی ملا. ایک بار بندہ سرہند کے سفر میں حضرت والا کے ساتھ تھا. اس موقع پر حضرت والا نے سرزمین ہریانہ و پنجاب کے متعلق مختلف تاریخی واقعات بیان کیے .زیادہ تو کچھ یاد نہیں مگر کم عمری میں ہی ان واقعات نے میرے اندر تاریخ کو جاننے اور پھر وسیع تر معنوں میں دوسرے مضامین کے مطالعہ کا شوق پیدا کر دیا.
بچپن سے ہی حضرت والا کے یہاں جو چیز مجھے بے حد متاثر کرتی تھی وہ حضرت والا کی لائبریری تھی. میں ان کتابوں کی اہمیت اور معنویت سے تو واقف نہ تھا مگر دل میں مطالعہ کی امنگیں انگڑائی لینی شروع کر دیتی تھیں.ااس طرح حضرت والا کی صحبت نے میرے اندر مطالعہ کا ذوقِ پیدا کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا. حضرت والا جو واقعات زبانی طور پر پر اپنی مجلس میں بیان فرماتے، آہستہ آہستہ میں ان واقعات کو کتابوں میں بھی تلاش کرنے لگا. بار ہا حضرت والا نے مجھے متعدد کتب بھی عنایت فرمائیں.
بعض اوقات بندہ حضرت والا سے استفسار کرتا تو حضرت والا کے جواب سے معلوم ہوتا کہ فقہ و فتاویٰ کی لمبی لمبی عبارتیں حضرت والا کو ازبر ہیں. میری عمر کوئی پندرہ برس رہی ہوگی. ایک مجلس میں حضرت والا نے سوال فرمایا ای لحیہ یجوز قطعھا (کون سی داڑھی کا کاٹنا جائز ہے) میں نے برجستہ جواب دیا لحیہ المرءہ (عورت کی داڑھی) حضرت والا جواب سن کر بے حد مسرور ہوے.
حضرت والا کا سلسلہ درس قرآن اب بہت اچھی طرح تو یاد نہیں مگر اس درس کی کچھ علمی گفتگو بندہ کو ابھی تک یاد ہے. آج حضرت والا تو اگرچہ ہمارے درمیان حیات نہیں ہیں مگر آپ کی زندگی مجھے بار بار یہ سبق دے رہی ہے - - - - - - - - - اہل علم کو بہترین خراج عقیدت یہ ہے کہ تم حصولِ علم کا سفر مزید شدت کے ساتھ جاری رکھو.
مفتی اطھر شمسی 
القرآن اکیڈمی کیرانہ
--------------------------------

بسم الله الرحمن الرحيم
وفاة الشيخ افتخار الحسن الكاندهلوي
توفي اليوم (يوم الأحد ثامن عشري رمضان سنة أربعين وأربعمائة وألف) شيخنا المجيز العالم الصالح افتخار الحسن الكاندهلوي مُنزلا الناس درجة، ومعتليا إلى ربه درجات، تغمده الله برحمته وأسكنه فسيح جنانه.
وهو الشيخ العالم المعمر الرحلة الزاهد المتعبد افتخار الحسن بن الشيخ رؤوف الحسن من أعقاب الشيخ العلامة المفتي إلهي بخش الكاندهلوي أحد الأعلام في القرن الثالث عشر الهجري، رحمهم الله رحمة واسعة.
روى الحديث المسلسل بالأولية عن الشيخ الضرير سعادت خان الديوبندي، عن العلامة المقرئ المسند عبد الرحمن الفاني فتي، عن العلامة المحدث محمد إسحاق الدهلوي، عن جده الإمام عبد العزيز الدهلوي، عن أبيه كوكب الديار الهندية ولي الله أحمد بن عبد الرحيم الدهلوي، وروى المسلسل بالأولية أيضًا عن الشيخ محمد زكريا الكاندهلوي، عن العلامة المحدث خليل أحمد السهارنفوي بإسناده المعروف.
وأخذ النصف الأول من صحيح البخاري من الشيخ محمد زكريا الكاندهلوي، والنصف الثاني منه من الشيخ عبد اللطيف البرقاضوي، وصحيح مسلم والموطأ برواية محمد من الشيخ أسعد الله الرامفوري، وسنن الترمذي والشمائل له وشرح معاني الآثار للطحاوي من عبد الرحمن الكاملفوري، وسنن أبي داود من محمد زكريا الكاندهلوي، وسنن النسائي وسنن ابن ماجه والموطأ برواية يحيى بن يحيى الليثي من عبد الشكور الكاملفوري.
وأجازه الشيخ علاء الدين الفلتي الراوي عن نور الحق الطونكي، وله (ينبغي التحقق ممن يرجع الضمير إليه: علاء الدين أم نور الحق؟) إجازة عن مولانا فضل الرحمن الكنج مراد آبادي.
زرته في منزله في كاندهله يوم السبت خامس عشر رمضان سنة ثلاث وثلاثين وأربعمائة وألف خلال زيارتي لابنه العلامة المحقق نور الحسن راشد الكاندهلوي، وكان طريح فراش، أضناه المرض، وقهره كبر السن، فقرأت عليه السلام واستجزته فأجازني إجازة عامة، ولله الحمد، وسمعت منه المسلسل بالأولية، وسألته الدعاء لي، فدعا لي بكلمات صالحات أرجو نفعها وبركتها.
وهو خاتمة من روى الحديث المسلسل بالأولية عاليا في الهند، ولا أعلم أحدا بقي بعده يرويه بمثل إسناده، ويا له من شرف خص به، ويا له من مجد باذخ تمكن منه، وإن صحت رواية شيخه علاء الدين عن مولانا فضل الرحمن، فذاك من أعلى الأسانيد، ولعل شيخنا عبد الرحمن الكتاني هو آخر من يساويه في هذا العلو فإنه يروي عن محمد عبد الباقي الأيوبي عن مولانا فضل الرحمن الكنج مراد آبادي.
عرف الشيخ افتخار الحسن رحمه الله بصلاحه وتقواه وسداد أمره، وهو مسك الختام في سلسلة مشايخ كاندهلة ممن يرجع إليه في علمه ورأيه، قضى حياته سالكا المسلك النهج من البر والتقى، غير مغرور بالدنيا والملاهي، ولا راكبا الغي والضلال، مكثرا من ذكر الله، صابرا على نوب الزمان وريبه، مسارعا إلى طاعة تعطي جنان الخلد، متماديا في شغله، جافيا الراحة والتنعم، هادئ الطبع ساكنا، ومستقيم السيرة، أدر الله عليه شآبيب رحمته.
وابنه شيخنا نورالحسن الكاندهلوي عالم جليل ومحقق باحث فطن، مقدم في نيل المعالي، ومشيد للمفاخر، بارك الله في حياته وأعماله.

No comments:

Post a Comment