Monday 17 June 2019

یہود ونصاری کون لوگ ہیں؟

یہود ونصاری کون لوگ ہیں؟

محترم مفتی صاحب، کیا یہ درست ہے کہ "یہود اور نصاریٰ یہودی اور عیسائی کو نہیں کہتے یہودی وہ گروہ جو خود سے ہی یہ فیصلہ کرکے بیٹھے ہوئے ہیں کہ وہ حق پر ہیں ہدایت یافتہ ہیں اور جنت میں صرف وہی جائیں گے اللہ قرآن میں ایسے لوگوں کو یہود کہتا ہے وہ چاہے جس مذہب اور مسلک سے ہو اگر اس میں یہ مرض موجود ہے تو تو وہ یہودی ہے  اسی طرح نصاریٰ عیسائیوں کو نہیں کہتے نصاریٰ لفظ نصرت سے ہے اور نصرت کہتے ہیں مددگار کو جو یہود کی مدد کررہے ہیں، یہ مولوی یہودی ہیں اور اندھوں کی طرح انکی مدد کرنے والے لوگ نصاریٰ ہیں. اللہ کا قرآن اگر غوروفکر سے پڑھا جاۓ تو قرآن میں کہیں بھی ہندو کو مشرک نہیں کہا گیا بلکہ جو بھی شرک میں مبتلا ہے وہ لوگ مشرک ہیں اسی طرح قرآن نے یہود صرف بنی اسرائیل کو نہیں کہا بلکہ یہودیوں میں جو صفات پائی جاتی ہیں وہ تمام صفات آج جس جس مسلمان میں پائی جاۓ گی وہ سب قرآن کی نظر میں یہود ہیں. ٹھیک اسی طرح نصاریٰ کی مثال ہے جیسے اس وقت کے صاحب اقتدار طبقہ یہودیوں کی جو لوگ نصرت کیا کرتے تھے یعنی اس صاحب اقتدار طبقہ جو مذہب کی گدی پر بھی جانشین تھا اس طبقہ اشرافیہ کے پیچھے جھنڈے اور بینرز اٹھاکر چلنے والے عام کارکن لوگ جو مدد اور نصرت کیا کرتے تھے ان کو قرآن نے نصاریٰ کہا ہے. آج مسلمانوں میں طبقہ اشرافیہ کی مذہبی اور جمہوری پارٹیوں کے لیڈر جو اصل دین اسلام کا راستہ روکے کھڑے ہیں انہیں یہود کہا جائیگا اور جو لوگ ان باطل مذہبی ملاؤں اور سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی کرنے والے انکی نصرت کرنے والے چندے اور جلسوں کی صورت میں عام کارکنان ہیں قرآن کی نظر میں یہ لوگ بھی نصاریٰ ہیں. اسی طرح قرآن نے کافر ہر اس شخص کو کہا ہے جو اللہ کی آیتوں کا کھلا کذب کررہے ہیں اور اس سے اپنی بغاوت کا اظہار کررہے ہیں اپنے کسی مالی مفاد کے خاطر یا اپنے مذہبی سیاسی اور سائنسی باپوں کے خاطر. قرآن میں اللہ کہتا ہے جو لوگ ایمان لائے یعنی مسلمان ہو یا یہودی یا نصاریٰ یا صابعین یعنی کوئی شخص کسی قوم ومذہب کا ہو جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان لاۓ گا اور کائنات میں جو فساد مچا ہوا ہے اسکی اصلاح کرنے والے اعمال کرے گا تو ایسے لوگوں کو ان کے اعمال کا صلہ اللہ کے یہاں ملے گا اور ان کو نہ کسی طرح کا خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہونگے (سورہ البقرہ 62) اللہ نے اس آیت میں نام نہاد فرقہ پرست ملاؤں کے دئے ہوۓ من گھڑت اس عقیدے کی تردید کردی کہ جسکی بنا پر لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم کیونکہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے ہیں اس لئے صرف ہم ہی جنت میں جائیں گے اور وہ کیونکہ غیر مسلم گھرانے میں پیدا ہوئے ہیں اس لئے وہ جہنم میں جائیں گے، چاہے وہ جتنا اعمال صالحہ کرلیں، جس طرح مسلمانوں کے تمام 73 جہنمی فرقے کہتے ہیں کہ کیونکہ محمد علیہ السلام ہم میں مبعوث ہوئے ہیں اس لئے جنت کا ٹکٹ ہمارا ہے، ویسے ہی یہود اور نصاریٰ بھی کہتے تھے کہ جنت کے حقدار تو ہیں لیکن اللہ نے ان فرقہ پرستوں کی من گھڑت تھیوری کا اس آیت کے ذریعے رد کردیا کہ جس میں اللہ فرماتا ہے. اور یہودی اور عیسائی کہتے ہیں کہ یہودی اور نصاریٰ کے سوا کوئی جنت میں داخل نہیں ہوگا یہ ان لوگوں کے خیالات باطل ہیں کہہ دو ان سے کہ اگر تم سچے ہو تو دلیل پیش کرو ہاں وہ شخص جو اللہ کے حوالے کردے خود کو اور اپنا رخ ہمیشہ ایک مخصوص الہ کی طرف رکھے اور فلاح والے کام کرے تو اس کا صلہ اس کے رب کے پاس ہے اور ایسے لوگوں کو روز آخرت نہ کسی طرح کا خوف ہوگا اور نہ وہ غم ناک ہونگے اور یہودی کہتے ہیں کہ نصاریٰ سیدھے راستے پر نہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ یہودی سیدھے راستے پر نہیں حالانکہ وہ کتاب پڑھتے ہیں اسی طرح بالکل انہی کی سی بات وہ لوگ کرتے ہیں جنکے پاس علم نہیں جہلا یعنی مشرک بھی یہی کہتے ہیں کہ ہم حق پر ہیں تو جس بات میں یہ لوگ اختلاف کررہے ہیں خدا قیامت کے دن اس کا ان میں فیصلہ کردے گا (سورہ البقرہ 111.113) اصل میں یہ دونوں آیت خاص ان لوگوں کے لئے ہے جو آج ایمان لانے کے دعویدار ہیں قرآن انہیں کو یہود اور نصاریٰ کہہ رہا ہے قرآن احسن الحدیث ہے اور حدیث حداثہ سے نکلا ہے جس کے معنی ہے تاریخ. یہ ہماری ہی تاریخ ہے جسے مثلوں سے بیان کیا گیا ہے یہ قوم بنی اسرائیل کی مثل بنی ہوئی ہے مثل کہتے ہیں فوٹو کاپی کو یہاں بنی اسرائیل کے ذریعے اس قوم کو یاد دہانی کروائی جارہی ہے کہ تم بھی وہی کررہے ہو جو انھوں نے کیا. قرآن نے اہل کتاب ان لوگوں کو کہا ہے جنہیں کتاب الہی سے فیصلہ کرنے کی تاکید کی گئی تھی لیکن انھوں نے اللہ کی کتاب کو ایک طرف رکھ دیا تھا اور خود اپنے ہاتھوں سے کتابیں لکھتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ اللہ کی طرف سے آئی ہے ان من گھڑت تفسیروں اور تشریحات میں اللہ کے حرام کردہ کو اپنے صاحب اقتدار طبقے کی خوشنودی کے لئے حلال کرلیتے تھے اپنے فتووں کی بنا پر بالکل اسی طرح آج مسلمان نامی قوم ہوبہو ان کے نقش قدم پر ہے اسی لئے محمد علیہ السلام کی ایک روایت ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم)  نے کہا تھا کہ تم ہوبہو یہودیوں اور نصرانیون کی پیروی کروگے یہاں تک کہ ان میں سے کوئی شخص گوہ کے سوراخ میں داخل ہوا تھا تو تم بھی یہی کروگے." براہ کرم وضاحت فرماکر عنداللہ ماجور ہوں.
ایس اے ساگر

الجواب وباللہ التوفیق:
حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹوں میں سے ایک بیٹا 
یہودہ کی طرف منسوب لوگوں کو یہودی“ جمع یہود“ کہتے ہیں ۔
حضرت یعقوب کا لقب 
اسرائیل“ بمعنی عبد اللہ“۔ اللہ کا بندہ) تھا، ان کی ساری اولاد کو بنی اسرائیل“ کہا جاتا ہے، اور بنی اسرائیل ہی کو یہود کہا جاتا ہے۔
حضرت یعقوب سے حضرت عیسی علیہ السلام تک سارے نبی بنی اسرائیل ہی تھے،
یہود حضرت عیسی اور ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا سارے بنی اسرائیل کے انبیاء پہ ایمان رکھتے ہیں۔
نصاری اصطلاحی اعتبار سے وہ لوگ ہیں جو حضرت عیسی علیہ السلام کے مذہب کو مانتے ہیں.
اصلاً حضرت عیسی کی جائے پیدائش فلسطین کا شہر 
ناصرہ“ ہے، اسی کی طرف منسوب لوگوں کو نصاری کہتے ہیں، لیکن تغلیباً مذہب عیسائیت پہ ایمان رکھنے والے کو نصرانی، جمع:  نصاری کہتے ہیں، دونوں فرقے نبوت محمدی کے انکار کی وجہ سے کافر ہیں۔
قرآن کریم میں یہود و نصاری کا لفظ اکثر جگہوں میں مذہب یہودیت ومذہب عیسائیت کے پیروکاروں کے لئے 
ہی استعمال ہوا ہے
ہاں بعض جگہوں پہ نصاری کا لغوی یا دیگر اطلاق ہوا ہے جیسے سورہ الصف میں:
يَـٰٓأَيُّہَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ كُونُوٓاْ أَنصَارَ ٱللَّهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ٱبۡنُ مَرۡيَمَ لِلۡحَوَارِيِّـۧنَ مَنۡ أَنصَارِىٓ إِلَى ٱللَّهِ‌ قَالَ ٱلۡحَوَارِيُّونَ نَحۡنُ أَنصَارُ ٱللَّهِ‌ فَـَٔامَنَت طَّآٮِٕفَةٌ مِّنۢ بَنِىٓ إِسۡرَاءِيلَ وَكَفَرَت طَّآٮِٕفَةٌ فَأَيَّدۡنَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ عَلَىٰ عَدُوِّهِمۡ فَأَصۡبَحُواْ ظَـٰهِرِينَ (١٤)
وَقَالُواْ لَن يَدۡخُلَ ٱلۡجَنَّةَ إِلَّا مَن كَانَ هُودًا أَوۡ نَصَـٰرَىٰ‌ تِلۡكَ أَمَانِيُّهُمۡ‌ قُلۡ هَاتُواْ بُرۡهَـٰنَڪُمۡ إِن ڪُنتُمۡ صَـٰدِقِينَ (١١١) بَلَىٰ مَنۡ أَسۡلَمَ وَجۡهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحۡسِنٌ فَلَهُ أَجۡرُهُ عِندَ رَبِّهِۦ وَلَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُونَ (١١٢) وَقَالَتِ ٱلۡيَهُودُ لَيۡسَتِ ٱلنَّصَـٰرَىٰ عَلَىٰ شَىۡءٍ وَقَالَتِ ٱلنَّصَـٰرَىٰ لَيۡسَتِ ٱلۡيَهُودُ عَلَىٰ شَىۡءٍ وَهُمۡ يَتۡلُونَ ٱلۡكِتَـٰبَ‌ كَذَالِكَ قَالَ ٱلَّذِينَ لَا يَعۡلَمُونَ مِثۡلَ قَوۡلِهِمۡ‌ فَٱللَّهُ يَحۡكُمُ بَيۡنَهُمۡ يَوۡمَ ٱلۡقِيَـٰمَةِ فِيمَا كَانُواْ فِيهِ يَخۡتَلِفُونَ (البقرہ ١١٣)
وَلَن تَرۡضَىٰ عَنكَ ٱلۡيَہُودُ وَلَا ٱلنَّصَـٰرَىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمۡ‌ قُلۡ إِنَّ هُدَى ٱللَّهِ هُوَ ٱلۡهُدَىٰ‌ وَلَٮِٕنِ ٱتَّبَعۡتَ أَهۡوَآءَهُم بَعۡدَ ٱلَّذِى جَآءَكَ مِنَ ٱلۡعِلۡمِ‌ مَا لَكَ مِنَ ٱللَّهِ مِن وَلِىٍّ وَلَا نَصِيرٍ (البقرہ ١٢٠)
وَقَالُواْ ڪُونُواْ هُودًا أَوۡ نَصَـٰرَىٰ تَہۡتَدُواْ‌ قُلۡ بَلۡ مِلَّةَ إِبۡرَاهِـۧمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ ٱلۡمُشۡرِكِينَ (١٣٥)
مَا كَانَ إِبۡرَاهِيمُ يَہُوديًّا وَلَا نَصۡرَانِيًّا وَلَـٰكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسۡلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ ٱلۡمُشۡرِكِينَ (آل عِمرَان٦٧)
وَقَالَتِ ٱلۡيَهُودُ وَٱلنَّصَـٰرَىٰ نَحۡنُ أَبۡنَـٰٓؤُاْ ٱللَّهِ وَأَحِبَّـٰٓؤُهُ قُلۡ فَلِمَ يُعَذِّبُكُم بِذُنُوبِكُم‌ بَلۡ أَنتُم بَشَرٌ مِّمَّنۡ خَلَقَ‌ يَغۡفِرُ لِمَن يَشَآءُ وَيُعَذِّبُ مَن يَشَآءُ‌ وَلِلَّهِ مُلۡكُ ٱلسَّمَـٰوَاتِ وَٱلۡأَرۡضِ وَمَا بَيۡنَهُمَا‌
وَإِلَيۡهِ ٱلۡمَصِيرُ (المائدہ ١٨)
وَقَالَتِ ٱلۡيَهُودُ عُزَيۡرٌ ٱبۡنُ ٱللَّهِ وَقَالَتِ ٱلنَّصَـٰرَى ٱلۡمَسِيحُ ٱبۡنُ ٱللَّهِ‌ ذَالِكَ قَوۡلُهُم بِأَفۡوَاهِهِمۡ‌ يُضَـٰهِـُٔونَ قَوۡلَ ٱلَّذِينَ ڪَفَرُواْ مِن قَبۡلُ‌ قَـٰتَلَهُمُ ٱللَّهُ‌ أَنَّىٰ يُؤۡفَڪُونَ (٣٠) ٱتَّخَذُوٓاْ أَحۡبَارَهُمۡ وَرُهۡبَـٰنَهُمۡ أَرۡبَابًا مِّن دُونِ ٱللَّهِ وَٱلۡمَسِيحَ ٱبۡنَ مَرۡيَمَ وَمَآ أُمِرُوٓاْ إِلَّا لِيَعۡبُدُوٓاْ إِلَـٰهًا وَاحِدًا‌ لَّآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ‌ سُبۡحَـٰنَهُ عَمَّا يُشۡرِڪُونَ (التوبہ ٣١)
وَمِنَ ٱلَّذِينَ قَالُوٓاْ إِنَّا نَصَـٰرَىٰٓ أَخَذۡنَا مِيثَـٰقَهُمۡ فَنَسُواْ حَظًّا مِّمَّا ذُڪِّرُواْ بِهِۦ فَأَغۡرَيۡنَا بَيۡنَهُمُ ٱلۡعَدَاوَةَ وَٱلۡبَغۡضَآءَ إِلَىٰ يَوۡمِ ٱلۡقِيَـٰمَةِ‌ وَسَوۡفَ يُنَبِّئُهُمُ ٱللَّهُ بِمَا ڪَانُواْ يَصۡنَعُونَ (المائدہ ١٤
لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ ٱلنَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱلۡيَهُودَ وَٱلَّذِينَ أَشۡرَكُواْ‌ وَلَتَجِدَنَّ أَقۡرَبَهُم مَّوَدَّةً لِّلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱلَّذِينَ قَالُوٓاْ إِنَّا نَصَـٰرَىٰ‌ ذَالِكَ بِأَنَّ مِنۡهُمۡ قِسِّيسِينَ وَرُهۡبَانًا وَأَنَّهُمۡ لَا يَسۡتَڪۡبِرُونَ (٨٢) وَإِذَا سَمِعُواْ مَآ أُنزِلَ إِلَى ٱلرَّسُولِ تَرَىٰٓ أَعۡيُنَهُمۡ تَفِيضُ مِنَ ٱلدَّمۡعِ مِمَّا عَرَفُواْ مِنَ ٱلۡحَقِّ‌ يَقُولُونَ رَبَّنَآ ءَامَنَّا فَٱكۡتُبۡنَا مَعَ ٱلشَّـٰهِدِينَ (٨٣) وَمَا لَنَا لَا نُؤۡمِنُ بِٱللَّهِ وَمَا جَآءَنَا مِنَ ٱلۡحَقِّ وَنَطۡمَعُ أَن يُدۡخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ ٱلۡقَوۡمِ ٱلصَّـٰلِحِينَ (٨٤) فَأَثَـٰبَهُمُ ٱللَّهُ بِمَا قَالُواْ جَنَّـٰتٍ تَجۡرِى مِن تَحۡتِهَا ٱلۡأَنۡهَـٰرُ خَـٰلِدِينَ فِيہَا‌ وَذَالِكَ جَزَآءُ ٱلۡمُحۡسِنِينَ (المائدہ ٨٥).

بطور مثال ان تمام مقامات میں لفظ یہود ونصاری اپنے اصطلاحی و متعارف معانی میں ہی استعمال ہوا ہے.
یہود و نصاری کے جو معنی اس تحریر میں بتائے گئے ہیں وہ بالکل من گھڑت بلکہ الحاد زدہ فکر کی عکاسی ہیں.
اس میں کوئی علمی وزن ہے نہ ہی کوئی مستدل، فضول قسم کی لفاظی، بازاری انداز کی اچھل کود، ناٹک بازی، دریدہ دہنی اور لاف زنی کے سوا کچھ نہیں!
بلکہ طبقہ علماء دین کے خلاف سڑے ہوئے دل ودماغ سے نکلنے والے الفاظ کی شکل میں بدبو دار لاوا ہے جو کسی طور سنجیدہ التفات کا مستحق نہیں۔ 
فقط
شکیل منصور القاسمی

https://saagartimes.blogspot.com/2019/06/blog-post_17.html


No comments:

Post a Comment