Sunday 2 June 2019

عید الفطر کی حقیقت، اہمیت وفضیلت، پیغام، تقاضے اور احکام ومسائل

عیدالفطر کی حقیقت، اہمیت وفضیلت، پیغام، تقاضے اور احکام ومسائل
ایک مہینہ کی بھوک وپیاس، ریاضتوں اور لذات نفس کی مشقتیں برداشت کرنے کے بعد کھانے پینے کی پھر سے رخصت ملنے پر جو طبعی خوشی ہوتی ہے، اسی طرح دن کا روزہ، رات کی تراویح، بشکل زکات وصدقات غرباء ومساکین کی ہمدردی وغمخواری کی خدا تعالی کی جانب سے توفیق ارزانی پر جو عقلی خوشی مسلمانوں کو حاصل ہوتی ہے، شرعی دائرے میں رہتے ہوئے اسی خوشی کے اظہار کا نام "عید الفطر" ہے۔
لفظ عید کے لغوی مفہوم میں "لوٹنا" شامل ہے، جہاں  ہر سال اس دن کے آنے اور پلٹنے کی وجہ سے اسے 'عید' سے موسوم کیا جاتا ہے، وہیں مہینہ بھر کی روحانی ریاضتوں اور نفسانی واخلاقی طہارتوں  وپاکیزگیوں  کے بعد ایک نئی روحانی زندگی کے "عود" کر آنے کی وجہ سے بھی اس دن کو عید کہا جاتا ہے۔ یعنی رحمت، مغفرت، اور جہنم سے خلاصی کے عشروں کی سعادتوں سے بہرہ ور ہونے اور گناہوں کی کثافتوں سے پاک وصاف ہوجانے کے بعد دوبارہ ایک نئی پاکیزہ زندگی عطا ہوتی ہے؛ جس  کی وجہ سے بھی اس تاریخی دن کو عید کہا جاتا ہے۔ دیگر اقوام وملل کی طرح ہماری عید محض اظہارمسرت، رقص وسرود  یا  موج مستی وتعیشات  کا نام نہیں ہے، بلکہ ہمارے مذہب میں عید کی بنیاد: روح کی لطافت، قلب کے تزکیہ، نفس وبدن کی طہارت، ایثار وہمدردی ہر ایک سے اظہار محبت، ہمدردی ویگانگت، آپسی اتحاد واتفاق، ملی اجتماعیت ووحدت، عجز وانکسار اور خشوع وخضوع  پہ قائم ہے۔ یعنی عید صرف علامتی خوشی اور رواجی مسرت کا دن نہیں؛ بلکہ مذہبی تہوار، ملی شعار اور عبادتوں کے بدلے کا دن ہے۔ شوال کی پہلی تاریخ کو "عید الفطر" اور ذی الحجہ کی دس تاریخ کو "عیدالاضحی" کہا جاتا ہے۔ عیدالفطر کی رات یعنی چاند رات کو "ليلة الجائزة" اور عیدالفطر کے دن کو "یوم الْجَوَائِزِ" یعنی انعامات و بدلے کا دن حدیث میں کہا گیا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے موقوفاً مَروی ہے: ”يَوْمُ الْفِطْرِ يَوْمُ الْجَوَائِزِ“
عید کا دن ”یوم الجَوَائِز“ یعنی انعام ملنے والا دن ہے۔ (کنزالعمال: 24540)
نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اس دن کو مذہبی تہوار قرار دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: ”إِنَّ لِكُلِّ قَوْمٍ عِيدًا وَهَذَا عِيدُنَا“ (بیشک ہر قوم کیلئے عید کا دن ہوتا ہے اور یہ ہمارا عید کا دن ہے۔ (بخاری: 952)
اللہ تعالی عید الفطر کے دن فرشتوں کو گواہ بناکر روزہ داروں کی مغفرت فرمادیتے اور ان کے گناہوں کو حسنات سے بدل دیتے ہیں، چنانچہ روزہ دار عید گاہ سے بخشے بخشائے واپس ہوتے ہیں۔
چاند رات میں ہم کیا کریں؟
عیدالفطر کی رات بڑی فضیلت اور برکت والی ہے، یہ انعام کی رات اور اللہ تعالی سے مزدوری لینے کی رات ہے، اس رات میں اللہ تعالی کی جانب سے اپنے بندوں کو رمضان کی مشقتوں، قربانیوں اور ریاضتوں کا بدلہ دیا جاتا ہے، دعائیں مقبول ہوتی ہیں، جنت واجب ہوتی ہے، دل کو روحانی زندگی نصیب ہوتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
”مَنْ قَامَ لَيْلَتَيِ الْعِيدَيْنِ مُحْتَسِبًا لِلَّهِ لَمْ يَمُتْ قَلْبُهُ يَوْمَ تَمُوتُ الْقُلُوبُ“ جس عیدین (عید الفطر اور عید الاضحیٰ) کی دونوں راتوں میں اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب کی امید رکھتے ہوئے عبادت میں قیام کیا اُس کا دل اُس دن مردہ نہیں ہوگا جس دن سب کے دل مُردہ ہوجائیں گے۔ (ابن ماجہ:1782) (طبرانی اوسط:159)
ایک جگہ نبی کریم 
صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اِرشاد فرماتے ہیں:
”مَنْ أَحْيَا اللَّيَالِيَ الْخَمْسَ وَجَبتْ لَهُ الْجنَّة لَيْلَةَ التَّرويَة وَلَيْلَةَ عَرَفَة وَلَيْلَةَ النَّحْر وَلَيْلَةَ الْفِطْرِ وَلَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَان“ جو پانچ راتوں میں عبادت کا اہتمام کرےاُس کیلئے جنّت واجب ہوجاتی ہے: لیلۃ الترویۃ یعنی 8 ذی الحجہ کی رات، لیلۃ العرفہ یعنی 9 ذی الحجہ کی رات، لیلۃ النّحر یعنی 10 ذی الحجہ کی رات، لیلۃ الفطر یعنی عید الفطر کی شب اورلیلۃ النّصف من شعبان یعنی شعبان کی پندرہویں شب۔ (الترغیب و الترھیب: 1656)
ایک جگہ ارشاد  ہے:
”خَمْسُ لَيَالٍ لَا تُرَدُّ فِيهِنَّ الدُّعَاءَ: لَيْلَةُ الْجُمُعَةِ، وَأَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ رَجَبٍ، وَلَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، وَلَيْلَتَيِ الْعِيدَيْنِ“ پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں دعاء کو ردّ نہیں کیا جاتا: 

(۱) جمعہ کی شب، 
(۲) رجب کی پہلی شب، 
(۳) شعبان کی پندرہویں شب، 
(۴) اور دونوں عیدوں (یعنی عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ) کی راتیں۔ (مصنف عبدالرزاق: 7927)
اس لئے مارکٹوں اور بازاروں میں مٹرگشتی کرنے کی بجائے خدا کے حضور عجز ومسکنت سے اور خوب گڑگڑاکے مانگنے کی رات ہے، اسے ضائع کرنا بڑی محرومی کی بات ہے۔
عید کی نماز کن لوگوں پر واجب ہے؟
جس شخص میں درج ذیل امور پائے جائیں اس پر جمعہ وعیدین کی نماز واجب  ہے:
(۱) شہر یا بڑے گاوٴں میں مقیم ہونا کیونکہ جو شخص چھوٹے گاوٴں یا جنگل میں ہو اس پر جمعہ فرض نہیں۔
(۲) صحت مند ہونا کیونکہ جو مریض مسجد جانے سے معذور ہو یا مسجد جانے کی صورت میں بیماری بڑھ جانے یا دیر میں شفایابی کا یقین یا غالب گمان ہو تو اس پر جمعہ فرض نہیں۔
(۳) آزاد ہونا کیونکہ غلام پر جمعہ فرض نہیں۔
(۴) مرد ہونا پس عورتوں پر جمعہ فرض نہیں۔
(۵) بالغ ہونا پس نابالغ پر جمعہ بلکہ کوئی عبادت فرض نہیں، وہ غیرمکلف ہے۔
(۶) عاقل ہونا پس مجنون پر بھی کوئی عبادت لازم نہیں، وہ بھی غیرمکلف ہے۔
(۷) بینا ہونا پس نابینا پر جمعہ فرض نہیں۔
(۸) چلنے پر قادر ہونا پس اپاہج پر اور پیر کٹے ہوئے شخص پر جمعہ فرض نہیں۔
(۹) قیدخانہ وغیرہ میں قید نہ ہونا، پس قیدی پر جمعہ فرض نہیں۔
(۱۰) مسجد جانے میں کسی دشمن کا خوف نہ ہونا پس خائف پر جمعہ فرض نہیں۔
(۱۱) سخت بارش اور کیچڑ وغیرہ نہ ہونا۔
عیدین کے مسنون اعمال:
(۱) شریعت کے موافق اپنی آرائش کرنا۔
(۲) غسل کرنا۔
(۳) مسواک کرنا۔
۴) عمدہ سے عمدہ کپڑے جو پاس موجود ہوں پہننا۔
(۵) خوشبو لگانا۔
(۶) صبح کو بہت سویرے اٹھنا۔
(۷) عیدگاہ میں بہت سویرے جانا۔
(۸) عیدگاہ جانے سے پہلے کوئی میٹھی چیز جیسے چھوہارے وغیرہ کھانا۔
(۹) عیدگاہ جانے سے پہلے صدقۂ فطر دے دینا۔
(۱۰) عید کی نماز عیدگاہ میں جاکر پڑھنا۔
(۱۱) جس راستے سے جائے اس کے سوا دوسرے راستے سے واپس آنا۔
(۱۲) پیدل جانا۔
(۱۳) راستے میں 'اللہ اکبر اللہ اکبر لاالہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد' آہستہ آواز سے پڑھتے ہوئے جانا۔
عیدالفطر کے دن نوافل پڑھنا:
عید کے دن فجر کی نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد سے عید کی نماز ادا کرنے تک نفل نماز ادا کرنا مطلقاً (عیدگاہ ہو یا گھر یا کوئی اور جگہ) مکروہ (تحریمی) ہے، اور عید کی نماز کے بعد سے اس دن کے زوال تک صرف عیدگاہ میں نفل نماز ادا کرنا مکروہ ہے، جب کہ  عید کی نماز کے بعد گھر میں نفل نماز ادا کرنا جائز ہے۔ جیساکہ "طحطاوی علی الدر المختار" میں ہے:
'ولا يتنفل قبلها مطلقاً ... و كذا لا يتنفل بعدها في مصلاه؛ فإنه مكروه عند العامة، و إن تنفل بعدها في البيت جاز ... قوله: (فإنه مكروه) أي تحريماً علي الظاهر...الخ (كتاب الصلاة، باب العيدين، ١/ ٣٥٣، ط: رشيدية- فتاوی بنوریہ ، فتوی نمبر : 143909202023)
عید کے دن صدقہ فطر نکالنا:
خوشی ومسرت کے موقع پہ اسلام نے غریبوں کا خاص خیال رکھنے کا حکم فرمایا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: فرض رسول الله زكوة الفطر وقال أغنوهم في هذا اليوم -- غریبوں کی اس دن مالی مدد کرو۔ أخرجه الدار قطني كتاب الزكاة، (2/152)، رقم (67)، والبيهقي في السنن الكبرى، في كتاب الزكاة، باب وقت إخراج زكاة الفطر، (4/175)، رقم (7528)، من حديث ابن عمر رضي الله عنهما.)
اسی لئے ہر صاحب نصاب شخص پر اپنے اور اپنے زیر کفالت لوگوں کی طرف سے عید کے دن فطرانہ ادا کرنا واجب ہے، صدقہ فطر عید سے پہلے رمضان میں دینا بھی جائز ہے حتی کہ اگر کسی وجہ سے تاخیر ہوجائے تو عید کے بعد بھی  دے سکتا ہے؛ یہ عبادت مالی ہے جو تاخیر سے ساقط نہیں ہوتی ہے۔ لیکن عید الفطر کے روز سورج نکلنے کے بعد عید گاہ جانے سے پہلے فطرانہ ادا کرنا مستحب وپسندیدہ ہے، صدقہ فطر چار قسم کی چیزوں: گیہوں، جو، کھجور، کشمش میں واجب ہے،
گیہوں میں قریب پونے دو سیر اور باقی تینوں  میں ساڑھے تین سیر بعینہ وہ چیز یا اس کی قیمت ادا کی جایے، قیمت دینا زیادہ بہتر ہے، فطرانہ  کا مقصد غرباء کی حاجت روائی ہے، اس لئے صاحب حیثیت اور متمول لوگ کھجور اور کشمش وغیرہ کی قیمتوں کے ذریعہ فطرانہ ادا کریں تاکہ بیچاروں کا فائدہ ہوجائے۔  
خوب اچھی طرح یاد رکھنے کے قابل یہ بات ہے کہ صدقہ فطر ہمارے یہاں اگرچہ صاحب نصاب لوگوں پر واجب ہے، لیکن یہ  انہی کے ساتھ خاص نہیں ہے، فقیر اور غیرصاحب نصاب لوگوں کو بھی نکالنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
صدقہ فطر عورت پر کسی اور کی طرف سے ادا کرنا واجب نہیں  نہ بچوں کی طرف سے نہ ماں باپ کی طرف سے نہ شوہر کی طرف سے۔
[مردوں پر جس طرح اپنی طر ف سے صدقہ فطر دینا واجب ہے اسی طرح نابالغ اولاد کی طرف سے بھی صدقہ فطر دینا واجب ہے۔ اگر اولاد مال دار ہو تو پھر باپ کے ذمہ اپنے مال میں سے دینا واجب نہیں بلکہ اولاد کے مال میں سے ادا کرے اور بالغ اولاد کی طرف سے بھی دینا واجب نہیں۔ البتہ اگر کوئی بالغ لڑکا، لڑکی مجنون ہو تواس کی طرف سے اس کا والد صدقہ فطرادا کرے۔ عورت پر صرف اپنی طرف سے فطرہ ادا کرنا واجب ہے، بچے یا والدین کی طرف سے نہیں۔
صدقہ فطر کے مستحق بھی وہی لوگ ہیں جو زکوٰۃ کے مستحق ہیں یعنی ایسے غریب لوگ جن کے پاس اتنا مال نہیں ہے جس پر صدقہ فطر واجب ہوتا ہو۔ اور وہ مسلمان ہو، سید اور ہاشمی نہ ہو۔
صدقہ فطر دینے میں اپنے غریب رشتہ داروں اور دینی علم کے سیکھنے سکھانے والوں کو مقدم رکھنا افضل ہے۔ جن لوگوں سے یہ پیدا ہوا ہے جیسے ماں باپ، دادا، دادی، نانا، نانی اور اس طرح اس کی اولاد ہے جیسے بیٹی، بیٹا، پوتا، پوتی، نواسہ، نواسی ان کو صدقہ فطر نہیں دے سکتا، ایسے ہی بیوی اپنے شوہر کو اور شوہر اپنی بیوی کو بھی صدقہ فطر نہیں دے سکتا۔ خالہ، خالو، ماموں، مامی، ساس، سسر، خسر، سالہ، بہنوئی، سوتیلی ماں، سوتیلا باپ سب کو صدقہ فطر دینا درست ہے۔
(صدقہ فطر سے مسجد، مدرسہ، اسکول، غسل خانہ، کنواں، مسافرخانہ، پُل، سٹرک غرضیکہ کسی طرح کی عمارت بنانا یا کسی میت کے کفن دفن میں خرچ کرنا یا کسی میت کی طرف سے اس کا قرضہ ادا کرنا درست نہیں ہے۔ جب تک کسی شخص کے صدقہ فطر کے مستحق ہونے کی تحقیق نہ ہوجائے اس وقت تک اس کو صدقہ نہیں دینا چاہئے اگر بے تحقیق دے دیا پھر معلوم ہوا کہ وہ غریب ہی ہے تو ادا ہوگیا ورنہ دیکھا جائے کہ دل کیا گواہی دیتا ہے؟ اگر دل اس کے غریب ہونے کی گواہی دے تو ادا ہوگیا ورنہ پھر سے ادا کرے۔ ایک شہر سے دوسرے شہر میں صدقہ فطر بھیجنا مکروہ ہے۔ ہاں اگر دوسرے شہر میں اس کے غریب رشتہ دار رہتے ہوں یا وہاں کے لوگ زیادہ محتاج ہوں، یا وہ لوگ دین کے کام میں لگے ہوئے ہوں تو ان کو بھیج دیا تو مکروہ نہیں، ایک آدمی کا صدقہ فطر کئی فقیروں کو اور کئی آدمیوں کا صدقہ فطر ایک فقیر کو دینا جائز ہے۔
صدقہ فطر کی حقیقت، فضائل اور احکام ومسائل 
عید کے دن رمضان المبارک کے روزوں کے تسلسل کے خاتمے اور حسب سابق کھانے پینے کے نظام کے آغاز کی وجہ سے واجب ہونے والی زکات و صدقہ کو زکاۃ الفطر“ یا صدقۃ الفطر“ کہا جاتا ہے۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ صدقہ فطر فِطرۃ “ یعنی فطرت وخِلقتِ انسانی سے ماخوذ ہے، جو نفس انسانی کو پاک بنانے اور نفس کے اعمال کو پاکیزہ بنانے کے لئے  مشروع وواجب ہوا ہے.
صدقہ فطر کب واجب ہوا؟
جس سال رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے یعنی ہجرت مدینہ کے دوسرے سال صدقہ فطر کا وجوب ہوا ہے.
صدقہ فطر کیوں واجب ہوا؟
(زكاةُ الفطرِ طُهْرَةٌ للصائِمِ مِنَ اللغوِ والرفَثِ، و طُعْمَةٌ للمساكينِ). [سنن أبي داود: 1609]
صدقہ فطر روزہ داروں کی بے کار اور بے ہودہ باتوں سے پاکیزگی اور مساکین کو کھلانے یعنی مدد کی غرض سے (فرض) واجب کیا گیا ہے)
قالوا: وفی إخراجھا قبول الصوم، والنجاح، والفلاح، والنجاة من سکرات الموت، وعذاب القبر“․ (طحطاوی علی مراقی الفلاح)
(علماء نے فرمایا کہ صدقہٴفطر کی ادائیگی سے روزے قبول ہوتے ہیں اور مشکل آسان ہوتی ہے اور کامیابی ملتی ہے اور موت کی سختی اور قبر کے عذاب سے نجات حاصل ہوتی ہے۔)
'مشکوٰة شریف' کی شرح 'مرقاة المفاتیح' میں مذکور ہے کہ: ”یقال: صدقة الفطرة وزکاة الفطر أو الفطرة، کأنھا من الفطرة التی ھی الخلقة، فوجوبھا علیھا تزکیة للنفس أی تطھیراً لھا وتنقیة لعملھا“․ (مرقاة الفاتیح، 159/4)
(صدقہ فطر کو ”صدقہٴ فطرہ اور ”زکاة فطر“ یا ”زکاة فطرہ“ بھی کہا جاتا ہے، گویا صدقہٴ فطر اس فطرت سے تعلق رکھتا ہے جو کہ پیدائش ہے، لہٰذا صدقہٴ فطر کا اس پر واجب ہونا نفس کو پاک کرنے کے لیے اور نفس کے عمل کو پاکیزہ بنانے کے لیے ہے۔)
صدقہ فطر کی اہمیت وفضیلت: 
حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 
صومُ شهرِ رمضانَ معلَّقٌ بين السَّماءِ والأرضِ ولا يُرفعُ إلَّا بزكاةِ الفطرِ
[الترغيب والترهيب: 2/157]
(رمضان کے روزے آسمان اور زمین کے درمیان معلق (لٹکے) رہتے ہیں، جنہیں (اللہ کی طرف) صدقہٴ فطر کے بغیر نہیں اٹھایا جاتا۔)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ارشاد فرمایا، ”فرض رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم زكاةَ الفِطْرِ، وقال: أَغْنُوهُم في هذا اليومِ۔
(تمام المنة: 388)
(اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہٴ فطر کو فرض (یعنی واجب) قرار دیا اور فرمایا: ”غریبوں کو اس دن غنی کردو (یعنی ان کے ساتھ مالی معاونت کرو)
صدقہٴ فطر کی ادائی صرف حکم شرع ہی نہیں؛ بلکہ اس کے جلو میں بے شمار دنیا وآخرت کے فوائد مضمر ہیں، اکثر انسان سے روزے میں بھول چوک یا کوئی خطا دانستہ یا نادانستہ طور پر سرزد ہوجاتی ہے، جس کی  تلافی کا انتظام صدقہ فطر کردیتا ہے۔ اسی طرح وفقراء ومساکین جو نئے جوڑے اور کپڑے تو درکنار، اپنی دن بھر کی خوراک وغیرہ کا بھی انتظام نہیں کرسکتے، ان کے لئے خوراک وغیرہ کا انتظام بھی صدقہ فطر کے ذریعے ہوجاتا ہے اور وہ بھی کسی درجے میں عام مسلمانوں کے ساتھ عید کی خوشیوں میں شریک ہوجاتے ہیں۔ اس کے ذریعے انسان کے رزق میں برکت ہوتی ہے، مشکل آسان ہوتی ہے، کامیابی ملتی ہے، موت کی سختی دور ہوتی ہے اور قبر کی منزل آسان ہوجاتی ہے اور عذاب سے نجات حاصل ہوتی ہے۔ گویا صدقہ فطر کی ادائی سے قبولیت روزہ کی راہ میں رکاوٹ سارے امور ختم ختم ہو کر رہ جاتے ہیں ۔
صدقہ فطر کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
مالکیہ کے یہاں صدقہ فطر سنت ہے، ان کے علاوہ باقی ائمہ ثلاثہ کے یہاں صدقہ فطر واجب ہے، مسلم شریف کی صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر آزاد، غلام، مرد، عورت مسلمان پر صدقہ فطر واجب کیا ہے، کھجور اور جو سے ایک صاع:
أنَّ رَسولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وَسَلَّمَ فَرَضَ زَكَاةَ الفِطْرِ مِن رَمَضَانَ علَى النَّاسِ، صَاعًا* مِن تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِن شَعِيرٍ، علَى كُلِّ حُرٍّ، أَوْ عَبْدٍ، ذَكَرٍ، أَوْ أُنْثَى، مِنَ المُسْلِمِينَ۔ (صحيح مسلم، عن عبد الله بن عمر: 984، سنن النسائي، عن قيس بن سعد، الرقم: 2505، صحيح.)
کیا صدقہ فطر ہر مسلمان پہ واجب ہے یا زکاۃ کی طرح اس کے وجوب کا کوئی مالی نصاب بھی ہے؟
تمام ائمہ کے یہاں صدقہ فطر کے وجوب کے لئے مالی نصاب یا استطاعت ضروری ہے. اب یہ استطاعت کتنی ہونی چاہئے؟ اس کی تحدید میں ان کے مابین اختلاف ہوا ہے. امام شعبی، عطاء، ابن سیرین، زہری، عبداللہ بن مبارک، امام مالک، امام شافعی اور احمد بن حنبل رحمہم اللہ وغیرہ کے نزدیک اگر کسی کے پاس (عید کے) ایک دن اور رات کی خوراک سے فاضل غلہ موجود ہو تو یہی استطاعت ہے اور اب اس کے لئے صدقہ فطر ادا کرنا ضروری ہے۔ مسند احمد کی ذیل کی ایک روایت سے یہ حضرات استدلال کرتے ہیں جس میں مالدار کے ساتھ غریب اور فقیر پر بھی صدقہ فطر کی بات آئی ہے:
عنْ أبي هريرةَ في زكاةِ الفطرِ على كلِ حرٍ وعبدٍ ذكرٍ أو أنثى صغيرٍ أو كبيرٍ فقيرٍ أو غني صاعٌ من تمرٍ أو نصفُ صاعٍ من قمحٍ: أخرجه أحمد (7724)، وعبدالرزاق (5761)، والطحاوي في (شرح معاني الآثار) (3126)
یہ روایت موقوف ہے، البانی نے اسے ضعیف کہا ہے, علامہ بیہقی اور محشی ابن الترکمانی رحمہم اللہ نے اسے مضطرب ثابت کیا ہے سنداً بھی اور متناً بھی! جس کی وجہ سے یہ روایت ناقابل استدلال واحتجاج ہے۔ جبکہ سیدنا الامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے  یہاں بھی استطاعت کی مراد وہی لی ہے جو زکاۃ مالی میں مراد ہے. انہوں نے اُس شخص کیلئے صدقہ فطر ضروری قرار دیا ہے جس کے پاس زکوٰۃ نکالنے کا نصاب یعنی ساڑھے 52 تولے چاندی (یا اس کی موجودہ قیمت کے برابر رقم) موجود ہو؛ البتہ دو معمولی فرق یہ ملحوظ رکھا گیا ہے کہ زکاۃ کے نصاب میں مال نامی یعنی سونا چاندی روپے متعینہ مقدار میں رکھنے پر زکاۃ فرض ہوتی ہے اور مالی سال پہ سال گزرنے پر ادائی واجب ہوتی ہے. جبکہ یہاں مال نامی ضروری نہیں؛ بلکہ ساڑھے باون تولے چاندی (نصاب زکوٰۃ) کی مالیات سے زائد گھریلو سامان رکھنے والے مسلمان پر بھی صدقہ فطر واجب ہے، اور یہاں سال گزرنا بھی ضروری نہیں. عید کی صبح تک اتنی مالیت کا مالک ہوگیا تو صدقہ فطر ادا کرنا واجب ہے. بس ان دو معمولی جزوی فرق کے سوا زکات اور صدقہ فطر کے نصاب میں حنفیہ کے یہاں کوئی فرق نہیں ہے۔ زکات کا نصاب ہی صدقہ فطر کا نصاب ہے، غیرصاحب نصاب یعنی فقیر پر ہمارے یہاں صدقہ فطر واجب نہیں ہے (ہاں ادا کردے تو بہت ثواب ہے بلکہ اس کی ترغیب بھی آئی ہے) امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کے یہاں صدقہ فطر کے وجوب کے لئے غناے شرعی“ ہونا ضروری ہے. امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 'کتاب الزکات' میں اسی نام سے باضابطہ ترجمۃ الباب قائم فرمایا ہے، جس میں صراحت ہے کہ صرف غنی پر ہی صدقہ فطر واجب ہے:  
بَاب لَا صَدَقَةَ إِلَّا عَنْ ظَهْرِ غِنًى وَمَنْ تَصَدَّقَ وَهُوَ مُحْتَاجٌ أَوْ أَهْلُهُ مُحْتَاجٌ أَوْ عَلَيْهِ دَيْنٌ فَالدَّيْنُ أَحَقُّ أَنْ يُقْضَى مِنْ الصَّدَقَةِ وَالْعِتْقِ وَالْهِبَةِ وَهُوَ رَدٌّ عَلَيْهِ لَيْسَ لَهُ أَنْ يُتْلِفَ أَمْوَالَ النَّاسِ وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أَخَذَ أَمْوَالَ النَّاسِ يُرِيدُ إِتْلَافَهَا أَتْلَفَهُ اللَّهُ إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَعْرُوفًا بِالصَّبْرِ فَيُؤْثِرَ عَلَى نَفْسِهِ وَلَوْ كَانَ بِهِ خَصَاصَةٌ كَفِعْلِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حِينَ تَصَدَّقَ بِمَالِهِ وَكَذَلِكَ آثَرَ الْأَنْصَارُ الْمُهَاجِرِينَ وَنَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ إِضَاعَةِ الْمَالِ فَلَيْسَ لَهُ أَنْ يُضَيِّعَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِعِلَّةِ الصَّدَقَةِ وَقَالَ كَعْبُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ مِنْ تَوْبَتِي أَنْ أَنْخَلِعَ مِنْ مَالِي صَدَقَةً إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَمْسِكْ عَلَيْكَ بَعْضَ مَالِكَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ قُلْتُ فَإِنِّي أُمْسِكُ سَهْمِي الَّذِي بِخَيْبَرَ 
1360 حَدَّثَنَا عَبْدَانُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ عَنْ يُونُسَ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ خَيْرُ الصَّدَقَةِ مَا كَانَ عَنْ ظَهْرِ غِنًى وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ [ص: 346] (فتح الباري 345/3)
مسند احمد میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے:
خيرُالصَّدقةِ ما كانَ عَن ظَهْرِ غنًى، وابدأ بِمَن تعولُ ، واليَدُ العليا خيرٌ منَ اليدِ السُّفلى قلتُ لأيُّوبَ: ما عَن ظَهْرِ غنًى؟ قالَ: عَن فضلِ غِناكَ: مسند أحمد (الصفحة: 14/162)
بخاری کی صحیح اور مشہور حدیث ہے کہ صدقات واجبہ مالداروں سے لئے جائیں گے اور غریبوں پہ تقسیم کئے جائیں گے، غریبوں سے بھی لینے کا قائل ہونا اس صحیح ومشہور حدیث کی صریح خلاف ورزی ہے:
فإنْ هُمْ أطَاعُوا لذلكَ، فأعْلِمْهُمْ أنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عليهم صَدَقَةً في أمْوَالِهِمْ تُؤْخَذُ مِن أغْنِيَائِهِمْ وتُرَدُّ علَى فُقَرَائِهِمْ. (عن عبدالله بن عباس.صحيح البخاري. 1395)
ان روایات کی بنیاد پر ہمارے یہاں نصاب زکات رکھنے والے شخص پر ہی صدقہ فطر بھی واجب ہے. اگر ایک دن رات کے اخراجات رکھنے والے غرباء پر بھی صدقہ فطر واجب کردیں جیساکہ ائمہ ثلاثہ کا خیال ہے تو صدقہ فطر پھر لے گا کون؟ سب تو دینے ہی والے ہونگے، لینے والا کون ہوگا؟ جس روایت سے فقیر پر بھی صدقہ فطر کے وجوب  کے لئے استدلال کیا گیا تھا  علامہ بیہقی اور ابن الترکمانی نے اسے حدیث مضطرب ثابت کیا ہے:
"أما غنيكم فيزكيه الله وأما فقيركم فيرد الله عليه أكثر مما اعطی" اسی کو راوی سلیمان  نے اپنی حدیث میں "غني أو فقير" بڑھا دیا:
صاعٌ مِن بُرٍّ أو قَمحٍ على كلِّ اثنينِ؛ صغيرٍ أو كبيرٍ، حُرٍّ أو عَبدٍ، ذكَرٍ أو أُنْثى، أمَّا غَنِيُّكم فيُزكِّيه اللهُ، وأمَّا فَقيرُكم فيردُّ اللهُ تعالى عليه أكثَرَ ممَّا أَعطَى. زاد سُلَيمانُ في حديثِه: غَنِيٌّ أو فَقيرٌ. التخريج: أخرجه أبو داود (1619) واللفظ له، وأحمد (23664). (ہدایہ 118/1۔۔فتح القدیر 220/2، زیلعی 423/1، اعلاء السنن ج 9 حدیث نمبر 2445، کتاب الزکات) 
حدیث مضطرب قابل احتجاج واستناد نہیں  ہوتی! اس لئے فقیر والی روایت کو ہم ترغیب پہ محمول کرتے ہیں وجوب پر نہیں! یعنی صدقہٴفطر ادا کرنے کا حکم صرف مال داروں کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ فقراء کو بھی صدقہٴ فطر ادا کرنے کی ترغیب دی گئی ہے (ہاں! ان پر وجوب نہیں ہے) چناں چہ ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ ”غنی بھی صدقہٴ فطر ادا کرے اور فقیر بھی صدقہ دے“ پھر ان دونوں کے بارے میں فرمایا کہ: ”اللہ تعالیٰ اس مال دار کو تو صدقہ فطر ادا کرنے کی وجہ سے پاکیزہ بنا دیتا ہے اور فقیر (جو مالک نصاب نہ ہو) اس کو اس سے زیادہ عنایت فرماتا ہے، جتنا اس نے صدقہ فطر کے طور پر دیا ہےأمَّا غَنِيُّكم فيُزكِّيه اللهُ، وأمَّا فَقيرُكم فيردُّ اللهُ تعالى عليه أكثَرَ ممَّا أَعطَى. (سنن أبي داؤد: 1619) یہ بشارت اگرچہ مال دار کے لئے بھی ہے، مگر اس کو فقیر کے ساتھ اس لیے خاص فرمایا کہ اس کی ہمت افزائی ہو۔ (مظاہرحق جدید: 58/2)
صدقہ فطر کن چیزوں سے دے؟
حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے عہد مبارک میں اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم پانچ چیزوں سے صدقہ فطر ادا کرتے تھے: كُنَّا نُخْرِجُ زَكَاةَ الفِطْرِ صَاعًا مِن طَعَامٍ، أوْ صَاعًا مِن شَعِيرٍ، أوْ صَاعًا مِن تَمْرٍ، أوْ صَاعًا مِن أقِطٍ، أوْ صَاعًا مِن زَبِيبٍ.عن أبی سعيد الخدري. (صحيح البخاري: 1506) حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صدقہ فطر گیہوں، جو، کھجور، پنیر اور کشمش سے ایک صاع نکالتے تھے، تو یہ پانچ چیزیں ہوئیں! جن سے صدقہ فطر نکالا جاسکتا ہے، فقہاء حنفیہ کا خیال ہے کہ گیہوں یا اس کے آٹا سے نکالنا ہو تو نصف صاع اور دوسری چیزوں سے نکالنا ہو تو ایک صاع دینا چاہئے. نصف صاع کی مقدار ایک کلو پانچ سو چھہتر گرام چھ سو چالیس ملی گرامجبکہ ایک صاع کی مقدار تین کلو ڈیڑھ سو گرام ہوتی ہے. صاحب حیثیت ووسعت اور مالداروں کی لئے بہتر یہ ہے کہ نصف صاع پہ تکیہ نہ کریں! آگے بڑھ کے ہر صنف میں ایک صاع یا اس کی قیمت صدقہ فطر میں ادا کریں تاکہ غریبوں کا بھلا ہوسکے۔ بذل المجہود میں ہے: قوله صاعًا من كل شيئ أي من الحنطة وغيرها لكان أحسن (454/6. ط بيروت)
صدقہ فطر کا مصرف: 
جن لوگوں کو زکات دینا جائز ہے، انہی کو صدقہ فطر بھی دینا جائز ہے۔ متون حنفیہ میں صدقہ فطر محتاج ذمی کو دینے کی بات موجود ضرور ہے، امام ابوحنیفہ اور امام محمد رحمہم اللہ کا قول بھی یہی ہے، لیکن قاضی ابویوسف رحمہ اللہ  اسے ناجائز سمجھتے ہیں، عدم جواز کا قول ہی مشائخ حنفیہ کے ہاں مفتی بہ رہا ہے بہ یفتی“ کما فی الدر۔ جہاں تک ذمی کی بات ہے تو فقہاء کہتے ہیں: اہلِ ذمہ سے مراد وہ غیرمسلم افراد ہیں جوکسی اسلامی ملک میں اس ملک کے قوانین کی پاسداری کا عہد کرکے وہاں سکونت اختیار کرلیں۔ اس تعریف کے روء سے ہندوستان جیسے ملک کے کفار ذمی نہیں ہوئے. جب ذمی کا اطلاق ان پر درست نہیں تو صدقہ فطر کے لئے ان کا استثناء بھی ثابت نہیں ہوگا. جب مشائخ حنفیہ کے یہاں امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کا قول مفتی بہ رہا ہے تو مفتی بہ قول سے عدول کی کون سی سخت اضطراری حالت آن پڑی ہے؟ کہ کفار (نہ کہ ذمی) کے لئے صدقہ فطر دینا جائز قرار دیا جائے؛ لہذا راجح یہی ہے کہ زکٰوۃ، عُشر اور دوسرے صدقاتِ واجبہ (صدقۂ فطر، نذر، کفارہ) بھی کسی کافر کو دینا جائز نہیں ہے؛ البتہ نفلی صدقات کافر کو دینے کی گنجائش ہے؛ لیکن کسی فقیر مسلمان کو دینازیادہ بہتر ہے۔
الدرالمختار – (2 / 351) (ولا) تدفع (إلى ذمي) لحديث معاذ (وجاز) دفع (غيرها وغيرالعشر) والخراج (إليه) أي الذمي ولو واجبا كنذر وكفارة وفطرةخلافا للثاني وبقوله يفتي حاوي القدسي وأما الحربي ولو مستأمنا فجميع الصدقات لا تجوز له اتفاقا بحر عن الغاية وغيرها، لكن جزم الزيلعي بجواز التطوع له.
حاشية ابن عابدين (ردالمحتار) – (2 / 352)
(قوله: وبقوله يفتي) الذي في حاشية الخير الرملي عن الحاوي وبقوله نأخذ.
قلت: لكن كلام الهداية وغيرها يفيد ترجيح قولهما وعليه المتون (قوله: لكن جزم الزيلعي بجواز التطوع له) أي للمستأمن كما تفيده عبارة النهر)
کیا صدقہ فطر میں اجناس کی بجائے قیمت اور نوٹ دئے جاسکتے ہیں؟
ہمارے اکابر میں حضرت مرشد و محقق تھانوی، مفتی عزیز الرحمن عثمانی اور مفتی محمد شفیع صاحب رحمہم اللہ جیسے اکابر کا میلان عدم جواز کی طرف تھا کیونکہ آپ کی نظر میں نوٹ کی حیثیت ثمن کی نہیں سند کی تھی (امدادالفتاویٰ: (5/ 2-6) (فتاویٰ دارالعلوم دیوبند: 83/6)
جبکہ ہمارے استاذ اور مرشد ومربی، مرتب فتاوی دارالعلوم حضرت مفتی محمد ظفیرالدین صاحب مفتاحی نوراللہ مرقدہ سابق مفتی دارالعلوم دیوبند، صاحب احسن الفتاوی اور مفتی کفایت اللہ صاحب دہلوی اور دیگر اکابر مفتیوں کا خیال ہے کہ فقراء کی سہولت اور عموم نفع کے لئے اجناس کے بدلے نوٹ اور قیمت بھی صدقہ فطر میں ادا کی جاسکتی ہے، یہ حضرات نوٹ کو عرفی ثمن تصور کرتے ہیں (فتاویٰ دارالعلوم دیوبند، حاشیہ: 83/6، احسن الفتاویٰ: 266/4) (کفایت المفتی: 278/4)
صدقہ فطر کب ادا کرے؟
فطر یعنی  کھانے پینے کی وجہ سے یہ صدقہ واجب ہوا ہے جیساکہ نام سے بھی واضح ہے. اس لئے ہمارے یہاں بہتر یہ ہے عیدالفطر کے دن نماز عید کے لئے جانے سے پہلے پہلے صدقۃ الفطر ادا کردیا جائے، یہ افضل وقت ہے:
أنَّ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ كانَ يأمرُ بإخراجِ الزَّكاةِ قبلَ الغدوِّ للصَّلاةِ يومَ الفطرِ۔عن عبد اللہ عمر، صحيح الترمذي: 677)
والمستحب ان یخرج الناس الفطرۃ یوم الفطر قبل الخروج الی المصلی۔ (ہدایۃ 211/1، تاتارخانیۃ زکریا 451/3، ہندیۃ 192/1، خانیۃ 232/1)
تاہم ثواب میں اضافے کے پیش نظر رمضان میں پیشگی ادا کرنے کی بھی گنجائش ہے؛ لیکن رمضان المبارک سے قبل ادا کرنا مفتی بہ قول کے مطابق درست نہیں ہے:
والمختار إذا دخل شہر رمضان یجوز وقبلہ لا یجوز، وفی الظہیریۃ: وعلیہ الفتویٰ۔ (تاتارخانیۃ زکریا 452/3)
اگر کسی وجہ سے قبل نماز عید ادا نہ کرسکے تو بعد عید بھی ادا کرنا ضروری ہے، تاخیر کی وجہ سے ذمے سے ساقط نہیں ہوجاتا ہے۔ جب بھی اداکرے گا وہ ادا ہی کہلائے گا، اس کو قضاء نہیں کہا جائے گا:
ولا تسقط صدقۃ الفطر بالتاخیر وان طال وکان مؤدیاً لا قاضیاً۔ (مجمع الانہر 228/1، بدائع الصنائع 207/2،البحر الرائق زکریا 445/2)
صدقہ فطر کس کس کی طرف سے دینا واجب ہے؟
صدقہ فطر اپنی طرف سے اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے بشرطیکہ وہ فقیر یعنی صاحب نصاب نہ ہو، اور خدمت گار خادم یا غلام کی طرف سے اگرچہ وہ کافر ہوں، واجب ہے۔ نابالغ اولاد اگر مالدار ہو تو ان کے مال سے ادا کرے اور اگر مالدار ہو تو ان کی طرف سے ادا کرنا والد پر واجب نہیں ہے، ہاں اگر احساناً ادا کردے تو جائز ہے۔ عورت پر جب کہ وہ صاحب نصاب ہو تو صدقہ فطر اس پر خود واجب ہے، اگر شوہر ادا کرے گا تو احسان ہوگا اور ادا ہوجائے گا، عورت کا صدقہ اس کے باپ پر واجب نہیں ہے۔ عورت پر کسی اور کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا واجب نہیں۔
صدقہ فطر کس طرح تقسیم کیا جائے؟
کم سے کم ایک آدمی کا صدقہ فطر ایک آدمی کو دینا چاہئے، ایک صدقہ دو محتاجوں پر تقسیم کر دینا بقول علامہ حصکفی جائز تو ہے؛ لیکن بہتر نہیں۔
ایک محتاج شخص کو ایک سے زیادہ راس کا صدقہ دیا جاسکتا ہے۔ حدیث میں آیا ہے: أغنوهم عَن طوافِ هذا اليومِ ۔۔عن عبدالله بن عمر.السنن الكبرى للبيهقي.الصفحة : 4/175. {یعنی فقراء کو اس دن مختلف دروازے جانے سے بچاؤ}
صدقہ فطر کی اجتماعی وصولی؟ 
حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب رقم فرماتے ہیں: 
صدقہ فطر کی وصولی کے لئے بہتر ہے کہ مختلف علاقوں میں اجتماعی نظام  قائم کیا جائے، ضرورت مندوں کا سروے کرکے ان تک پہنچایا جائے، بعض روایات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اوائل اسلام میں بھی ایسا نظم ہوا کرتا تھا، مؤطا امام محمد میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ  دو تین دنوں پہلے وہ صدقہ فطر اس شخص کے پاس بھیج دیتے جو اس کو جمع کیا کرتے۔ ابن خزیمہ نے بھی نقل کیا ہے کہ جب عامل بیٹھتا تو ابن عمر رضی اللہ عنہ اس کے پاس صدقہ فطر جمع کروادیتے اور یہ عامل عید سے ایک دو دن قبل بیٹھتا، علامہ شامی رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو صدقہ جمع کرنے پر مامور فرما دیا تھا، پس معلوم ہوا کہ خود امیر تو اس کے لئے اپنے عامل نہ بھیجے گا، لیکن لوگوں کو چاہئے کہ وہ اپنا فطرہ بیت المال میں یا کسی اور نظم کے تحت اجتماعی طور پر جمع کریں۔ (کتاب الفتاوی)
صدقہ فطر دوسرے شہر میں ادا کرنا؟
جس کی جانب سے صدقۃ الفطر نکالنا ہو، وہ جہاں اور جس شہر میں ہو، وہیں صدقہ دینا بہتر ہے، اگر ایک شخص خود دور ہو، اور بال بچے گھر پر رہتے ہوں تو بچوں کا صدقہ وہاں ادا کرے جہاں وہ ہیں، اور اپنا صدقہ وہاں کے فقراء پر صرف کرے جہاں وہ خود مقیم ہے، البتہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے ایک روایت ایسی بھی منقول ہے کہ وہ قرابت داروں تک صدقہ پہنچانے کے لیے ایک شہر سے دوسرے شہر صدقہ کی منتقلی میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے۔ (بدائع الصنائع ۲/ ۷۵)
صدقہ فطر کی ادائی میں کس جگہ کی قیمت کا اعتبار ہو؟
صدقہ فطر کی قیمت نکالنے میں انفع للفقراء کا خیال کرے۔ جس شخص پہ صدقہ فطر واجب ہے وہاں کے لحاظ سے ادا کرنے میں انفع للفقراء ہو تو وہیں ادا کردے۔
اور اگر جہاں صدقہ فطر ادا کیا جارہا ہو وہاں کی قیمت سے واجب کروانے میں فقراء کو زیادہ فائدہ ہوتا ہو تو مکان مودی کی قیمت کا لحاظ کرلے۔ غرضیکہ فقہ حنفی میں دونوں روایتیں ہیں اور دونوں صحیح ہیں 
ایک روایت یہ ہے کہ جس شخص پر صدقۂ فطر واجب ہے اُس کی جگہ کا اعتبار ہوگا۔
اور دوسری روایت یہ ہے کہ جہاں صدقۂ فطر کی ادائیگی کی جارہی ہے اُس جگہ کی قیمت کا اعتبار ہوگا۔
پوچھی گئی صورت میں انفع للفقراء ہونے کے اعتبار سے پہلی روایت اَحوط ہے، جب کہ دوسری روایت میں سہولت زیادہ ہے، دونوں روایتیں قابل عمل ہیں۔
(امدادالاحکام ۳؍۴۱، فتاویٰ رحیمیہ ۳؍۱۱۳، فتاویٰ محمودیہ ۹؍۶۲۳ ڈابھیل، فتاویٰ دارالعلوم دیوبند ۶؍۳۱۶-۳۱۷)
وفي الفطر مکان المؤدي عند محمد وہو الأصح۔ (الدرالمختار) بل صرح في العنایۃ والنہایۃ بأنہ ظاہر الروایۃ کما في الشرنبلالیۃ، وہو المذہب کما في البحر، فکان أولیٰ مما في الفتح من تصحیح قولہما باعتبار مکان المؤدي عنہ۔ قال الرحمتي: وقال في المنح: في أخر باب صدقۃ الفطر: الأفضل أن یؤدی عن عبیدہ وأولادہ وحشمۃ حیث ہم عند أبي یوسف وعلیہ الفتویٰ، وعند محمد حیث ہو، تأمل۔ قلت: لکن في التاتارخانیۃ: یؤدی عنہم حیث ہو، وعلیہ الفتویٰ وہو قول محمد، ومثلہ قول أبي حنیفۃ، وہو الصحیح۔ (الدرالمختار مع الشامي ۳؍۳۰۷ زکریا، بدائع الصنائع ۲؍۲۰۸ زکریا، الفتاویٰ التاتارخاینۃ ۲؍۴۲۴۔ کتاب النوازل جلد 17)
کن لوگوں کو صدقہ فطر دے سکتے ہیں اور کن لوگوں کو نہیں؟
جس غریب کے پاس بقدر نصاب مال نہ ہو اسے زکات وصدقہ فطر دے سکتے ہیں بشرطیکہ نیچے مذکور دیگر موانع موجود نہ ہوں۔ جن لوگوں سے انسان پیدا ہوا ہو جیسے ماں باپ، دادا، دادی، نانا، نانی اور اس طرح اس کی اولاد ہے جیسے بیٹی، بیٹا، پوتا، پوتی، نواسہ، نواسی ان کو صدقہ فطر نہیں دے سکتا، ایسے ہی بیوی اپنے شوہر کو اور شوہر اپنی بیوی کو بھی صدقہ فطر یا زکات نہیں دے سکتا۔ ولا إلى من بينهما زوجية (درمختار على ردالمحتار ٢/٢٨٦] بھائی، بہن، خالہ، خالو، ماموں، مامی، ساس، سسر، خسر، سالہ، بہنوئی، سوتیلی ماں، سوتیلا باپ سب کو صدقہ فطر دینا درست ہے۔ (شامی) حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا، حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت جعفر رضی اللہ عنہ اور حضرت عقیل رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ یا حارث بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کی اولاد کو صدقہ فطر دینا درست نہیں ہے۔ (درمختار) صدقہ فطر سے مسجد، مدرسہ، اسکول، غسل خانہ، کنواں، نلکا اور مسافر خانہ، پُل، سٹرک غرضیکہ کسی طرح کی عمارت بنانا یا کسی میت کے کفن دفن میں خرچ کرنا یا کسی میت کی طرف سے اس کا قرضہ ادا کرنا درست نہیں ہے، البتہ اگر کسی غریب کو اس کا مالک بنادیا جائے، پھر وہ اگر چاہے تو اپنی طرف سے کسی تعمیر یا کفن دفن وغیر ہ میں خرچ کردے تو جائز ہے۔
جب تک کسی شخص کے صدقہ فطر کے مستحق ہونے کی تحقیق نہ ہوجائے اس وقت تک اس کو صدقہ نہیں دیناچاہئے اگر بے تحقیق دے دیا پھر معلوم ہواکہ وہ غریب ہی ہے تو ادا ہوگیا ورنہ دیکھا جائے  کہ دل کیا گواہی دیتا ہے؟ اگر دل اس کے غریب ہونے کی گواہی دے تو ادا ہوگیا ورنہ پھر سے ادا کرے۔ درمختار میں ہے: دفع بتحرٍّ .......إلى أن قال :إن بان غناه ....... لايعيد إلخ (ردالمحتار ج ٣ كتاب الزكوة. باب المصرف ص ٣٠٢)
ایک شہر سے دوسرے شہر میں صدقہ فطر بھیجنا؟
 ایک شہر سے دوسرے شہر میں صدقہ فطر بھیجنا مکروہ ہے۔ ہاں اگر دوسرے شہر میں اس کے غریب رشتہ دار رہتے ہوں یا وہاں کے لوگ زیادہ محتاج ہوں، یا وہ لوگ دین کے کام میں لگے ہوئے ہوں تو ان کو بھیج دیا تو مکروہ نہیں، کیونکہ طالب علموں اور دین دار غریب عالموں کو دینا بڑا ثواب ہے۔ صدقہ دینے میں اپنے غریب رشتہ داروں اور دینی علم کے سیکھنے سکھانے والوں کو مقدم رکھنا افضل ہے۔
عید کی نماز کا وقت، طریقہ نماز اور دعاء:
عیدین کی نماز کا وقت  سورج طلوع ہوکر ایک نیزہ کے بقدر بلند ہونے کے بعد (یعنی اشراق کے وقت) سے زوال تک  ہے، زوال کے بعد عیدین کی نماز درست نہیں، البتہ عیدالفطر کی نماز میں اول وقت سے قدرے تاخیر کرنا مستحب ہے تاکہ لوگ نماز عید سے قبل صدقہ فطر ادا کرلیں، جب کہ عیدالاضحی کی نماز میں جلدی کرنا مستحب ہے تاکہ نماز سے فارغ ہوکر جلد قربانی کرسکیں۔ (فتاوی بنوریہ)
 عیدکی نماز چھ واجب تکبیروں کے ساتھ پڑھتا ہوں، دل میں یہ خیال کرکے یا نیت کرکے ہاتھ باندھ لے، عربی میں یا اردو میں  نیت  کے الفاظ کہنا ضروری نہیں، پھر "سبحانک اللھم" آخرتک پڑھ کر کل تین مرتبہ اللہ اکبر کہا جائے اورہر مرتبہ  تکبیر تحریمہ کی طرح دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھائے اور تکبیر کے بعد چھوڑدے اور ہر تکبیر کے بعد اتنی دیر تک توقف کرے کہ تین مرتبہ 'سبحان اللہ" کہہ سکیں، دو مرتبہ ہاتھ چھوڑ دیں، جبکہ تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ نہ چھوڑیں؛ بلکہ ہاتھ ناف کے نیچے باندھ لیں، اس کے بعد اعوذ باللہ، بسم اللہ پڑھ کرسورہ فاتحہ اورکوئی دوسری سورت پڑھ کرحسب دستور رکوع سجدہ کرکے کھڑے ہوں اور دوسری رکعت میں پہلے سورہ فاتحہ اور سورت پڑھ لیں اس کے بعد تین تکبیریں اسی طرح کہی جائیں اور تینوں تکبیروں میں ہاتھ کانوں تک اٹھاکر چھوڑ دیں، پھر بغیر ہاتھ اٹھائے رکوع کی تکبیر کہتے ہوئے رکوع میں چلے جائیں، سلام کے بعد امام دعاء کر
وانا چاہے تو کرواسکتا ہے، بلکہ دعاء مانگنا مستحب ہے، فرض ولازم نہیں، کیونکہ دیگر نمازوں کی طرح عیدین کی نماز کے بعد دعاء کرنا تو مشروع ہے؛ البتہ عیدین کے خطبہ کے بعد دعا مشروع نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی ثبوت ہے۔ (فتاویٰ دارالعلوم ۵؍۲۲۵، احسن الفتاویٰ ۴؍۱۲۵، فتاویٰ محمودیہ ۲؍۲۹۵ -۲؍۳۰۷، فتاویٰ رحیمیہ ۳؍۷۵) عن عائشۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہا قالت: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول في دبر کل صلاۃ: اللّٰہم رب جبرئیل ومیکائیل وإسرافیل أعذني من حر النار وعذاب القبر۔ (مجمع الزوائد ۱۰؍ ۱۱۰) 
دعاء کرنے کے بعد امام دو خطبہ دے اور مقتدی غور سے سنیں، عید کا خطبہ دینا تو سنت لیکن اس کا سننا واجب ہے، عیدین کے خطبہ میں یہ مستحب لکھا ہے کہ پہلے خطبہ کوشروع کرنے سے پہلے نو بار زور سے اللہ اکبر کہے اور دوسرے خطبہ کے شروع میں  پہلے سات دفعہ زور سے اللہ اکبر کہے۔
عیدین کی مبارکباد، مصالحہ ومعانقہ؟
خطبہ مکمل ہونے کے بعد عید کی مبارکباد دینا درست ہے، ازدیاد تعلق ومحبت کے پیش نظر  مبارکباد دینے کے طور پر، عید کا جزو لازم سمجھے بغیر ایسے لوگوں کا آپس میں مصافحہ کرنا جائز ہے جو نماز عید سے قبل بھی ملاقات پہ مصافحہ کئے ہوں۔ ہاں! عید کے دن  معانقہ کرنے کی اجازت نہیں ہے؛ الا یہ ہے کہ کوئی رشتہ دار باہر سے آیا ہو اور اسی وقت ملاقات ہورہی ہو تو البتہ مضائقہ نہیں۔ (مستفاد فتاوی قاسمیہ جلد 3 صفحہ 178)
جس کی عید کی تکبیر زوائد یا رکعت چھوٹ جائے؟
جو شخص عیدین کی نماز میں امام کے تکبیرات زوائد کہنے کے بعد شامل ہو اور اس کی پہلی رکعت کی تکبیرات چھوٹ گئی ہوں تو اس کے لئے حکم یہ ہے کہ وہ تکبیر تحریمہ کہنے کے فوراً بعد تکبیراتِ زوائد کہہ لے، اگرچہ امام قرأت شروع کرچکا ہو، اور اگر امام رکوع میں ہو تو اگر تکبیراتِ زوائد کہہ کر رکوع ملنے کی امید ہو تو تکبیراتِ زوائد کہہ کر رکوع میں جائے ورنہ رکوع میں جاکر تکبیرات زوائد کہہ لے۔
اگر عیدین کی نماز میں کسی کی پہلی رکعت چھوٹ جائے تو وہ امام کے سلام کے بعد کھڑے ہوکر پہلے ثناء، اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر سورہ فاتحہ اور کوئی سورت پڑھے، پھر تین تکبیرات زوائد کہہ کر رکوع کرے، اور بقیہ نماز پوری کرے۔ فتویٰ اسی پر ہے، علامہ شامی رحمہ اللہ وغیرہ نے یہی طریقہ لکھا ہے۔ (فتاوی بنوریہ، فتوی نمبر: 143909202067)
عیدین کے بعد قبرستان جانا؟
انفرادی طور پہ جانے کی گنجائش ہے، باضابطہ جماعت اور گروہ بناکر جانا ثابت نہیں (نظام الفتاوی 4/178)
عید کا پیغام:
رنگ ونسل کی تفریق وامتیاز کے بغیر پوری امت مسلمہ کے مابین اتحاد واتفاق کا عالمگیر پیغام، غرباء ومساکین کے ساتھ ہمدردی وغمگساری کا مظہر انہیں شریک مسرت کرنے کا عملی مظاہرہ، پرمسرت موقع پر اعتدال وتوازن کی انوکھی مثال، اسلامی، روایات، اقدار، تہذیب وشائستگی کا خوبصورت جشن، مہینہ بھر کی جسمانی ریاضتوں پہ خدا تعالی سے انعامات لینے، گناہوں کی بخشش کروانے کا حسین دن، اپنے اعمال کا جائزہ لینے، گناہوں، خدا کی نافرمانیوں سے پاک ایک نئی روحانی زندگی گزارنے کے لئے خدا تعالی سے تجدید عہد کا دن ہے۔ اخوت، بھائی چارگی، تحمل مزاجی، مساوات انسانی، سماجی ہم آہنگی، بھوکوں، مظلوموں اور بدحالوں کی داد رسی اور ان کے دکھ درد میں تڑپ اٹھنے کا جذبہ پیدا کرنے کا دن ہے، خدا ہمیں عید کی حقیقی خوشیوں، مسرتوں اور پیغام سے مالا مال فرمائے۔ آمین
مفتی شکیل منصور القاسمی، 

No comments:

Post a Comment