الوداعی جمعہ اور الوداعی خطبہ کی شرعی حیثیت
سوال و جواب
(مسئلہ نمبر 115)
سوال: ہمارے ملک میں رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو بہت اہمیت دی جاتی ہے؛ اس لئے بعض لوگ نیا کپڑا سلواتے ہیں اور اس کا خطبہ بھی الگ طرح سے پڑھتے ہیں، شرعا اس کی کیا حیثیت ہے؟ (ایک دینی بھائی، بہرائچ، یوپی)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب و بااللہ التوفيق والصواب
یہ نہایت افسوس کی بات ہے؛ کہ قرآن و سنت کی باتیں عام ہوجانے کے بعد بھی ہمارے ملک ہندوستان میں آج بھی بعض ایسی باتیں عوام ہی نہیں علماء کے درمیان بھی باقی ہیں جن کا شریعت اسلامی سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی قرآن و سنت اور معتبر علماء و فقہاء کی کتابوں میں ان کا ذکر ہے؛ بلکہ ان کی تردید میں علماء کرام نے صفحات کے صفحات سیاہ کردیئے ہیں، انہیں غیر ثابت اور خلاف دین و شریعت کاموں میں سے الوداعی جمعہ اور الوداعی خطبہ بھی ہے۔
یہ عجیب بات ہے کہ تلاش بسیار کے باوجود بھی الوداعی جمعہ کی کوئی الگ سے فضیلت پورے ذخیرۂ حدیث میں نہیں مل سکی اور نہ ہی اس خطبہ کی کوئی اصل مل سکی جسے اکثر ہمارے یہاں ائمہ خطبے میں پڑھتے ہیں؛ بلکہ متعدد اہل علم و فضل نے اسے بدعت اور واجب الترک قرار دیاہے چنانچہ فتاوی محمودیہ میں ہے:
رمضان المبارک کے آخری جمعہ میں خطبہ الوداع پڑھنا قرونِ مشہودلہا بالخیر سے ثابت نہیں، فقہاء نے اس کے پڑھنے کا ذکر نہیں کیا، مولانا عبدالحی صاحب لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے بدعتِ ممنوع ہونے کی تفصیل سے مدلل بیان فرمایا ہے(1)
رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو الوداع والفراق والسلام یا شھر رمضان وغیرہ کے الفاظ سے خطبتہ الوداع پڑھنا آپ علیہ السلام , خلفاء راشدین اور ائمہ مجتہدین سے ثابت نہیں ہے، اس کو اکابر اہل فتاوی نے مکروہ اور بدعت لکھا ہے، ابو الحسنات حضرت مولانا عبد الحی صاحب لکھنوی نے مجموعة الفتاوی اور خلاصتہ الفتاوی کے حاشیہ میں اور مولانا رشید احمد گنگوہی نے فتاوی رشیدیہ میں اور حضرت تھانوی نے امدادالفتاوی میں اورمفتی عزیز الرحمٰن نے فتاوی دارالعلوم میں اور مفتی محمود الحسن صاحب نے فتاوی محمودیہ میں اور مفتی شفیع صاحب نے امدادالمفتیین میں بدعت اور مکروہ لکھا ہے (2).
اس لئے اس جمعہ کی الگ سے کوئی فضیلت سمجھنا غلط ہے اور اس قسم کے خطبہ کو چھوڑنا ضروری ہے فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔
مصادر ومراجع:
(1) فتاویٰ محمودیہ:۸/۲۹۵، مکتبہ شیخ الاسلام، دیوبند۔ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند:۵/۵۳، مکتبہ دارالعلوم دیوبند، یوپی۔ آپ کے مسائل اور اُن کا حل:۲/۴۱۲، کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند)
(2) خلاصة الفتاوی 329/4 فتاوی رشیدیہ ص 123 امداد الفتاوی 685/1 فتاوی دارالعلوم دیوبند 96/5 فتاوی محمودیہ 416/12 امداد المفتین ص 404
حرره العبد محمد زبیر الندوی
دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا۔
رابطہ 9029189288
مؤرخہ 23/6/2017
نوٹ: دینی مسائل عام کرنا اور دوسروں تک پہنچانا ثواب جاریہ ہے
-------------------
سوال: شریعت میں ''الوداعی جمعہ'' کی کیا حیثیت ہے؟ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم اس کی تیاری کرتے تھے؟ نیز جمعۃ الوداع میں جو مخصوص خطبہ پڑھا جاتا ہے صحیح ہے یا نہیں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں!
جواب: رمضان المبارک کے آخری جمعے کی تیاری اور بطور '' جمعۃ الوداع'' منانا نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور فقہاء کرام سے ثابت نہیں ہے، حضور صلی اللہ علیہ والہ و سلم رمضان المبارک کا مکمل آخری عشرہ اعتکاف اور راتوں کو جاگ کر عبادت میں گزارتے تھے، پورے عشرے میں عبادت کا اہتمام تو احادیث میں منقول ہے، لیکن آخری جمعے کے لیے نئے کپڑے سلوانا، تیاری کرنا یا خاص عبادت کرنا احادیث سے ثابت نہیں ہے۔
نیز ’’الوداع والفراق والسلام یا شهر رمضان‘‘ وغیرہ کے الفاظ سے خطبۃ الوداع پڑھنا حضرت سید الکونین علیہ الصلاۃ والسلام، خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ سے ثابت نہیں ہے، اس کو اکابر اہلِ فتاوی نے مکروہ اور بدعت لکھا ہے۔ ابوالحسنات حضرت مولانا عبد الحی لکھنؤی رحمہ اللہ نے ''مجموعۃ الفتاوی'' اور ''خلاصۃ الفتاوی'' (329/4) کے حاشیہ میں اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ نے ''فتاوی رشیدیہ'' (ص: 123) میں، اور حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے ''امداد الفتاوی'' (685/1)میں، اورحضرت مفتی اعظم دارالعلوم دیوبند، مفتی عزیز الرحمن صاحب رحمہ اللہ نے ''فتاوی دارالعلوم دیوبند'' (96/5) میں اور فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی رحمہ اللہ نے ''فتاوی محمودیہ'' مطبع ڈابھیل (296/8)، مطبع میرٹھ (416/12) میں، اور مفتی محمدشفیع رحمہ اللہ نے ''امداد المفتیین'' (ص: 404) میں بد عت اور مکروہ لکھا ہے۔ (بحوالہ فتاوی قاسمیہ) فقط واللہ اعلم
دارالافتاء: جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
------------------
سوال: الوداع جمعہ کا خطبہ کب سے شروع ہواتھا ، سب سے پہلے کس نے پڑھا تھا؟ اور اس کی اہمیت کیا ہے؟ کیا الوداع جمعہ کے حقوق اور خطبہ الگ ہونے چاہئے؟ یا پھر کوئی بھی خطبہ پڑھا جاسکتا ہے؟
الوداع جمعہ کا خطبہ کب سے شروع ہوا، سب سے پہلے اس خطبہ کو کس نے پڑھا اس کی صراحت مجھے نہیں مل سکی، البتہ خطبہ کا وجود قرون مشہود لہا بالخیر میں نہیں تھا، فقہاء نے اس خطبہ کے پڑھنے کا ذکر نہیں کیا۔ اس خطبہ کی کوئی فضیلت ثابت نہیں بلکہ علماء نے اس کو مکروہ وبدعت تک لکھا ہے، اس لیے رمضان کے آخری جمعہ میں بھی عام خطبہ ہی پڑھا جائے۔
No comments:
Post a Comment