Friday, 24 May 2019

فقہیاتِ رمضان (40) ماہ رمضان؛ فضائل و مسائل خواتین کے اعتکاف کے مسائل

فقہیاتِ رمضان (40) ماہ رمضان؛ فضائل و مسائل خواتین کے اعتکاف کے مسائل
● حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرتے تھے، یہاں تک کہ اللہ تعالی نے آپ کو اٹھالیا پھر آپ کے بعد آپ کی بیویاں بھی اعتکاف کرتی تھیں۔ (بخاری)
● ایک روایت میں فرماتی ہیں کہ حضور اکرم 
صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کی ایک بیوی نے استحاضہ کی حالت میں اعتکاف کیا اور وہ سرخی اور زردی دیکھتی تھیں، اکثر ہم لوگ ان کے نیچے ایک طشت رکھ دیتے تھے اور وہ نماز پڑھتی تھیں۔ (بخاری)
● مسلم کی روایت میں فرماتی ہیں کہ حضور اکرم 
صلی اللہ علیہ وسلم  جب آخری عشرہ میں داخل ہوتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو جاگتے تھے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے اور عبادت میں خوب کوشش کرتے اور تہبند مضبوط باندھ لیتے۔
فائدہ: آپ 
صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن اپنے گھروں میں اعتکاف کیا کرتی تھیں، اسی لئے فقہا نے لکھا ہے کہ عورتوں کے لئے مستحب ہے کہ وہ مسجد البیت یعنی گھر کی مسجد میں اعتکاف کریں، اگر مسجد البیت نہ ہو تو مکان کے کسی حصہ کو مسجد قرار دے کر اس میں اعتکاف کریں، بلا ضرورت اس حصہ سے باہر نہ نکلیں، مکان کا وہ حصہ ہی ان کے حق میں مسجد کے حکم میں ہو جائے گا چنانچہ عورتوں کو مسجد میں اعتکاف کرنا مکروہ ہے۔ (مستفاد از مظاہر حق)
فتاوی یوسفی میں ہے کہ:
عورت بھی اِعتکاف کرسکتی ہے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ گھر میں جس جگہ نماز پڑھتی ہے اس جگہ کو یا کوئی اور جگہ مناسب ہو تو اس کو مخصوص کرکے وہیں دس دن سنت اِعتکاف کی نیت کرکے عبادت میں مصروف ہوجائے، سوائے حاجاتِ شرعیہ کے اس جگہ سے نہ اُٹھے، اگر اِعتکاف کے دوران عورت کے خاص ایام شروع ہوجائیں تو اِعتکاف ختم ہوجائے گا، کیونکہ اِعتکاف میں روزہ شرط ہے۔
فتاوی دارالافتاء دارالعلوم دیوبند میں ہے کہ:
عورتوں کو مسجد کے احاطہ میں اعتکاف کرنا درست نہیں، {للأدلة الدالة علی منع الخروج من بیتھا} عورتوں کے اعتکاف کی جگہ ان کے گھر کی وہی جگہ ہے جو انہوں نے نماز کے لئے مقرر کر رکھی ہو اور اگر اس کے گھر میں کوئی جگہ نماز کے لئے مقرر نہیں ہے تو کسی جگہ کو نماز کے لئے مقرر کرکے وہاں پر اعتکاف کریں، عالمگیری (۱/ ۲۱۱) میں ہے :
{والمرأة تعتکلف فی مسجد بیتها إذا اعتکفت فی مسجد بیتها فتلک البقعة في حقها کمسجد الجماعة فی حق الرجل}
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے تو آپ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن بھی اہتمام سے اعتکاف کرتی رہیں، لیکن ازواج مطہرات اپنے اپنے حجروں میں اعتکاف فرماتی تھیں۔ (مرقاة ۴/ ۳۲۶ امدادیه)
● اگر عورت حالت استحاضہ میں ہو تو اعتکاف کرسکتی ہے، البتہ حالتِ حیض ونفاس میں اعتکاف درست نہیں، کیونکہ حیض ونفاس سے پاک ہونا ہر طرح کے اعتکاف کے لئے لازم ہے، اور اگر دورانِ اعتکاف حیض یا نفاس شروع ہوگیا تو اس کا اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔
{قال فی البدائع (۲؍۲۷۴) والطهارۃ عن الجنابة والحیض والنفاس، وأنها شرط للجواز في نوعَی الإعتکاف الواجب والتطوع جمیعا}
قال فی الشامی ( ۳ ؍۴۳۰ زکریا ) والحائض والنفساء لیسا بأهل للصلاۃ أي فلا یصح اعتکافهما
ایام روکنے کے لئے دوا کا استعمال کرنا:
● عورت کے لئے اپنے اعتکاف کے دنوں میں دوا استعمال کرنا جائز تو ہے مگر دوا استعمال نہ کرنا بہتر ہے، کیونکہ دوا سے صحت پر بھی برا اثر پڑے گا، جس روز ماہواری آئے، اعتکاف ختم کردے کیونکہ ماہواری کی حالت میں اعتکاف نہیں ہوتا، پھر بعد میں ایک روزہ کے ساتھ اعتکاف کی قضا کرلے۔ (دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند)
اعتکاف میں کھانا پکانا:
● اگر اس کا کوئی کھانا پکانے والا نہ ہو تو مسجد البیت میں کھانا پکاسکتی ہے، مسجد البیت پر تمام احکام مسجد کے جاری نہیں ہوتے۔ (فتاوی محمودیہ جلد پندرہ)
دایہ کا خدمت انجام دینا:
● عورت کا معتکف مسجد کے حکم میں نہیں ہے، لہٰذا اس معتکف میں اگر وہ کسی عورت کو بچہ جنوائے، تو اس سے اعتکاف میں کوئی فرق نہیں آئے گا، تاہم بہتر یہی ہے کہ بحالتِ اعتکاف ایسا عمل نہ کرے۔ (فتاوی محمودیہ)
{قال فی البدائع (۲؍۲۸۲-۲۸۱) ومسجد بیتها لیس بمسجد حقیقة، بل ھو اسم للمکان المعد للصلوۃ في حقها، حتی لایثبت له شيء من أحکام المسجد الخ} (مستفاد از کتاب النوازل جلد ششم)
خواتین کا مسجد میں اعتکاف کرنا جائز نہیں:
عورتوں کے مسجد میں آنے کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ عورتوں نے آپ 
صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو کچھ کرنا شروع کردیا، اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگر اپنی زندگی میں دیکھ لیتے تو خود ہی ان کو مسجد میں آنے سے روک دیتے جیسا کہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو روکا گیا۔(بخاری ۱/ ۱۲۰) آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس دور کی بات کررہی ہیں، جو خیر القرون کا زمانہ تھا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کافی تعداد موجودتھی، معاشرہ برائیوں سے پاک تھا، اس وقت کے حالات آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی نظر میں اس قابل تھے کہ عورتوں کو مسجد میں آنے سے روک دیا جائے، موجودہ دور تو اس دور سے بہت مختلف ہے، اب تو ہر طرف بدامنی، فحاشی، عریانی اور بے حیائی پھیلی ہوئی ہے تو آج کل تو بدرجہ اولیٰ ان کو مسجد میں آنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے، نیز اگرچہ کتابوں میں عورتوں کے مسجد میں اعتکاف کے بارے میں کراہت تنزیہی کا قول منقول ہے لیکن علامہ طحطاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اعتکاف کے مسئلہ کو بھی نماز کے مسئلہ پر قیاس کیا جائے یعنی جس طرح عورتوں کا نماز کیلئے مسجد میں آنا مکروہ تحریمی ہے، اسی طرح اعتکاف کیلئے بھی مسجد میں آنا مکروہ تحریمی ہے تاکہ عورتوں کا مسجد میں اعتکاف کے مسئلے میں کوئی تردد باقی نہ رہے، نیز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آثار سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انہوں نے بھی عورتوں کو مسجد میں آنے سے منع فرمایا ہے، اس لئے علماء کرام نے عورتوں کے مسجد میں آنے کے بارے میں (خواہ نماز پڑھنے کیلئے ہو یا اعتکاف وغیرہ کیلئے ہو) ناجائز ہونے کا فتویٰ دیا ہے۔
{لمافی المسلم (۱۸۳/۱) عن عمرۃ بنت عبدالرحمن انھا سمعت عائشۃ زوج النبی ﷺ تقول: لو ان رسول ﷲ ﷺ رای ما احدث النساء لمنعھن المسجد کما منعت نساء بنی اسرائیل قال: فقلت لعمرۃ النساء بنی اسرائیل منعن المسجد قالت نعم}
عورت کا اعتکاف کیلئے پورا کمرہ مختص کرنا:
گھر میں جو جگہ نماز کیلئے مختص ہو، عورت اسی جگہ میں اعتکاف کیلئے بیٹھ سکتی ہے، اگر کوئی جگہ نماز کیلئے مختص نہ ہو تو پہلے ایک جگہ کو مختص کرنا ضروری ہے ورنہ اس کے بغیر اعتکاف میں عورت کیلئے بیٹھنا جائز نہیں ہے چنانچہ اگر پورا کمرہ نماز کیلئے مختص ہے تو اس میں اعتکاف درست ہے اور اگر کمرہ نماز کیلئے مختص نہیں ہے تو پہلے پورے کمرے کو نماز کیلئے مختص کریں، پھر اس میں اعتکاف درست ہوگا۔
دورانِ اعتکاف کھانا پکانا:
دورانِ اعتکاف کھانا پکانے کا حکم یہ ہے کہ اگر گھر میں اور کوئی نہ ہو جو کھانا پکاسکے تو ضرورت کی وجہ سے اپنے اعتکاف کی جگہ میں ہی کھانا پکاسکتی ہیں۔
{لمافی الھندیۃ (۲۱۱/۱) والمرأۃ تعتکف فی مسجد بیتھا اذا اعتکفت فی مسجد بیتھا فتلک البقعۃ فی حقھا کمسجد الجماعۃ فی حق الرجل لاتخرج منہ الالحاجۃ الانسان کذا فی شرح المبسوط للامام السرخسی}
معتکف سے بلاضرورت نکلنا جائز نہیں:
عورت کو اپنے گھرمیں اس جگہ سے جہاں نماز پڑھتی ہو یا اس جگہ سے جس کو اعتکاف کیلئے مخصوص کرلیا ہو، سوائے ضروری حاجات (پیشاب، پاخانہ، غسل جنابت) کے باہر نکلنا جائز نہیں، جب حاجت کیلئے نکلے تو حاجت پوری کرنیکے بعد فورا اپنی جگہ واپس آجائے۔
گھر والوں سے بات چیت کرنا:
دوران اعتکاف قرآن مجید کی تلاوت، ذکر و تسبیحات و نوافل وغیرہ جیسے مشاغل میں مصروف رہے، بلا ضرورت بات چیت سے احتراز کرے، کھانا، پینا، سونا اعتکاف کی جگہ ہی میں کرے، عورت اپنے گھر والوں کیلئے اپنے اعتکاف کی جگہ سے نکل کر سحری وغیرہ نہیں پکا سکتی اور نہ ہی باہر نکل کر گھر والوں کے ساتھ سحری و افطاری کرسکتی ہے، البتہ اپنے اعتکاف کی جگہ رہتے ہوئے اہم بات چیت ہر وقت کرسکتی ہے، بلا ضرورت اور تفصیلی بات چیت سے احترازکرے۔ (مستفاد از نجم الفتاوی جلد سوم)
خواتین کے لئے اعتکاف میں معمولات:
اعتکاف میں کوئی خاص ذکر منقول نہیں ہے، اتنی عبادت کریں کہ آئندہ دنوں کے لئے بشاشت رہے، ابتداء میں جوش ہو اور بعد میں طبیعت میں سستی آجائے تو یہ مناسب نہیں، خواتین کو چاہیئے کہ وہ کثرت سے قرآن پاک کی تلاوت کریں، دعاؤں کا اہتمام کریں اور ساتھ ساتھ یہ اذکار کریں:
1- استغفار: استغفر اللہ الذی لا اله الا ھو الحی القیوم وأتوب إلیه
2- کلمہ طیبہ: لا اله الا اللہ محمد رسول اللہ
3-  تیسرا کلمہ: سبحان اللہ والحمد للہ ولا الٰه الا اللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوة الا باللہ العلی العظیم
4- درود شریف: اللہم صل علی محمد النبی الأمی وعلی آله وصحبه وسلم
یہ اذکار کم از کم صبح وشام سو سو مرتبہ پڑھیں اور کثرت سے شب قدر میں یہ دعا پڑھیں:
اللہم إنک عفو تحب العفو فاعف عنا۔
اس کے ساتھ ساتھ تہجد، اشراق، چاشت اور اوابین پڑھنے کا اہتمام کریں۔ (مستفاد از فتاوی دارالافتاء دارالعلوم دیوبند)

https://saagartimes.blogspot.com/2019/05/40.html

   

No comments:

Post a Comment