جمعہ کے دن عصر کی نماز کے بعد اَسّی 80 مرتبہ درود شریف پڑھنے سے اَسّی سال کے گناہ معاف
جمعہ کے روز ایک خاص درود شریف کی فضیلت وارد ہوئی ہے. بعض حلقوں میں بھلے اس پر اشکال ہوں تاہم طبرانی میں حضرت
ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں یہ نقل کیا گیا ہے کہ جو شخص
جمعہ کے دن عصر کی نماز کے بعد اپنی جگہ سے اُٹھنے سے پہلے اَسّی مرتبہ یہ
درود شریف پڑھے، اس کے اَسّی سال کے گناہ معاف ہوں گے اور اَسّی سال کی
عبادت کا ثواب اس کے لئے لکھا جائے گا۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی (سَیّدِنَا) مُحَمَّدِ نِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ وَعَلٰٓی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ تَسْلِیْمَا
جمعہ کے دن عصر بعد درود شریف کا حوالہ:
سؤال عن ما صحة القول الذى يقول أن من صلى العصر يوم الجمعة وقال في مكان صلاته اللهم صل على محمد النبي الأمي وعلى آله وصحبه وسلم تسليما
80 مرة غفر الله ذنوبه ثمانين سنة وإن مات قبل الثمانين أو صلى أكثر فإن
ما بقي عنه يذهب إلى والديه أو أولاده وإذا كان هذا غير صحيح فهل فاعله
يثاب على ما كان يفعله طلبا لجزاء الله أفيدونا ؟
جزاكم الله خيرا .
الإجابــة
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه، أما بعـد:
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه، أما بعـد:
فالحديث الذى سألت عنه أورده الغزالي فى
إحياء علوم الدين حيث قال : يستحب أن يكثر الصلاة على رسول الله صلى الله
عليه وسلم في هذا اليوم فقد قال صلى الله عليه وسلم : من صلى علي في يوم
الجمعة ثمانين مرة غفر الله له ذنوب ثمانين سنة، قيل: يا رسول الله كيف
الصلاة عليك قال: تقول: اللهم صل على محمد عبدك ونبيك ورسولك النبي الأمي
وتعقد واحدة . انتهى . لكن بدون زيادة : وإن مات قبل الثمانين .. إلى آخره
، وقد علق الحافظ العراقي في تخريجه لأحاديث كتاب الإحياء قائلا :
حديث من صلى علي في يوم الجمعة ثمانين مرة
الحديث أخرجه الدار قطني من رواية ابن المسيب قال أظنه عن أبي هريرة وقال
حديث غريب وقال ابن النعمان حديث حسن . انتهى ، وقال المناوي في فيض
القدير : وضعفه ابن حجر .
وعليه فالحديث قد اختلف في تحسينه
وتضعيفه , وإذا افترضنا كونه ضعيفا فإن الحديث الضعيف يعمل به في فضائل
الأعمال بشروط تقدم بيانها في الفتوى رقم: 19826 ، هذا بالإضافة إلى أن
الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم مستحبة يوم الجمعة كما أشار الغزالي
فيما نقلناه عنه عاليه وفي الحديث : إن من أفضل أيامكم يوم الجمعة فأكثروا
علي من الصلاة فيه ..الحديث رواه أبوداود وغيره وصححه الألياني كما أن في
يوم الجمعة ساعة إجابة وقد ورد أنها بعد العصر مطلقا ، والجمهور على أنها
آخر ساعة قبل غروب شمس يوم الجمعة وذلك إنما يكون بعد العصر ، وراجع الفتوى
رقم : 4205 ، وبالتالى فيرجى إن شاء الله تعالى لمن عمل بما في الحديث
المذكور الحصول على الثواب المشتمل عليه .
والله أعلم .
والله أعلم .
مولاناعبداللہ گل کی تحقیق:
من صلی صلاۃ العصر من یوم الجمعۃ فقال قبل
ان یقوم من مکانہ :اللھم صل علی محمد النبی الامی وعلی الہ وسلم تسلیما
ثمانین مرۃ ،غفرت لہ ذنوب ثمانین عاما، وکتبت لہ عبادۃ ثمانین سنۃ.
جو شخص جمعہ کے دن عصر کے بعد اپنی جگہ سے
کھڑا ہونے سے پہلے یہ درود شریف اسی (۸۰) مرتبہ پڑھے: ’’اللھم صل علی محمد
النبی الامی وعلی الہ وسلم تسلیما‘‘ اس کے اسی (۸۰) سال کے گناہ معاف کردئے
جاتے ہیں اور اسی (۸۰) سال کی عبادت کا ثواب لکھا جاتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں صلاۃ وسلام پیش
کرنا افضل ترین عبادت اور دربار خداوندی میں قرب کا بہترین ذریعہ ہے۔صلاۃ
وسلام کے مختلف طریقے و صیغے ہیں جو حدیثِ مبارک میں وارد ہوئے ہیں۔اس پر
محدثین نے مستقل کتابیں لکھیں ہیں۔ مذکورہ درود شریف عوام اور علماء کرام
کے معمول میں ہے،جسے حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی رحمہ
اللہ نے فضائل درود شریف میں نقل کیا ہے اور اکثر اسی کتاب کے حوالے سے اس
کی تشہیر کی جاتی ہے۔
ذیل میں اس حدیث کی فنی تحقیق پیش کی جاتی ہے۔
امرِ اول: جمعہ کے دن مطلقا اسی (۸۰) مرتبہ
درود شریف پڑھنا بھی حدیث شریف سے ثابت ہے جس پر ۸۰ سال کے گناہوں کی معافی
کا وعدہ ہے۔ملاحظہ ہو:
وعن ابی ھریرۃؓ قال: قال رسول اللہ ﷺ: الصلاۃ علیّ نور علی الصراط،و من صلی علی یوم الجمعۃ ثمانین مرۃ غفرت لہ ذنوب ثمانین عاما۔
حدیث شریف کا مفہوم ہے: مجھ پر درود پاک
پڑھنا پل صراط پر نور کا باعث ہوگا۔جو شخص جمعہ کے دن مجھ پر ۸۰ مرتبہ درود
بھیجے گا اس کے ۸۰ سال کے گناہ معاف ہوجائینگے۔
حدیث مبارک کو مندرجہ ذیل محدثین نے اپنی کتب میں ذکر کیا ہے:
۱۔ ابو حفص عمر بن احمد بن عثمان بغدادی
المعروف بابن شاہین (۲۹۷۔۳۸۵ھ) اپنی کتاب ’’الترغیب فی فضائل الاعمال وثواب
ذلک ‘‘میں یہ حدیث نقل کی ہے۔ (۱)
واضح رہے کہ ابنِ شاہین اپنے وقت کے حافظ
عالم اورملک عراق کے بڑے شیخ تھے۔موصوف کے بارے میں حافظ ذہبی (المتوفی
۷۴۸ھ) سیر اعلام النبلاء میں رقم طراز ہیں:
الشیخ الصدوق ،الحافظ العالم،شیخ العراق و
صاحب التفسیر الکبیر،ابو حفص عمر بن احمد بن عظمان بن احمد بن محمد بن
ایوب بن ازداذ البغدادی الواع٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قال ابو الفتح بن ابی الفوارس:ثقۃ
مامون صنف ما لم یصنفہ احد۔
وقال ابو بکر الخطیب:کان ثقۃ امینا،یسکن بالجانب الشرقی.
قال حمزۃ السھمی: سمعت الدارقطنی یقول: ابن شاہین یلح علی الخطاء، وہو ثقۃ۔
آخر میں امام ذہبی نتیجہ نکالتے ہوئے اپنی تحقیق یوں پیش کرتے ہیں:
ماکان الرجل بالبارع فی غوامض الصنعۃ ولکنہ راویۃ الاسلام ۔رحمہ اللہ. (۲)
یعنی اگر چہ فن حدیث کی باریکیوں سے بے خبر تھے لیکن ’’راویۃ الاسلام‘‘کا لقب ان کا حق ہے۔
۲۔ ابو القاسم خلف بن عبدالملک ابن
بشکوال (المتوفی ۵۷۸ھ) نے اپنی پوری سند کے ساتھ اس حدیث کو اپنی کتاب
’’القربۃ الی اللہ‘‘ میں ذکر کیا ہے۔ (۳)
محدّثِ اندلس ابن بشکوال کے بارے میں حافظ ذہبی یہ الفاظ استعمال فرماتے ہیں،ملاحظہ ہو:
الامام العالم الحافظ، الناقد المجود، محدث الاندلس، ابو القاسم خلف بن عبد الملک۔۔۔۔ (۴)
۳۔ابو شجاع شیرَوَیہ بن شَھرَدار الدیلمی (۴۴۵۔۵۰۹ھ) نے اپنی کتاب ’’مسند الفردوس بماثور الخطاب‘‘میں اس حدیث کو ذکر کیا ہے۔ (۵)
۴۔ ابو سعد عبد الملک بن محمد الخرَکوشی
النیَسابوری (المتوفی۴۰۷ھ) ۔ جن کا تذکرہ حافظ ذہبی ان الفاظ: الامام
القدوۃشیخ الاسلام (۶) سے کرتے ہیں۔ نے اپنی کتاب ’شرف المصطفی‘ میں اس حدیث
کو حضرت انسؓ کی روایت سے پیش کیا ہے، ملاحظہ ہو:
و عن رسول اللہ ﷺ انہ قال: من صلی علی یوم الجمعۃ ماءۃ صلاۃ غفرت لہ خطیءۃ ثمانین سنۃ (۷)
۵۔محقق العصر علامہ محمد بن عبد الرحمن
سخاوی(المتوفی ۹۰۲ھ)نے اپنی کتاب ’’القول البدیع‘‘میں اس درود پاک کو ذکر
کر کے اس کی نہایت عمدہ تحقیق پیش کی ہے اور ضعف کا حکم لگا کر اس حدیث کے
طرق پیش کئے ہیں۔ ملاحظہ ہو:
القول البدیع:ص:۳۹۹۔ (۸)
اب تک کی بحث سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ جمعہ کے دن ۸۰ مرتبہ درود شریف پڑھنے پر۸۰ سال کے گناہ معاف ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔
امر دوم:ہماری زیر بحث حدیث میں جمعہ کے
دن عصر کے بعد خاص درود شریف پڑھنے پر ۸۰ سا ل کے گناہ کی معافی اور ۸۰ سال
کی عبارت کی بشارت ہے۔
ذخیرۂ احادیث میں اس قسم کی دو روایات
ملتی ہیں۔ پہلی روایت حضرت ابو ہریرۃؓ کی جو مضمون کے شروع میں ذکر کی
گئی۔دوسری روایت حضرت سہل بن عبداللہؓ کی ہے جس کے یہ الفاظ ہیں:
وعن سہل بن عبداللہؓ قال:من قال فی یوم
الجمعۃ بعد العصر:اللھم صل علی محمد النبی الامی و علی الہ وسلم ثمانین
مرۃ،غفرت لہ ذنوب ثمانین عاما۔
ان دو روایات میں تین فرق ہیں۔
۱۔ پہلی روایت میں’’ قبل ان یقوم من مکانہ‘‘ کے الفاظ ہیں، جب کہ دوسری اس سے خالی ہے۔
۲۔ اسی طرح پہلی میں ’وسلم تسلیما‘ ہے جب کہ دوسری روایت میں تسلیما کا لفظ نہیں ہے۔
۳۔ پہلی میں ’’کتبت لہ عبادۃ ثمانین سنۃ‘‘ کے الفاظ بھی ہیں جبکہ دوسری میں صرف ’غفرت لہ ذنوب ثمانین عاما‘ کے الفاظ آتے ہیں۔
بہرحال ہر دو حدیث کا مضمون دوسرے کا مؤید بنتا ہے۔ذیل میں ان کی تخریج پیش کی جاتی ہے۔
۱۔حضرت سہل بن عبداللہؓ والی روایت کو
محدثِ اندلس حافظ ابن بشکوال (المتوفی۵۷۸ھ)نے اپنی کتاب’’القربۃ الی رب
العالمین بالصلاۃ علی محمد سید المرسلین‘‘میں ذکر کیا ہے۔ملاحظہ ہو:
’’قال شیخنا ابو القاسم: وروینا عن سہل بن
عبداللہ قال: من قال فی یوم الجمعۃ بعد العصر: اللھم صل علی محمد النبی
الامی وعلی الہ وسلم ثمانین مرۃ: غفرت لہ ذنوب ثمانین عاما۔
ابن بشکوال نے اس حدیث کی سند میں ’شیخنا
ابو القاسم‘ کہنے پر اکتفاء کیا ہے۔ اس سے ان کی مراد کون ہے؟چنانچہ ابن
بشکوال خود ہی اپنی تاریخ کی کتاب ’الصلۃ‘ میں ان کا تذکرہ خیر فرماتے
ہیں:
احمد بن محمد بن احمد بن مخلد بن عبد
الرحمان بن احمد بن بقی بن مخلد بن یزید من اہل قرطبۃ۔یکنی: ابا
القاسم۔۔۔۔۔وکان من بیءۃ علم و نباھۃ وفضل و صیانۃ، وکان ذاکرا للمسائل
والنوازل، دربا بالفتوی، بصیرا بعقد الشروط و عللھا، مقدما فی معرفتہا.اخذ
الناس عنہ واختلفت الیہ واخذت عنہ بعض ما عندہ، واجاز لی بخطہ غیر مرۃ۔
موصوف کا تعلق انتہائی شریف ،علمی اور
پاکیزہ خاندان سے تھا۔ نِت نئے مسائل کا خوب استحضار اور فتوی نویسی میں خوب
مہارت رکھتے تھے ۔شرائط اورعللِ حدیث میں بصیر ت انتہاء کو تھی۔لوگوں نے
ان سے خوب علم حاصل کیا۔میں نے بھی ان سے استفادہ کیا اور انہوں نے کئی
مرتبہ اپنے ہاتھ سے لکھ کر مجھے اجازت دی۔
موصوف کی ولادت ۴۴۶ھ کی اور وفات ۵۳۲ھ کی ہے۔ (۹)
شیخ ابو القاسم اپنے استاد،بقیۃ
الشیوخ،محدث اندلس،فقیہ وقت:ابو عبداللہ محمد بن الفرج قرطبی مالکی
طلاعی (۴۰۴۔۴۹۷ھ) کے شاگردوں میں سے تھے۔
حافظ ذہبی ان کے بارے میں رقم طراز ہیں: و کان شدیدا علی اھل البدع،مجانبا لمن یخوض فی غیر الحدیث۔ (۱۰)
ابو بکر محمد بن خیر اموی اشبیلی
(۵۰۲۔۵۷۵ھ) اپنی کتاب ۔جو ’فہرست ابن خیر‘ کے نام سے مشہور ہے۔ میں موصوف
کی کتاب الاحکام کی سند ذکر کرتے ہیں،جو اس بات کی شاہد ہے کہ شیخ ابو
القاسم اپنے استاد ا بو عبداللہ الفرج کے علوم کے حامل تھے۔ملاحظہ ہو:
کتاب احکام رسول االہ ﷺ، تالیف الفقیہ ابو
عبداللہ محمد بن فرج ۔رحمہ اللہ۔،وکتاب الوثائق المختصرۃ من تالیفہ
ایضا،حدثنی بھما الشیخ الفقیہ ابو القاسم احمد بن محمد من بقی رحمہ اللہ
قراء ۃ منی علیہ فی منزلہ۔ (۱۱)
اس کے بعد سند کا یہ سلسلہ کدہر جاتا
ہے؟ چنانچہ فہرست بن خیر سے یہ پتہ چلتا ہے کہ فقیہ ابو الفرج روایت کرتے
ہیں: ابو الولیدیوسف بن عبداللہ بن المغیث (۳۳۸۔۴۲۹ھ) سے۔ جن کا تذکرہ حافظ
ذہبی نے ان الفاظ: الامام الفقیہ، المحدث شیخ الاندلس، قاضی القضاۃ، بقیۃ
الاعیان سے کیا ہے۔ (۱۲) اوریہ روایت کرتے ہیں مسند الاندَلُس : ابو عیسی یحیی
بن عبداللہ اللیثی (المتوفی۳۶۷ھ) سے اور یہ اپنے والد کے چچا ابو مروان
عبیداللہ بن یحیی لیثی (المتوفی۲۹۸ھ) سے جن کی قبولیت کا اندازہ اس بات سے
کیا جاسکتا ہے کہ بقول حافظ ذہبی کے: اندلس میں ان کے جنازے سے بڑا کوئی
جناز نہیں ہوا حتی کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے بھی ان کے جنازے میں شرکت
کی۔(۱۳) اور یہ اپنے والد، راوی موطا، فقیہ کبیر: یحیی بن یحیی بن
کثیرالمصمودی الاندلسی القرطبی (المتوفی۲۹۸ھ) رحمھم اللہ تعالی اجمعین سے
کرتے ہیں۔ جو کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ اس سے آگے امام مالک سے سند واضح
ہے۔
خلاصہ بحث یہ ہے کہ ابن بشکوال نے اس درود
کو اگر چہ تعلیقا ذکر کیا ہے لیکن سند کا سلسلہ جو ذکر کیا گیا اس سے یہ
بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان تک جو حدیث پہنچتی رہیں وہ اسی سلسلے کی مرہونِ
منت ہے۔جس میں وقت کے بڑے بڑے علماء و محدثین شامل ہیں۔شیخ ابو القاسم کی
زندگی کا مطالعہ کرنے سے یہ بات اور آشکارا ہوجاتی ہے۔
لہذا اس تمام بحث کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر یہ روایت موضوع و من گھڑت ہوتی تو اس قسم کا سلسلہ اس کو کیسے روایت کرتا۔
۲۔محقق العصر،حافظ عبد الرحمن سخاوی(المتوفی۹۰۲ھ)نے دونوں روایات کو ’’القول البدیع ‘‘ میں ذکر کیا ہے۔ملاحظہ ہو:
وفی لفظ عند ابن بشکوال من حدیث ابی ہریرۃ
ایضا: من صلی صلاۃ العصر من یوم الجمعۃ فقال قبل ان یقوم من مکانہ :اللھم
صل علی محمد النبی الامی وعلی الہ وسلم تسلیما ثمانین مرۃ غفرت لہ ذنوب
ثمانین عاما و کتبت لہ عبادۃ ثمانین سنۃ.
وعن سہل بن عبداللہ قال: من قال فی یوم
الجمعۃ بعد العصر: اللھم صل علی محمد النبیی الامی وعلی الہ وسلم ثمانین
مرۃ :غفرت لہ ذنوب ثمانین عاما.اخرجہ ابن بشکوال۔ انتھی کلام السخاوی۔ (۱۴)
موصوف اپنے وقت کے محدث، محقق اور حافظ
حدیث تھے۔حافظ ابن حجر عسقلانی(المتوفی۸۵۲ھ)کے شاگردوں میں ان کا کوئی سہیم
وشریک نہیں۔ چنانچہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: ھو امثل جماعتی۔ یعنی وہ میرے
شاگردوں میں سب سے زیادہ ممتاز ہیں۔
سخاوی عللِ حدیث کے ماہر تھے۔علمِ جرح
وتعدیل کی ان پر انتہاء ہوگئی۔یہاں تک کہا گیا ہے کہ ذہبی کے بعد کوئی شخص
ایسا پیدا نہیں ہوا جو ان کی راہ پر چلا ہو۔تفصیلی حالات کے لئے ملاحظہ
ہو: محقق العصر استاذ محترم حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عبد الحلیم چشتی صاحب کی
کتاب: فوائد جامعہ، ص:۵۰۸ اور عربی زبان میں: الحافظ السخاوی و جہودہ فی
علوم الحدیث : د.بدر بن محمد بن محسن العماش۔ مجلدین۔ مکتبۃ الرشد۔ریاض۔
قابلِ غور بات یہ ہے کہ علامہ سخاوی جیسے
بلند پایہ عالم جنہوں نے معتبر و غیر معتبر روایات میں فرق اور فتاوی
حدیثیہ کے بارے میں دو کتابیں لکھیں: المقاصد الحسنۃ اور الاجوبۃ المرضیۃ۔ وہ
کس طرح اپنی کتاب میں ایسی حدیث ذکر کرسکتے ہیں جو موضوع ہو اور اسے ذکر
کرنا تحقیق کے خلاف ہو۔ اس قسم کے محقق سے یہ با ت بعید ہے۔
موصوف کی کتاب ’’القول البدیع‘‘کو اللہ تعا لی نے بڑی قبولیت اور جامعیت سے نوازا ہے۔
چنانچہ ابن حجر ہیتمی مکی شافعی(۹۰۹۔۹۷۴ھ) اپنی کتاب الدر المنضود کے مقدمہ میں رقم طراز ہیں:
فلا تری منھم من احاط ببعض کتب ھذا المقصد
الاسنی الا الشاذ النادر،الذی خلصہ اللہ من الحظوظ و العنا؛ لاشتمالھا علی
بعض البسط و زیادۃ التاصیل و التفریع، ککتاب الحافظ السخاوی المسمی
ب’’القول البدیع‘‘،ھذا مع انہ احسنھا جمعا ،واحکمھا وضعا،و احقھا
بالتقدیم،واولاھا بالاحاطۃ،لما فیہ من التحقیق والتقسیم۔ (۱۵)
حافظ مرتضی زبیدی حنفی (المتوفی۱۲۰۵ھ) ’شرح احیاء‘ میں لکھتے ہیں:
ہو احسن کتاب صنف فی الصلاۃ علیہ، صلی اللہ علیہ وسلم۔ (۱۶)
.....................................................................................
شیخ الشیوخ علامہ نبھانی نے اپنی کتاب ’سعادۃ الدارین‘ میں حافظ سخاوی کی کتاب کا یوں تعارف کروایا ہے:
واجمل ھذہ الکتب و اجمعھا،و افضلھا فی علم ھذا الفن و انفعھا:القول البدیع۔ (۱۷)
موصوف کے علمی کمالات و کارناموں پر ایک
علمی مقالہ لکھا گیا جس پر مصنف کو جامعہ اسلامیۃ مدینہ منورۃسے۱۴۱۹ھ میں دکتوراہ (پی ایچ ڈی) کی ڈگری سے نوازا گیا۔ اسی طرح موصوف کی تصنیفات و
تالیفات پر ایک کتاب بہ نام ’مؤلفات السخاوی‘ لکھی گئی جو دار ابن حزم سے
۱۹۹۸ء میں شائع ہوئی۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ اس حدیث کو موضوع کس
نے قرار دیا؟اب تک ایسی کتاب یا کسی محدث کی عبارت نظروں سے نہیں گزری جس
نے اسے موضوع قرار دیا ہو؟۔
بالفرض اگر کسی کے ذہن میں اس کے موضوع
ہونے کا خیا ل آتا ہے تو شاید اس کے ذہن میں ہو کہ اتنے چھوٹے سے عمل پر
اتنا بڑا ثواب کیسے مل سکتا ہے؟جیسا کہ محدثین نے موضوع حدیث کے پہچاننے کے
لئے اسے علامت کے طور پر لکھا ہے۔ ملاحظہ ہو:
تدریب الراوی: ص:۲۴۰،ظ: دار الحدیث۔
تدریب الراوی: ص:۲۴۰،ظ: دار الحدیث۔
چنانچہ شیخ محمد عوامہ۔حفظہ اللہ۔نے القول البدیع کے مقدمہ میں عارف باللہ ابن عطاء اللہ رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے:
’’من فاتہ کثرۃ الصیام والقیام فعلیہ ان
یشتغل نفسہ بالصلاۃ علی رسول اللہ ﷺ ۔فانک لو فعلت فی جمیع عمرک کل طاعۃ ثم
صلی اللہ علیک صلاۃ واحدۃ،رجحت تلک الصلاۃ الواحدۃ علی کل ما عملتہ فی
عمرک کلہ من جمیع الطاعات،لانک تصلی علی قدر وسعک وہو یصلی حسب ربوبیتۃ۔
خلاصہ تحقیق:
۱۔ جمعہ کے دن عصر کے بعد پڑھے جانے والا خاص درود شریف کا ثبوت احادیث کی کتابوں سے ملتا ہے۔
۲۔ ثواب کی نیت سے اس کو پڑھ سکتے ہیں۔
۳۔ اس کو بیان بھی کرسکتے ہیں۔ اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دے سکتے ہیں۔
......................................................................
المراجع و المصادر
۱۔ الترغیب فی فضائل الاعمال وثواب ذلک ،ص:۱۴،ط:دار الکتب العلمیۃ۔۱۴۲۴ھ.
۲ ۔ سیر اعلام النبلاء :۱۶/۴۳۱،ط:مؤسسۃ الرسالۃ۔بیروت.
۳۔ملاحظہ ہو:باب فضل الصلاۃ علی البی ﷺ
عشیۃ الخمیس ویوم الجمعۃ،ص:۱۱۱،تحقیق:سید محمد سید،خلاف محمود عبد
السمیع،ط:دار الکتب العلمیۃ۔الطبعۃ الاولی۱۴۲۰.
۴۔ سیر:۲۱/۱۳۹.
۵۔ ملاحظہ ہو: مسند الفردوس:۲/۴۰۸،رقم الحدیث:۳۸۱۴،تحقیق: سعید بن بسیونی زغلول،ط:دار الکتب العلمیۃ.
۶: سیر:۱۷/۲۵۶.
۷: شرف المصطفی:۵/۱۰۲،ط:دار البشائر۔۱۴۲۴ھ.
۸۔ تحقیق:محمد عوامہ،ط:دار الیسر.
۹۔ کتاب الصلۃ:۱/۱۳۴،ط:دار الکتاب المصری.
۱۰۔سیر اعلام النبلاء:۱۹/۱۹۹،الصلۃ:۳/۸۲۳.
۱۱۔ فہرست بن خیر:۲۴۶،ط:موسسۃ الخانجی۔القاہرۃ.
۱۲۔ سیر:۱۷/۵۶۹.
۱۳۔ تاریخ الاسلام:۶/۹۷۹.
۱۴۔ القول البدیع:ص:۳۹۹،ط:دار الیسر.
۱۵۔ الدر المنضود،ص:۳۴،الناشر:دار المنہاج،جدۃ ،الاولی۔۱۴۲۶ھ.
۱۶۔ شرح احیاء:۳ /۲۹۰،ط:مؤسسۃ التاریخ العربی،بیروت لبنان۔۱۴۱۴ھ.
۱۷۔ القول البدیع، ص:
----------------
It’s been taken from the Hadith that Abu Hurara Razi Allah Tala Anhu (رضی اللہ reports :
A person who reads this Darood-e-Pak prior to leaving his place after Asr (The afternoon prayer), his sins of 80 yrs will be forgiven and 80 yrs ebadat will be written in his account
----------------------
------------------
No comments:
Post a Comment