Friday, 24 May 2019

اللہ کے راستے میں ایک روزہ رکھنے کا ثواب

اللہ کے راستے میں ایک روزہ رکھنے کا ثواب

حدیث: اللہ کے راستے میں ایک روزہ رکھنے کا ثواب۔۔۔ کی شرح.......
صحیحین کی روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: من صام يوما في سبيل الله، بعد الله وجهه عن النار سبعين خريفا (صحيح البخاري:2840 و صحيح مسلم: 1153)
ترجمہ: جس نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں ایک دن روزہ رکھا، تو اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کو جہنم سے ستر سال (کی مسافت کے قریب) دور کردیتا ہے۔
اس حدیث میں چند مسائل ہیں۔
(1) صوم سے مراد: اس صوم سے مراد نفلی روزہ ہے۔
(2) فی سبیل اللہ سے مراد: 
سبیل اللہ سے کیا مراد ہے؟ اس سے متعلق علماء میں دو رائیں ہیں ۔ پہلی رائے جہاد ہے اس کے قائلین میں شیخ ابن عثیمینؒ بھی ہیں۔ دوسری رائے اللہ کی خوشنودی ہے اس کے قائلین میں شیخ ابن بازؒ ہیں۔ 
ویسے سبیل اللہ کا عام طور سے اطلاق جہاد پر ہی ہوتا ہے ساتھ ہی بسااوقات طاعت کے کاموں پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے اس وجہ سے یہاں عام معنی یعنی اللہ کی رضا اور اس کی خوشنودی کے طور پر مراد لینا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ بالفاظ دیگر اخلاص کے ساتھ روزہ رکھنا معنی ہوگا۔
(3) لفظ بعد بخاری کا لفظ ہے، مسلم میں باعد کا لفظ ہے۔ اس کا معنی ہے دور کرنے کے یعنی جہنم سے دور کرنا۔
(4) سبعین خریف: خریف سے مراد سال ہے، اس طرح اس کا معنی ہوگا ستر سال ۔
(5) الفاظ کا اختلاف: اس روایت میں سبعین خریف کا لفط ہے جبکہ اس کے برخلاف دوسری صحیح روایات میں سوسال اور اس سے زیادہ بھی آیا ہے ۔
سوسال والی روایت:
من صامَ يومًا في سبيلِ اللَّهِ عزَّ وجلَّ باعدَ اللَّهُ منهُ جَهَنَّمَ مَسيرةَ مائةِ عامٍ(صحيح النسائي:2253)
ترجمہ : جو اللہ کی راہ میں ایک دن کا روزہ رکھتا ہے اللہ تعالی اسے جہنم سے سوسال کی مسافت کے قریب دور کردیتا ہے۔ 
٭شیخ البانی نے اسے صحیح النسائی میں حسن قرار دیا ہے 
پانچ سو سال والی روایت:
من صامَ يومًا في سبيلِ اللَّهِ جعلَ اللَّهُ بينَهُ وبينَ النَّارِ خَندقًا كما بينَ السَّماءِ والأرضِ (صحيح الترمذي:1624)
ترجمہ: جو آدمی اللہ کے راستے میں ایک دن روزہ سے رہے، اس کے لیے اللہ رب العزت اس کے اور جہنم کے درمیان خندق یعنی گڑھا کھود دیتا ہے، جس کی چوڑائی آسمان وزمین کے برابر ہوتی ہے۔
٭ شیخ البانی نے اسے صحیح الترمذی میں حسن صحیح قرار دیا ہے ۔
٭ یہاں پانچ سو سال کا معنی اس طرح بنتا ہے کہ زمیں سے لیکر آسمان تک کی دوری پانچ سو سال ہے۔ 
ان مختلف مسافت کا علماء نے کئی ایک جواب دیا ہے۔ 
پہلا جواب: سبعین سے مراد کثرت ہے یعنی اللہ تعالی بندے کو جہنم سے بہت دور کردے گا۔ یہ واضح رہے کہ عرب میں سبعین کا استعمال مبالغہ کے لئے ہوتا ہے۔ 
دوسرا جواب: روزے کی مشقت وشدت کے اعتبار سے درجے کا فرق ہے ۔ 
تیسرا جواب: ستر کا سو یا پانچ سو سےکوئی اختلاف نہیں ہے کیونکہ آسمان کی اکثر مسافت پانچ سو ہے جبکہ اقل سترسال ۔اس طرح ستر اور سو پانچ سو میں داخل ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب.

-----------
سوال: میرے دوسوالا ت ہیں:
(۱) ہمارے تبلیغی جماعت والے بھی اکثر دو احادیث کو ملا کر یہ مطلب بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالی کے راستے میں نکلا کر و۔ اس سے نماز کے ثواب 490000000 ( انچاس کروڑ ) ہوجاتے ہیں ۔ اس بار ے میں شریعت کیا فرماتی ہے؟
(۲) کیا تبلیغی جماعت میں جانا اللہ کے راستے میں داخل ہے؟
جواب: بسم الله الرحمن الرحيم
(۱) یہ محض تبلیغی جماعت والوں کا ہی بیان نہیں، بلکہ احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں شراحِ حدیث نے یہ مطلب بیان کیا ہے بذل المجھود في حل أبي داوٴد وغیرہ میں بھی ہے۔
(۲) بلاشبہ داخل ہے، اس سلسلہ میں بہت عمدہ مدلل و مفصل کلام الاعتدال في مراتب الرجال المعروف بـ اسلامی سیاست اردو میں ہے، یہ کتاب دیوبند، دہلی وغیرہ کے کتب خانوں میں عامةً قیمتاً دستیاب ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
-----------------------------------


No comments:

Post a Comment