Friday, 31 May 2019

جزی اللہ محمدا عنا ما ھو اھلہ کی فضیلت

جزی اللہ محمدا عنا ما ھو اھلہ کی فضیلت
سوال: جزی اللہ عنا محمدا ما ھو اھلہ اس حدیث کی نسبت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت نہیں ماہرین حدیث نے اس کو منکر اور ناقابل اعتبار کہا ہے! البتہ حضور اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی تعریف میں بنیت دعاء ان الفاظ کو کہ سکتے ہیں / دیکھیں السلسلة الضعیفة اس حدیث کے متعلق اس قول کے بارے میں آپ حضرات کی کیا رائے ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان فرمائیں۔
جواب:
بسم الله الرحمن الرحيم
اس حدیث کو حضرت شیخ زکریا رحمہ اللہ نے فضائلِ درود میں نقل کیا ہے اور تحریر کیا کہ علامہ سخاوی رحمہ اللہ نے اس کی تخریج میں بڑی تفصیل کی ہے، علامہ سخاوی رحمہ اللہ کی کتاب کا ذکر نہیں کیا جس میں انہوں نے اس حدیث کی تخریج فرمائی، ان کی معروف کتاب ”المقاصد الحسنہ“ میں یہ حدیث نہیں ملی؛ اس لیے علامہ سخاوی رحمہ اللہ نے کیا تحقیق فرمائی وہ نہیں دیکھی جاسکی؛ باقی اتنی بات تو متعدد محدثین نے ذکر کی ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا؛ وفیہ ہانیٴ بن المتوکل وہو ضعیف (مجمع الزوائد: ۱۰/ ۱۶۳، ط: قاہرہ) محدث البانی نے اسی راوی: ہانیٴ بن المتوکل کو بنیاد بناکر اس روایت کو بعض جگہ ”ضعیف جدّاً“ اور بعض جگہ ”منکر“ لکھا ہے؛ لیکن ان کے علاوہ کسی او رمحدث کی طرف سے اس حدیث پر ”منکر“ ہونے کا حکم لگایا گیا ہو تلاش بسیار کے باوجود نہیں ملا؛ اس لیے مزید تحقیق کے بغیر ان کی بات پر پورا اعتماد نہیں کیا جاسکتا، ہجومِ کار کی وجہ سے اس وقت مزید تحقیق مشکل ہے، آئندہ ان شاء اللہ اس کی مزید تحقیق کی جائے گی۔
----------------------
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ قَالَ جَزَى اللهُ مُحَمَّدًا عَنَّا مَا هُوَ أَهْلُهُ أَتْعَبَ سَبْعِينَ كَاتِبًا أَلْفَ صَبَاحٍ»
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے یہ کہا: {جَزَی اﷲُ  مُحَمَّدًا عَنَّا بِمَا هُوَ أَهْلُهُ}‘‘ اللہ تعالیٰ ہماری طرف سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ جزائے خیر عطا فرمائے، جس کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اہل ہیں۔‘‘ تو گویا اس نے ہزار صبحوں تک ستر (ثواب لکھنے والے) فرشتوں کو تھکا دیا‘‘.
اس حدیث کی تحقیق مطلوب ہے (از مولوی اسماعیل نوساری صاحب)۔
الجواب:
یہ حدیث تین اسانید سے وارد ہے:
۱۔  هَانِئ بْن الْمُتَوَكِّلِ قَالَ : حدثنا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ به .
 تخریج :
رواه الطبراني في "المعجم الأوسط" (235) ، وفي "المعجم الكبير" (11509) ، وأبو نُعيم في "الحِلية" (3/206) ، وإسماعيل الأصبهاني في "الترغيب والترهيب" (2/331) ، والخِلَعي في "الفوائد المنتقاة" (2/153) ، والخطيب في "تاريخه" (9/295) .
سند کا درجہ:
اس کی سند میں ہانئ بن متوکل پر امام بن حبان نے جر ح کرتے ہوئے کہا کہ :یہ کثرت سے منکر روایات بیان کرتا ہے، اس لئے قابل ترک ہے ۔[ المجروحین 2/446 رقم1171] ابو حاتم رازی سے ہانئ کے بارے میں دریافت کیا گیا تو کہا : میں نے اس کو پایا ہے، لیکن اس سے کوئی روایت نہیں لکھی۔ [الجرح والتعدیل 9/ 102] لیکن دوسرے مقام پر ابو حاتم نے اس کی روایت بالواسطہ سننے کا تذکرہ کیا ہے، اورمحمد بن عبد اللہ بن الحکم کی تضعیف کورد کرتے ہوئے اس کو معتبر مانا ہے۔ [سؤالات البرذعی 2/729 – 730] حافظ ذہبی نے [میزان الاعتدال 4/291] میں ہانئ کےترجمہ میں اس کی  منکر روایات میں زیر بحث روایت کو شمار کیا ہے ۔البانی نے [ السلسلۃ الضعيفۃ 3/ 192] میں: ضعيف جدا کہا.
تو یہ سند ہانئ بن متوکل کی وجہ سے ضعیف ہوگی۔
۲۔   رِشْدِين بن سَعْد، عَن مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ به .
تخریج: أخرجه محمد بن خلف وكيع في "أخبار القضاة" (3/273)، وقوام السنة في "الترغيب والترهيب" (2/331) .
سند کا درجہ: رشدین بن سعد  بہت سارے ائمہ حدیث کے نزدیک ضعیف ہے، ابن معین ،ابو زرعہ، ابو حاتم، نسائی، جوزجانی، ابن عدی وغیرہم کی جروحات ہیں، لیکن امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ: فضائل کی روایات میں رشدین بن سعد  کا اعتبار کرنا چاہئے۔ [تهذيب الكمال فی أسماء الرجال 9/191]۔
رشدین کی وجہ سے یہ سند سخت ضعیف ٹھیرے گی ۔
۳۔  أحمد بن حَمَّاد، عَن مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ به.
یہ سند امام سخاوی نے (القول البدیع ص 116) میں بحوالہ ابو الیمن بن عساکر کے ذکر کی ہے ، مگر مجھے مکمل سند نہیں ملی ، اور احمد بن حماد کے حالات  بھی نہیں معلوم ، مگر بہر حال وہ معاویہ بن صالح سے روایت کرنے میں ہانئ بن متوکل اور رشدین بن سعد کی متابعت کرتے ہیں کما قال السخاوی۔
شواہد اخری: 
۱۔ فَائِدَةٌ : قَالَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنِ النَّبِيِّ عَلَيْهِ السَّلَامُ أَنَّهُ قَالَ: " «مَنْ أَصْبَحَ وَأَمْسَى قَالَ: اللَّهُمَّ يَا رَبَّ مُحَمَّدٍ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَآلِ مُحَمَّدٍ، وَاجْزِ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا هُوَ أَهْلُهُ ، أَتْعَبَ سَبْعِينَ كَاتِبًا أَلْفَ صَبَاحٍ ، وَلَمْ يَبْقَ لِنَبِيِّهِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَقٌّ إلا أَدَّاهُ ،وَغُفِرَ لِوَالِدَيْهِ وَحُشِرَ مَعَ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ» ". [الحاوي للفتاوي 2/ 50].
۲۔ وروت فاطمة رضي الله عنها أنها قالت : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : من صلى ليلة الأربعاء ست ركعات قرأ في ركعة بعد الفاتحة (قل اللهم مالك الملك) إلى آخر الآية، فإذا فرغ من صلاته يقول : جزى الله محمداً عنا ما هو أهله ، غفر له ذنوب سبعين سنة، وكتب له براءة من النار ۔[ إحياء علوم الدين 1/ 200] قال العراقي في تخريجه: حديث فاطمة (من صلى ست ركعات أي ليلة الأربعاء) ... الحديث ، أخرجه أبو موسى المَديني بسند ضعيف جدا .
۳۔ وروى ابن أبي عاصم في بعض تصانيفه بسند لم أقف عليه عن..... مرفوعاً من قال : اللهم صل على محمد وعلى آل محمد، صلاةً تكونُ لك رضاءً ولحقّه أداء ، وأعطه الوسيلة والمقام المحمود الذي وعدتَه، واجزه عنا ما هو أهله ، وأجزه عنا من أفضل ما جزيت نبياً عن أمته ، وصل على حميع أخوانه من النبيين والصالحين يا أرحم الراحمين . من قالها في سبع جُمَع في كل جمعة سبع مرات وجبت له شفاعتي.[ القول البديع في الصلاة على الحبيب الشفيع ص: 126]
یہ تینوں شواہد باعتبار اسناد کے کافی ضعیف ہیں۔
۴۔ وذكر الامام الذهبي في [تاريخ الإسلام 10/335] في ترجمة محمد بن عثمان ، أبي الفضل القُومساني الهَمَذانيّ، ويُعرف بابن زِيرَك ، مَناماً حسنا فيه استحسانٌ من النبي صلى الله عليه وسلم لهذا الذكر . وأورده السخاوي في ( القول البديع 326 ) وهو هذا:
قَالَ شِيرَوَيْهِ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَكِّيٍّ يقول: سَمِعْتُ أَبَا الْفَضْلِ الْقُومَسَانِيَّ يَقُولُ : أتاني رجلٌ من خُراسان فَقَالَ: إنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أتاني في منامي وأنا في مسجد المدينة، فقال لي: إذا أتيتَ هَمَذانَ فاقرأ على أبي الفضل بن زِيرَك منّي السَّلام. قلت: يا رسول الله، لماذا؟ قال: لأنه يُصلّى عليَّ في كلّ يومٍ مئةَ مرّة.
فقال [الخراساني]: أسألك أن تعلّمنيها. فقلتُ: إنّي أقولُ كل يوم مئة مرّة أو أكثر: اللهمَّ صلَّ على محمد النّبيّ الأُمّيّ وعلى آل محمد، جزى الله محمدًا صلَّى الله عليه وسلّم عنّا ما هو أهله.
فأخذها عنّي، وحلف لي: إنّي ما كنتُ عرفتُك ولا اسمَك حتّى عَرَّفك لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فعرضتُ عليه بِرًّا لأنّي ظنَنْتُه مُتزيِّداً في قوله، فما قبِل منّي وقال: ما كنتُ لأبيع رِسَالَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بعَرَضٍ من الدّنيا. ومضَى فما رأيتُه بعد ذلك.
التأصيل الشرعي
وسئل الشيخ محمد خير الشعَّال : يوجد دعاء متداول وهو (جزى الله عنا سيدنا محمدا ما هو أهله) ما هو الأصل الشرعي لهذا الدعاء وهل هو مستحب أم ماذا؟
الجواب:
بسم الله والحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وبعد:
ثبت عن أسامة بن زيد رضي الله عنه أنه قال: قال رسول الله صلَّى الله عليه وسلَّم: «مَنْ صُنِعَ إِلَيْهِ مَعْرُوفٌ، فَقَالَ لِفَاعِلِهِ: جَزَاكَ اللَّهُ خَيْرًا، فَقَدْ أَبْلَغَ فِي الثَّنَاءِ» [رواه الترمذي].
ومعروفُ النَّبيِّ صلَّى الله عليه وسلَّم أعظمُ معروفٍ قُدِّم إلينا، وأقلُّ ما يُمكننا به ردُّ هذا المعروف هو الدُّعاء ، فقد روى أحمد وأبو داود والنَّسائي وابن حبَّان والحاكم عن ابن عمر رضي الله عنهما أنَّ النَّبيَّ صلَّى الله عليه وسلَّم قال : « مَنْ اسْتَعَاذَ بِاللهِ فَأَعِيذُوهُ، وَمَنْ سَأَلَكُمْ بِاللهِ فَأَعْطُوهُ، وَمَنْ دَعَاكُمْ فَأَجِيبُوهُ، وَمَنْ أَتَى إِلَيْكُمْ مَعْرُوفًا فَكَافِئُوهُ، فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا مَا تُكَافِئُوهُ فَادْعُوا لَهُ حَتَّى تَعْلَمُوا أَنْ قَدْ كَافَأْتُمُوهُ ». انتهى
الخلاصہ: اس درود کا پڑھنا درست ہے مندرجہ ذیل وجوہات کی بناء پر:
۱۔  زیر بحث روایت متعدد ضعیف اسانید سے وارد ہے، بمجموع اسانید اس کے ضعف میں تخفیف ہوسکتی ہے۔
۲۔ اسانید میں کوئی راوی متہم نہیں ہے، اور ضعیف رواۃ آپس میں ایک دوسرے کی متابعت کررہے ہیں، اس لئے روایت کو بے اصل قرار دینا مشکل ہے۔
۳۔ یہ حدیث فضائل اعمال میں ہے، جس میں ضعیف ہونے کے باوجود اعتبار کیا جاتا ہے۔
۴۔ حدیث کے الفاظ میں کوئی بات خلاف شرع یا عقل نہیں، ثواب میں جو بہت زیادہ مبالغہ نظر آتا ہے، وہ درود شریف کے بے شمار فضائل کو مد نظر رکھتے ہوئے بعید نہیں ہے، تو بامیدِ ثوابِ محتمل پڑھنے میں حرج نہیں ہے۔
۵۔ روایت کے دیگر شواھد سے بھی اس کو تقویت ملتی ہے۔
۶۔ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے بے شمار احسانات کا تقاضا یہ ہے کہ :آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جزائے خیر کی دعا کی جائے، اور حضور کی یہ تعلیم  بھی ہے، اور درود شریف کے ذخیرہ میں شاید اس طرح کے الفاظ صرف اسی روایت میں ہیں، تو یہ غنیمت ہے۔
۷۔ اس طرح کا درود مشایخ کے اوراد، وظائف میں بھی موجود ہے۔ واللہ اعلم



No comments:

Post a Comment