Wednesday 30 November 2016

کِس قدر تُم پہ گراں صُبح کی بیداری ہے

ایس اے ساگر
البشائر العشر للمحافظين على صلاة الفجر

*البشارة الأولى*:
● قال النَّبِيِّ ﷺ :"بَشِّرِ الْمَشَّائِينَ فِي الظُّلَمِ إِلَى الْمَسَاجِدِ ، بِالنُّورِ التَّامِّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ". رواه أبو داود والترمذي وصححه الألباني

*البشارة الثانية*:
● قال النَّبِيِّ ﷺ:"رَكْعَتَا الْفَجْرِ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا". رواه مسلم

*البشارة الثالثة*:
● قال النَّبِيِّ ﷺ :"مَنْ خَرَجَ مِنْ بَيْتِهِ إِلَى الْمَسْجِدِ كُتِبَ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ يَخْطُوهَا عَشْرُ حَسَنَاتٍ، وَالْقَاعِدُ فِي الْمَسْجِد يَنْتَظِرُ الصَّلاَةَ كَالْقَانِتِ، وَيُكْتَبُ مِنَ الْمُصَلِّينَ، حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى بَيْتِهِ". أخرجه أحمد

*البشارة الرابعة* :
● قال جل في علاه :"أَقِمِ الصَّلاَةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَى غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُوداً ". الإسراء : ٧٨

*البشارة الخامسة* :
● قال رَسُولُ اللَّهِ ﷺ :"لَنْ يَلِجَ النَّارَ أَحَدٌ صَلَّى قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا، يَعْنِى الْفَجْرَ وَالْعَصْرَ". رواه مسلم

*البشارة السادسة* :
● قال النَّبِيِّ ﷺ :"مَنْ صَلَّى الْعِشَاءَ فِي جَمَاعَةٍ فَكَأَنَّمَا قَامَ نِصْفَ اللَّيْلِ، وَمَنْ صَلَّى الصُّبْحَ فِي جَمَاعَةٍ فَكَأَنَّمَا صَلَّى اللَّيْلَ كُلَّهُ". رواه مسلم

*البشارة الثامنة* :
● قال النَّبِيِّ ﷺ :"مَنْ صَلَّى الْفَجْرَ ثُمَّ جَلَسَ فِي مُصَلاَّهُ، صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَلاَئِكَةُ، وَصَلاَتُهُمْ عَلَيْهِ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ، اللَّهُمَّ ارْحَمْهُ". رواه أحمد

*البشارة التاسعة* :
● قال النَّبِيِّ ﷺ :"مَنْ صَلَّى الْغَدَاةَ الفجر فِي جَمَاعَةٍ، ثُمَّ قَعَدَ يَذْكُرُ اللَّهَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، كَانَتْ لَهُ كَأَجْرِ حَجَّةٍ وَعُمْرَةٍ تَامَّةٍ تَامَّةٍ تَامَّةٍ". رواه الترمذي وصححه الألباني

*البشارة العاشرة* :
● قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : "مَنْ صَلَّى صَلاَةَ الصُّبْحِ فَهْوَ فِي ذِمَّةِ اللَّهِ، فَلاَ يَطْلُبَنَّكُمُ اللَّهُ مِنْ ذِمَّتِهِ بِشَىْءٍ، فَإِنَّهُ مَنْ يَطْلُبْهُ مِنْ ذِمَّتِهِ بِشَىْءٍ يُدْرِكْهُ، ثُمَّ يَكُبَّهُ عَلَى وَجْهِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ". رواه مسلم
شریعت اسلامیہ میں فجر سے مراد وہ نماز ہے جس سے مسلمان اپنے دن کی ابتدا کرتا ہے اور اس کا وقت دوسری فجر (صبح صادق) کے طلوع ہونے سے شروع ہوتاہے۔ لیکن اس کا کیا کیجئے کہ مساجد میں فجر کے وقت بہت کم لوگ آتے ہیں۔ ان میں بھی زیادہ تر جھکی ہوئی کمر والے، بوڑھے لوگ ہوتے ہیں، نوجوان خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں۔ اکثر لوگ رات بھر فضول باتیں کرتے ہیں‘ لچر فلمیں اور ڈرامے دیکھتے ہیں‘ طرح طرح کے گناہ کرتے ہیں۔ اور اللہ رب العزت کی نافرمانی میں مشغول رہتے ہیں۔ ان وجوہ سے وہ فجر کے وقت بڑی غفلت اور غلبے کی نیند سوتے ہیں‘ یوں وہ نماز فجر جیسی عظیم الشان دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ مساجد نمازیوں کی قلت کی وجہ سے نوحہ خواں ہیں۔ اگر مساجد بول سکتیں تو لوگ ان کی اپنے رب کے حضور شکایت اور آہ و زاری ضرور سنتے۔ ڈاکٹر اقبال نے اسی حالت کی طرف اشارہ کیا ہے: 
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نماز ی نہ رہے
فرائض میں تفریق کرنا بہت بڑی غلطی ہے یعنی بعض من پسند احکام اختیار کرنا اور بعض احکام کو مشکل سمجھ کر چھوڑ دینا۔ اسلام تو ایک مسلم سے سب سے پہلا مطالبہ ہی یہ کرتا ہے کہ 
’اُدخُلُوا فِی السِّلمِ کافَّۃً‘ 
یعنی ہمارا دین ہم سے تمام فرائض کی ادائیگی کا متقاضی ہے، اس لیے لازم ہے کہ تمام لوگ فجر میں بھی اسی طرح حاضر ہوں جس طرح جمعۃ کی نماز میں ہجوم در ہجوم شریک ہوتے ہیں۔ 
پانچ نمازوں میں سے سب سے اہم نماز فجر کی ہے جسے ادا کرتے ہی ایک مسلمان اپنے دن کا آغاز کرتا ہے۔ اس لیے اس کا اہتمام نہایت ضروری ہے۔ 
اس کی فضیلت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ ضعیف الایمان شخص اس کی طاقت نہیں رکھتا بلکہ منافقین پر تو اس کی ادائیگی بے حد مشکل ہے۔ جیسا کہ 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم 
کا فرمان ہے: 
’’عشاء اور فجر کی نماز منافقین پر سب سے زیادہ بھاری ہوتی ہے۔‘‘ 
اور فجر کی با جماعت نماز ایک مسلمان کی صداقت اور اس کا ایمان پرکھنے کی کسوٹی ہے۔ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : 
’’ہم اگر فجر اور عشاء کی نماز میں کسی آدمی کو نہ پاتے تو اس کے بارے میں اچھا گمان نہیں رکھتے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسری نمازوں کے اوقات میں آدمی بیدار ہوتا ہے اس لیے دیگر نمازوں کا پڑھنا چنداں دشوار نہیں ہوتا، لیکن فجر اور عشاء کی با جماعت نماز کا اہتمام صرف مؤمن ہی کرتا ہے جس کی بابت خیر و بھلائی کی اُمید کی جاتی ہے۔ فجر کی نماز کی فضیلت اتنی گراں مایہ ہے کہ اسے کماحقہٗ قلمبند نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ اللہ! ذرا اندازہ تو کیجیے کہ فجر کا وقت کتنا رفیع المنزلت اور کس قدر بابرکت ہے کہ خو د اللہ تعالیٰ اہلِ دانش کو خطاب کرتے ہوئے فجر کی قسم اٹھاتا ہے۔ اور فرماتا ہے:
’’قسم ہے فجر کی، اور دس راتوں کی، اور جفت اور طاق کی، اور رات کی جب وہ چلنے لگے، یقیناًان میں عقلمند کے لیے بڑی قسم ہے۔‘‘ 
(الفجر 89:5-1)
پس جس کی عقل اُسے نماز فجر کے ضائع ہونے سے نہیں روکتی، اللہ رب العزت کے فرمان کی رو سے وہ عقل والوں میں شمار نہیں ہو گا۔ 
اللہ کی قسم! ان آیات کا سیاق ان کے لیے، جو غور و فکر کرتے ہیں، صلاۃ فجر کا شوق، اس کا اہتمام اور اس میں رغبت پیدا کرنے کے لیے بے حد اہم ہے۔ تم یقیناًاس میں ایسی روحانی غذا پاؤ گے جو تمھارے دل کو اطمینان بخشے گی اور دل کی سختیوں کو نابود کر دے گی۔ 
فجر اور مغرب کا وقت ایسا ہوتا ہے جس سے دل میں اطمینان اور خشوع پیدا ہوتا ہے۔ یہ اوقات کائنات کے راز، اس کے قانون فطرت میں غور و فکر کرنے کی راہ ہموار کرتے ہیں جس سے انسان میں فہم و فراست کا نُور پیدا ہوتا ہے۔ 
جب زندگی کی راہ کٹھن ہو، خطرات اور آزمائشیں منڈ لا رہی ہوں تو اللہ رب العزت بندۂ مومن کے لیے فجر کی نماز میں سکون و اطمینان کا سامان عطا فرماتا ہے۔ اس نے اپنے پیارے حبیب حضرت محمدؐ سے فرمایا:
پس ان کی باتوں پر صبر کریں اور اپنے پروردگار کی تسبیح اور تعریف بیان کرتے رہیں سورج کے نکلنے سے پہلے اور اس کے ڈوبنے سے پہلے۔‘‘ 
اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کو تلقین فرمائی کہ صبر کریں اس بات پر جو وہ کہتے ہیں، یعنی جو کفر کرتے، انکار کرتے، مذاق اُڑاتے ہیں اور اعراض کرتے ہیں۔ ان کی ان بے ہودہ باتوں کی وجہ سے آپ کے سینے میں تنگی پیدا نہ ہو، نہ آپ کا دل کسی حسرت و درماندگی کا شکار ہو۔ پس آپ اپنے رب کی طرف متوجہ رہیں۔ ’وسبح بحمد ربک۔۔۔‘ 
صبح کی فضا میں دل پر سکون ہوتا ہے اور زندگی کی راہیں آسان اور کشادہ ہوتی ہیں‘ یہی حالت عصر کے وقت بھی طاری ہوتی ہے۔ 
ہمیں چاہیے کہ ہم نہایت التزام و اہتمام سے نماز پنجگانہ ادا کرتے رہیں۔ اس کے لیے ہمیں اوقاتِ صلاۃ کی دم بدم فکر کرنی چاہیے۔ 
نماز فجر کی اس لحاظ سے بڑی اہمیت ہے کہ نبی کریمؐ نے اللہ رب العزت سے اپنی امت کے لیے صبح کے وقت میں برکت عطا کرنے کی دعا فرمائی ہے: ’اللھم بارک لامتی فی بکورھا‘ 
’’اے اللہ! میری امت کے صبح کے وقت میں برکت ڈال دے۔‘‘ 
(صحیح الترغیب: 307/2) 
اس دعا کے نتیجے میں جو شخص اپنے دن کا آغاز نماز فجر سے کرے گا، یقیناًاس کے ہر کام میں اللہ کی طرف سے برکت کی قوی امید ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہؐ کہیں کوئی لشکر روانہ فرماتے تو فجر کے وقت منہ اندھیرے ہی روانہ فرماتے تھے۔ اس حدیث کے راوی سیدنا صخرؓ تاجر ہیں، یہ اپنا تجارتی مال دوسرے علاقوں میں بھیجتے تو صبح صبح ہی بھیجتے، ان کے اس عمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی تجارت میں بڑی برکت ڈال دی اور وہ بڑے خوشحال اور مال دار ہو گئے۔ 
(صحیح الترغیب: 307/2) 
صحیح مسلم میں رسول اللہؐ کا فرمان ہے: 
’’جس نے صبح کی نماز (با جماعت) ادا کی، وہ شخص اللہ کے ذمہ (حفاظت) میں آ گیا پس تم میں سے کسی سے اللہ تعالیٰ اپنے ذمے کے بارے میں کسی چیز کا مطالبہ نہ کرے، پس جس شخص سے اس نے اپنے ذمے کے بارے میں کوئی مطالبہ کر دیا تو وہ اس کو پکڑلے گا اور اوندھے منہ جہنم میں پھینک دے گا۔ ‘‘ 
اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری میں آ جانے سے مراد اس کی حفاظت و نگرانی اور اس کی رعایت میں آ جانا ہے۔ تم جانتے ہو کہ اس کی حفاظت و نگرانی کیا ہے؟ یہ تمام تر اللہ کی رحمت ہے، جب وہ انسان کو اپنے دامن میں ڈھانپ لیتی ہے تو اس کے آلام‘ راحت میں بدل جاتے ہیں، یہ تمام تر اس کا لطف و کرم ہے، جب اللہ رب العزت کا لطف و کرم ہوتا ہے تو وہ آگ کو بھی ٹھنڈا اور سلامتی والا بنا دیتا ہے، وہ اس کی حکمت، غلبہ اور ارادہ ہے جو سب پر غالب ہے اور جب وہ فیصلہ کرتا ہے تو دشمن کو بھی دوست بنا دیتا ہے اور خون خوار شیر کو بھی مہربان کر دیتا ہے۔ 
ایک عربی شاعر نے اس سلسلے میں چند بہترین اشعار کہے ہیں جن کا ترجمہ درج ذیل ہے:
پس اے نوجوان! اگر تجھ کو عورتوں کے فتنے میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے تو تو اپنے دن کا آغاز فجر کی نماز سے کر۔ اللہ تیرا نگہبان و محافظ بن جائے گا۔ 
گھر سے نکلتے ہوئے، اگر تیرا دل ظالم کی ملاقات سے لرزاں ہے تو اپنے دن کا آغاز فجر کی با جماعت نماز کی ادائیگی سے کر۔ اللہ تعالیٰ تیرا محافظ اور ساتھی بن جائے گا۔ 
اگر تیرا دل سفر کے خطرات اور اس کی وحشتوں سے گھبراتا اور لرزتا ہے تو تجھ کو چاہیے کہ اپنے دن کا آغاز فجر کی نماز سے کر تو اللہ کی حفاظت اور اس کی پناہ میں آ جائے گا۔ 
تو اپنی اولاد کے آگ (جہنم) میں جھونکے جانے کے خوف میں مبتلا ہے تو تجھے چاہیے کہ فجر کی نماز وقت پر ادا کر اور اپنے اہل خانہ کو بھی اس کا حکم دے اور اس بات پر استقامت اختیار کر۔ تو اور تیرے اہل خانہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت و نگہبانی میں آ جائیں گے۔ 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
’’جو عشاء میں حاضر ہوا گویا اس نے نصف رات قیام کیا اور جو صبح کی نماز میں حاضر ہوا گویا اس نے تمام رات قیام کیا۔‘‘ 
(مسلم: 1491) 
سیدنا عمر فاروق 
رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: 
’صبح کی باجماعت نماز ادا کرنا میرے نزدیک تمام رات قیام کرنے سے زیادہ محبوب ہے۔‘‘ 
(مؤطا امام مالک: 126/1) 
ہمارے اسلاف عشاء اور فجر کی نمازیں باجماعت پڑھتے تھے، حالانکہ رات کا قیام بھی ان کا معمول تھا، لیکن یہ قیام لیل ان کی ہمتوں کو کبھی پست نہیں کرتا تھا۔ 
صحیح مسلم اور مسند أحمد میں روایت ہے کہ رسولِ کریمؐ نے فرمایا: 
’’طلوع شمس سے پہلے اور غروب شمس سے پہلے نماز ادا کرنے والا جہنم میں ہرگز داخل نہیں ہو گا۔‘‘ 
(مسلم بشرح النووي، کتاب المساجد، مسند أحمد: 136/4) 
گویا فجر اور عصر کی با جماعت نماز کی ادائیگی جہنم کی آگ سے بچاتی ہے۔ یہ 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے۔ اُن کے فرمان سے بڑھ کر سچا اور راحت بخش فرمان اور کس شخص کا ہو سکتا ہے۔۔۔ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: 
’من صلی البردین دخل الجنۃ‘ 
’’جس نے بردین (دو ٹھنڈک والی) نمازیں ادا کیں وہ جنت میں جائے گا۔‘‘ 
(صحیح البخاری: 574) 
بردین سے مراد فجر اور عصر کی نماز ہے۔ برد سے مراد ٹھنڈک ہے۔ ان دو نمازوں کو بردین اس وجہ سے کہا گیا ہے کہ جس وقت ان کی ادائیگی ہوتی ہے اس وقت دن ٹھنڈا ہو جاتا ہے اور سورج کی حرارت کم ہو جاتی ہے۔ 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: 
’’فجر کی دو رکعتیں تمام دنیا سے زیادہ بہتر ہیں۔‘‘ 
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ 
رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز سے پہلے کی دو رکعتوں کے بارے میں فرمایا: 
’’یعنی یہ رکعتیں مجھے دنیا کی ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔‘‘

No comments:

Post a Comment