Saturday, 26 November 2016

’اَیْنَ اللّٰہُ ؟‘

ایس اے ساگر 
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے غلام نافع کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ مدینہ منورہ کے کسی کنارے کی طرف نکلے ۔ آپ رضی اللہ عنہ کے ہمراہ آپ کے چند ساتھی بھی تھے ۔ ساتھیوں نے آپ رضی اللہ عنہ کے کھانے کے لیے دسترخوان بچھایا ۔ اسی دوران وہاں سے ایک چرواہے کا گذر ہوا ۔ حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ نے اس سے کہا:
”چرواہے آؤ آؤ ! اس دسترخوان سے تم بھی کچھ کھا پی لو “ 
چرواہا بولا:”میں روزے سے ہوں“
عبداللہ بن عمررضي الله عنهما نے کہا:
”اس طرح کے سخت گرم دن میں تم روزے کی مشقت برداشت کررہے ہو جبکہ لُو نہایت تیز ہے اور تم ان پہاڑوں میں بکریاں بھی چرا رہے ہو ۔“
چرواہے نے جواب دیا : جی ہاں! میں ان خالی ایام کی تیاری کررہاہوں جن میں عمل کرنے کا موقع نہیں ملے گا ،اسی لیے دنیوی زندگی میں عمل بجا لا رہاہوں ۔ 
عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے چرواہے کے تقوی اور خوف الٰہی کا امتحان لینے کے ارادے سے اس سے کہا : 
کیا تم اس ریوڑمیں سے ایک بکری بیچ سکتے ہو ، ہم تمہیں اس کی نقد قیمت دیں گے ، مزید تمہارے افطار کے لیے گوشت بھی دیں گے ؟ 
چرواہے نے جواب دیا :
”یہ بکریاں کوئی میری نہیں ہیں جو بیچ دوں بلکہ میر ے آقا کی ہیں ، اس لیے میں تصرف نہیں کرسکتا “۔
عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے کہا: تمہارا آقا اگر کوئی بکری کم پائے گا اور تم اس سے کہہ دوگے وہ بکری گم ہوگئی ہے تو وہ کچھ نہیں کہے گا ، کیوں کہ ریوڑ سے ایک دو بکریاں پہاڑوں میں گم ہوتی ہی رہتی ہیں ۔ 
یہ سننا تھا کہ چرواہا حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کے پاس سے چل دیا ، وہ اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھاکر یہ جملہ کہے جا رہا تھا :
أینَ اللّٰہُ 
”پھر اللہ کہا ں ہے ۔ اللہ کہاں ہے؟ “
جب چرواہا چلا گیا تو حضرت عبداللہ بن عمر رضي الله عنهما اس کا یہ جملہ بار بار دہرانے لگے : 
أینَ اللّٰہُ ”پھر اللہ کہا ںہے ۔ اللہ کہاں ہے ؟“
جب حضرت عبداللہ بن عمررضي الله عنهما مدینہ آئے توچرواہے کے آقا کے پاس انہوں نے اپنے آدمی بھیجے اور اس سے بکریاں اور اس چرواہے کو خرید کر اسے آزاد کر دیا اور وہ بکریاں اسے ہبہ کردیں ۔
( شعب الایمان ، للبیھقی (5291) ، اسد الغابة (3082) اس کی سند حسن ہے )
(ماخوذ سنہرے اوراق )
علم فقہ کی روِشنی میں:
اگر کوئی شخص سوال کرے 
’اَیْنَ اللّٰہُ ؟‘
( اللہ کہاں ہے ؟) تو اس کا جواب یہ دینا چاہئے: 
’’ھُوَ مَوْجُوْدٌ بِلَا مَکَانٍ‘‘
کہ اللہ تعالیٰ بغیر مکان کے موجود ہیں۔ یہ اہل السنت والجماعت کا موقف و نظریہ ہے جس پر دلائل ِ عقلیہ و نقلیہ موجود ہیں:
فائدہ:  ’ھُوَ مَوْجُوْدٌ بِلَا مَکَانٍ‘
یہ تعبیراہل علم حضرات کی ہے، اسی لیے طلبہ کو سمجھانے کے لئے
’اللہ تعالی بلا مکان موجو دہے.‘
کہہ دیا جاتا ہے۔ عوام الناس چونکہ ان اصطلاحات سے واقف نہیں ہوتے اس لیے اس عقیدہ کو عوامی ذہن کے پیش نظر ’’اللہ تعالیٰ حاضر ناظر ہے‘‘ یا’’اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے‘‘ سے تعبیر کر دیا جاتا ہے۔
آیاتِ قرآنیہ:
1: وَلِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْافَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ (سورہ بقرہ؛ 115)
ترجمہ :   مشرق و مغرب اللہ تعالیٰ ہی کا ہے ،جس طرف پھر جاؤ ادھر اللہ تعالی کا رخ ہے ۔
2: وَاِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ (سورہ بقرہ؛ 186)
ترجمہ :  جب آپ سے میرے بندے میرے بارے میں پوچھیں تو (کہہ دو کہ ) میں تو تمہارے پاس ہی ہوں۔
فائدہ : عرش بعید ہے کیونکہ ہمارے اوپر سات آسمان ہیں، ان پر کرسی ہے جو سمندر پر ہے اور اوپر عرش ہے۔
(کتاب الاسماء والصفات للامام البیہقی ج 2ص 145)
٭اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰاتٍ۔٭ وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ۔٭ وَ کَانَ عَرْشُہُ عَلَی الْمَآئِ۔
3: یَسْتَخْفُوْنَ مِنَ النَّاسِ وَلَا یَسْتَخْفُوْنَ مِنَ اللّٰہِ وَھُوَ مَعَھُمْ اِذْ یُبَیِّتُوْنَ مَا لَا یَرْضٰی مِنَ الْقَوْلِ۔(النساء:108)
ترجمہ: وہ شرماتے ہیں لوگوں سے اور نہیں شرماتے اللہ سے اوروہ ان کے ساتھ ہے جب کہ مشورہ کرتے ہیں رات کو اس بات کا جس سے اللہ راضی نہیں۔
4: اِنَّ رَبِّیْ قَرِیْبٌ مُّجِیْبٌ(ہود:61)
ترجمہ: بے شک میرا رب قریب ہے قبول کرنے والاہے۔
5: وَاِنِ اھْتَدَیْتُ فَبِمَا یُوْحٰی اِلَیَّ رَبِّیْ اِنَّہٗ سَمِیْعٌ قَرِیْبٌ (سبا:50)
ترجمہ: اور اگر میں راہ پر ہوں تو یہ بدولت اس قرآن کے ہے جس کو میرا رب میرے پاس بھیج رہاہے وہ سب کچھ سنتا ہے ،بہت قریب ہے۔
6: وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ (سورہ ق؛16)
ترجمہ :  ہم اس کی شہ رگ سے زیادہ اس کے قریب ہیں۔
حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی عجیب توجیہ:
حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے اس کی بڑی عجیب توجیہ فرمائی ہے، فرماتے ہیں کہ اللہ بندے کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ اللہ تو ’’لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَئیٌ‘‘ ذات ہے، لیکن میں صرف سمجھانے کے لیے مثال دیتاہوں کہ دو کاغذوں کو جب گوند کے ذریعے جوڑا جاتا ہے تو کاغذاول کاغذ ثانی کے قریب ہوجاتاہے لیکن ان کو جوڑنے والی گوند کاغذ اول کی بنسبت کاغذ ثانی سے زیادہ قریب ہوتی ہے۔انسان کی شہ رگ انسان کے قریب ہے تو اللہ فرما رہے کہ میں انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہوں۔ دو جڑے ہوئے کاغذوں میں سے ایک کاغذ دوسرے کے قریب ہے لیکن گوند دوسرے کاغذ کے زیادہ قریب ہے ،اسی طرح شہ رگ انسان کے قریب ہے لیکن اللہ اس سے زیادہ قریب ہے۔
7: وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْکُمْ وَلٰکِنْ لَّا تُبْصِرُوْنَ (سورہ واقعہ؛85)
ترجمہ :  تم سے زیادہ ہم اس کے قریب ہوتے ہیں لیکن تم دیکھتے نہیں۔
8: وَھُوَ مَعَکُمْ اَیْنَمَا کُنْتُمْ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ (سورہ حدید؛4)
ترجمہ :   تم جہاں کہیں ہو، وہ (اللہ ) تمہارے ساتھ ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس کو دیکھ رہا ہے ۔
فائدہ: جب ہم وہ آیات پیش کرتے ہیں جن میں معیت کا ذکر ہے تو غیرمقلدین کہتے ہیں کہ اس سے’معیت علمیہ‘ مراد ہے مثلاً 
"وَہُوَ مَعَکُمْ ای عِلْمُہُ مَعَکُمْ"
وغیرہ۔
جواب: اولاً ۔۔۔۔معیت علمیہ لازم ہے معیت ذاتیہ کو،جہاں ذات وہاں علم ،رہا غیرمقلدین کا’’اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمَآئِ وَ  الْاَرْضِ الآیۃ (الحج:70)‘‘ وغیرہ کی بناء پر یہ کہناکہ اس سے علم مراد ہے، تو ہم پوچھتے ہیں کہ اس میں ذات کی نفی کہاں ہے؟بلکہ اثباتِ علم سے تو معیت ِذاتیہ ثابت ہوگی بوجہ تلازم کے۔
ثانیاً۔۔۔غیرمقلدین سے ہم پوچھتے ہیں کہ جب ’’اِسْتَوَیٰ عَلَی الْعَرْشِ‘‘یا ’’یَدُاللّٰہِ‘‘ جیسی آیات کو تم ظاہر پر رکھتے ہو،تاویل نہیں کرتے تو یہاں’’وَہُوَ مَعَکُمْ‘‘  [جس میں’’ہو‘‘ ضمیر برائے ذات ہے]جیسی ٓیات میں تاویل کیوں کرتے ہو؟
9: مَا یَکُوْنُ مِنْ نَّجْوَیٰ ثَلٰثَۃٍ اِلَّا ھُوَرَابِعُھُمْ (سورہ مجادلہ؛7)
ترجمہ :   جو مشورہ تین آدمیوں میں ہوتا ہے تو اللہ ان کا چوتھا ہوتا ہے ۔
10: اَاَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَائِ ( سورہ ملک :16)
ترجمہ :  کیا تم کو اس (اللہ تعالی )کا جو آسمان میں ہے، خوف نہیں رہا۔
احادیث مبارکہ :
1: عَنِ ابْنِ عُمَرَ  رضی اللہ عنہ  اَنَّہٗ قَالَ رَاٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم نُخَا مَۃً فِیْ قِبْلَۃِ الْمَسْجِدِ وَھُوَیُصَلِّیْ بَیْنَ یَدَیِ النَّاسِ فَحَتَّھَا ثُمَّ قَالَ حِیْنَ انْصَرَفَ :اِنَّ اِحَدَکُمْ اِذَا کَانَ فِی الصَّلٰوۃِ فَاِنَّ اللّٰہَ قِبَلَ وَجْھِہٖ فَلَا یَتَخَمَّنْ اَحَدٌ قِبَلَ وَجْھِہٖ فِی الصَّلٰوۃِ۔
(صحیح البخاری ج1ص104باب ھل یلتفت لامر ینزل بہ الخ، صحیح مسلم ج1ص207باب النہی عن البصاق فی المسجد الخ)
ترجمہ: حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے قبلہ(کی جانب) میں کچھ تھوک دیکھا اس وقت آپ  صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے آگے نماز پڑھ رہے تھے۔ آپ نے اس کو چھیل ڈالا ۔اس کے بعد جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: 
جب کوئی شخص نماز میں ہوتو اللہ تعالیٰ اس کے سامنے ہوتا ہے‘  لہذا کوئی شخص نماز میں اپنے منہ کے سامنے نہ تھوکے۔
2: عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیْ  رضی اللہ عنہ  یَقُوْلُ: بَعَثَ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مِنَ الْیَمَنِ بِذُھَیْبَۃٍ فِیْ اَدِیْمٍ مَقْرُوْطٍ لَمْ تُحَصَّلْ مِنْ تُرَابِھَا قَالَ فَقَسَمَھَا بَیْنَ اَرْبَعَۃِ نَفَرٍ بَیْنَ عُیَیْنَۃَ بْنِ بَدْرٍ وَاَقْرَعَ بْنِ حَابِسٍ وَزَیْدٍ الْخَیْلِ وَالرَّابِعِ اِمَّا عَلْقَمَۃَ وَاِمَّا عَامِرِ بْنِ الطُّفُیْلِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ اَصْحَابِہٖ کُنَّا نَحْنُ اَحَقُّ بِھٰذَا مِنْ ھٰؤُلَائِ قَالَ فَبَلَغَ ذٰلکَ النبِِّیَّ  صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ :اَلَا تَاْمَنُوْنِیْ وَاَنَا اَمِیْنُ مَنْ فِی السَّمَائِ یَاْتِیْنِیْ خَبَرُ السَّمَائِ صَبَا حًا وَمَسَاء ً الحدیث
(صحیح بخاری ج2ص624باب بعث علی بن ابی طالب الخ ، صحیح مسلم ج1ص341باب اعطاء المؤلفۃ و من یخاف الخ)
ترجمہ:  حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ  نے یمن سے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رنگے ہوئے چمڑے کے تھیلے میں تھوڑا سا سونا بھیجا‘ جس کی مٹی اس سونے سے جدا نہیں کی گئی تھی (کہ تازہ کان سے نکلاتھا)آپ  صلی اللہ علیہ وسلمنے اسے چار آدمیوں عیینہ بن بدر، اقرع بن حابس، زید بن خیل اور چوتھے علقمہ یا عامر بن طفیل کے درمیان تقسیم کردیا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ایک آدمی نے کہا کہ ہم اس سونے کے ان لوگوں سے زیادہ مستحق ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے فرمایا:کیا تمہیں مجھ پر اطمینان نہیں ہے؟ حالانکہ میں اس ذات کا امین ہوں جو آسمان میں ہے۔ میرے پاس صبح وشام آسمان کی خبریں آتی ہیں۔
فائدہ: اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کا آسمان میں ہونا بتلایا گیاہے غیرمقلدین کا عقیدہ کہ اللہ عرش پر ہے اس سے باطل ہوگیا۔
3: عَنِ ابْنِ عُمَر رضی اللہ عنہ  اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ اِذَا اسْتَوَیٰ عَلٰی بَعِیْرِہٖ خَارِجًا اِلٰی سَفَرٍ کَبَّرَ ثَلَاثًا قَالَ: سُبْحَانَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا ہٰذَا وَمَا کُنَّا لَہٗ مُقْرِنِیْنَ وَاِنَّا اِلیٰ رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ‘ اَللّٰھُمَّ نَسْئَلُکَ فِیْ سَفَرِنَا ہٰذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوَیٰ وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضٰی ‘ اَللّٰھُمَّ ھَوِّنْ عَلَیْنَا سَفَرَنَاہٰذَا وَاطْوِعَنَّا بَعْدَہٗ ‘اَللّٰھُمَّ اَنْتَ الصَّاحِبُ فِی السَّفَرِ وَالْخَلِیْفَۃُ فِی الْاَہْلِ الحدیث
(صحیح مسلم ج۱ص۴۳۴ باب استجاب الذکر اذارکب دابۃ)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم جب کہیں سفر پرجانے کے لیے اپنے اونٹ پر سوار ہوتے تو تین بار اللہ اکبر فرماتے پھر یہ دعا پڑھتے :پاک ہے وہ پروردگار جس نے اس جانور(سواری ) کو ہمارے تابع کردیا اور ہم اس کو دبا نہ سکتے تھے اور ہم اپنے پروردگار کے پاس لوٹ جانے والے ہیں۔ یااللہ!  ہم اپنے اس سفر میں تجھ سے نیکی‘ پرہیز گاری اور ایسے کام جسے تو پسند کرے، کا سوال کرتے ہیں۔ اے اللہ !  اس سفر کو ہم پر آسان کردے اور اس کی لمبان کو ہم پر تھوڑا کردے۔ یا اللہ! تو رفیق ہے سفر میںاور خلیفہ ہے گھرمیں۔
4: حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ‘لوگ زور کی آواز سے تکبیریں کہنے لگے تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اِرْبَعُوْاعَلٰی اَنْفُسِکُمْ‘اِنَّکُمْ لَیْسَ تَدْعُوْنَ اَصَمَّ وَلَا غَائِبًا، اِنَّکُمْ تَدْعُوْنَہٗ سَمِیْعاً قَرِیْباً وَھُوَ مَعَکُمْ۔‘‘
(صحیح مسلم؛ ج2ص 346باب استحباب خفض الصوت بالذکر )
ترجمہ: ’’اپنی جانوں پر نرمی کرو! تم بہرے و غائب کو نہیں پکار رہے ، تم جسے پکار رہے ہو وہ سننے والا، قریب اور تمہارے ساتھ ہے‘‘ ۔
5: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے
’’ارْحَمُوْا مَنْ فِی الْاَرْضِ یَرْحَمْکُمْ مَنْ فِی السَّمَائِ۔‘‘                                                                  
(جامع الترمذی ج 2 ص 14 باب ما جاء فی رحمۃ  الناس )
ترجمہ: ’’تم زمین والوں پر رحم کرو، جو آسمان میں ہے وہ تم پر رحم کرے گا۔ ‘‘
فائدہ:  اس حدیث میں اللہ تعالی کا آسمان میں ہونابتلایا گیا ہے ، غیر مقلدین کا عقیدہ کہ اللہ عرش پر ہے ،اس سے باطل ہوگیا۔
6۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان مبارک ہے:
’’لَوْاَنَّکُمْ دَلَّیْتُمْ بِحَبْلٍ اِلَی الْاَرْضِ السُّفْلیٰ لَھَبَطَ عَلَی اللّٰہِ۔‘‘                                               
(جامع الترمذی ج 2 ص 165تفسیر سورۃ حدید )
ترجمہ: اگر تم ایک رسی زمین کے نیچے ڈالو تو وہ اللہ تعالی پر اترے گی ۔
فائدہ :  رسی کا زمین کے نیچے اللہ تعالی پر اترنا دلیل ہے کہ ذات باری تعالی صرف عرش پر نہیں جیسا کہ غیر مقلدین کا عقیدہ ہے بلکہ ہر کسی کے ساتھ موجود ہے ۔
7: عَنْ اَبِی الدَّرْدَائ رضی اللہ عنہ  قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ: مَنِ اشْتَکٰی مِنْکُمْ شَیْئًا اَوِ اشْتَکَاہُ اَخٌ لَّہٗ فَلْیَقُلْ :رَبُّنَا اللہّٰ ُ اَّلذِیْ فیْ السَّمَائِ، تَقَدَّسَ اسْمُکَ ‘اَمْرُکَ فِی السَّمَائِ وَالْاَرْضِ کَمَارَحْمَتُکَ فِی السَّمَائِ فَاجْعَلْ رَحْمَتَکَ فِی الْاَرْضِ‘ اِغْفِرْلَنَا حُوْبَنَا وَخَطَایَا نَا‘اَنْتَ رَبُّ الطَّیِّبِیْنَ ‘اَنْزِلْ رَحْمَۃً مِّنْ رَحْمَتِکَ وَ شِفَائً مِنْ شِفَائِکَ عَٰلی ہٰذَا الْوَجْعِ فَیَبْرَاُ۔
(سنن ابی داؤد ج2ص187باب کیف الرقی)
ترجمہ: حضرت ابوالدرداء  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ میںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا ‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے : تم میں سے جو شخص بیمار ہویا کوئی دوسرابھائی اس سے اپنی بیماری بیان کرے تو یہ کہے کہ رب ہمارا وہ اللہ ہے جو آسمان میں ہے ۔اے اللہ! تیرا نام پاک ہے اورتیرا اختیار زمین وآسمان میں ہے‘ جیسے تیری رحمت آسمان میں ہے ویسے ہی زمین میں رحمت کر۔ ہمارے گناہوں اور خطاؤں کو بخش دے۔ تو پاک لوگوں کا رب ہے ۔اپنی رحمتوں میں سے ایک رحمت اور اپنی شفاؤں میں سے ایک شفاء اس درد کے لیے نازل فرما کہ یہ درد جاتارہے۔
8: حضرت عبداللہ بن معاویہ رضی اللہ عنہ   فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاگیا:
’’فَمَا تَزْکِیَۃُ الْمَرْئِ نَفْسَہٗ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ!‘‘ قَالَ: اَنْ یَعْلَمَ اَنَّ اللّٰہَ مَعَہٗ حَیْثُمَا کَانَ۔
(السنن الکبری للبیھقی ج4ص95،96 باب لایاخذالساعی‘شعب الایمان للبیھقی ج3ص187باب فی الزکوۃ)
ترجمہ: آدمی کے اپنے نفس کا’’تزکیہ‘‘ کرنے سے کیا مرادہے ؟ تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ انسان یہ نظریہ بنا لے کہ وہ جہاں کہیں بھی ہو اللہ اس کے ساتھ ہے۔
9: عَنْ عُبَادَ ۃَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم :اِنَّ اَفْضَلَ الْاِیْمَانِ اَنْ تَعْلَمَ اَنَّ اللّٰہَ مَعَکَ حَیْثُمَا کُنْتَ۔
(المعجم الاوسط للطبرانی ج6ص287رقم الحدیث8796)
ترجمہ: حضرت عبادہ بن صامت  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ افضل ایمان یہ ہے کہ تو یہ نظریہ بنا لے کہ اللہ تیرے ساتھ ہے تو جہاں کہیں بھی ہو۔
10: عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ   رضی اللہ عنہ  قَالَ:قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم :اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ یَقُوْلُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ :یَاابْنَ آدَمَ !مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِیْ ‘قَالَ یَارَبِّ کَیْفَ اَعُوْدُکَ وَاَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ؟ قَالَ :اَمَاعَلِمْتَ اَنَّ عَبْدِیْ فُلَانًا مَرِضَ فَلَمْ تَعُدْہٗ؟ اَمَا عَلِمْتَ اَنَّکَ لَوْعُدْتَّہٗ لَوَجَدْتَّنِیْ عِنْدَہٗ؟
(صحیح مسلم ج 2ص318باب فضل عیادۃ المریض،صحیح ابن حبان ص189،رقم الحدیث269)
ترجمہ:  حضرت ابوہریرۃ  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ عزوجل ارشاد فرمائیں گے :اے ابن آدم! میں بیمار تھا تو نے میری بیمار پرسی نہیں کی۔ بندہ کہے گا میں آپ کی بیمار پرسی عیادت کیسے کرتا؟ آپ تو رب العالمین ہیں۔ تو اللہ فرمائیں گے کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا‘ تو نے اس کی بیمار پرسی نہیں کی۔ تجھے پتا ہے کہ اگر تو اس کی بیمار پرسی کرتا تو مجھے وہاں پاتا۔
عقلی دلائل :
1: اللہ تعالیٰ خالق ہے اور عرش مخلوق ہے ، خالق ازل سے ہے ۔اگر اللہ تعالی کو عرش پر مانا جائے تو سوال پیدا ہوگا کہ جب عرش نہیں تھا تو اللہ تعالیٰ کہاں تھے ؟
2: حقیقتاً مستوی علی العرش ہونے کی تین صورتیں ہیں:
الف: اللہ تعالیٰ عرش کے محاذات میں ہوں گے ۔
ب: عرش سے متجاوز ہوں گے ۔
ج: عرش سے کم ہوں گے ۔
اگر عرش کے محاذات میں مانیں تو عرش چونکہ محدود ہے لہذا اللہ تعالیٰ کا محدود ہونا لازم آئے گا ‘اور متجاوز مانیں تو اللہ تعالیٰ کی تجزی لازم آئے گی اور اگر عرش سے کم مانیں تو عرش  یعنی مخلوق کا اللہ تعالیٰ یعنی خالق سے بڑا ہونا لازم آئے گا ‘جبکہ یہ تینوں صورتیں محال اور ناممکن ہیں۔
3: اللہ تعالیٰ خالق ہیں جوکہ غیر محدود ہیں ، عرش مخلوق ہے جو کہ محدود ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کو عرش پر مانا جائے تو سوال پیدا ہوگا ’’ کیا غیر محدود ، محدود میں سما سکتا ہے ؟‘‘
4: اگر اللہ تعالیٰ کو عرش پر حقیقتاً مانیں تو حقیقی وجود کے ساتھ کسی چیز پر ہونا یہ خاصیت جسم کی ہے اور اللہ تعالی جسم سے پاک ہیں کیونکہ ہر جسم مرکب ہوتا ہے اور ہر مرکب حادث ہوتا ہے‘ جبکہ اللہ تعالیٰ قدیم ہیں ۔
5: اگر اللہ تعالی کو عرش پر مانیں تو عرش اللہ تعالیٰ کے لئے مکان ہوگا اور اللہ تعالیٰ مکین ہوں گے اور ضابطہ ہے کہ مکان مکین سے بڑا ہوتا ہے ، اس عقیدہ سے ’’ اللہ اکبر‘‘ والا  عقیدہ ٹوٹ جائے گا۔
6: اگر اللہ تعالیٰ کا فوق العرش ہونا مانیں تو جہتِ فوق لازم آئے گی اور جہت کو حد بندی لازم ہے اور حد بندی کو جسم لازم ہے جبکہ اللہ تعالیٰ جسم سے پاک ہے ۔
7: اگر اللہ تعالیٰ کو فوق العرش مانیں تو عرش اس کے لئے مکان ہوگا اور مکان مکین کو محیط ہوتا ہے‘ جبکہ قرآن کریم میں ہے :’’وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ مُّحِیْطًا۔‘‘کہ اللہ تعالیٰ  ہر چیز کو محیط ہے۔
چند شبہات اور ان کا ازالہ:
شبہ :1اگر اللہ تعالیٰ کو ہر جگہ مانا جائے تو کیا اللہ تعالیٰ بیت الخلاء میں بھی موجود ہے ؟ اگر کہیں کہ ’’ نہیں‘‘ تو ہر جگہ ہونے کا دعویٰ ٹوٹ گیا اور اگر کہیں ’’ ہے‘‘  تو اللہ تعالیٰ کی بے ادبی ہے ۔
جواب:
1: بعض چیزوں کو اجمالاً بیان کریں تو مناسب اور ادب ہے،اگر تفصیلات بیان کریں تو خلافِ ادب ہے۔ مثلاً سسر اپنے داماد کو کہے: ’’میری بیٹی کے حقوق کا خیال رکھنا ‘‘،تو اجمالاً قول ہونے کی وجہ سے یہ ادب ہے لیکن اگر وہ تمام حقوق ایک ایک کرکے گنوانا شروع کردے تو یہ خلافِ ادب ہے۔’’سر سے لے کر پاؤں تک تمام جسم کا خالق اللہ ہے‘‘ یہ کہنا ادب ہے لیکن تفصیلاً ایک ایک عضو کا نام لے کر یہی بات کہی جائے تو یہ خلافِ ادب ہے۔’’اللہ تعالیٰ ہر جگہ ہے‘‘یہ اجمالاً کہنا تو مذکورہ قاعدہ کی رو سے درست اور ادب ہے لیکن تفصیلاً ایک ایک جگہ کا جس میں ناپسندیدہ جگہیں بھی شامل ہوں، نام لے کر کہا جائے تو یہ بے ادبی ہونے کی وجہ سے غلط ہوگا۔لہذا ایسا سوال کرنا ہی غلط، نامناسب اور ناجائز ہے۔
2: یہ اعتراض تب پیدا ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ کو وجود بمعنی ’’جسم‘‘ کے ساتھ مانیں جیسے قرآن کریم کو بیت الخلاء میں لے کر جانا قرآن کی توہین اور بے ادبی ہے حالانکہ ہر حافظ جب بیت الخلاء جاتا ہے تو قرآن اس کے سینے میں موجود ہوتا ہے لیکن بے ادبی نہیں ، کیونکہ قرآن جسم سے پاک ہے ایسے ہی ہم اللہ تعالیٰ کا جسم ہی ثابت نہیں کرتے تو بے ادبی لازم نہیں آتی ۔
3: رمضان المبارک کا مہینہ ہر جگہ مبارک ہے ۔اگر کوئی شخص پوچھے کہ بیت الخلاء میں رمضان ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں تو ہر جگہ رمضان نہیں، اگر ہے تو بیت الخلاء میں بابرکت کیسے ؟ تو اس کا یہ سوال لغو ہوگا کیونکہ جب رمضان کا جسم نہیں ہے تو ہر جگہ ماننے میں کوئی بے ادبی نہ ہو گی اور یہ ہر جگہ با برکت ہوگا۔ اسی طرح جب اللہ تعالیٰ کا جسم ہی نہیں تو ہر جگہ ماننے میں بے ادبی بھی نہیں۔
شبہ :2 اگر اللہ تعالیٰ کو ہر جگہ مانیں تو اس سے حلول اور اتحاد لازم آئے گا ۔
جواب : حلول اور اتحاد تب لازم آئے گا جب اللہ تعالی کے لئے جسم مانا جائے‘ جبکہ اللہ تعالیٰ جسم سے پاک ہیں۔
فائدہ : دو چیزوں کا اس طرح ایک ہونا کہ ہر ایک کا وجود باقی رہے’’ اتحاد‘‘ کہلاتا ہے جیسے آملیٹ اور دو چیزوں کااس طرح ایک ہونا کہ ایک چیز کا وجود ختم ہو جائے’’ حلول‘‘ کہلاتا ہے  جیسے شربت۔
شبہ:3  جب اللہ تعالیٰ عرش پر نہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہم کلام ہونے کے لئے عرش پر کیوں بلایا؟
جواب:   ہم کلام ہونے کے لئے عرش پر بلانا اگر عرش پر ہونے کی دلیل ہے تو یہودی کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کوہ طور پر ہیں‘ کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وہاں بلایا  تھا۔ کلامِ الہیٰ تجلی ٔالہی کا نام ہے ‘چاہے اس کے ظہور کے لئے انتخاب عرش کا ہو یا کوہ طور کا ہو یا منصور حلاج ؒکی زبان کا ہو۔
شبہ: 4 اگر اللہ تعالیٰ عرش پر نہیں تو بوقت دعا ہاتھ اوپر کیوں اٹھائے جاتے ہیں ؟
جواب:  اللہ تعالیٰ جہت سے پاک ہیں، لیکن بندے کے قلبی استحضار کے لئے بعض اعمال کے لئے بعض جہات کا تعین فرما دیتے ہیں۔ جیسے نماز کے لئے جہتِ کعبہ کو قبلہ قرار دیا ، دعا کے لئے جہتِ فوق کو قبلہ قرار دیا اور نہایت اعلیٰ درجہ کے قرب ِالہی کے حصول کے لئے جہتِ ارض کو قبلہ قرار دیا اور قرآن مجید میں حکم دیا:
’’وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ‘‘
(اور سجدہ کرو اور ہم سے قریب ہو جاؤ)
فائدہ: ہمارا نظریہ ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر سے لگنے والی مٹی کے ذرات کعبہ سے بھی اعلیٰ ہیں۔اس پر غیر مقلد یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اگر یہ  ذرات کعبہ سے بھی اعلیٰ ہیں تو سجدہ کعبہ کی طرف نہ کرو بلکہ روضہ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منہ کر کے کرو۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ ضروری نہیں کہ افضل ہی کو قبلہ بنایا جائے۔ اگر آپ کا یہی اصول ہے تو آپ کے ہاں عرش کعبۃ اللہ سے افضل ہے تو آپ نماز میں اپنا منہ عرش کی طرف کیوں نہیں کر لیتے؟؟
فائدہ:  کعبہ مرکزِ عبادت ہے  اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم مرکزِعقیدت ہے۔
شبہ5:  اگر اللہ تعالیٰ اوپر عرش پر نہیں تو عموماً اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کرنے کے لئے اوپر کی طرف اشارہ کیوں کیا جاتا ہے ؟
جواب :  اللہ تعالیٰ جہاتِ ستہ سے اگرچہ پاک ہیں‘ لیکن تمام جہات کو محیط بھی ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شّیْئٍ مُّحِیْطًا (سورہ نساء ؛126) اللہ تعالیٰ ہر چیز کو محیط ہے‘ اور جہاتِ ستہ میں سے جہت ِعلو کو باقی جہات پر عقلاً فوقیت حاصل ہے ۔ اس لئے علوِ مرتبہ اور تعظیم کا خیال کرتے ہوئے اشارہ اوپر کیا جاتا ہے۔ جیسے استاد کی آواز دورانِ سبق تمام جہات کی طرف منتقل ہوتی ہے لیکن استاد کے سامنے بیٹھ کر آواز کو سننا ادب ہے اور پیچھے بیٹھ کر سننا بے ادبی ہے ۔ اللہ کریم دین کا صحیح فہم عطا فرمائے۔

No comments:

Post a Comment