السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مفتیاں حضرات،
ایک سوال ہے ہمارے اساتذہ بدھ کو کتابیں شروع کر دیتے ہیں، اس کے بارے میں کوئی حوالہ چاہئے.
ایک سوال ہے ہمارے اساتذہ بدھ کو کتابیں شروع کر دیتے ہیں، اس کے بارے میں کوئی حوالہ چاہئے.
ما من امر يبدأ في الْيَوْمَ الأربعاء الا تم
اس حدیث سے استدلال کر کے بدھ کو پڑھائی شروع کرتے ہیں جو کہ جائز ہے بس، سنت تو نہیں ہے اور نہ مستحب، بزرگوں کا عمل ہے بس.
بدھ کے دن کام شروع کرنے کی حدیث کی تحقیق:
سوال:بدھ کے دن کسی کام شروع کرنے کی حدیث کی فنی حیثیت کیا ہے؟
جواب:المقاصد الحسنۃ میں ہے:
ما بدء بشیء یوم اربعاء الّا تم ،لم أقف لہ علی اصل و لکن ذکر برھان الاسلام فی کتابہ تعلیم المتعلم من شیخہ المرغینانی صاحب الھدایۃ فی فقہ الحنفیۃ انہ کان یوقف بدایۃ السبق علی یوم الاربعاء و کان یروی بذلک بحفظہ و یقول قال رسول اﷲا ما من شیء بدء یوم الاربعاء الا و قد تم،قال و ھکذایفعل ابی فیروی ھذا الحدیث باسنادہ عن القوام احمد بن عبد الرشید انتھی،و یعارضہ حدیث جابرؓ مرفوعاً!یوم الاربعاء یوم نحس مستمر اخرجہ الطبرانی فی الاوسط،و نحوہ ما یروی عن ابن عباس ؓ انہ لا اخذ فیہ و لا عطاء و کلھا ضعیفۃ و بلغنی عن بعض الصالحین ممن لقیناہ انہ
قال شکت الاربعاء الی اﷲ سبحانہ تشاؤم الناس بھا فمنحھا انہ ما ابتدیٔ بشیء فیھا الا تمّ۔(المقاصد الحسنۃ ۳۶۴ /۹۴۳،وکذا فی الاسرار المرفوعۃ ص۲۹۴/۴۰۱،وھکذا فی کشف الخفاء ۲/۱۸۱/۲۱۹۱ و فی الموضوعات الکبیر ص۱۰۳،حرف المیم)
نیز الاسرار المرفوعۃ میں ہے:
لکن یروی عن عائشۃ ؓقالت:ان احب الایام الیّ یخرج فیہ مسافری و انکح فیہ و اختن فیہ صبییّ یوم الاربعاء۔(الاسرار المرفوعۃ ص۳۷۹)
الفوائد البھیۃ میں صاحبِ ہدایہ سے نقل کردہ روایت کے بارے میں مذکور ہے:
قال الجامع:الحدیث الذی رواہ صاحب الھدایۃ قد تکلم فیہ المحدثون حتی قال بعضھم انہ موضوع۔(الفوائد البھیۃ۲۴)
ظفر المحصلین میں ہے:
مولاناعبد الحی ؒفرماتے ہیں کہ میں نے اس حدیث کے لئے ایک اصل تلاش کی ہے وہ یہ کہ امام بخاری ؒ نے ’’ الادب المفرد ‘‘ میں ،امام احمد ؒو بزار ؒ نے حضرت جابرؓسے روایت کی ہے کہ آنحضرت انے مسجد ِ فتح میں پیر،منگل اور بدھ تین دن دعا کی اور بدھ کے روز ظہر او ر عصر کے درمیان دعاء مقبول ہوئی ۔حضرت جابر ص فرماتے ہیں کہ مجھے جب بھی کوئی امرِمہم در پیش ہوا تو میں نے بدھ کے دن ظہر اور عصر کے ما بین دعاء کی اور وہ مقبول ہوئی۔
....
قال ابن القيم رحمه الله :
الرِّضا بالقضاء من أسباب السّعادة والتّسخُّط ُعلى القضاءِ من أسباب الشّقاوة .
*[مدارج السالكين (2/201)*
قضا و قدر پر راضی ہونا سعادت (خوشی ) کے اسباب میں سے ہے جبکہ اس سے ناراض ہونا پریشانیوں کے اسباب میں سے ہے۔۔۔
.....
ملاحظہ ہومجمع الزوائد میں ہے:
اس حدیث سے استدلال کر کے بدھ کو پڑھائی شروع کرتے ہیں جو کہ جائز ہے بس، سنت تو نہیں ہے اور نہ مستحب، بزرگوں کا عمل ہے بس.
بدھ کے دن کام شروع کرنے کی حدیث کی تحقیق:
سوال:بدھ کے دن کسی کام شروع کرنے کی حدیث کی فنی حیثیت کیا ہے؟
جواب:المقاصد الحسنۃ میں ہے:
ما بدء بشیء یوم اربعاء الّا تم ،لم أقف لہ علی اصل و لکن ذکر برھان الاسلام فی کتابہ تعلیم المتعلم من شیخہ المرغینانی صاحب الھدایۃ فی فقہ الحنفیۃ انہ کان یوقف بدایۃ السبق علی یوم الاربعاء و کان یروی بذلک بحفظہ و یقول قال رسول اﷲا ما من شیء بدء یوم الاربعاء الا و قد تم،قال و ھکذایفعل ابی فیروی ھذا الحدیث باسنادہ عن القوام احمد بن عبد الرشید انتھی،و یعارضہ حدیث جابرؓ مرفوعاً!یوم الاربعاء یوم نحس مستمر اخرجہ الطبرانی فی الاوسط،و نحوہ ما یروی عن ابن عباس ؓ انہ لا اخذ فیہ و لا عطاء و کلھا ضعیفۃ و بلغنی عن بعض الصالحین ممن لقیناہ انہ
قال شکت الاربعاء الی اﷲ سبحانہ تشاؤم الناس بھا فمنحھا انہ ما ابتدیٔ بشیء فیھا الا تمّ۔(المقاصد الحسنۃ ۳۶۴ /۹۴۳،وکذا فی الاسرار المرفوعۃ ص۲۹۴/۴۰۱،وھکذا فی کشف الخفاء ۲/۱۸۱/۲۱۹۱ و فی الموضوعات الکبیر ص۱۰۳،حرف المیم)
نیز الاسرار المرفوعۃ میں ہے:
لکن یروی عن عائشۃ ؓقالت:ان احب الایام الیّ یخرج فیہ مسافری و انکح فیہ و اختن فیہ صبییّ یوم الاربعاء۔(الاسرار المرفوعۃ ص۳۷۹)
الفوائد البھیۃ میں صاحبِ ہدایہ سے نقل کردہ روایت کے بارے میں مذکور ہے:
قال الجامع:الحدیث الذی رواہ صاحب الھدایۃ قد تکلم فیہ المحدثون حتی قال بعضھم انہ موضوع۔(الفوائد البھیۃ۲۴)
ظفر المحصلین میں ہے:
مولاناعبد الحی ؒفرماتے ہیں کہ میں نے اس حدیث کے لئے ایک اصل تلاش کی ہے وہ یہ کہ امام بخاری ؒ نے ’’ الادب المفرد ‘‘ میں ،امام احمد ؒو بزار ؒ نے حضرت جابرؓسے روایت کی ہے کہ آنحضرت انے مسجد ِ فتح میں پیر،منگل اور بدھ تین دن دعا کی اور بدھ کے روز ظہر او ر عصر کے درمیان دعاء مقبول ہوئی ۔حضرت جابر ص فرماتے ہیں کہ مجھے جب بھی کوئی امرِمہم در پیش ہوا تو میں نے بدھ کے دن ظہر اور عصر کے ما بین دعاء کی اور وہ مقبول ہوئی۔
....
قال ابن القيم رحمه الله :
الرِّضا بالقضاء من أسباب السّعادة والتّسخُّط ُعلى القضاءِ من أسباب الشّقاوة .
*[مدارج السالكين (2/201)*
قضا و قدر پر راضی ہونا سعادت (خوشی ) کے اسباب میں سے ہے جبکہ اس سے ناراض ہونا پریشانیوں کے اسباب میں سے ہے۔۔۔
.....
ملاحظہ ہومجمع الزوائد میں ہے:
عن جابرصیعنی ابن عبد اﷲ أن النبیادعا فی مسجد الفتح ثلاثا یوم الاثنین و یوم الثلثاء و یوم الأربعاء فاستجیب لہ یوم الأربعاء بین الصلاتین فعرف البشر فی وجھہ قال جابرص فلم ینزل بی أمر مھم غلیظ الا توخیت تلک الساعۃ فأدعو فیھا فأعرف الاجابۃ۔رواہ أحمد و البزار و رجال أحمد ثقات۔ (مجمع الزوائد۴/۱۲باب فی مسجد الفتح)
ظفر المحصلین میں استحباب ِ دعا کے لئے بدھ کے دن ظہر اور عصر کے درمیان کا وقت لکھا ہے ۔
اور تفسیر منیر لوھب زحیلی میں ہے:و مواقیت الدعاء وقت الاسحار و الفطر و ما بین الأذان والاقامۃ وما بین الظھر والعصرفی یوم الأربعاء۔ (تفسیر منیر۱/۱۵۵)
علامہ سیوطی نے’’ سھام الاصابۃ فی الدعوات المستجابۃ ‘‘ میں تحریرکیا ہے کہ اس کی اسناد جید ہیں ۔نور الدین علی بن احمد سمہودی نے’’ وفاء الوفاء باخبار دار المصطفی ‘‘ میں اس حدیث کو مسند احمد کی طرف منسوب کر کے لکھا ہے کہ اس کے راوی ثقہ ہیں پس اس حدیث سے یہ نکلا کہ بدھ کے روز میں ایک مستجاب ساعت ہے اسی لئے علماء نے بدھ کے روز اسباق کی ابتداء کو بہتر خیال کیا ہے۔علاوہ ازیں صحیح روایت سے ثابت ہے کہ حق تعالیٰ نے بدھ کے روز نور کی تخلیق کی ہے اور ظاہر ہے کہ علم سراسر نور ہے۔فیقاس لتمامہ ببدایتہ اذ یأبی اﷲ الا ان یتم نورہ۔(ظفر المحصلین ۱۹۳)واللہ اعلم
ظفر المحصلین میں استحباب ِ دعا کے لئے بدھ کے دن ظہر اور عصر کے درمیان کا وقت لکھا ہے ۔
اور تفسیر منیر لوھب زحیلی میں ہے:و مواقیت الدعاء وقت الاسحار و الفطر و ما بین الأذان والاقامۃ وما بین الظھر والعصرفی یوم الأربعاء۔ (تفسیر منیر۱/۱۵۵)
علامہ سیوطی نے’’ سھام الاصابۃ فی الدعوات المستجابۃ ‘‘ میں تحریرکیا ہے کہ اس کی اسناد جید ہیں ۔نور الدین علی بن احمد سمہودی نے’’ وفاء الوفاء باخبار دار المصطفی ‘‘ میں اس حدیث کو مسند احمد کی طرف منسوب کر کے لکھا ہے کہ اس کے راوی ثقہ ہیں پس اس حدیث سے یہ نکلا کہ بدھ کے روز میں ایک مستجاب ساعت ہے اسی لئے علماء نے بدھ کے روز اسباق کی ابتداء کو بہتر خیال کیا ہے۔علاوہ ازیں صحیح روایت سے ثابت ہے کہ حق تعالیٰ نے بدھ کے روز نور کی تخلیق کی ہے اور ظاہر ہے کہ علم سراسر نور ہے۔فیقاس لتمامہ ببدایتہ اذ یأبی اﷲ الا ان یتم نورہ۔(ظفر المحصلین ۱۹۳)واللہ اعلم
فتاوی دارالعلوم زکریا
نقلہ العبد محمد عفی عنہ
No comments:
Post a Comment