Tuesday 29 November 2016

اَللّٰھُمَّ خَالِف بَینَ کَلِمَتِھِم

ایس اے ساگر

ان دنوں امت کو ہر طرف سے مصائب اور دشواریوں کا سامنا ہے. گذشتہ روز حسن تو حید قاسمی، رکن دارالعلوم وقف دیو بند کے حوالہ سے اطلاع موصول ہوئی ہے کہ پانچ سو اور ایک ہزار کے نوٹوں کو بند کئے جانے سے ملک میں پیدا ہونے والے معاشی بحران میں بیس دن گذر جانے کے باوجود خاطر خواہ بہتری نہیں آئی ہے اور حالات سے ایسا اندازہ لگا یا جارہا ہے کہ جلدی معمولات پٹری پر لوٹ بھی نہیں پائینگے ۔ نوٹ بندی سے جہاں، عام آدمی، تجارتی مراکز اور چھوٹی بڑی صنعتیں مکمل طورپر تنزلی طرف چلی گئی وہیں ام المدارس دارالعلوم دیوبند کا تعلیمی نظام الحمداللہ معمولات کے مطابق جاری وساری ہے لیکن وقتی پریشانیوں اور بینکا ر اہلکاروں کے نارواسلوک سے یہ الہامی ادارہ بھی پوری طرح متاثرہے۔ ادارہ نے جہاں موجودہ حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے تمام تعمیراتی کاموں کو بند کردیا ہے وہیں ملک بھر سے تمام سفراء کو بھی واپس بلالیا گیاہے۔گزشتہ 8؍ نومبر کو پانچ سو اور ایک ہزار کے نوٹوں کی بندی کے بعد پورے ملک میں اقتصادی بحران کی کیفیت پیدا ہوگئی ،جس کا اثر یقینی طورپر ازہر ہند دارالعلوم دیوبند اور اس کے جیسے اداروں بر بھی پڑا۔ دارالعلوم دیوبند کے محاسبی اور تنظیم و ترقی محکمہ کے کارکنان مسلسل بینکوں کے چکر کاٹ رہے ہیں لیکن انہیں بھی وہی رقومات فراہم کرائی جارہی ہیں جس کی ہدایت آر بی آئی کی طرف ایک عام آدمی کے لئے ہے،یعنی ایک کھاتہ سے ہفتہ بھر میں محض چوبیس ہزار روپے ہی دیئے جارہے ہیں، کئی بینکوں کا عالم تو یہ ہے وہ ادارے کے کارکنان کے ساتھ بدسلوکی تک کررہے ہیں، جس سے عوام میں سخت غم و غصہ ہے۔ دارالعلوم دیوبند جیسے کروڑوں کے بجٹ والے ادارے کو گزشتہ بیس یوم میں اپنے بینک کھاتوں سے محض تین لاکھ روپے کی ہی آمد ہوئی ہے۔ دارالعلوم دیوبند میں بشمول تنخواہیں نو سے دس لاکھ روپے تک کے یومیہ اخراجات ہیں لیکن بینک کھاتوں سے ملنے والی حکومت کی جانب سے مختص کردہ رقم اس ضخیم بجٹ کے سامنے اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے، باوجوداس کے الحمد اللہ ادارے میں تمام علمی سرگرمیاں اور مطبخ کا نظام معمول کے مطابق جاری ہیں۔ لیکن اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس وقت ادارہ کے ذمہ داران شدید مشکلات سے گذر رہے ہیں اور ان کے سامنے مسائل کاانبار ہے، جہاں ادارہ میں یومیہ دہاڑی لگانے والے اجیران کو ان کا محنتانہ دینے میں دقتیں پیش آرہی ہیں وہیں تقریباً پانچ سو سے زائد ملازمین و کارکنان کی تنخواہیں دینے کا مسئلہ بھی پیدا ہوگیا، حالانکہ انتظامیہ نے پہلی فرصت میں دانشمندانہ قدم اٹھاتے ہوئے سرکولر جاری کرکے تمام اساتذہ اورکارکنان کے سیلری اکاؤنٹ ایچ ڈی ایف سی بینک میں کھلوا دیئے ہیں اور وظیفہ حاصل کرنے والے طلباء کو بینکوں میں کھاتے کھلوانے کی ہدایت دے دی ہے۔ تاہم ملک بھر سے تمام سفراء کو واپس بلا لیا گیا ہے اور نوٹ بندی کے بعد ادارہ کے دفتر تنظیم و ترقی کی آمدنی نہ کے برابر ہوگئی ہے۔ حالانکہ تعمیرات پر اس وقت مکمل طریقہ سے روک لگا دی گئی ہے لیکن ضروری اخراجات بشمول مہمانوں کی آمدورفت، مطبخ اور طلباء و کارکنان کی بنیادی ضروریات کو تکمیل میں شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے نائب مہتمم مولانا عبدالخالق سنبھلی کے مطابق دارالعلوم دیوبند کی تمام ضروریات اللہ کی رحمت اور بہی خواہان کے تعاون سے پوری ہوتی ہیں اور انشاء اللہ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ انھوں نے کہا کہ نوٹ بندی کے سبب وقتی پریشانیاں آرہی ہیں، جس کے سبب ادارہ اپنے ہی کھاتوں سے ضرورت کے مطابق رقم نہیں نکال پارہاہے، لیکن انتظامیہ مسلسل بینکوں کے رابطہ میں ہے تاکہ کھاتوں سے ضرورت کے مطابق رقم حاصل ہوسکے، انھوں نے کہا کہ بہر حال وقتی طورپر ادارہ کے سامنے بڑے مسائل ضرور پیدا ہوگئے ہیں لیکن امید ہے کہ اللہ تعالیٰ غائبانہ طور پر ادارے کے تمام مسائل حل فرمائینگے۔ ادھر دارالعلوم وقف دیوبند، مظاہر علوم سہارنپور، دارلعلوم زکریادیوبند، جامعہ امام محمد انور شاہ، جامعۃ الشیخ جیسے اداروں کاحال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ہم تمام بہی خواہان سے اپیل کرتے ہیں کہ اس نازک گھڑی میں دارالعلوم دیوبند جیسے اداروں کی بڑھ چڑھ کر معاونت کریں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی صورتحال میں کیا دعائے قنوت کا اہتمام نہیں کیا جانا چاہئے؟

کن صورتوں میں پڑھی جاتی ہے قنوت نازلہ؟

اہل علم حضرات کے نزدیک قنوتِ نازلہ پڑھنے کے مواقع حسب ذیل ہیں؛
١. جب مسلمانوں پر کوئی عام اور عالمگیر مصیبت نازل ہو جائے مثلاً غیر مسلم حکومتوں کی طرف سے حملہ اور تشدد ہونے لگے اور دنیا کے سر پر خوفناک جنگ چھا جائے یا دیگر بلائوں اور بربادیوں اور ہلاکت خیز طوفانوں میں مبتلا ہو جائے یا طاعون کی وبا پھیل جائے تو ایسی مصیبت کے دفعیہ کے لئے فرض نمازوں میں قنوتِ نازلہ پڑھی جائے اور جب تک وہ مصیبت دفع نہ ہو جائے یہ عمل برابر جاری رہے اس کا جواز جمہور ائمہ کے نزدیک عموماً اور حنفیہ کے نزدیک خصوصاً باقی ہے اور منسوخ نہیں ہے اور اس کے ساتھ توبہ و استغفار کی کثرت اور ہر قسم کے گناہوں سے پرہیز اور حقوق العباد کی ادائگی کا پورا پورا لحاظ رکھیں اور ہر بات میں شرعیتِ مقدسہ کی پابندی کا خیال رکھیں اور اخلاص و خشوع و خضوع سے دعا کریں اللّٰہ پاک اس .عام بلا و مصیبت سے نجات عطا فرمائے گا وما ذلک علی اللّٰہ بعزیز
٢. احناف کی نزدیک تین جہری نمازوں میں قنوتِ نازلہ کا پڑھنا مذکور ہے دیگر ائمہ خصوصاً شافعی پانچوں نمازوں میں اس کو جواز کے قائل ہیں اس لئے پانچوں نمازوں میں پڑھنے والوں پر اعتراض نہ کیا جائے
٣. اولٰی مختار یہ ہے کہ قنوتِ نازلہ رکوع کے بعد پڑھی جائے پس فجر کی دوسری رکعت ، مغرب کی تیسری رکعت اور عشا کی چوتھی رکعت میں رکوع کے بعد سمع اللّٰہ لمن حمدہ کہہ کر امام دعائے قنوت پڑھے اور مقتدی آمین کہتے رہیں دعا سے فارغ ہو کر اللّٰہ اکبر کہہ کر سجدے میں جائیں اگر دعائے قنوت مقتدیوں کو یاد ہو تو بہتر یہ ہے کہ امام بھی آہستہ پڑھے اور سب مقتدی بھی آہستہ پڑھیں اور اگر مقتدیوں کو یاد نہ ہو تو بہتر یہ ہے کہ امام دعائے قنوت جہر سے پڑھے اور سب مقتدی آہستہ سے آمین کہتے رہیں دعائے قنوت کے وقت ہاتھ ناف پر باندھے رہیں یہی اولٰی ہے اور اگر ہاتھ چھوڑ کر پڑھیں یا دعا کی طرح سینے کے سامنے ہاتھ اٹھا کر پڑھیں تب بھی جائز ہے
٤. دعائے قنوتِ نازلہ جماعت کے ساتھ فرض نماز میں پڑھی جائے منفرد نہ پڑھے،

کہاں سے ہے ثابت؟

مولانا  ابوالکلام شفیق القاسمی المظاہری‏، استاذ دارالعلوم زکریا، دیوبند رقمطراز ہیں کہ حضرت اقدس مفتی محمودحسن گنگوہی رحمہ اللہ متوفی۱۴۱۷ھ کی مجلس میں بندہ موجود تھا، میں نے عرض کیا کہ ہم جو دعاء قنوت پڑھتے ہیں کس کتاب میں ہے؟ حضرت رحمة اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا الحزبُ الاعظم میں، میں نے عرض کیا کہ حدیث کی کس کتاب میں ہے؟ ارشاد فرمایا: ملا علی قاری نے لکھا ہے، میں نے الحزب الاعظم میں حدیث سے ثابت شدہ دعائیں جمع کی ہیں، حافظ طیب صاحب زیدمجدہم (مکتبہ نعمانیہ دیوبند) پابندی سے بعد نماز عصر حضرت کی مجلس میں شرکت کرتے تھے اور حضرت سے سوالات کرتے رہتے تھے، انھوں نے عرض کیا کہ حضرت ان کا مقصود یہ ہے کہ حدیث کی کتابوں میں سے کس کتاب میں یہ دعاء ہے؟ حضرت رحمة اللہ علیہ نے مصنف ابن ابی شیبہ یا مصنف عبدالرزاق کا حوالہ دیا تھا۔
          چونکہ یہ سوال اور بھی دوستوں کے دل میں آتا رہتا ہے، خیال ہوا کہ ان احادیث کو جمع کردوں، علامہ ابن منظور متوفی (۷۱۱) لکھتے ہیں:
          القنوت کے معنی ہیں: بات چیت سے رک جانا اور کہا گیا ہے کہ اس کے معنی نماز میں دعا کرنے کے ہیں، نیز القنوت کے معنی خشوع اختیار کرنا عبودیت کا اقرار کرنا اور ایسی فرمانبرداری کرنا جس میں نافرمانی نہ ہو اور کہا گیا کہ اس کے معنی کھڑے ہونے کے ہیں۔ ثعلب کہتے ہیں کہ قنوت کے اصلی معنی کھڑا ہونے کے ہیں اور کہا گیا کہ دیر تک کھڑا ہونے کو قنوت کہتے ہیں۔ قرآن کریم میں ہے:
اللہ کے لئے دیر تک کھڑے رہو۔
          ابوعبیدہ نے کہا کہ قنوت کے اصلی معنی کئی ہیں:
          (۱) کھڑا ہونا، اس سلسلے میں حدیثیں وارد ہوئی ہیں؛ کیونکہ اس میں کھڑے ہوکر دعا کی جاتی ہے، اس سے زیادہ واضح حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیاگیا کہ کون سی نماز افضل ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس میں قیام لمبا ہو۔
           نمازی کو قانت کہا جاتا ہے، حدیث میں ہے، مجاہد کی مثال نمازی اور روزے دار کی طرح ہے، حدیث میں ہے کہ ایک گھڑی غور وفکر کرنا رات بھر کھڑے ہوکر عبادت کرنے سے افضل ہے۔ قنوت کا لفظ حدیثوں میں متعدد معانی کے لئے آیا ہے۔ مثلاً فرمانبرداری، خشوع، نماز، دعا، قیام، لمباقیام خاموشی اختیار کرنا؛ چنانچہ حسب موقع ان معانی کا استعمال حدیثوں میں کیاگیاہے۔ ابن سیدہ نے کہا: قنوت کے اصلی معنی اطاعت کے ہیں، اللہ کا ارشاد ہے فرمانبردار مرد فرمانبردار عورتیں، پھر نماز میں کھڑے ہونے کو قنوت کہا گیا اور اسی میں سے وتر کا قنوت قنت اللّٰہ یقنتہ کہا جاتا ہے کہ اس نے اللہ کی اطاعت کی اللہ کا ارشاد ہے: سب کے سب اس کے فرمانبردار ہیں۔ القانت کے معنی ہیں؛ اللہ کا ذکر کرنے والا اللہ پاک کا ارشاد ہے: بھلا وہ جو بندگی میں لگا ہوا ہے رات کی گھڑیوں میں سجدہ کرتے ہوئے۔ اور کہا گیا کہ القانت کے معنی عابد کے ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وہ عبادت گذار عورتوں میں تھیں، لغت میں مشہور یہ ہے کہ قنوت کے معنی دعا کے ہیں۔
          قانت کے حقیقی معنی اللہ کے حکم کو کرنے والا، دعا کرنے والا۔ جب کھڑا ہوتو اس کے ساتھ اس کو خاص کردیا جاتا ہے اور اس کو قانت کہا جاتا ہے؛ کیونکہ وہ اللہ کا ذکر کھڑے ہوکر کرتا ہے، قنوت کی حقیقت عبادت اور کھڑے ہوکر اللہ سے دعا مانگنے کی ہے۔ تمام عبادتوں پر بھی اس کا اطلاق ہوسکتا ہے؛ کیونکہ عبادتیں اگرچہ سب کی سب قیام کی حالت میں نہیں ہوتیں؛ لیکن کم از کم نیت کے ساتھ بالارادہ ان کو کیا جاتا ہے، اس پر قنوت کا اطلاق کیا جاتا ہے۔(لسان العرب۲/۷۳)
          علامہ شامی نے لکھا ہے کہ دعاء القنوت یہ اضافتِ بیانیہ ہے۔ یعنی قنوت کے معنی بھی دعا کے ہیں اور کلام عرب میں اس طرح بولا جاتاہے۔
          قنوت کا وتر میں اور فرض نمازوں میں پڑھنے کا تذکرہ احادیث سے ثابت ہے۔
          برصغیر میں فرض نمازوں میں پڑھے جانے والے قنوت کو قنوتِ نازلہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ حنفیہ جس قنوت کو پڑھتے ہیں وہ سند کے ساتھ مندرجہ ذیل کتابوں میں ہے:
          (۱)      مصنف عبدالرزاق متوفی ۲۱۱ھ
          (۲)      مصنف ابن ابی شیبہ متوفی ۲۳۵ھ
          (۳)     المراسیل لابی داؤد سجستانی متوفی ۲۷۵ھ
          (۴)     مختصر قیام اللیل محمد بن نصر المروزی ۲۹۴ھ
          (۵)      شرح معانی الآثار امام طحاوی رحمة اللہ علیہ ۳۲۱ھ
          (۶)      الدعاء للطبرانی ۳۶۰ھ
          (۷)     الدعوات الکبیر للبیہقی ۴۵۸ھ
          (۸)     السنن الکبریٰ ۴۵۸ھ
          (۹)      کنزالعمال المتقی الہندی ۹۷۵ھ
          مندرجہ ذیل صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے حنفیہ کا قنوت مروی ہے:
          ۱-       حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ
          ۲-       عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ
          ۳-       اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ
          ۴-       علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ
          ۵-       حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ
          ۶-       خالد بن ابی عمران رضی اللہ عنہ
          ۷-       انس بن مالک رضی اللہ عنہ
          رکوع سے قبل قنوت پڑھنے کی روایات مندرجہ ذیل کتابوں میں ہے:
          الآثار للامام ابی یوسف رحمہ اللہ حدیث نمبر:۳۴۵
          الآثار للامام محمد بن الحسن الشیبانی رحمہ اللہ حدیث نمبر: ۲۱۱
          مصنف عبدالرزاق حدیث نمبر:۴۹۷۴
          مصنف ابن ابی شیبہ حدیث نمبر: ۶۹۰۵، ۶۹۷۲، ۶۹۷۵
          مسند احمد حدیث نمبر: ۱۲۷۲۸
          سنن الدارمی حدیث نمبر: ۱۶۳۷
          صحیح البخاری حدیث نمبر: ۹۵۷، ۲۹۹۹، ۳۸۷۰
          صحیح مسلم باب استحباب القنوت فی جمیع الصلاة رقم: ۳۰۱ (۶۷۷۰)
          سنن ابن ماجہ حدیث نمبر: ۱۱۸۲، ۱۱۸۳
          سنن ابی داؤد حدیث نمبر: ۱۴۲۹
          سنن نسائی حدیث نمبر: ۱۶۹۹
          شرح مشکل الآثار حدیث نمبر: ۴۵۰۰، ۴۵۰۱، ۴۵۰۳
          عن عطاء عن عبید بن عمیر أن عمر رضی اللّٰہ عنہ قنتا بعد الرکوع: فقال: اللّٰہم اغفرلنا وللمومنین وللمومنات والمسلمین والمسلمات وألّف بین قلوبہم واصلح ذات بینہم وانصرہم علی عدوک وعدوہم․ اللّٰہم العن الکفرة اہل الکتاب الذین یصدون عن سبیلک ویکذبون رسلک ویقاتلون اولیائک․ اللّٰہم خالف بین کلمتہم وزلزل اقدامہم وانزل بہم بأسک الذی لا تردہ عن القوم المجرمین․
بسم اللّٰہ الرّحمٰن الرّحیم
          اللّٰہم ایاک نعبد ولک نصلی ونسجد والیک نسعی نحفد ونخشی عذابک الجد نرجو رحمتک ان عذابک بالکافرین ملحق رواہ سعید بن عبد الرحمن بن ابزی عن ابیہ عن عمر فخالف ہذا فی بعضہ السنن الکبری للبیہقی: ۲/۲۹۸․
بسم اللّٰہ الرّحمٰن الرّحیم
          اللّٰہم انا نستعینک ونستغفرک ونثنی علیک ولا نکفرک ونخلع ونترک من یفجرک․
          عبدالرحمن بن ابزی نے اپنے والد أبزی سے اس کو بیان کیا ہے۔ (الاتقان:۱/۲۲۶)
          علامہ شامی لکھتے ہیں:
          خصوص اللّٰہم انا نستعینک فسنة فقط حتی لو أتی بغیرہ جاز اجماعاً (الدرالمختار واجب الصلاة: ۴۶۸)
          اللّٰہم انا نستعینک کو خصوصی طور پر پڑھنا نماز وتر میں سنت ہے، اس کے علاوہ کوئی بھی دعا کرے تو جائز ہوجائے گا۔
          قنوت کے مختلف الفاظ احادیث میں مروی ہیں، سب سے قنوت کی سنت ادا ہوجائے گی۔
          حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ اپنے تلامذہ کو مندرجہ ذیل قنوت سکھلاتے تھے۔
          حدثنا ابن فضیل عن عطا بن السائب عن ابی عبد الرحمٰن قال: علمنا ابن مسعود أن نقرأ فی القنوت:
          اللّٰہم انا نستعینک ونستغفرک ونثنی علیک الخیر ولا نکفرک ونخلع ونترک من یفجرک اللّٰہم ایاک نعبد ولک نصلی ونسجد والیک نسعی نحفد نرجو رحمتک ونخشی عذابک ان عذاب بالکفار ملحق (مصنف ابن ابی شیبہ رقم: ۶۹۶۵)
          ہمارے ہاں ہندوستان میں جو قنوت پڑھا جاتا ہے اس میں کچھ الفاظ زیادہ بھی ہیں، قنوت صبح کی نماز میں اور وتر دونوں میں پڑھا جاتا ہے۔
          عن ابن جریج قال: اخبرنی من سمع ابن عباس ومحمد بن علی بالخیف یقولان کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقنت بہولاء الکلمات فی صلاة الصبح وفی الوتر باللیل․ (مصنف عبدالرزاق رقم: ۴۹۵۷)
          مجھ کو خبر دی حسن نے حضرت ابن عباس اور محمد بن علی سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر اور رات کی وتر میں مندرجہ ذیل دعا پڑھا کرتے تھے۔
قنوت سے قبل تکبیر کہی جائے گی اور پھر قنوت پڑھا جائے گا
          (۱) عن الثوری عن عبد الأعلیٰ عن ابی عبد الرحمن السلمی أن علیا کبر حین قنت فی الفجر ثم کبر حین رکع․
          ابوعبدالرحمن سلمی کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تکبیر کہی اور پھر صبح کی نماز میں قنوت پڑھی، پھر تکبیر کہی اوررکوع کیا۔ (مصنف عبدالرزاق حدیث نمبر: ۴۹۶۰)
          حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ قنوت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ قتال کے زمانہ میں پڑھی تھی۔
          (۲) عن عبد اللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ عنہ کان اذا فرغ من القرأة کبر ثم قنت․
          حضرت ابن مسعود جب قرأت سے فارغ ہوتے تو تکبیر کہتے اور پھر دعاء قنوت پڑھتے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث:۶۹۴۸)؛
          ایک بار حضرت اقدس مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی رحمة اللہ علیہ کے پاس، حضرت مولانا ارشاد صاحب مبلغ دارالعلوم دیوبند تشریف لائے اور عرض کیا کہ حضرت قنوت کے بعد دُرود شریف پڑھا جائے گا؟ حضرت نے جواب دیا:
ہاں، انھوں نے کہا کہ:
آپ بھی پڑھتے ہیں؟
حضرت نے جواب دیا:
ہاں!
انھوں نے کہا: کب سے پڑھتے ہیں؟
حضرت نے جواب دیا: جب سے نورالایضاح پڑھی تھی۔
ملاحظہ: اللّٰہم نستعینک اور اللّٰہم اہدنا دونوں کو جمع کرنا مستحب ہے۔ دیکھئے (فتاوی ہندیہ: ۱/۱۱۱)
وصلی اللّٰہ علی سیدنا محمد وعلی آلہ وصحبہ أجمعین․

یہ ہے قنوتِ نازلہ؟

اَللَّھُمَ اھدنَا فِیمَن ھَدَیتَ ط وَعَافِنَا فِیمَن عَافَیتَ ط وَتَوَلَنَا فِیمَن تَوَلَّیتَ ط وَبَارِک لَنَا فِیمَااَعطَیتَ ط وَقِنَا شَرَّ مَا قَضَیتَ ط اِنَّکَ تَقضِی وَلَا یُقضَی عَلَیکَ ط وَاِنَّہُ لَا یَذِلُّ مَن وَّ الَیتَ ط وَلَا یَعِزُّ مَن عَادَیتَ ط تَبَارکتَ رَبَّنَا وَتَعَالَیتَ ط نَستَغفِرُکَ وَنَتُوبُ اِلَیکَ ط وَ صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی النَّبّیِ الکَرِیم ط اَلّٰلھُمَّ اغفِر لَنَا وَلِلمُومِنِینَ وَ المُومِنَاتِ وَ المُسلِمِینَ وَالمُسلِمَاتِ ط وَاَلِّف بَینَ قُلُوبِھِم ط وَاَصلِح ذَاتَ بَینَھُم ط وَانصُرنَا وَ انصُر ھُم عَلٰی عَدُوِّکَ وَعَدُوِّھِم ط اَللّٰھُمَّ العَنِّ الکَفَرةَ الَّذِینَ یَصُدُّونَ عَن سَبِیلِکَ وَیُکَذِّبُونَ رُسُلَکَ وَیَقَاتِلُونَ اَولِیَائِ کَ ط اَللّٰھُمَّ خَالِف بَینَ کَلِمَتِھِم وَزُلزِل اَقدَامَھُم وَ اَنزِل بِھِم بَاسَکَ الَّذِی لَا تَرُدُّہ عَنِ القَومَ المُجرِمِینَ ط اِلٰہُ الحَقَّ اٰمِین ط 

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1353625828012720&id=194131587295489

No comments:

Post a Comment