Saturday 10 October 2015

نالہ شب گیر :عورت کی حقیقت دور حاضر میں


آل احمد سرور نے لکھا ہے کہ کسی ملک کے رہنے والوں کے تخیل کی پروازکا اندازہ وہاں کی شاعری میںہوتا ہے مگر اس کی تہذیب کی روح اس کے ناولوں میں جلوہ گر ہوتی ہے“۔ ہیگل نے ناول کو”نثر کا رژمیہ “ کہا ہے ۔شاید اس لیے کہ انسانی زندگی جس اتھل و پتھل اور شکست و ریخت سے دوچار ہوتی ہے ۔ناول میں اس کی بہترین عکاسی ملتی ہے۔ناول سماج و فرد کے خارجی عوامل و عناصر کے ساتھ زندگی کے داخلی تضاد و تصادم کو اپنی گرفت میںلے لیتا ہے ۔زندگی ،سماج اور نظامِ معاشرت کے ہر پہلو کی بحیثیتِ مجموعی بہترین عکاسی کرنے کی جیسی اور جتنی گنجائش ناولوں میںہے اردو کی کسی اصناف میں نہیں ہے۔معاشرے کے بدلتے ہوئے اقدار کی صحیح اور مکمل تصویر کشی ناول سے بہتر اور کہیں نہیں ملے گی۔ 
کہا جاتا ہے کہ مرد اور عورت سماج کے دو سکّے ہیں۔سکوں کے دو پہلو سے ہمیشہ مراد یہی لی جاتی ہے کہ دونوں کا درجہ برابر ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو عورت معاشرے کی ایک کٹھ پتلی تھی جسے مرد اپنے شوق کے اعتبار سے استعمال کرتا کبھی گھر میں کبھی بازار میں ،دورِ جاہلیت سے عورت مکروہ ش ¿ی سمجھی جاتی تھی۔کبھی زندہ درگور کر دیا جاتا تھا ،کبھی شوہروں کی ارتھی کے ساتھ نظرِ آتش کر دیا جاتا تھا۔ان کی ناموس کو پامال کر دیا جاتا ،جوے اور نشے کی لت میں انھیں فروخت کر دیا جاتا غرض یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ معاشرے کے جتنے کریہہ مظالم تھے ان کا تجربہ عورتوں پر ہی کیا گےا۔حد یہ کہ انہیں اپنے غم و تکالیف کے اظہار کا بھی حق حاصل نہیں تھا۔حال ہی میں ایک کتاب نظر سے گذری جس کے متعلق کہا گےا کہ اس کو لکھنے والی ایک عورت ہے لیکن کتاب میںمصنفہ کا نام موجود نہیں ہے ،اس کتاب میں ایک جگہ آریہ عورتوں کی پرارتھنہ (دعا) ملاحظہ کریں
ہے پِتا ! کب اس جیل خانے سے نکال کے آزاد کرے گا؟ ہے پربھو! ہم کو کس اپرادھ کے دنڈ میں اس بندی خانے میں پیدا کیاہے؟ تیرے دربار میں ہمیشہ انصاف ہی ہوتا ہے لیکن ان جنم دکھیوںکے واسطے کیسی بے انصافی ہے۔اپرادھ کوئی کرے دنڈ ہمیں ملے۔
یہ وہ دور تھا جب عورتوں کو اپنے مظالم کے بےان کی بھی آزادی نہیں تھی ۔لیکن گذرتے وقت کے ساتھ حالات بدلے فکر بدلی ساتھ ہی عورتوں کے ساتھ بدسلوکی کا طریقہ بھی بدلا۔یہاں یہ کہنا مجھے بالکل بھی صحیح نہیں لگتا کہ حالات کے ساتھ عورتوںپر ظلم ہونا ختم ہو گےا ۔اس دور میں ایسی بہت سی مثالیں نظر آئیں گی جو اس بات کو بخوبی ثابت کرتی ہیں کہ عورت پر ظلم کے طریقے تو بدل گیے لیکن ان پر مظالم اب بھی ہو رہے ہیں ۔اس کی نمایاں مثال اردو ادب بالخصوص ناولوں اور افسانوںمیں نظر آتی ہے۔رسوا کی امراﺅ جان ادا ہو ےا پھراکثر دیگر کہانیوںکے نسوانی کردار کسی نہ کسی ظلم کا شکار ہیں۔
مشرف عالم ذوقی اکیسویں صدی کے اہم ناول نگاروں میں ہیں۔ان کے ناولوں میں ”نال ¿ہ شب گیر“ایک اہم ناول ہے جودورِ حاضر کی عورتوں کی نفسیات کا بہترین عکاس ہے۔اس ناول میں ذوقی نے عورتوںکے دبے کچلے جذبات و احساسات کو کہانی میں موضوع بناےا ہے اور ان کی نفسےات کا جائزہ لیا ہے۔ساتھ ہی یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ عورت اب وہ نہیں رہی جو پہلے تھی ،اب اس کا خوف بغاوت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔امرد پرست سماج کی عورت اور اکیسویں صدی کی عورت میں بہت فرق آ چکا ہے۔اس نے دیوی کی جگہ کالی کا روپ لے لیا ہے۔یہاں پر سمون دی بوور کی اس بات کی تصدیق ایک نئے پیرایے میں ہوتی ہے۔
one is not born, but rather become's a women ...
simone de beauoir  
”عورت پیدانہیں ہوتی بنائی جاتی ہے“۔
اس ناول کو پڑھنے سے قاری کو بخوبی اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ عورت صدیوں کی گھٹن اور قید سے آزادی کس صورت میںچاہتی ہے۔وہ آسمان میں اڑنا چاہتی ہے اپنا نام ،اپنامقام ،اپنی پہچان چاہتی ہے۔اس کی خواہش ہے کہ بغیر مردوں کے نام کے سہارے اپنی حیثیت کا لوہا منوایے۔ذوقی نے ناول کا انتساب بھی بہت مناسب لیا ہے گویا وہ اس ناول کو ان تمام لڑکیوں یا عورتوں کا ترجمان بنانا چاہتے ہیں جو بغاوت کرتی ہیں اور زندگی کے اصول و ضوابط کو اپنے نظریے سے بیان کرتی ہیں۔انتساب ملاحظہ ہو۔
”ہر اس لڑکی کے نام جو باغی ہے اور اپنی شرطوں پر زندہ رہنا جانتی ہے۔“
یہاں پرایک بات قبلِ غور ہے کہ یہ انہی لڑکیوںکے نام ہے جو اپنی شرطوظ پر زندہ رہنا جانتی ہیں نہ کہ چاہتی ہیں۔اس کی بہترین ترجمان کہانی کی اہم کردار ناہید ناز ہے جو بغاوت کرتی ہے اور اپنے زندگی اپنی شرطوں پرجیتی ہے ۔جس کی نفرت ان تمام لوگوں سے ہے جو عورتوں کو حوس کا شکار بناتے ہیں۔اس کا اظہاربار بار ناہید ناز کرتی ہے اور مردوں کی حکومت کے خلاف احتجاج کرتی ہے۔
”یہاںاتنی بھیڑ ہے۔ یہ لوگ مار کیوں نہیں دیتے ان پولیس بھیڑیے کو۔۔مردوں کو۔۔نوچتے رہو عورتوں کو ۔۔ شکار بناتے رہو۔بسوں سے باہر پھینکتے رہو۔۔ گھر سے باہر نکلنے پر پابندیاں لگادو۔گدھ کی طرح للچائی نظروں سے گھورتے رہو۔اور ہم خاموش رہیں ،کیوں خاموش رہیں ہم۔“ 
ناہید ناز کی نظر میں بزدل عورتیں بھی مردوں کی ہی صف میں ہیں۔ اس کے مطابق ایسی عورتیں مردوں کی خصوصیات رکھنے والی ہیں ۔اقتباس ملاحظہ ہوں۔
’لیکن آپ کو نہیں لگتا کہ....‘
’کیا....؟‘
’اس آزادی میں کچھ کمزور لوگ بھی شامل ہیں....‘
’صوفیہ....‘ اس بار اس کا چہرہ پتھر کی طرح سخت تھا....
’جی....‘ میں نے آہستہ سے کہا.... ’کیا آپ جانتی تھیں....‘
اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے روک دیا.... تلخی اور نفرت بھرے احساس کے ساتھ مسکرائی— میں سب جانتی تھی۔ کیا اتنا کہہ دینا کافی نہیں....‘
’جی۔‘
’کمزور لوگ، کمزور لوگوں کی پسند ہوتے ہیں اور آزاد لوگوں کی اپنی دنیا ہوتی ہے....‘
ناہید کے چہرے پر غرور آمیز چمک دوبارہ لوٹ آئی تھی....
کہانی کے ابتدائی حصے میںذوقی نے عورت کی مثال گدلے پانی سے دی جبکہ مرد کی مثال ناتراشیدہ پہاڑ سے دی ہے جو اپنے آپ میں بہت معنی خیز ہے۔
”خدا نے مرد کا تصور کیا تو ساتھ ہی ناتراشیدہ خوف ناک چٹانوں اور عظیم الشان پہاڑوں کی تخلیق میں مصروف ہو گیا۔
خدا نے عورت کا تصور کیا تو گدلے پانی میں گڈمڈ ہوتی آسیبی پرچھائی کو دیکھا۔عورت کی تخلیق کے ساتھ گدلے پانی کو عالمَِ بالا سے عالمِ سفلی کی طرف اچھال دیا“۔
یہاں پر پانی کی مثال اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ عورتوں کی صورتِ حال میں تبدیلی تو آئے گی البتہ پانی گدلا ہی رہے گااور مرد نا تراشیدہ اور خوف ناک ہی خلقت رکھتا ہے ۔
اس کہانی میں ایک اہم نکتہ یہ بھی نظر آتا ہے کہ عورتیں کتنی بھی زنجیریں توڑ نا چاہیں لیکن اس سما ج کا کیڑا کسی نہ کسی روپ میں ڈس ہی لیتا ہے۔کبھی لالچ، کبھی خوف ،کبھی حوس،کبھی غصہ عورت کو قید کرنے کے لیے آ ہی جاتا ہے۔اقتباس ملاحظہ ہوں:-
”شور تھم گےا تھا۔عورت دوبارہ خوف کی دہلیز پر تھی اور دنیا مردوں کی مردانگی کی کے ساتھ اسی طرح دوڑ رہی تھی جیسے روزِ ازل سے دوڑتی آئی ہے۔“
کہانی در اصل سات حصوں پر مشتمل ہے۔جن کے عناوین کچھ اس طرح سے ہیں:۔ دشتِ خوف،آتشِ گل،ریگِ جنوں،بحرِ ظلمات،وادئی اسرار،بارشِ سنگ،سفرِ آخرِشب۔ہر حصے کے عنوان کو بہت ہی معنی خیز اور علامتی انداز میںپیش کیا گےا ہے۔مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ عناوین در اصل کہانی میں پیش کیے گیے کرداروں کی مختلف کیفےات ہیں ،جن کے ذریعہ مصنف پوری کہانی کے پس منظر کو پیش کر رہا ہے۔نفسیاتی اور علامتی لحاظ سے دیکھا جائے تو اندازہ ہوگا کہ ہر عنوان میں ایک کہانی پوشیدہ ہے۔
کہانی کا موضوع بظاہر دو عورتوں کی نفسیاتی کیفیت کا مطالعہ کرتا ہے،لیکن اس کی گیرائی ہمیں حقیقت کے ایسے دریا میں غوطہ ور ہونے پر مجبور کرتی ہے جہاں صدیوں سے پوشیدہ،دبے کچلے جذبات عیاں ہوتے نظر آتے ہیں۔پچھلے چند برسوں میںعورت کی سماجی حیثیت میں جوتبدیلی آئی ہے،اس کی فکری سطح اور جذبات و حالات کو کہانی میںسمیٹ دیا گےا ہے۔کہانی ایک ایسے دور پر مشتمل ہے جس میں حقوقِ نسواں اور تحفظِ زن کے نعرے بلند ہو رہے ہیں،جہاں پر ان کی حیثیت اور شناخت دلانے کی بات کہی جا رہی ہے،اسی دور میں ایک رخ یہ بھی ہے کہ عورت بری طرح مردوںکے سماج میں پھنس کر رہ گئی ہے۔اس کی سوچ اور اس کی فکر کا دار و مدار مردوںکا وہ سماج ہے ،جس میں عورت نے جنم لیا ہے۔یہاں عورتوںکے حقوق کا نعرہ لگانے والے مرد ہی عورت کا حق غصب کیے بیٹھے ہیں۔یہاں پر بیدی کے ایک کردار ”لاجو “کی یاد آجاتی ہے جسے اسکاشوہر”سندر“ دیوی کا درجہ دے دیتا ہے لیکن بیوی کا درجہ نہیںدیتا یہ بات لاجو کے لیے بہت تکلیف دہ ہوتی ہے۔ اس ناول کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ تمام کردار اپنی گھٹن اپنی تکالیف کو صوفیہ مشتاق اورناہید نازکے ذریعہ بیان کر رہے ہیں۔
ناہید نازکی بغاوت ”آتشِ گل“ کی مانندسر اٹھاتی ہے اور انتقام کی ناکام کوشش کرتی ہے ۔وہ اپنی نفرت کا اظہار اپنے شوہر سے بار بار کرتی ہے ،ہر اس چیز سے متنفر نظر آتی ہے جس میں مردوں کے معاشرے کی بو آتی ہے ۔بار بار وہ اپنے شوہر یعنی کمال یوسف کو یہ کہتی ہے کہ ہم عورتوںکے حقوق کی پامالی ہماری پیدائش سے ہی کی جاتی رہی ہے۔ہمارے سماج میںبچپن سے ہی مرد اور عورت دو کیٹیگری میں بانٹ دیے گیے ہیں۔ ناہید کا بس چلے تو وہ مردوں کی حکومت کا خاتمہ کر دے۔وہیں دوسری طرف صوفیہ مشتاق احمد کا کردار ا © ©”دشتِ خوف“ کی مانند ہے۔ یہ کہانی کا سہما ہوا کردار ہے ،جو خود سے لڑ رہی ہے ۔اپنے وجود سے ،اپنی گھٹن سے ، جب صوفیہ بغاوت کرتی ہے تو اس کی بغاوت ناہید ناز سے مختلف ہوتی ہے ۔اس کی بغاوت سماج کی so called تہذیب سے ہے جس نے اسے ایک رشتے کے لیے اپنے ضمیر اور خاندان کے اصولوںکو بالایے طاق رکھنے پر مجبور کر دیا۔صوفیہ کا کردار ان عورتوں کی ترجمانی کرتا ہے جو معاشرے سے انتقام نہ لے سکتی ہوں اور پھیر تھک ہار کر اپنی ایک الگ دنیا بنا لیتی ہیں۔اسی میںاپنی خوشیوںاور خوابوںکی تلاش میں لگ جاتی ہے ۔صوفیہ جو نصف کہانی کے بعد وحیدہ کے نام سے جانی جاتی ہے ،ایک معصوم سی لڑکی کی شکل میں سامنے آتی ہے جس کی خواہشات پرندوں کے ساتھ آسمانی پرواز کرتی ہیں ۔
اس کے علاوہ بھی مختلف لڑکیوں کی نفسیات وعادات کو بےان کیا ہے ضمناً۔یہ تمام کردار عادات و اطوار و ماحول میں ایک دوسرے سے مختلف ہو نے کو باوجود ایک جیسے نظر آتے ہیں۔کرداروں میں ثریا کے شوہر اشرف کی سوچ کبھی کبھی عام مردانہ فکر سے مختلف نظر آتی ہے لیکن ایک جگہ پر وہ بھی اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح کرتا ہے۔
”شیشے کی رنگین دنیا میں تیرتی سنپیلی مچھلیاں.....یہ سون مچھریاں ہیں.......ایک دن میری بیٹا اس سے بھی خوبصورت سون مچھلی بن جائیگی ...انسانی سون مچھلی..پھراپنی ہی بات پر وہ ٹھہاکا لگا کر ہنسے تھے۔“
جبکہ ناہید ناز کو اس کا شوہر محبت اور کبھی مروت یا پھر ذہنی مریضہ خیال کر کے برداشت کر رہا ہے۔وہ اس کی ہر جایز و ناجائز بات بغیر چوں و چرا مانتا ہے۔اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ ناہید ناز سے شدید قسم کی محبت کرتا ہے بلکہ اس کو ناہید کے ساتھ ہمدردی ہے، ساتھ ہی اسے اپنے بیٹے کا خےال ہے جو ابھی بہت چھوٹا ہے جس کا ناہید بہت خیال رکھتی ہے۔ کمال یوسف کے ذریعہ مصنف ان مرد کردارون کا جائزہ لیتا ہے جوکسی باغی لڑکی کو نفسیاتی مریضہ سمجھ کر اس پر ترس کھاتا ہے اور مروت کرتا ہے۔لیکن کہانی کے آخری حصے میں کمال خود کو مظلوم سمجھتا ہے اور اسے بھی اس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کی اب ہماری حکومت کا خاتمہ ہو نے والا ہے۔
”کتنی عجیب بات ہے .....کہ میری زندگی میں دو لڑکیاں آ ئیں .......ایک بغاوت کے راستے پہاڑوں میں سما گئی اور دوسری خوف کی وادیوں میں گم ہو گئی__رہا میں.......میرے حصے مین تو کچھ بھی نہیں آیا۔“
  یہاں ایک سوال یہ بھی ہے کہ سماج میں کسی لڑکی کا آواز اٹھانا یا پورے system سے بغاوت کرنا اسے پاگل ثابت کرتا ہے جب کہ اگر کوئی مرد ااواز اٹھاتا ہے تو اسے انقلاب کا نام دیا جاتا ہے؟؟ 
کہانی کے آخری جز میں ذوقی نے اس مفروضے کو بھی غلط ثابت کر دیا۔ اور ناہید کو ایک ایسی لڑکی کے کردار میں پیش کیا جس کی آنے والے وقتوں میں تمنا کی جارہی ہے۔اس کہانی کا محور در اصل ایک بغاوت ہے جو صدیون سے عورت کے ضمیر کو کچوٹتی رہی ہے۔عورت کا مقام اسکی حیثیت جس بدلاﺅ کی متمنی تھی ذوقی نے” نال ¿ة شب گیر “کے ذریعہ بہترین خاکہ پیش کیا ہے۔اور ناہید ناز کو ایک ایسے معاشرے کا حکمراں بنایا ہے جسمیں کمزور عورتوں اور مردوں کا دخل نہیں ۔ایک ایسا معاشرہ جس کی حاکم عورت ہے ،جہاں کے قوانین عورتوںنے ہی بنائے،جن کے الفاظ ،جن کی لغت پر بھی عورتوں کی حکمرانی ہے۔ناہید ناز کی اس تحریک کا پس منظر جونا گڑھ کی حویلی ہے جس نے اسے یہاں تک آنے پر مجبور کیا جہاں پہنچنے کے بعد اب وہ خوش ہے۔
جونا گڑھ کی حویلی بھی در اصل ایک ایسے سماج کی علامت ہے جہاں کی بہو بیٹیاں اپنے گھر میں محفوظ نہیں ۔جہاں وہ رشتے آبرو ریزی کرتے ہیں جنہیں محافظ بنا کر بھیجا گیا ۔ناہید ناز نے جونا گڑھ کے متعلق ٹھیک ہی کہا کہ اس حویلی کی تو مرغیاں بھی محفوظ نہیں۔معاشرے کی اس کریہہ حقیقت کا اس سے بہتر اور کیسا بیان ہوگا ۔؟ناہید ناز کو ایک عام لڑکی سے باغی لڑکی بنانے میںجونا گڑھ کی حولی کا ہی ہاتھ ہے شاید اسی لیے سیمون نے کہا عورت بنائی جاتی ہے ...ہر دفع ایک نئی کہانی کے ساتھ۔
ذوقی نے پوری کہانی کو ایک تصویر کے ذریعہ سمجھانے کی کوشش کی ہے۔بلی اور چوہے کی تصویر،تصویر میں چوہا بلی کے پیٹ میں ہے ۔ناول کو پڑھنے کے بعد تصویر کی پوری نفسیات کھل کر سامنے کہانی میں شاید پہلی بار مرد کو بزدل چوہے سے تعبیر کیا گےا ہے وہ بھی ایک مرد مصنف نے جب کہ عورت کو بلی سے جو غرّاتی ہے اور پنجہ مارتی ہے۔کہانی کے آخری حصے میں ذوقی نے صرف بلی کو علامت کے طور پر پیش کیا ہے یعنی اب عورت کی حکومت ہے اور مرد چوہوں کی مانند بلوں میں خوف سے چھپے ہیں ۔اقتباس ملاحظہ ہوں۔
 اچانک میں چونک گیا.... مجھے احساس ہوا.... میرا جسم سکڑتا جارہا ہے.... سکڑتا جارہا ہے.... اور اس وقت فرانز کافکا کے لازوال کردار کی طرح میں ایک معمولی سے کیکڑے.... نہیں چوہے میں تبدیل ہوگیا ہوں۔ 
گھر تک پہنچنے کے لیے مجھے اپنے جسم کو گھسیٹنا پڑرہا ہے۔ آس پاس سے گزرتے ہوئے لوگ عجیب عجیب نگاہوں سے میری طرف دیکھ رہے ہیں۔ میں شرمندگی سے بچنے کے لیے مسکرانے کی کوشش کرتا ہوں۔
ایک معمولی کیکڑا.... نہیں....چوہا....زمین پر رینگنے.... چلنے کی کوشش کررہا ہے۔ 
اس ناول میں ذوقی کا کمال یہ ہے کہ کہ انھوں نے عورتوں کے مسائل کوان کی نفسیاتی ،سماجی کیفیت کے مطابق پیش کیا ہے۔جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف ہر کردار سے بخوبی واقف ہے اور اس کے ہر پہلو پر گہری نظر رکھتا ہے۔کہانی کا پلاٹ دوہرا ہے ۔ ایک کہانی صوفیہ مشتاق احمد کی اور دوسری ناہید ناز کی ہے۔مصنف کہانی میں کردار کی مانند موجود ہے جو کہانی میں متحرک ہے۔ لیکن جا بہ جا اپنے خیالات کا اظہار بحیثیتِ مصنف کرتا ہے ۔جس سے کہانی روایتی انداز سے ہٹ کر ایک نئی صورت میں سامنے آتی ہے۔

No comments:

Post a Comment