Wednesday 21 October 2015

محرم الحرام سے متعلق مسائل

مسئله نمبر (253)

سوال: محرّم کے مہینے میں جو ماتمی جلوس نکالے جاتے ہیں شہادتِ حسین کے نام سے، اس طرح جلسہ جلوس کی شریعت میں کیا حیثیت ہے؟
اور مروّجہ ماتم حسین کب اور کیسے ایجاد ہوا ؟

جواب:
ماهِ محرّم اور بدعت و رسومات

☜ ماہِ محرّم میں بالخصوص بر صغیر پاکستان و ھندوستان کے علاقوں میں بہت سی بدعات اپنائی جاتی ہیں ،
مثلاً محرّم کا چاند نظر آتے ہی

تعزیہ بنانا
سیاہ لباس پہننا ،
سیاہ جھنڈے بلند کرنا ،
مجالس شہادت منعقد کرنا ،
نوحے اور مرثیئے پڑھنا ،
چُولہے اوندھے کردینا ،
عورتوں کا بدن سے زیورات اُتاردینا ،
ماتمی جلوس نکالنا ،
زنجیروں اور چھریوں سے خود کو زخمی کرنا ،
تعزیئے اور تابوت بنانا ،
پانی کی سبیلیں لگانا ،
کھچڑا پکانا ،
عاشوراء محرّم کے دوران خوشی کی تقاریب شادی وغیرہ نہ کرنا اور
شہادت کا سوگ ہر سال منانا وغیرہ وغیرہ،

واضح رہے کہ ان بدعات کے مرتکب افراد ان تمام کاموں کو باعث ثواب جان کر انجام دیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ان امور میں سے اگر کوئی ایک امر بھی ان سے خطا ہوگیا تو مذہب ہی ہاتھ سے جاتا رہا ۔

اس کی مثال تعزیہ بنانے والے حضرات سے دی جاسکتی ہے ۔

ان کی ایک بڑی تعداد مشرک و بدعتی اور بے نمازی و بے روزہ دار ہے ، لیکن انھیں اس بات کی مطلق فکر لاحق نھیں ہوتی کہ فرائضِ اسلام ترک کردینے پر یہ اللہ کے سامنے کیا جواب دیں گے

لیکن تعزیہ بنانے کی فکر انھیں ماہ محرّم کی آمد سے بہت پہلے لگ جاتی ہے ۔
جو تعزیہ پُشتہا پُشت سے ان کے ہاں بنتا چلا آرہا ہے وہ ہر حال میں بنے گا

جبکہ نہ وہ فرائضِ اسلام میں داخل ہے اور نہ سنّتِ رسول ﷺ ہے اور نہ طریقِ صحابہ کرام رضی اللہ عنھُم ہے،
اور نہ ہی ائمہ اربعہ سے اس کا جواز ثابت ہے، اور نہ بزرگانِ دین سے یہ رسمِ قبیح ثابت ہے ۔

صرف تعزیہ ہی کیا محرّم کی رسومات میں سے ایک بھی رسم ایسی نھیں جو کہ قرآن و حدیث سے ثابت ہو، لہذا یہ رسومات سراسر بدعات ہیں اور ان کے مرتکب گناہگار ہیں،

☜ بہت سے سنّی بھائی بہن رافضی (شیعہ) لوگوں کی دیکھا دیکھی اور کچھ ان کے وسیع پروپیگنڈے کا شکار ہوکر مذکورہ بالا بدعات کا ارتکاب کیا کرتے ہیں ۔
چنانچہ صحیح علمِ دین نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے سنّی گھرانوں میں محرّم کی دس تاریخ کو چولہے اوندھے کردئیے جاتے ہیں ۔
نوبیاہی عورتیں عاشورہ گزارتی ہی ،

شہادتِ حُسین رضی اللہ عنہ کے غم میں زیورات کا پہننا ترک کردیتی ہیں۔
عاشورہ کے جلوس میں روافض (شیعوں) کے جلوس سے آگے سنّی عوام کے تعزیوں کا جلوس ہوتا ہے ، اسی طرح ان کے جلوس کے پیچھے سنّیوں کا ماتمی جلوس ہوتا ہے جس میں پٹّہ بازی اور منہ سے آگ نکالنے اور تلوار بازی وغیرہ کے تماشے کیئے جاتے ہیں ،
ان کے نیچے سے بچّوں اور بیماروں کو گذارا جاتا ہے جبکہ یہ رسم بُت پرستی سے کسی طرح کم نھیں ۔
سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ جو لوگ کربلا کا فسانہ اور شہید مظلوم کی خود ساختہ داستانیں اور ان پر پانی بند ہونے کے جھوٹے قصّے سنتے سناتے ہیں، وہی محرّم کے مہینے میں شربت کے مٹکے اور کچھڑے کی دیگیں کھا پی کر اپنی توندیں بڑھا رہے ہیں ۔

جبکہ سچی بات تو یہ ہے کہ اگر ان کے دلوں میں ان بزرگوں کی محبّت ہے تو انھیں بھی یہ دن بھوک اور پیاسے رہ کر گزارنا چاہیئے تھا ۔

اسی طرح ان کے بیان کردہ افسانوں کے مطابق انھیں عاشورہ محرّم کے دوران شادیاں بھی کرنی چاہیئے جیسا کہ قاسمؒ کی مہندی خود انہی کے بقول کربلا کے میدان میں شب عاشورہ میں لائی گئی تھی ۔

(مگر ان عقل کے اندھوں کو یہ بھی نھیں معلوم کہ دولہا اور دلہن کی رسمِ مہندی ایک خالصتًا ہندی رسم ہے عرب علاقوں میں آج بھی مہندی نام کی کوئی رسم نھیں پائی جاتی) اس مہندی کے سلسلے میں ملیدہ بنتا ہے جو بہت سے مسلمان علمِ دین نہ ہونے وجہ سے تعزیوں پر چڑھاتے ہیں ۔

☜ حضرت حُسین رضی اللہ عنہ اور دیگر شُہداء جو کربلا کے میدان میں خود ان روافض (شیعوں) ہی کے ہاتھوں قتل ہوئے اپنے مظلُومانہ قتل کے سبب شہید کہلائے جاتے ہیں ۔ قرآن و حدیث کے نصوص کی رو سے شُہداء کو حق تعالیٰ حیات جادوانی عطا فرماتا ہے ۔

جبکہ شرعی مسئلہ یہ ہے کہ اسلام میں کسی بھی شخص کی موت یا شہادت پر تین دن سے زیادہ کا سوگ نہیں، ماسوا بیوہ عورتوں کے، کہ وہ اپنے خاوند کی اموات و شہادت پر چار ماہ دس دن کا سوگ کرتی ہیں پھر اس سوگ کا ہر سال اعادہ نھیں کرتیں،
(📓 صحیح مسلم١/ ٤٨٧)
مگر ہمارے نادان سنّی بھائی ہر سال رافضی (شیعہ) لوگوں کی دیکھا دیکھی شہدائے کربلا کا سوگ مناتے ہیں حالانکہ اگر اسلام میں ہر سال ایام مخصوصہ میں سوگ منانا جائز ہوتا تو پھر ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قتل کا سوگ مناتے، جوکہ اپنے بیٹے حسین سے افضل ہیں، یا پھر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے قتل کا سوگ مناتے جوکہ علی سے افضل ہیں، یا پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قتل کا سوگ اور ماتم مناتے جوکہ ان دونوں یعنی علی اور عثمان سے افضل ہیں، یا پھر وفاتِ مصطفیٰ ﷺ کا سوگ مناتے کہ دنیا میں مسلمانوں پر اس غم سے بڑھ کر نہ تو کوئی غم آیا ہے اور نہ آئے گا،
لیکن اس امر کی چونکہ اسلام میں کوئی گنجائش و رخصت نھیں لھٰذا ہم اس غم اور ماتم کی سال بہ سال برسی نھیں مناتے ۔
📚 حوالہ:
"وقد کان ابوہ افضل منہ، فقتل وہم لایتخذون مقتلہ ماتماً کیوم کیوم مقتل الحسین... وکذالک کان عثمان افضل من علی عند اہل السنۃ والجماعۃ، وقد قتل.. وکذالک عمر بن الخطاب وھو افضل من عثمان وعلی، قتل وھو قائم یصلی فی المحراب صلاۃ الفجر.. الخ"
(البدایہ والنہایہ ٨/ ٦٠٠ بیروت )

علاوہ ازیں بہت سے سنّی مسلمان اس ماہ میں رافضی (شیعہ) لوگوں کی دیکھا دیکھی اپنے بچّوں کو حضرت عبّاس رضی اللہ عنہ کا فقیر بناتے ہیں ۔
انھیں کلاوے پہنائے جاتے ہیں ۔
پھر وہ بچّے در در جاکر بھیک مانگتے ہیں ،

پھر اس بھیک کی رقم سے حضرت عبّاس رضی اللہ عنہ کی فاتحہ دلائی جاتی ہے ۔
جبکہ یہ رسم بھی بدعت ہے ۔
اس لئے کہ اگر حضرت عبّاس رضی اللہ عنہ کا فقیر بنانا ازروئے شریعت جائز ہوتا تو زین العابدین اپنے بیٹے باقر کو اور باقر اپنے بیٹے جعفر کو اور جعفر اپنے بیٹے موسٰی کاظم کو اور موسٰی کاظم اپنے بیٹے علی رضا کو اور علی رضا اپنے بیٹے محمد تقی ، اپنے بیٹے علی نقی اور اپنے بیٹے حسن عسکری کو ضرور عبّاس رضی اللہ عنہ کا فقیر بناتے کہ یہ لوگ ان کے قرابت دار اور اولاد ہونے کے ناطے ان امور کو انجام دینے کے واقعتًا مستحق تھے ۔
📚 حوالہ:
"فکل مسلم ینبغي لہ ان یحزنہ قتلہ رضی اللہ عنہ فانہ من سادات المسلمین وعلماء الصحابۃ وابن بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم التی ھی افضل بناتہ، وقد کان عابدا وشجاعا سخیا، ولکن لایحسن مایفعلہ الشیعہ من اظہار الجزع والحزن الذی لعل اکثرہ تصنع وریاء.. الخ"
(البدایہ والنہایہ ٨/ ٦٠٠ بیروت)
(فتاوی محمودیہ ڈابھیل٣/ ٢٢٤)(فتاوی رشیدیہ/ ص١٣٩) (کفایت المفتی١ / ٢٣٥) (احسن الفتاوی١/ ٣٨٩)
(آپکے مسائل اور انکا حل/ ٨٥-٨٦)

محرّم کے جلوس کی شروعات کب ہوئی؟
محرّم کے ماتمی جلوسوں کی بدعت چوتھی صدی کے وسط میں معزالدولہ دیلمی نے ایجاد کی، شیعوں کی مستند کتاب “منتہی الآمال” (ج:۱ ص:۴۵۳) میں ہے:

“جملہ (ای موٴرّخین) نقل کردہ اند کہ ۳۵۲ھ (سی صد وپنجاہ و دو) روز عاشور معزالدولہ دیلمی امر کرد اہلِ بغداد رابہ نوحہ ولطمہ وماتم بر اِمام حسین وآنکہ زنہا مویہا را پریشان و صورتہا را سیاہ کنند وبازارہا رابہ بندند، وبرد کانہا پلاس آویزاں نمائند، وطباخین طبخ نہ کنند، وزنہائے شیعہ بیروں آمدند در حالیکہ صورتہا رابہ سیاہی دیگ وغیرہ سیاہ کردہ بودند وسینہ می زدند، ونوحہ می کردند، سالہا چنیں بود۔ اہلِ سنت عاجز شدند از منع آں، لکون السلطان مع الشیعة۔”

ترجمہ: “سب موٴرِّخین نے نقل کیا ہے کہ ۳۵۲ھ میں عاشورہ کے دن معزالدولہ دیلمی نے اہلِ بغداد کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ پر نوحہ کرنے، چہرہ پیٹنے اور ماتم کرنے کا حکم دیا اور یہ کہ عورتیں سر کے بال کھول کر اور منہ کالے کرکے نکلیں، بازار بند رکھے جائیں، دُکانوں پر ٹاٹ لٹکائے جائیں اور طباخ کھانا نہ پکائیں۔
چنانچہ شیعہ خواتین نے اس شان سے جلوس نکالا کہ دیگ وغیرہ کی سیاہی سے منہ کالے کئے ہوئے تھے اور سینہ کوبی و نوحہ کرتی ہوئی جارہی تھیں۔ سالہا سال تک یہی رواج رہا اور اہلِ سنت اس (بدعت) کو روکنے سے عاجز رہے، کیونکہ بادشاہ شیعوں کا طرف دار تھا۔”

حافظ ابنِ کثیر نے “البدایہ والنہایہ” میں ۳۵۲ھ کے ذیل میں یہی واقعہ اس طرح نقل کیا ہے:

“فی عاشر المحرّم من ھٰذہ السنة أمر معزالدولة بن بویہ -قبحہ الله- ان تغلق الأسواق، وان یلبس النساء المسوج من الشعر، وأن یخرجن فی الأسواق حاسرات عن وجوھھن ناشرات شعورھن یلطمن وجوھھن ینحن علی الحسین بن علی بن أبی طالب۔ ولم یکن أھل السنّة منع ذٰلک لکثرة الشیعة وظھورھم وکون السلطان معھم۔”
(البدایہ والنہایہ ج:۱۱ ص:۲۴۳)

ترجمہ: “اس سال (۳۵۲ھ) کی محرّم دسویں تاریخ کو معزالدولہ بن بویہ دیلمی نے حکم دیا کہ بازار بند رکھے جائیں، عورتیں بالوں کے ٹاٹ پہنیں اور ننگے سر، ننگے منہ، بالوں کو کھولے ہوئے، چہرے پیٹتی ہوئی اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ پر نوحہ کرتی، بازاروں میں نکلیں،
اہلِ سنت کو اس سے روکنا ممکن نہ ہوا، شیعوں کی کثرت و غلبہ کی وجہ سے اور اس بنا پر کہ حکمران ان کے ساتھ تھا۔”

اس سے واضح ہے کہ چوتھی صدی کے وسط تک اُمت ان ماتمی جلوسوں سے یکسر ناآشنا تھی، اس طویل عرصے میں کسی سنی اِمام نے تو درکنار، کسی شیعہ مقتداء نے بھی اس بدعت کو روا نہیں رکھا، ظاہر ہے کہ ان ماتمی جلوسوں میں اگر ذرا بھی خیر کا پہلو ہوتا تو خیرالقرون کے حضرات اس سے محروم نہ رہتے،
حافظ ابنِ کثیر کے بقول:
“وھٰذا تکلف لا حاجة الیہ فی الاسلام، ولو کان ھٰذا امرًا محمودًا لفعلہ خیر القرون وصدر ھٰذہ الأُمَّة وخیرتھا۔ وھم أوْلٰی بہ ولو کان خیر ما سبقونا الیہ وأھل السنة یقتدون ولا یبتدعون۔”
(البدایہ والنہایہ ج:۱۱ ص:۲۵۴)

ترجمہ: “اور یہ ایک ایسا تکلف ہے جس کی اسلام میں کوئی حاجت و گنجائش نہیں، ورنہ اگر یہ اَمر لائقِ تعریف ہوتا تو خیرالقرون اور صدرِ اوّل کے حضرات جو بعد کی اُمت سے بہتر و افضل تھے، وہ اس کو ضروری کرتے کہ وہ خیر و صلاح کے زیادہ مستحق تھے، پس اگر یہ خیر کی بات ہوتی تو وہ یقینا اس میں سبقت لے جاتے اور اہلِ سنت، سلف صالحین کی اقتدا کرتے ہیں، ان کے طریقے کے خلاف نئی بدعتیں اختراع نہیں کیا کرتے۔”

الغرض جب ایک خود غرض حکمران نے اس بدعت کو حکومت و اقتدار کے زور سے جاری کیا اور شیعوں نے اس کو جزوِ ایمان بنالیا تو اس کا نتیجہ کیا نکلا؟
اگلے ہی سال یہ ماتمی جلوس سنی شیعہ فساد کا اکھاڑا بن گیا اور قاتلینِ حسین نے ہر سال ماتمی جلوسوں کی شکل میں معرکہٴ کربلا برپا کرنا شروع کردیا،

حافظ ابنِ کثیر ۳۵۳ھ کے حالات میں لکھتے ہیں:
“ثم دخلت سنة ثلاث وخمسین وثلاث مائة، فی عاشر المحرّم منھا عملت الرافضة عزأ الحسین کما تقدم فی السنة الماضیة، فاقتتل الروافض أھل السُّنَّة فی ھٰذا الیوم قتالًا شدیدًا وانتھبت الأموال۔”
(البدایہ والنہایہ ج:۱۱ ص:۲۵۳)

ترجمہ: “پھر ۳۵۳ھ شروع ہوا تو رافضیوں نے دس محرّم کو گزشتہ سال کے مطابق ماتمی جلوس نکالا، پس اس دن روافض اور اہلِ سنت کے درمیان شدید جنگ ہوئی اور مال لوٹے گئے۔”

چونکہ فتنہ و فساد ان ماتمی جلوسوں کا لازمہ ہے، اس لئے اکثر و بیشتر اسلامی ممالک میں اس بدعتِ سیئہ کا کوئی وجود نہیں، حتیٰ کہ خود شیعی ایران میں بھی اس بدعت کا یہ رنگ نہیں جو ہمارے ہاں کربلائی ماتمیوں نے اختیار کر رکھا ہے،
حال ہی میں ایران کے صدر کا بیان اخبارات میں شائع ہوا، جس میں کہا گیا:
“عَلم اور تعزیہ غیراسلامی ہے۔ عاشورہ کی مروّجہ رُسوم غلط ہیں۔
ایران کے صدر خامنہ ای کی تنقید۔ تہران (خصوصی رپورٹ) ایران کے صدر خامنہ ای نے کہا ہے کہ یومِ عاشورہ پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی یاد تازہ کرنے کے مروّجہ طریقے یکسر غلط اور غیراسلامی ہیں۔

بہرحال .... رسوماتِ محرّم صرف بدعت ہی نھیں بلکہ شرک کے زمرے میں بھی آتی ہیں,
اسلئے ان سے بالکلیہ احتراز کیا جائے، اور اس طرح کی رسموں میں کسی بھی قسم کی شرکت نہ کی جائے، اللہ تعالٰی تمام امت مسلمہ کو دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے، آمین،
مزید تفصیل کیلئے پڑھیں 📖👇
(کتاب النوازل١ / ٤٩٢ تا ٥٠٥)
واللہ عالم بالصواب

सवाल: मुहर्रम के महीने में जो मातमी जुलूस निकाले जाते हैं शहादते हुसैन के नाम से, ऐसे जलसे जुलूस की शरीयत में क्या स्थिति है?
और रिवाज पाया हुआ मातमे हुसैन, कब और कैसे आविष्कार (ईजाद) हुआ?
.
जवाब: माहे मुहर्रम और बिदआतो-रुसूमात:
माहे मुहर्रम में ख़ासकर के पाकिस्तान, और अब हिंदुस्तान के भी बहुत से इलाकों में, बहुत सी बिदआतो-रुसूमात अपनाई जाती हैं, मसलन मुहर्रम का चांद दिखते ही, ताजिया बनाना, काले कपड़े पहनना, काले झंडे लगाना, मजालिसे शहादत आयोजित करना, नोहे और मर्सिये पढ़ना, चूल्हे औंधे कर देना, औरतों का बदन से गहने उतार देना, मातमी जुलूस निकाला, जंजीरों या छुरियों से खुद को घायल करना, ताज़िये और ताबूत बनाना, पानी की सबीलें लगाना, खिचड़ी पकाना, मुहर्रम के चलते खुशी के समारोह मसलन शादी वगैरह न करना और शहादत का सोग हर साल मनाना वगैरह वगैरह...
गौरतलब है कि इन बिदआतो-रुसूमात को अंजाम देने वाले यह लोग, इन सभी कामों को सवाब समझ कर करते हैं और यह समझते हैं कि इन कामों में से अगर कोई काम छूट गया तो बस मज़हब ही हाथ से जाता रहा।
इसकी मिसाल ताजिया बनाने वाले लोग हैं, कि उनकी एक बड़ी संख्या मुशरिक, बिदअती, बे नमाज़ी और बे रोज़ा दार है, लेकिन उन्हें इस बात की बिल्कुल भी चिंता नही है कि फ़र्ज़ छूट रहे हैं तो अल्लाह के सामने उसका क्या जवाब दूंगा?
लेकिन ताजिया बनाने की चिंता उन्हें मुहर्रम के आने से बहुत पहले लग जाती है कि जो ताजिया पुश्तों से उनके यहां बनता चला आ रहा है वह हर हाल में बनेगा, जबकि यह ताजिया वगैरह बनाना या बनवाना न फ़र्ज़ है, न सुन्नत, न वाजिब, और न ही सहाबा रज़ियल्लाहु अन्हुम का तरीका है, और न ही चारों इमामों से इसका सबूत मिलता है है, और न ही बुज़ुर्गों से यह क़बीह बुराई साबित है।
सिर्फ ताजिए ही क्या मुहर्रम की रुसूमात में से एक भी रस्म कुरानो-हदीस में नहीं है, बस यह सब रस्में सरासर बिदआत हैं, इनके दोषी गुनहगार हैं।
बहुत से सुन्नी भाई बहन, राफज़ी व शिया लोगों की देखा देखी और कुछ इनके लम्बे चौड़े प्रचार का शिकार होकर उपरोक्त (ऊपर ज़िक्र की गई) बिदअतों को कर बैठते हैं।
चुनांचे सही दीनी इल्म न होने के कारण बहुत से सुन्नी घरों में मुहर्रम की दसवीं तारीख को चूल्हे औंधे कर दिए जाते हैं, नोबियाही औरतें आशूरा बिताती हैं, शहादते हुसैन के ग़म में गहने पहनना छोड़ देती हैं।
आशूरा के जुलूस में रवाफिज़ (शिया) का जुलूस से आगे सुन्नी जनता के ताजियों का जुलूस होता है, इसी तरह इनके जुलूस के पीछे सुन्नियों का मातमी जुलूस होता है जिसमें पट्टा बाज़ी और मुंह से आग निकालने और तलवार बाजी वगैरह के तमाशे किए जाते हैं, उनके नीचे से बच्चों और बीमारों को गुज़ारा जाता है जबकि यह रस्म मूर्ति पूजा से किसी तरह कम नहीं।
.
सबसे ज़्यादा अफसोस की बात यह है कि जो लोग कर्बला का फ़साना और शहीद मज़लूम की खुद की घड़ी दास्तानें और उन पर पानी बंद होने के झूठे किस्से सुनते सुनाते हैं, वही मुहर्रम के महीने में शर्बत के मटके और खिछड़े की डेगें खा पीकर अपनी तोंदे बढ़ा रहे हैं, जबकि सच बात तो यह है कि अगर वाकई इनके दिल में अपने बड़ों का प्यार है तो इन्हें भी यह दिन भूखे प्यासे रहकर बिताना चाहिए था।
इसी तरह इनके बयान करदा दास्तानों के अनुसार इन्हें आशूरा के दौरान शादियां भी करनी चाहिए जैसाकि हज़रत कासिम रह़्मतुल्लाहि-अ़लैह की मेहंदी खुद इन्हीं के बक़ौल कर्बला के मैदान में आशूरा की रात लाई गई थी, मगर इन अक्ल के अंधों को यह भी नही पता कि दूल्हा दुल्हन की यह मेंहदी की रस्म एक ख़ालिस हिंदी रस्म है, क्योंकि अरब क्षेत्रों में आज भी मेंहदी नाम की कोई रस्म नहीं पाई जाती, फिर इस मेंहदी के संबंध में मलीदह बनता है जो बहुत से मुसलमान इल्मे दीन न होने के कारण ताज़ियों पर चढ़ाते हैं।
हजरते हुसैन रज़ियल्लाहु अन्ह और दूसरे शहीद लोग जो कर्बला के मैदान में खुद इन रवाफिज़ (शियाओं) ही के हाथों क़त्ल हुए, अपने मज़लूमाना क़त्ल के कारण शहीद कहे जाते हैं, कुरानो-हदीस की रू से शहीदों को अल्लाह हमेशा की ज़िंदगी प्रदान करता है)
जबकि मस्अला यह है कि इस्लाम में किसी भी शख्स की मौत या शहादत पर तीन दिन से ज़्यादा का सोग नहीं, सिवाय विधवा औरतों के, कि वे अपने पति की मृत्यु या शहादत पर चार महीने दस दिन का सोग करेंगी फिर यह सोग हर साल नहीं दोहराएगी,(मुस्लिम 1/ 487)
क्योंकि अगर इस्लाम में हर साल मख़सूस दिनों में सोग मनाना जाइज़ होता तो हम हज़रत अली (रज़ि) की हत्या का सोग मनाते, जोकि अपने बेटे हुसैन से बेहतर हैं, या फिर हज़रत उस्मान गनी (रजि) की हत्या का सोग मनाते जोकि अली से बेहतर हैं, या फिर उमर फारूक (रजि) की हत्या का सोग और मातम मनाते जोकि इन दोनों यानी अली और उस्मान से बेहतर हैं,
या फिर हुज़ूर सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम की वफ़ात का सोग मनाते कि दुनिया में मुसलमानों पर इस दुख से बढ़कर न तो कोई दुख आया है और न आएगा।
लेकिन इस्लाम में इस तरह के सोग और मातम मनाने की कोई गुंजाइश नहीं है,

इसके अलावा कुछ सुन्नी मुसलमान इस महीने में राफज़ी (शिया) लोगों की देखा देखी में अपने बच्चों को हजरत अब्बास रज़ियल्लाहु अन्ह का फकीर बनाते हैं, उन्हें कलावा पहनाते हैं, तो वे बच्चे दर-दर जाकर भीख मांगते हैं, फिर भीख के पैसों से हज़रते अब्बास की फातिहा दिलाई जाती है, यह रस्म भी बिदअत है, इसलिए कि अगर हज़रते अब्बास का फकीर जाइज़ होता तो ज़ैनुल आबिदीन अपने बेटे बाक़िर को और बाक़िर अपने बेटे जाफर को और जाफर अपने बेटे मूसा काज़िम को और मूसा काज़िम अपने बेटे अली रजा को और अली रज़ा अपने बेटे मोहम्मद तकी, अली नक़ी और हसन असकरी को जरूर हजरते अब्बास का फकीर बनाते कि ये लोग उनके क़राबत दार और संतान होने के नाते इन मामलों को अंजाम देने के ज़्यादा हकदार थे।

2- मुहर्रम के मातमी जुलूस की शुरुआत कब हुई?
मुहर्रम के मातमी जुलूस की बिदअत, चौथी शताब्दी के मध्य में माज़ुद-दौला दैलमी ने ईजाद की।
(मुन्तहल-आमाल1 प453)
यह शियाओं की भरोसेमंद किताब है।
.
तमाम इतिहासकारों ने दोहराया है कि 352 हिजरी में आशूरा के दिन माज़ुद-दौला दैलमी ने अहले बगदाद को हजरत हुसैन रज़ियल्लाहु अन्ह पर नोहा (रोना चिल्लाना) करने, चेहरा पीटने और मातम करने का आदेश दिया और कहा कि औरतें सिर के बाल खोलकर और मुंह काला करके निकलें, बाजार बंद रखे जाएं, दुकानें पर टाट लटकाए जाएं और तब्बाख़ (बावर्ची लोग) खाना न पकाएं।
तो बस शिया औरतों ने इस शान से जुलूस निकाला कि वे डेग वगैरह की स्याही से मुंह काले किए हुए थीं और सीना पीटती और नोहा करती हुई जा रही थीं।
सालों तक यही रिवाज रहा और अहले सुन्नत इस (बिदअत) को रोकने से आजिज़ रहे, क्योंकि राजा, शियाओं का साथ दे रहा था।
.
हाफिज इब्ने कसीर ने "अल-बिदाया वन-निहाया नामी किताब" में 352 हिजरी चल रहा था) में इस वाकिए को इस तरह नकल किया है: (11/243)
कि सन् 352 हिजरी) मुहर्रम की दसवीं तारीख को माज़ुद-दौला बिन बोया दैलमी ने आदेश दिया कि बाजार बंद रखे जाएं, औरतें टाट पहन कर नंगे सिर, नंगे मुंह, बालों को खोले हुए, चेहरा पीटती हुईं, हज़रते हुसैन रज़ियल्लाहु अन्हु पर नोहा करती हुईं बाजारों में निकलें!
अहले सुन्नत लोग, यह करने से रोक न पाए, एक तो शियाओं के बहुत ज़्यादा होने की वजह से, और दूसरे हुक्मरान लोग इनके साथ थे।
ख़ैर... स्पष्ट हो गया कि चौथी सदी के मध्य तक उम्मत इन मातमी जुलूस से बिल्कुल नाआशना (अंजान) थी, इस लंबे समय में कोई सुन्नी इमाम तो दूर, किसी शिया मुक़्तदा ने भी इस बिदअत को ठीक नहीं कहा, जाहिर है कि इन मातमी जुलूस में यदि ज़रा भी ख़ैर (अच्छाई) होती तो ख़ैरुल-क़ुरून के लोग इस से महरूम न रहते।
हाफिज इब्ने हजर के अनुसार: यह एक ऐसा तकल्लुफ है जिसकी इस्लाम में कोई हाजतो-गुनजाइश नहीं, वर्ना तो अगर यह काम तारीफ वाला होता तो ख़ैरुल-क़ुरून (पहले लोग) जो बाद के लोगों से बहुत अच्छे थे, वह ज़रूर इस काम को करते।
(अल-बिदाया वन-निहाया 11/254)

बहरहाल... रुसूमाते मुहर्रम सिर्फ बिदअत ही नहीं बल्कि शिर्क की श्रेणी में भी आती हैं, इसलिए इनसे पूरी तरह बचना चाहिए, और इस तरह की रस्मों में किसी भी तरह की भागीदारी न करनी चाहिए।
अल्लाह सभी मुसलमानों को दीन की सही समझ अता करे, आमीन!

No comments:

Post a Comment