Monday 26 October 2015

ﻧﻌﺘﯿﮧ ﻣﺸﺎﻋﺮﮦ ﻣﯿﮟ ﺟﮕﺮ

رئیس المتغزلین حضرت جگر مراد آبادی پچپن ہی سے حسن پرست واقع ہوئے تھے۔ آٹھ نو سال کی عمر تھی جب اپنے چچا کے ایک کرایہ دار کی بیوی کا حسن ان کی آنکھوں میں سما گیا تھا۔ اس کے بعد وحیدن، روشن فاطمہ،نسیم، سندری، مندری اور شیرازن جیسی عورتوں کے حسن کا وہ شکار ہوتے رہے ور ان کے عشق میں بیمار بھی۔ چودہ پندرہ برس کی عمر میں انگور کی بیٹی سے تعارف ہوا اور جب یہ کافر ادا منہ لگی تو پھر چھڑائے نہ چھٹی۔ لاکھ توبہ کرتے مگر انگور کی بیٹی ایک بار جب ان کے سامنے آجاتی توبہ دھری کی دھری رہ جاتی۔ کبھی لہرا کے پی جاتے تو کبھی شرما کے پی جاتے اور کبھی رحمت تمام کو باتوں باتوں میں بہلا کے پی جاتے۔ شراب ان کی گھٹی میں اپنا مستقر بنا چکی تھی اوران کی شیروانی میں بوتل ہمیشہ پڑی ملتی۔ کبھی اپنے مرشد حضرت اصغرؔ گونڈوی سے دعا کی درخواست کرتے اور اپنے ہی جیسا نرگس مستانہ بنانے کی فرمائش کرتے تو کبھی شاہ عبد الغنی منگلوری کے در پر حاضر ہو کر رہنمائی کی التجا کرتے ۔ وہ اپنی رندی و بلا نوشی پر نادم بھی ہوتے اور شرمندہ بھی۔ اسے ترک کرنے کی کوشش بھی کرتے مگر جس دل پر پیہم وار لگے ہوں اس کے کاری زخم کو شراب کے علاوہ اور کس شے سے قرار مل سکتا تھا۔ وہ آوارہ ہوگئے تھے، عینک فروشی سے جو کچھ ہاتھ آتا اسے شراب میں لٹا دیتے اور عالم مدہوشی میں ان کا جذبۂ شوق جدھر لے جاتا وہ پھرتے رہتے۔ کئی کئی دن گھر نہیں آتے۔ جانے کہاں کہاں بیٹھ کر شراب پیتے رہتے۔ جیسے جیسے دل پر وار ہوتا،ضرب لگتی دل کی آہ شاعری بن جاتی۔ بڑی سادگی سے وہ اپنے قلب وجگر کے سوز پنہاں کو شاعری کے پیکر میں ڈھال دیتے۔ جیسے جیسے درد بڑھتارہا، شغل مے نوشی اور بادہ نوشی میں اضافہ ہوتا رہا اور شاعری پروان چڑھتی رہی۔ جب جگر کے مخصوص ترنم میں ان کا مخصوص کلام سامعین کی سماعتوں سے ٹکراتا تو دلوں میں گھر کرلیتا، سامعین جھوم جھوم جاتے عش عش کر اٹھتے۔ وہ دن مشاعروں کے موسم بہار اور اردو شعر وادب کے عروج کے دن تھے۔ جگر ؔمرادآبادی کا نام ہی مشاعروں کی کامیابی کی ضمانت بن گیا تھا۔ شاعری کی شہرت کے ساتھ مے نوشی میں بلا کا اضافہ ہوگیا تھا۔ منتظمین مشاعرہ انہیں بھر بھر کر پلاتے اور جی بھر کر سنتے اور حظ اٹھاتے۔ کبھی شراب کے لیے انہیں عینکوں کا کاروبار کرنا پڑتا تھا مگراب یہ حالت تھی کہ انہیں شراب پلانے میں لوگ اپنی سعادت سمجھنے لگے تھے۔ مشاعرہ جگرؔ اور شراب لازم ملزوم بن گئے تھے۔ کوئی مشاعرہ جگرؔ کے بغیر کامیاب تسلیم نہیں کیا جاتا تو جگرؔ شراب کے بغیر کچھ پڑھ بھی نہیں سکتے تھے اور جب پڑھتے تو ایسا کلام سامنے آتا کہ گلی کوچوں میں مدتوں دہرایا جاتا۔ مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ کوئی مذاق میں بھی کہہ دیتا’’ وہ دیکھوجگر صاحب آرہے ہیں‘‘تو بے شمار آنکھیں اس طرف اٹھ جاتیں۔
جگرؔ صاحب نے ہمیشہ شغل مے نوشی کی اور صرف غزلیں کہیں۔ جن دنوں بھوپال ہاؤس میں جگر صاحب ٹھہرے ہوئے تھے نعت کے مشہور شاعر اور زائرحرم کے خالق جناب حمیدؔ صدیقی بھی وہیں ٹھہرے ہوئے تھے اور جگرؔصاحب سے ملنے آیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حمیدؔ صدیقی ان سے ملنے آئے جگر عالم سرشاری میں لیٹے ہوئے کوئی غزل گنگنا رہے تھے۔ تپائی پر بوتل رکھی ہوئی تھی۔ جیسے ہی حمیدؔ صدیقی پر نظر پڑی وہ گھبرا گئے اور کہا میں نے آپ کو منع کیا تھا کہ ایسے وقت میرے پاس نہ آیا کریں۔ انہوں نے کہا حرج ہی کیا ہے۔ میں آپ کے اس شغل سے واقف بھی ہوں اور معترض بھی نہیں۔ جگرصاحب نے کہا بات معترض ہونے کی نہیں ہے اس عالم میں اگر میں آپ سے نعت سنوں تو کیسے سنوں۔ اور وہ آب دیدہ ہوگئے۔

جگرؔ جیسے شرابی شاعر کا یہ اعلیٰ شعور۔ اللہ اکبر! جگر نے کبھی نعت نہیں کہی صرف غزلیں کہتے رہے اور دل کا غبار کاغذ پر اُنڈیلتے رہے۔ جگرؔ صاحب نے پہلی نعت اجمیر کے مشاعرے کے لیے کہی۔ اس نعت کا عجیب و غریب شان نزول پاکستان کے مشہور و معروف تذکرہ و خاکہ نگار ڈاکٹر ساجد حمید نے کچھ ا س طرح بیان کیاہے :

’’اجمیر میں نعتیہ مشاعرہ تھا، فہرست بنانے والوں کے سامنے یہ مشکل تھی کہ جگر صاحب کو اس مشاعرے میں کیسے بلایا جائے، وہ کھلے رند تھے اورنعتیہ مشاعرے میں ان کی شرکت ممکن نہیں تھی۔ اگر فہرست میں ان کا نام نہ رکھا جائے تو پھر مشاعرہ ہی کیا ہوا۔ منتظمین کے درمیان سخت اختلاف پیدا ہو گیا۔ کچھ ان کے حق میں تھے اور کچھ خلاف۔
در اصل جگرؔ کا معاملہ تھا ہی بڑا اختلافی۔ بڑے بڑے شیوخ اور عارف باللہ اس کی شراب نوشی کے باوجود ان سے محبت کرتے تھے۔ انہیں گناہ گار سمجھتے تھے لیکن لائق اصلاح۔ شریعت کے سختی سے پابند مولوی حضرات بھی ان سے نفرت کرنے کے بجائے افسوس کرتے تھے کہ ہائے کیسا اچھا آدمی کس برائی کا شکار ہے۔ عوام کے لیے وہ ایک اچھے شاعر تھے لیکن تھے شرابی۔ تمام رعایتوں کے باوجود مولوی
حضرات بھی اور شاید عوام بھی یہ اجازت نہیں دے سکتے تھے کہ وہ نعتیہ مشاعرے میں شریک ہوں۔ آخر کار بہت کچھ سوچنے کے بعد منتظمین مشاعرہ نے فیصلہ کیا کہ جگر کو مدعو کیا جانا چاہیے۔ یہ اتنا جرات مندانہ فیصلہ تھا کہ جگرؔ کی عظمت کا اس سے بڑا اعتراف نہیں ہوسکتا تھا۔ جگر کو مدعو کیا گیا تووہ سر سے پاؤں تک کانپ گئے۔
’’میں رند، سیہ کار، بد بخت اور نعتیہ مشاعرہ! نہیں صاحب نہیں‘‘ ۔

اب منتظمین کے سامنے یہ مسئلہ تھا کہ جگر صاحب کو تیار کیسے کیا جائے۔ ا ن کی تو آنکھوں سے آنسو اور ہونٹوں سے انکار رواں تھا۔ نعتیہ شاعر حمید صدیقی نے انہیں آمادہ کرنا چاہا، ان کے مربی نواب علی حسن طاہر نے کوشش کی لیکن وہ کسی صورت تیار نہیں ہوتے تھے، بالآخر اصغرؔ گونڈوی نے حکم دیا اور وہ چپ ہوگئے۔
سرہانے بوتل رکھی تھی، اسے کہیں چھپادیا، دوستوں سے کہہ دیا کہ کوئی ان کے سامنے شراب کا نام تک نہ لے۔ دل پر کوئی خنجر سے لکیر سی کھینچتا تھا، وہ بے ساختہ شراب کی طرف دوڑتے تھے مگر پھر رک جاتے تھے، شیرازن سے ہمارا رشتہ فراق کا ہے لیکن شراب سے تو نہیں لیکن مجھے نعت لکھنی ہے، شراب کا ایک قطرہ بھی حلق سے اترا تو کس زبان سے اپنے آقا کی مدح لکھوں گا۔ یہ موقع ملا ہے تو مجھے اسے کھونا نہیں چاہیے، شاید یہ میری بخشش کا آغاز ہو۔ شاید اسی بہانے میری اصلاح ہوجائے، شایدمجھ پر اس کملی والے کا کرم ہوجائے، شایدخدا کو مجھ پر ترس آجائے۔

ایک دن گزرا، دو دن گزر گئے، وہ سخت اذیت میں تھے۔ نعت کے مضمون سوچتے تھے اور غزل کہنے لگتے تھے، سوچتے رہے، لکھتے رہے، کاٹتے رہے، لکھے ہوئے کو کاٹ کاٹ کر تھکتے رہے، آخر ایک دن نعت کا مطلع ہو گیا۔ پھر ایک شعر ہوا، پھر تو جیسے بارش انوار ہوگئی۔ نعت مکمل ہوئی تو انہوں نے سجدۂ شکر ادا کیا۔

مشاعرے کے لیے اس طرح روانہ ہوئے جیسے حج کو جا رہے ہوں۔ کونین کی دولت ان کے پاس ہو۔ جیسے آج انہیں شہرت کی سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچنا ہو۔ انہوں نے کئی دن سے شراب نہیں پی تھی، لیکن حلق خشک نہیں تھا۔ ادھر تو یہ حال تھا دوسری طرف مشاعرہ گاہ کے باہر اور شہرکے چوراہوں پر احتجاجی پوسٹر لگ گئے تھے کہ ایک شرابی سے نعت کیوں پڑھوائی جارہی ہے۔ لوگ بپھرے ہوئے تھے۔ اندیشہ تھا کہ جگرصاحب کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے یہ خطرہ بھی تھاکہ لوگ اسٹیشن پر جمع ہوکر نعرے بازی نہ کریں۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے منتظمین نے جگر کی آمد کو خفیہ رکھا تھا۔ وہ کئی دن پہلے اجمیر پہنچ چکے تھے جب کہ لوگ سمجھ رہے تھے کہ مشاعرے والے دن آئیں گا۔جگر اپنے خلاف ہونے والی ان کاروائیوں کو خود دیکھ رہے تھے اور مسکرا رہے تھے

کہاں پھر یہ مستی کہاں ایسی ہستی
جگرؔ کی جگر تک ہی مے خواریاں ہیں

آخر مشاعرے کی رات آگئی۔ جگر کو بڑی حفاظت کے ساتھ مشاعرے میں پہنچا دیا گیا۔

’’رئیس المتغزلین حضرت جگر مرادابادی!‘‘

 اس اعلان کے ساتھ ہی ایک شور بلند ہوا، جگر نے بڑے تحمل کے ساتھ مجمع کی طرف دیکھا
’’آپ لوگ مجھے ہوٹ کر رہے ہیں یا نعت رسول پاک کو، جس کے پڑھنے کی سعادت مجھے ملنے والی ہے اور آپ سننے کی سعادت سے محروم ہونا چاہتے ہیں‘‘ ۔
شور کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ بس یہی وہ وقفہ تھا جب جگر کے ٹوٹے ہوئے دل سے یہ صدا نکلی ہے…

اک رند ہے اور مدحتِ سلطان مدینہ
ہاں کوئی نظر رحمتِ سلطان مدینہ

جوجہاں تھا ساکت ہوگیا۔ یہ معلوم ہوتا تھا جیسے اس کی زبان سے شعر ادا ہو رہا ہے اور قبولیت کا پروانہ عطا ہو رہا ہے۔ نعت کیا تھی گناہگار کے دل سے نکلی ہوئی آہ تھی، خواہشِ پناہ تھی، آنسوؤں کی سبیل تھی، بخشش کا خزینہ تھی۔ وہ خود رو رہے تھے اور سب کو رلا رہے تھے، دل نرم ہوگئے، اختلاف ختم ہو گئے، رحمت عالم کا قصیدہ تھا، بھلا غصے کی کھیتی کیونکر ہری رہتی۔’’یہ نعت اس شخص نے کہی نہیں ہے، اس سے کہلوائی گئی ہے‘‘۔مشاعرے کے بعد سب کی زبان پر یہی بات تھی۔ اس نعت کے باقی اشعار یوں ہیں:

دامان نظر تنگ و فراوانیِ جلوہ
اے طلعتِ حق طلعتِ سلطانِ مدینہ

اے خاکِ مدینہ تری گلیوں کے تصدق
تو خلد ہے تو جنت ِسلطان مدینہ

اس طرح کہ ہر سانس ہو مصروفِ عبادت
دیکھوں میں درِ دولتِ سلطانِ مدینہ

اک ننگِ غمِ عشق بھی ہے منتظرِ دید
صدقے ترے اے صورتِ سلطان مدینہ

کونین کا غم یادِ خدا ور شفاعت
دولت ہے یہی دولتِ سلطان مدینہ

ظاہر میں غریب الغربا پھر بھی یہ عالم
شاہوں سے سوا سطوتِ سلطان مدینہ

اس امت عاصی سے نہ منھ پھیر خدایا
نازک ہے بہت غیرتِ سلطان مدینہ

کچھ ہم کو نہیں کام جگرؔ اور کسی سے
کافی ہے بس اک نسبت ِسلطان مدینہ

تحریر: ڈاکٹر شمس کمال انجم

No comments:

Post a Comment