Friday 30 October 2015

جمعہ کے دن قبولیت کی گھڑی؟

ایس اے ساگر
امام بخاری رحمہ اللہ  کہتے ہیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کاذکر فرمایا، تو یہ کیا کہ اس میں ایک ایسا وقت ہے کہ اس وقت کوئ بندہ مومن کهڑے ہوکر نماز پڑهتا ہے اور اللہ سےکوئی دعاکرتاہیں
تو اسے قبول فرمالیتے ہیں اور آپ نے ہاتھ سے اشارہ فرمایا وقت بہت تهوڑاہے...اس گھڑی کی تعیین کے بارے میں متعدد اقوال ہیں، جن میں سے دو صحیح ہیں۔
چنانچہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"ان تمام اقوال میں سے صحیح دو اقوال ہیں، جو کہ ثابت شدہ احادیث کے ضمن میں آئے ہیں، ان دونوں میں سے بھی ایک صحیح ترین قول ہے:
پہلا قول:
یہ گھڑی امام کے بیٹھنے سے لیکر نماز مکمل ہونے تک ہے، اس قول کی دلیل صحیح مسلم (853) کی روایت ہے، جسے ابو بردہ بن ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے، آپ [ابو بردہ]کہتے ہیں کہ مجھے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا:کیا تم نے اپنے والد [ابو موسی اشعری] کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جمعہ کے دن قبولیت والی گھڑی کے بارے میں روایت کرتے ہوئے سنا ہے؟
میں [ابو بردہ] نے کہا: جی ہاں؛ میں نے انہیں کہتے ہوئے سنا تھا، وہ کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے کہتے ہوئے سنا: (یہ گھڑی امام کے منبر پر بیٹھنے سے لیکر نماز کے مکمل ہونے تک ہے)
ترمذی: (490) اور ابن ماجہ : (1138) میں کثیر بن عبد اللہ بن عمرو بن عوف المزنی رحمی اللہ علیہ  کی روایت ہے کہ وہ اپنے والد سے، اور وہ اسکے دادا سے بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بلاشبہ جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی ہے، جس میں کوئی بھی بندہ اللہ تعالی سے کچھ بھی مانگے ، تو اللہ تعالی اسے وہی عنائت فرماتا ہے!!) صحابہ رضی اللہ عنہم  نے پوچھا: اللہ کے رسول! یہ کونسی گھڑی ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (نماز کھڑی ہونے سے لیکر نماز ختم ہونے تک) [اس حدیث کے بارے میں شیخ البانی کہتے ہیں: "ضعیف جدا"یعنی یہ روایت سخت ضعیف ہے]
دوسرا قول یہ ہے کہ :
یہ گھڑی عصر کے بعد ہے، اور یہ قول پہلے سے زیادہ راجح ہے، اسی کے عبد اللہ بن سلام ، ابو ہریرہ، امام احمد، اور بہت سے لوگ قائل ہیں۔
اس قول کی دلیل امام احمد کی مسند میں روایت کردہ حدیث (7631) ہے، جسے ابو سعید خدری، اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بلاشبہ جمعہ کے دن ایک گھڑی ہے، جس گھڑی میں کوئی بھی مسلمان بندہ اللہ تعالی سے کوئی بھی اچھی چیز مانگے تو اللہ اسے وہی عنائت فرماتا ہے، اور یہ گھڑی عصر کے بعد ہے) [مسند احمد کی تحقیق میں ہے کہ: یہ حدیث اپنے شواہد کی بنا پر صحیح ہے، لیکن یہ سند ضعیف ہے]
اسی طرح ابو داود: (1048) اور نسائی: (1389) میں جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (جمعہ کا دن بارہ پہر[گھڑیوں ]پر مشتمل ہے، ان میں سے ایک لمحہ ایسا ہے جس میں کوئی مسلمان اللہ تعالی سے کچھ بھی مانگے تو اللہ تعالی اُسے وہی عطا فرما دیتا ہے، تم اسے جمعہ کے دن عصر کے بعد آخری لمحہ میں تلاش کرو )[اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے]
اور اسی طرح سعید بن منصور نے اپنی سنن میں ابو سلمہ بن عبد الرحمن سے نقل کیا ہے کہ : " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام ایک جگہ جمع ہوئے، اور جمعہ کے دن قبولیت کی گھڑی کے بارے میں گفتگو شروع ہوگئی، تو مجلس ختم ہونے سے پہلے سب اس بات پر متفق ہوچکے تھے کہ یہ جمعہ کے دن کے آخری وقت میں ہے"
[حافظ ابن حجر نے "فتح الباری" 2/489 میں اسکی سند کو صحیح قرار دیا ہے]
اور سنن ابن ماجہ (1139)میں عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کہا:"ہم کتاب اللہ [یعنی تورات ] میں جمعہ کے دن ایک گھڑی [کا ذکر ]پاتے ہیں، جس گھڑی میں جو کوئی مؤمن بندہ نماز پڑھتے ہوئے اللہ تعالی سے کچھ مانگے تو اللہ تعالی اسکی وہی ضرورت پوری فرما دیتا ہے۔
عبد اللہ بن سلام کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے [میری تصحیح کرتے ہوئے]اشارہ کیا: (یا گھڑی کا کچھ حصہ!؟)
میں نے کہا: آپ نے درست فرمایا: گھڑی کا کچھ حصہ۔
میں نے [آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے]عرض کیا: یہ گھڑی کونسی ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یہ جمعہ کے دن کی آخری گھڑی ہے)
میں نے کہا: جمعہ کے دن آخری لمحہ نماز کا وقت تو نہیں ہوتا؟!
آپ نے فرمایا: صحیح کہتے ہو، لیکن جب کوئی مؤمن بندہ نماز پڑھ کر بیٹھ جائے، اور اسے نماز کا انتظار کہیں جانے سے روکے تو وہ شخص بھی نماز ہی میں ہے"[اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے]
اسی طرح سنن ابو داود: (1046)، ترمذی: (491) اور نسائی: (1430) میں ابو سلمہ بن عبد الرحمن رحمہ اللہ ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جن دنوں میں سورج طلوع ہوتا ہے، ان میں افضل ترین دن جمعہ کا دن ہے، اسی دن میں آدم [علیہ السلام] کو پیدا کیا گیا، اسی دن دنیا میں انہیں اتارا گیا، اور اسی دن میں انکی توبہ قبول ہوئی، اور اسی دن انکی وفات ہوئی، جمعہ کے دن ہی قیامت قائم ہوگی، اور جنوں و انسانوں کے علاوہ ہر ذی روح چیز قیامت کے خوف سے جمعہ کے دن صبح کے وقت کان لگا کر خاموش رہتی ہے، یہاں تک کہ سورج طلوع ہو جاتا ہے، اس دن میں ایک ایسی گھڑی ہے، جس گھڑی میں کوئی بھی مسلمان نماز پڑھتے ہوئے اللہ تعالی سے اپنی کوئی بھی ضرورت مانگے تو اللہ تعالی اسکی ضرورت پوری فرما دیتا ہے)
تو کعب نے کہا: یہ ہر سال میں ایک جمعہ میں ہوتا ہے؟
میں [ابو ہریرہ]نے کہا: بلکہ ہر جمعہ کو ایسے ہوتا ہے۔
تو کعب نے تورات اٹھائی اور پڑھنے لگا، پھر کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا۔
ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ اسکے بعد میں عبد اللہ بن سلام کو ملا، اور انہیں اپنی کعب کے ساتھ مجلس کا تذکرہ بھی کیا، تو عبد اللہ بن سلام نے [آگے سے یہ بھی کہہ دیا] : مجھے معلوم ہے یہ کونسی گھڑی ہے!
ابو ہریرہ کہتے ہیں، میں نے ان سے التماس کی کہ مجھے بھی بتلاؤ یہ کونسی گھڑی ہے؟
تو عبد اللہ بن سلام نے کہا: یہ جمعہ کے دن کی آخری گھڑی ہے۔
پھر میں نے [اعتراض کرتے ہوئے] کہا: یہ جمعہ کے دن کی آخری گھڑی کیسے ہوسکتی ہے؟! حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: (کوئی بھی مسلمان نماز پڑھتے ہوئے اسے پا لے) اور یہ وقت نماز پڑھنے کا وقت نہیں ہے[کیونکہ اس وقت نفل نماز پڑھنا منع ہے]؟!
تو عبد اللہ بن سلام نے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا: (جو شخص کسی جگہ بیٹھ کر نماز کا انتظار کرے تو وہ اس وقت تک نماز میں ہے جب تک نماز ادا نہ کر لے)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے کہا: بالکل آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔
تو عبد اللہ نے کہا: یہاں [نماز سے ] یہی مراد ہے۔"
امام ترمذی رحمہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ: یہ حدیث حسن اور صحیح ہے، جبکہ صحیح بخاری اور مسلم میں بھی اس حدیث کا کچھ حصہ روایت ہوا ہے، [اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے]" انتہی
ماخوذ از:
"زاد المعاد": (1/376)
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب 

دعا کی چار قسمیں
شیح العرب و العجم حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکیؒ نے فرمایا کہ دعا کی چار قسمیں ہیں:
(۱) دعائے فرض، مثلاً نبی علیہ السلام کو حکم ہوا کہ اپنی قوم کی ہلاکت کے لیے دعا کریں تو اب اس نبی علیہ السلام پر یہ کرنا فرض ہوگیا۔
(۲) دعائے واجب، جیسے دعائے قنوت (نماز وتر میں)۔
(۳) دعائے عبادت جیسا کہ عارفین کرتے ہیں اور اس سے محض عبادت مقصود ہے، جو امرِ الٰہی کی تعمیل (بجا آوری) کے طور پر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ دعا میں تذلل ہے۔ اور تذلل (عاجزی انکساری) اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے اسی لیے حدیث پاک میں ہے۔ ”الدعاء مخُّ العبادة“ (دعا عبادت کامغز ہے) وارد ہوا ہے۔ (برکات دعا: ص137)
دعائیں خوب مانگتے رہنے کا صحابہؓ کا وعدہ
حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،روئے زمین پر کوئی (ایسا) مسلمان نہیں جو اللہ تعالیٰ سے کوئی دعا مانگے مگر یہ کہ اللہ اس کی دعا قبول نہ فرمائے۔ یا یہ کہ اس کے برابر کوئی بُرائی اس سے دور کردی جائے، جب تک کسی گناہ اور قطع رحم کی دعا نہ مانگے۔ یہ سن کر صحابہؓ میں سے ایک صحابیؓ نے عرض کیا کہ یارسول الله (صلی اللہ علیہ وسلم) اب تو ہم خوب دعا مانگا کریں گے۔تو اس کے جواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ تعالیٰ بھی بہت قبول کرنے والے ہیں۔ (ترمذی، حاکم) (ماخذبرکات دعا: ص140)

دشمنوں سے نجات دلانے والا پیغمبرانہ اسلحہ
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دعا موٴمن کا ہتھیار ہے۔ دین کا ستون ہے، آسمانوں اور زمینوں کا نور ہے۔ (مسند ابویعلی، حاکم فی المستدرک)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تم کو وہ چیز نہ بتاوٴں، جو تم کو دشمن سے نجات دلائے اور تمہارے لیے روزی (مینہ اور بارش کی طرح)برسائے، وہ یہ کہ تم اللہ تعالیٰ کو پکارتے (دعائیں مانگتے) رہو، دن اور رات۔ یہ اس لیے کہ دعا موٴمن کا ہتھیار ہے، جو ہر قسم کی بلاوٴں کی محافظ اور حصول مال و جاہ کے لیے برابر وسیلہ ہے۔
حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہیں وہ چیز بتلاتا ہوں جو تمہیں تمہارے دشمنوں سے نجات دلائے اور تمہاری روزی بڑھائے، وہ یہ کہ تم رات دن میں (جس وقت بھی موقع ملے) اللہ تعالیٰ سے (اپنی حاجات کے لیے) دعا مانگا کرو، کیوں کہ دعا مسلمانوں کا ہتھیار ہے۔ (برکات دعا: ص146-145)
مسلمان کی تین عادتیں اللہ تعالیٰ کو بہت پیاری لگتی ہیں
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا، اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کی تین عادات بہت پسند ہیں: (۱)اپنی تمام طاقت و قوت کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں صرف کردینا۔ (۲)پشیمانی کے وقت گریہ وزاری کرنا (یعنی گڑگرا کر دعائیں مانگنا)۔ (۳)تنگ دستی کے وقت صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا شکوہ شکایت نہ کرنا۔(برکات دعا: ص153)

تین قلوب کے ساتھ دعا کرو
عارف باللہ حضرت شیخ خواجہ علی رامتینیؒ فرمایا کرتے تھے، جب تین قلوب ایک میں جمع ہوکر دعا کرتے ہیں تو ایسی دعا رد نہیں ہوتی۔ ایک سورہٴ یٰسٓ کہ جو دل ہے قرآن مجید کا۔ دوسرا شب آخر (یعنی سحر و تہجد کا وقت) جو دل ہے رات کا اور ایک دل اللہ تعالیٰ کے موٴمن بندے کا ہے، لہٰذا جس وقت یہ تینوں دل جمع ہو جاتے ہیں تو دعا ضرور قبول ہو جاتی ہے۔

مطلب یہ کہ تہجد کے وقت اٹھ کر نماز تہجد سے فارغ ہوکر سورہٴ یٰسٓ کی تلاوت کرنے کے بعد دل سے دعا کی جائے تو انشاء اللہ تعالیٰ تین دلوں کے جمع ہونے کی وجہ سے کی جانے والی دعا ضرور قبول کی جائے گی۔ (برکات دعا: ص157)
امام رازیؒ کا اپنی زندگی بھر کا تجربہ
حضرت امام رازی رحمہ الله فرماتے ہیں، انسان اپنے معاملات (ضروریات، مشکلات و حاجات) میں جب بھی اللہ تعالیٰ کے ا وپر بھروسہ (پورا یقین) اور اطمینان رکھتا ہے، تو راستہ کی تمام مشکلات حل ہو جایا کرتی ہیں، لیکن جہاں غیر اللہ کا تصور ذہن میں اُبھرا، یا ان پر کسی طرح کا بھروسہ رکھا تو بس وہیں سے پریشانیوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور یہ میرا بچپن سے اب تک کا تجربہ ہے۔ (برکات دعا: ص192)

اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کرنے کے بعد یوں فرمایا
عارف ربانی حضرت شیخ سہل بن عبداللہ تستریؒ فرماتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کرنے کے بعد فرمایا کہ، اے میرے بندو! راز مجھ سے کہو، اگر راز نہ کہہ سکو، تو نظر مجھ پر رکھو، اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو حاجت تو صرف مجھ ہی سے طلب کرو، اگر ایسا کروگے تو تمہاری حاجت روائی کی جائے گی۔ (برکات دعا: ص195)

دعا کی قبولیت کے لیے یہ بات ضروری ہے
عارفوں میں سے کسی عارف نے یہ فرمایا کہ مخلوق سے سوال کرنے (مانگنے) کی برائیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ سائل کی دعا اس کے حق میں مستجاب (قبول) نہیں ہوتی، کیوں کہ اجابتِ دعا کے لیے یہ بات لازمی ہے کہ مخلوق سے ناامید اور ہر قسم کے علائق سے مبرّا ہوکر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا جائے، مخلوق کی طرف نظر رکھنے کی حالت میں دعاوٴں کا قبول ہونا مشکل ہے۔ (مخزن اخلاق) ( برکات دعا: ص198)

تین آدمیوں کی دعاوٴں کے قبول ہونے میں کوئی شک نہیں
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین آدمیوں کی دعاوٴں کے قبول ہونے میں کوئی شک نہیں: (۱)والد کی دعا اپنے لڑکے کے لیے۔ (۲)مسافر کی دعا حالت سفر میں۔ (۳) مظلوم کی دعا حالت اضطرار میں۔(برکات دعا: ص221)

دعا کے لیے دوسروں سےدرخواست کرنا یہ پیغمبرانہ سنت ہے
حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ: میں نے ایک مرتبہ عمرہ کے سفر پر جانے کے لیے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت دے دی اور ساتھ ہی یوں فرمایا: اشرکنا یا اخیْ فی دعائک و لا تنسنَا، یعنی میرے بھائی! ہم کو بھی اپنی دعا میں شریک رکھنا اور ہم کو بھول نہ جانا۔

یہ سن کر عمرؓ نے فرمایا، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ اس کے بجائے اگر پوری دنیا مجھے مل جاتی تب اتنی خوشی نہ ہوتی جس قدر مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ان مقدس کلمات فرمانے سے ہوئی۔ (ابوداوٴد، ترمذی، مشکوٰة)
تشریح: حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بعضے منافع اہل کمال کو بھی اپنے سے کم مرتبہ والوں سے پہنچ سکتے ہیں، پس کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے کو مستغنی محض سمجھے۔
اس حدیث پاک سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دوسروں سے اپنے لیے دعا کرانا بھی محمود و مستحسن فعل ہے، یہ کوئی ضروری نہیں کہ جس سے دعا کے لیے کہا جائے وہ دعا کی درخواست کرنے والے سے افضل یا بڑا ہو۔
جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ سے دعا کے لیے فرمایا تو اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ اکابر کو بھی اپنے چھوٹوں سے دعا کے لیے کہنا چاہیے۔ (برکات دعا: ص246)
اسباب کے تحت ہر کام کے لیے کوشش کرنا انسان کے فرائض میں سے ہے
پیرانِ پیر سیدنا عبدالقادر جیلانیؒ فرماتے ہیں: بیٹے تجھ سے کچھ نہیں ہوسکتا اور تیرے کیے بغیر چارہ بھی نہیں ،بس تو کوشش کر، مدد کرنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے، اس سمندر (یعنی دنیا) میں جس کے اندر تو ہے اپنے ہاتھ پاوٴں کو ضرور ہلا، موجیں (حوادثاتِ زمانہ) تجھ کو اٹھا کر اور پلٹے دلاکر کنارہ تک لے بھی آئیں گی۔ تیرا کام دعا مانگنا ہے اور قبول کرنا اس کا کام، تیرا کام سعی کرنا ہے اور توفیق دینا اس کا کام۔ تیرا کام ہمت سے معصیتوں (گناہوں) کو چھوڑنا ہے اور بچائے رکھنا اس کا کام ہے۔ تو اس کی طلب میں سچا بن جا، یقینا وہ تجھ کو اپنے قرب کا دروازہ دکھلا دے گا، تو دیکھے گا کہ اس کی رحمت کا ہاتھ تیری طرف دراز ہوگیا۔ (برکات دعا: ص265)

حضور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دعا اس طرح مانگو
حکیم الامت حضرت تھانویؒ نے فرمایا: حضرت فضالة بن عبیدؓ سے روایت ہے، ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے کہ اچانک ایک صحابی تشریف لائے اور آتے ہی نماز پڑھی، سلام پھیر کر (دعا کے لیے ہاتھ اٹھا کر) وہ کہنے لگے اللہمَّ اغفرلی وارحمنی۔ یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے نماز پڑھنے والے! تو نے جلدی کی، جب تو نماز پڑھ کر فارغ ہو جائے، تو پہلے اللہ تعالیٰ کی ایسی حمد کر جس کا وہ اہل ہے، پھر مجھ پر درود بھیج، پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کر، راوی فرماتے ہیں: اس واقعہ کے بعد ایک اور صحابی تھوڑی دیر میں تشریف لائے اور انہوں نے بھی دوگانہ ادا کی، سلام پھیر کر انہوں نے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد (تعریف) کی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھا، بس اتنا سن کر خود نبیٴ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ، اے نماز پڑھنے والے! دعا مانگ، تیری (جائز) دعا قبول کی جائے گی۔ (ابوداوٴد، ترمذی، نسائی، احمد و ابن حبان) ( برکات دعا: ص273)

کوئی دعا آسمان تک نہیں پہنچتی مگر
حضرت عبداللہ بن یسرؓ سے روایت ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دعائیں ساری کی ساری رُکی رہتی ہیں، یہاں تک کہ اس کی ابتدا اللہ تعالیٰ کی تعریف (حمد وثنا) اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود سے نہ ہو۔ اگر ان دونوں کے بعد دعا کرے گا تو اس کی دعا قبول کی جائے گی۔ (فضائل درود شریف:ص76) ( برکات دعا: ص277)

ہم دعا مانگتے ہیں یا اللہ میاں کو آرڈر دیتے ہیں
عارف باللہ حضرت مولانا صدیق احمد باندویؒ فرماتے ہیں،اللہ تعالیٰ سے ہمارا تعلق صحیح نہیں، ہم چاہتے ہیں کہ خدا سے جو مانگا کریں وہ ملتا رہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے تمام کام بناتا رہے تو اللہ تعالیٰ سے تعلق ہے، ورنہ نہیں۔ نرینی (یہ ایک قصبہ کا نام ہے) میں ایک صاحب نماز کے بڑے پابند تھے، عرصہ کے بعد حضرت سے ان کی ملاقات ہوئی تو دیکھا کہ انہوں نے نماز وغیرہ عبادات سب چھوڑ دی تھی اور مجھ سے کہا، مولانا میں اتنے دن سے نماز پڑھ رہا ہوں، پریشان حال ہوں، دعائیں کرتا ہوں، مگر میری پریشانی دور نہیں ہوتی، ایسی نماز پڑھنے سے کیا فائدہ؟ اس لیے میں نے نماز وغیرہ چھوڑ دی۔

یہ سن کر حضرتؒ نے فرمایا: ارے بندہٴ خدا! تم اللہ تعالیٰ کی ماننے آئے ہو یا خدا سے منوانے آئے ہو؟ نماز تو اس واسطے پڑھی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے، فرض ہے، بندگی کے واسطے نماز پڑھی جاتی ہے پریشانی ہو یا نہ ہو، پھر ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کب مانگتے ہیں ہم تو اللہ تعالیٰ کو آرڈر دیتے ہیں کہ، یا اللہ یہ بھی ہو جائے، یہ بھی کر دیجیے (نعوذباللہ) جیسے نوکر سے کہا جاتا ہے کہ یہ کام کرلینا، یہ بھی کردینا ، کھیت میں ہل بھی جوت دینا، بازار سے سودا بھی لیتے آنا وغیرہ؛ اسی طرح (نعوذباللہ) ہم بھی اللہ تعالیٰ سے مانگتے نہیں بلکہ آرڈر دیتے ہیں، یاد رہے! اللہ تعالیٰ مانگنے پر دیتے ہیں، آرڈر پر نہیں دیتے۔
مانگنا اور چیز ہے، آرڈر دینا اور چیز ہے، مانگنے کے طریقے سے مانگو پھر دیکھو، اللہ تعالیٰ دیتے ہیں یا نہیں؟ پہلے اللہ تعالیٰ سے نسبت تو قائم کرو، احکام پر عمل کرو﴿ایاک نعبد﴾ پہلے فرمایا کہ ہمارا آپ سے یہ تعلق ہے کہ تیری غلامی کا اقرار کرتے ہیں اور جب تیرے غلام ہیں تو تیرے سوا ہم جائیں کہاں؟ تو ہی ہماری مدد فرما!
ہم بندے بننے کو تیار نہیں اور لینے کو تیار ہیں، نماز ایک وقت کی نہیں پڑھتے، گھر میں تلاوت نہیں، ٹی وی گھر میں ہے اور چاہتے ہیں کہ جو ہم چاہیں وہ اللہ تعالیٰ پورا کردیں، شکایت کرتے ہیں کہ اولاد کہنا نہیں مانتی، ارے! تم اللہ کی کتنی مانتے ہو؟ ایک بے نمازی کی نحوست نہ معلوم کتنے گھروں تک ہوتی ہے۔ بے نمازی کے گھر اللہ کی رحمت و برکت نہیں ہوتی اور یہاں پورا کا پورا گھر بے نمازی ہے، اللہ تعالیٰ کی رحمت کیسے آئے، دعائیں کیسے قبول ہوں؟ (برکات دعا: ص664)
خلاصہ یہ کہ آج ہم عمومی طور پر اسلامی تعلیمات سے ناواقف ہیں اور اگر ہیں تب بھی اس پر عمل پیرا نہیں، جہاں ہم نے اسلام کی بہت سی تعلیمات سے کنارہ کشی اختیار کی وہیں ہم دعا سے غفلت میں پڑے ہوئے ہیں نہ اس کی تعریف کا ہمیں علم، نہ اس کی حقیقت سے واقف، نہ اس کی طاقت اور اثر پر یقین، نہ دعا کرنے کا طریقہ اور سلیقہ معلوم۔ احقر نے برکات دعا نامی حضرت مولانا ایوب صاحب سورتی ماکھنگوئی دامت برکاتہم سے اکثر و بیشتر اقتباسات اس مضمون میں نقل کردے ہیں، ورنہ کتاب تو بڑی ضخیم ہے؛ البتہ اس موضوع پر ایک عمدہ کتاب ہے۔ اللہ موٴلف کو جزائے خیر عطا فرمائے اور ہم سب کو دعاوٴں سے وابستہ کردے اور اللہ ہم سے راضی ہو جائے۔اب چند اشعار پر میں مضمون کو سمیٹتا ہوں۔ محمد یوسف شکور تاج دعا کے بارے میں فرماتے ہیں:
رد وقبول پر تیری ہرگز نہ ہو نظر
تو بندگی وعجز سے حسنِ وفا سے مانگ
اے تاج پھر تیری دعا ہو جائے گی قبول
زاری سے انکساری سے اور التجا سے مانگ

حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکیؒ فرماتے ہیں:
کہاں جائے جس کا نہیں کوئی تجھ بن
کسے ڈھونڈے جو ہو طلبگار تیرا
تو میرا، میں تیرا، میں تیرا، تو میرا
ترا فضل میرا مرا کار تیرا
کوئی تجھ سے کچھ، کوئی کچھ چاہتا ہے
میں تجھ سے ہوں طلبگار تیرا
اپنی رضا میں مجھ کو مٹا دے اے مرے اللہ اے مرے اللہ
کردے فنا سب مرے ارادے اے مرے اللہ اے مرے اللہ
جام محبت اپنا پلادے اے مرے اللہ اے مرے اللہ
دل میں مری یاد اپنی رچادے اے مرے اللہ اے مرے اللہ
شغل میرا بس اب تو الٰہی شام وسحر ہو اللہ اللہ
لیٹے بیٹھے، چلتے پھرتے، آٹھ پہر ہو اللہ اللہ
مایوس نہ ہوں اہل زمیں اپنی خطا سے
تقدیر بدل جاتی ہے مضطر کی دعا سے
قفل در قبول نہ کھولے یہ بعید ہے
انسان کے پاس دست دعا ہی کلید ہے
کیوں دعا اپنی نہ ہو بابِ ظفر کی کنجی
گر یہ ہے قفلِ درِ گنج اثر کی قبول
تراشے تیرے وہم نے جو صنم ہیں
وہ اصنامِ باطل گراتا چلا جا
نہیں کوئی حاجت روا جز خدا کے
حقیقت یہی ہے بتاتا چلا جا

 (برکات دعا: ص778-780)
دعا  سے کروائیں اپنے مسائل حل 
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے ہاں دعا سے زیادہ کسی چیز کی وقعت نہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص یہ چاہئے کہ اللہ تعالی اس کی سختیوں اور مصیبتوں کے وقت دعا قبول فرمائیں اس کو چاہئے کہ وہ فراخی اور خوشحالی میں بھی کثرت سے دعا مانگے کرے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دعا مومن کا ہتھیار ھے دین کا ستون ھے اور آسمان و زمین کا نور ھے
قبولیت کی صورتیں 
نمبر ایک.جو مانگا وہی مل جائے ۔
نمبر دو.اس سے بہتر جو ہمارے حق میں زیادہ مفید ہو وہ مل جائے ۔
نمبر تین. ۔ آنے والی کوئی بلا ٹل جائے۔
نمبر چار. ایسا ذخیرہ آخرت بن جائے کہ تمنا کریں کاش دنیا میں کوئی دعا قبول نہ ہوتی ۔ 
انسان کو دعاؤں کی قبولیت میں جلد بازی اور اللہ کی رحمت سے مایوسی مناسب نہیں
دعا مانگنے کے آداب
کھانے، پینے ، پہننے ، اور کمانے میں حرام چیزوں سے پرہیز کرنا
اخلاص۔
پاک صاف ہونا ۔
اول آخر اللہ کی حمد و ثناء کرنا
اول آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا۔
اور اپنے گناہوں پر اللہ سے معافی مانگنا رونا گڑگڑانا اپنے گناہوں کا اعتراف کرنا اور اللہ کےاحسانات گنوا گنوا کر  طلب کرنا
جب ہم اللہ سے اس طریقے سے مانگیں گے تو اللہ تعالی ضرور ہمارے مسائل حل فرمائیں گے.

No comments:

Post a Comment