Thursday 29 October 2015

امام بخاری رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم
حدیث پاک کے حفظ وضبط اور صیانت وحفاظت میں جن نفوس قدسیہ نے لازوال خدمات انجام دیں ان میں سے ایک محمد بن إسماعیل البخاری رحمتہ اﷲعلیہ ہیں 
امام بخاری رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مشہور قصہ فضل الباری میں فتح الباری کے حوالے سے منقول ہے
لامہ عجلونی نے آپ کی ثقاہت کے بارے میں یہ عجیب واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ آپ دریا کا سفر کر رہے تھے اور آپ کے پاس ایک ہزار اشرفیاں تھیں۔ ایک رفیق سفر نے عقیدت مندانہ راہ و رسم بڑھا کر اپنا اعتماد قائم کر لی
امام رحمه الله علیہ نے اس سے اپنی اشرفیوں کا ذکرکردیا ایک دن صبح ہی اس شخص نے شوروغل مچانا شروع کردیا لوگوں نے متعجب ہوکر اس آہ وبکا کا سبب دریافت کیاتو بولا:
میرے پاس ایک ہزار اشرفیوں کی تھیلی تھی آج وہ میرے سامان میں نہیں ہے، تفتیش کے لیے جہاز والوں کی تلاشی لی جانے لگی.
امامرحمه الله نے یہ دیکھ کر تھیلی سمندر میں ڈال دی، امام کی تلاشی بھی لی گئی جب کسی مسافر کے سامان سے وہ تھیلی نہ نکلی تو لوگوں نے اس شخص کو اس حرکت پر شرمندہ کیا.
جب سفر ختم ہوگیااور جہاز کے تمام مسافر اتر گئے تو تنہائی میں وہ شخص امام بخاری رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ سے ملا اور اشرفیوں کے بارے میں کہنے لگا کہ آپ نے اشرفیوں کی جس تھیلی کا مجھ سے ذکر کیاتھا،وہ کہاں ہے؟۔
امام صاحب رحمتہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ میں نے اسے سمندر میں پھینک دیاتھا.
اس نے کہاکہ اتنی بڑی رقم کو برباد کرنے کے لیے آپ کیسے آمادہ ہوئے اور اس کا ضیاع کس طرح برداشت کیا؟
امام بخاری رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ  علیہ نے فرمایاکہ میری پوری زندگی سیدالکونین صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی تدوین وترتیب میں گزرگئی اور اب میری ثقاہت، دیانت اور پاکیزگی ضرب المثل بن گئی ہے، تو جو دولت میں نے زندگی کی بہاروں اور عمر عزیز کے گراں قدر لمحات کو گنواکر حاصل کی ہے، چوری کاشبہہ اپنے اوپر لے کر اسے کیسے لٹادیتا۔
وجہ تالیف الجامع الصحیح البخاری

اس کتاب کا پورا نام "الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلي الله عليه و آلہ و سلم وسننه وأيامه" ہے۔ حافظ ابن حجر نے مقدمہ فتح الباری میں تفصیلاً لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور صحابہ و تابعین کے پاکیزہ زمانوں میں احادیث کی جمع و ترتیب کا سلسلہ کماحقہ نہ تھا۔ ایک تو اس لئے کہ شروع زمانہ میں اس کی ممانعت تھی جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت سے ثابت ہے۔ محض اس ڈر سے کہ کہیں قرآن مجید اور احادیث کے متون باہمی طور پر گڈمڈ نہ ہوجائیں۔ دوسرے یہ کہ ان لوگوں کے حافظے وسیع تھے۔ ذہن صاف تھے۔ کتابت سے زیادہ ان کو اپنے حافظہ پر اعتماد تھا اور اکثر لوگ فن کتابت سے واقف نہ تھے ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کتابت احادیث کا سلسلہ زمانہ رسالت میں بالکل نہ تھا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وجوہ بالا کی بنا پر کما حقہ نہ تھا۔ پھر تابعین کے آخر زمانہ میں احادیث کی ترتیب وتبویب شروع ہوئی۔ خلیفہ خامس حضرت عمر بن عبدالعزیز علیہ نے حدیث کو ایک فن کی حیثیت سے جمع کرانے کا اہتمام فرمایا۔ تاریخ میں ربیع بن صبیح اور سعید بن عروبہ وغیرہ وغیرہ حضرات کے نام آتے ہیں جنہوں نے اس فن شریف پر باضابطہ قلم اٹھایا ۔ اب وہ دور ہو چلا تھا جس میں اہل بدعت نے من گھڑت احادیث کا ایک خطرناک سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ ان حالات کے پیش نظر طبقہ ثالثہ کے لوگ اٹھے اور انہوں نے احکام کو جمع کیا۔ حضرت امام مالک نے موطا تصنیف کی جس میں اہل حجاز کی قوی روایتیں جمع کیں، اور اقوال صحابہ فتاوی و تابعین کو بھی شریک کیا۔ ابو محمد عبدالملک بن عبدالعزیز بن جریج نے مکة المکرمہ میں اور ابو عمرو عبدالرحمن بن عمر اوزاعی نے شام میں اور عبداللہ سفیان بن سعدی ثوری نے کوفہ میں اور ابو سلمہ حماد بن سلمہ دینار نے بصرہ میں حدیث کی جمع ترتیب و تالیف پر توجہ فرمائی ۔ ان کے بعد بہت سے لوگوں نے جمع احادیث کی خدمت انجام دی اور دوسری صدی کے آخر میں بہت سی مسندات وجود پذیز ہو گئیں جیسے مسند امام احمد بن حنبل، مسند امام اسحق بن راہویہ، مسند امام عثمان بن ابی شیبہ، مسند امام ابوبکر بن ابی شیبہ وغیرہ وغیرہ۔ ان حالات میں سید المحدثین امام الائمہ حضرت امام بخاری علیہ کا دور آیا۔ آپ نے ان جملہ تصانیف کو دیکھا ، ان کو روایت کیا۔ انہوں نے دیکھا کہ ان کتابوں میں صحیح اور حسن ضعیف سب قسم کی احادیث موجود ہیں۔

وجہ تالیف الجامع الصحیح البخاری
اس کتاب کا پورا نام "الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلي الله عليه و آلہ و سلم وسننه وأيامه" ہے۔ حافظ ابن حجر نے مقدمہ فتح الباری میں تفصیلاً لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور صحابہ و تابعین کے پاکیزہ زمانوں میں احادیث کی جمع و ترتیب کا سلسلہ کماحقہ نہ تھا۔ ایک تو اس لئے کہ شروع زمانہ میں اس کی ممانعت تھی جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت سے ثابت ہے۔ محض اس ڈر سے کہ کہیں قرآن مجید اور احادیث کے متون باہمی طور پر گڈمڈ نہ ہوجائیں۔ دوسرے یہ کہ ان لوگوں کے حافظے وسیع تھے۔ ذہن صاف تھے۔ کتابت سے زیادہ ان کو اپنے حافظہ پر اعتماد تھا اور اکثر لوگ فن کتابت سے واقف نہ تھے ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کتابت احادیث کا سلسلہ زمانہ رسالت میں بالکل نہ تھا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وجوہ بالا کی بنا پر کما حقہ نہ تھا۔ پھر تابعین کے آخر زمانہ میں احادیث کی ترتیب وتبویب شروع ہوئی۔ خلیفہ خامس حضرت عمر بن عبدالعزیز علیہ نے حدیث کو ایک فن کی حیثیت سے جمع کرانے کا اہتمام فرمایا۔ تاریخ میں ربیع بن صبیح اور سعید بن عروبہ وغیرہ وغیرہ حضرات کے نام آتے ہیں جنہوں نے اس فن شریف پر باضابطہ قلم اٹھایا ۔ اب وہ دور ہو چلا تھا جس میں اہل بدعت نے من گھڑت احادیث کا ایک خطرناک سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ ان حالات کے پیش نظر طبقہ ثالثہ کے لوگ اٹھے اور انہوں نے احکام کو جمع کیا۔ حضرت امام مالک نے موطا تصنیف کی جس میں اہل حجاز کی قوی روایتیں جمع کیں، اور اقوال صحابہ فتاوی و تابعین کو بھی شریک کیا۔ ابو محمد عبدالملک بن عبدالعزیز بن جریج نے مکة المکرمہ میں اور ابو عمرو عبدالرحمن بن عمر اوزاعی نے شام میں اور عبداللہ سفیان بن سعدی ثوری نے کوفہ میں اور ابو سلمہ حماد بن سلمہ دینار نے بصرہ میں حدیث کی جمع ترتیب و تالیف پر توجہ فرمائی ۔ ان کے بعد بہت سے لوگوں نے جمع احادیث کی خدمت انجام دی اور دوسری صدی کے آخر میں بہت سی مسندات وجود پذیز ہو گئیں جیسے مسند امام احمد بن حنبل، مسند امام اسحق بن راہویہ، مسند امام عثمان بن ابی شیبہ، مسند امام ابوبکر بن ابی شیبہ وغیرہ وغیرہ۔ ان حالات میں سید المحدثین امام الائمہ حضرت امام بخاری علیہ کا دور آیا۔ آپ نے ان جملہ تصانیف کو دیکھا ، ان کو روایت کیا۔ انہوں نے دیکھا کہ ان کتابوں میں صحیح اور حسن ضعیف سب قسم کی احادیث موجود ہیں۔
طریقہ تالیف الجامع الصحیح البخاری[ترمیم]
اس بارے میں خود امام بخاری فرماتے ہیں کہ میں نے کوئی حدیث اس کتاب میں اس وقت تک داخل نہیں کی جب تک غسل کر کے دو رکعت نماز ادا نہ کر لی ہو۔ بیت اللہ شریف میں اسے میں نے تالیف کیا اور دو رکعت نماز پڑھ کر ہر حدیث کے لئے استخارہ کیا۔ مجھے جب ہر طرح اس حدیث کی صحت کا یقین ہوا، تب میں نے اس کے اندارج کے لئے قلم اٹھایا۔ اس کو میں نے اپنی نجات کے لئے جحت بنایا ہے۔ اور چھ لاکھ حدیثوں سے چھانٹ چھانٹ کر میں نے اسے جمع کیا ہے۔
علامہ ابن عدی اپنے شیوخ کی ایک جماعت سے ناقل ہیں کہ امام بخاری الجامع الصحیح کے تمام تراجم ابواب کو حجرہ نبوی اور منبر کے درمیان بیٹھ کر اور ہر ترجمة الباب کو دو رکعت نماز پڑھ کر اور استخارہ کر کے کامل اطمینان قلب حاصل ہونے پر صاف کرتے۔ وراق نے اپنا ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ میں امام بخاری کے ساتھ تھا۔ میں نے آپ کو کتاب التفسیر لکھنے میں دیکھا کہ رات میں پندرہ بیس مرتبہ اٹھتے چقماق سے آگ روشن کرتے اور چراغ جلاتے اور حدیثون پر نشان دے کر سو رہتے۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ امام صاحب سفر و حضر میں ہر جگہ تالیف کتاب میں مشغول رہا کرتے تھے اور جب بھی جہاں بھی کسی حدیث کے صحیح ہونے کا یقین ہو جاتا اس پر نشان لگا دیتے اس طرح تین مرتبہ آپ نے اپنے ذخیرہ پر نظر فرمائی۔ آخر تراجم ابواب کی ترتیب اور تہذیب اور ہر باب کے تحت حدیثوں کا درج کرنا۔ اس کو امام صاحب نے ایک بار حرم محترم میں اور دوسری بار مدینہ منورہ مسجد نبوی منبر اور محراب نبوی کے درمیان بیٹھ کر انجام دیا۔ اسی تراجم ابواب کی تہذیب و تبویب کے وقت جو حدیثیں ابواب کے تحت لکھتے پہلے غسل کر کے استخارہ کر لیتے۔ اس طرح پورے سولہ سال کی مدت میں اس عظیم کتاب کی تالیف سے فارغ ہوئے۔

امام بخاری کا مزار، سمرقند،ازبکستان
سلسلہ نسب:
ابو عبداﷲمحمد امام بخاری رحمتہ اﷲعلیہ بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ بن بردزبہ البخاری الجعفی۔اور القابات ناصرالحدیث النبویہ، ناشرالمواریث المحمدیہ، امیرالمؤمنین فی الحدیث۔ طبیب الاحادیث۔استاذ الاستازین،امام المحدثین اور شیخ الحفاظ ہیں۔ امام بخاری رحمتہ اﷲعلیہکے والد حضرت اسماعیل کو جلیل القدر علما ء اور امام مالک رحمتہ اﷲعلیہ کی شاگردی کا بھی شرف حاصل تھا امام بخاری رحمتہ اﷲعلیہ کے جدا امجدبردزبہ مجوسی تھے اور اسی حالت میں ان کا انتقال ہوا۔ بردزبہ کے فرزند ابراہیم بخارا کے حاکم یمان جعفی کے ہاتھ پر مشرف با اسلام ہوئے ۔ دیار عرب میں کیونکہ یہ دستور عام تھا کہ جس کے ہاتھ پر اسلام لاتے تھے اس سے ایک خاص تعلق اور ربط ہوتا تھا جس کوولا سے تعبیر کرتے تھے اور اس کی شاخیں اتنی دور دور تک پھیلتی تھیں کہ اسی رشتے سے اپنی نسبتیں قائم کر لیتے تھے امام بخاری کو بھی جعفی اسی رشتے سے کہا جاتا ہے ورنہ امام اس خاندان سے نہ تھے۔ پیدائش: امام بخاری 13 شوال 194 ھ (20 جولائی 810 ء)بروز جمعہ بعد نمازِ عصریا عشاء بخارا میں پیدا ہوئے۔ امام بخاری ابھی کم سن ہی تھے کہ شفیق باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا اور تعلیم و تربیت کیلئے صرف والدہ کاہی سہارا باقی رہ گیا۔ شفیق باپ کے ا ٹھ جانے کے بعد ماں نے امام بخاری کی پرورش شروع کی اور تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا۔ امام بخاری نے ابھی اچھی طرح آنکھیں کھولی بھی نہ تھیں کہ بینائی جاتی رہی۔ اس المناک سانحہ سے والدہ کو شدید صدمہ ہوا۔انہوں نے بارگاہِ الہٰی میں آہ زاری کی، عجز و نیاز کا دامن پھیلا کر اپنے لاثانی بیٹے کی بینائی کیلئے دعائیں مانگیں۔ ایک مضطرب ، بے قرار اور بے سہارا ماں کی دعائیں قبول ہوئیں۔ انہوں نے ایک رات حضرت ابراہیم خلیل اﷲ ں کو خواب میں دیکھا فرما رہے تھے: جا اے نیک خو ! تیری دعائیں قبول ہوئیں۔تمہارے نورِ نظر اور لختِ جگر کو اﷲ گ نے پھر نورِ چشم سے نواز دیا ہے صبح اٹھ کر د یکھتی ہیں کہ بیٹے کی آنکھوں کا نور لوٹ آیا ہے ۔ بعد میں اللہ د نے آپ کو اس قدر روشنی عطا فرمائی کہ تاریخ کبیر کا پورا مسودہ آپ نے چاندنی راتوں میں تحریر فرمایا۔(طبقات کبریٰ جز۲ص۴)
مام بخاری کو کمسنی سے ہی حدیث کا بے انتہا شوق تھا ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اللہ دنے امام کی تخلیق صرف حدیث ہی کے لئے کی ہے ۔ امام بخاری مکتب میں ابتدائی تعلیم میں مشغول تھے اور عمر بھی صرف دس برس تھی مگر حدیث کا بے ثناہ شوق دامن گیر تھا جب کبھی کوئی حدیث سنتے فورا یاد کر لیتے۔
دس سال کی عمر میں امام بخاری نے مدرسہ چھوڑ دیا اور اپنے زمانے کے مشھور محدث داخلی کے درس میں شریک ہونے لگے۔ ایک مرتبہ امام بخاری داخلی کے حلقہ درس میں تھے انہوں نے لوگوں کو ایک سند سنانی شروع کی ، سند کی ترتیب یوں تھی۔ سفیان عن ابی الزبیر عن ابراہیم۔ امام بخاری نے فورا ٹوکا اور عرض کیا " ابو الزبیر ابراہیم سے روایت نہیں کرتے۔ پہلے تو داخلی نے بخاری کو طفل مکتب سمجھ کر جھڑک دیا مگر پھر جا کر اپنی اصل کتاب کی طرف مراجعت کی تو اسی طرح پایا جیسے امام بخاری نے کہا تھا۔
داخلی واپس آئے اور کہا اچھا میاں لڑکے یہ تو بتاؤ کہ یہ سند کیسے صیح ہے؟بخاری نے کہا ابراہیم سے روایت کرنے والے زبیر ہیں اور یہ عدی کے بیٹے ہیں ، ابوزبیر نہیں ۔ داخلی نے فرمایا جو تم نے کہا وہی ٹھیک ہے ۔ جب یہ واقعہ پیش آیا تو اس وقت امام کی عمر گیارہ برس تھی۔جب آپ کی عمر سولہویں منزل میں پہنچی تو وکیع اور عبداللہ بن المبارک اور اصحابِ امام اعظم کی کتابیں آپ نے حفظ کرلیں۔(طبقات کبریٰ جز۲ص۴)
بلاد اسلامیہ کی رحلت:
لفظ رحلت کے لغوی معنی کوچ کرنے کے ہیں مگر اصطلاح محدثین میں یہ لفظ اس سفر کے لئے اصطلاح بن گیا ہے جو حدیث یا حدیث کی کسی سند عالی کے لئے کیا جائے۔ صحابہ و تابعین ہی کے بابرکت زمانوں سے اکابرامت میں یہ شوق پیدا ہو گیا تھا کہ وہ علوم کی تحصیل کے لئے دور دور تک کا سفر کرنے لگے ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے فلو لانفر ۔۔۔ سورۃ التوبہ 123) مسلمانوں کے ایک گروہ ضرور دینی علوم کی تحصیل و فقاہت کے لئے گھر سے باہر نکلنا چاہیے۔ اسی کی تعمیل کے لئے محدثین کرام رحمھم اللہ اجمعین کمر بستہ ہوئے اور انہوں نے اس پاکیزہ مقصد کے لئے ایسے ایسے کٹھن سفر اختیار کئے کہ وہ دنیا کی تاریخ میں بے مثال بن گئے۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ سفر کے سلسلہ میں مصر، بلخ، ہرات ، نیشا پور، ری،واسچ، عسقلان ،بصرہ، کوفہ ،شام وغیرہ بہت سے دور دراز شہروں کے نام آئے ہیں۔ آپ نے طلب حدیث کے لئے تقریبا تمام ہی اسلامی ممالک کا سفر فرمایا ۔(طبقات کبریٰ جز۲ص۵) امام بخاری رحمتہ اﷲعلیہ کے عادات واطوار: امام بخاری رحمتہ اﷲعلیہ کو اپنے والد کی میراث سے کافی دولت ملی تھی۔ آپؒ اس سے تجارت کیا کرتے تھے۔ اس آسودہ حالی سے آپ نے کبھی اپنے عیش و عشرت کا اہتمام نہیں کیا جو کچھ آمدنی ہوتی طلب علم کیلئے صرف کرتے۔ غریب اور نادار طلبا ء کی امداد کرتے، غریبوں اور مسکینوں کی مشکلات میں ہاتھ بٹاتے۔ ہر قسم کے معاملات میں آپ رحمہ اللہ علیہ بے حد احتیاط برتتے تھے۔ حضرت عبداﷲ بن محمد صیارفی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ میں امام بخاری کے ساتھ ان کے مکان میں بیٹھا تھا اتنے میں ان کی لونڈی آئی اور اندرجانے لگی۔سامنے ایک دوات (انک کی بوتل) رکھی تھی اس کو ٹھوکر لگی۔
امام بخاری نے کہا تم کیسے چلتی ہو
وہ بولی جب راستہ نہ ہو تو کیسے چلوں؟
یہ سن کر امام بخاری نے اپنے دونوں ہاتھ پھیلا دیئے اور کہا: جا میں نے تجھ کو آزاد کر دیا
لوگوں نے کہا اے ابو عبداﷲ! اس لونڈی نے تو آپ کو غصّہ دلایا ہے۔
انہوں نے کہا میں نے اس کام سے اپنے نفس کو ر ا ضی کر لیا ہے۔
حضرت وراقہ فرماتے ہیں کہ امام بخاری بہت کم خوراک لیتے تھے، طالب علموں کے ساتھ بہت احسان کرتے اور نہایت سخی تھے۔ ایک دفعہ امام بخاری بیمار ہوئے۔ ان کا قارورہ (پیشاب کی رپورٹ) طبیبوں کو چیک کرایا گیا تو ا نہوں نے کہا یہ قارورہ تو اس شخص کا ہے جس نے کبھی سالن نہ کھایا ہو۔ پھر امام بخاری نے ان کی تصدیق کی اور کہا کہ چالیس سال سے میں نے سالن نہیں کھایا (یعنی روکھی روٹی پر قناعت کی) طبیبوں نے کہا اب آپکی بیماری کا علاج یہ ہے کہ سالن کھایا کریں۔ امام بخاری نے قبول نہ فرمایا۔ بڑے اصرار سے یہ قبول کیا کہ روٹی کے ساتھ کچھ کھجور کھا لیا کریں گے۔
محمد بن منصور فرماتے ہیں ہم ابو عبداﷲ بخاری کی مجلس میں تھے۔ ایک شخص نے آپکی داڑھی میں سے کچھ کچرا نکالا اور زمین پر ڈال دیا۔ امام بخاری نے لوگوں کو جب غافل پایا تو اس کو اٹھا کر اپنی جیب میں رکھ لیا۔ جب مسجد سے باہر نکلے تو اس کو پھینک دیا (گویا مسجد کا اتنا احترام کیا)
امام بخاری کا حافظہ:
تعلیم وتعلم کے لیے جو چیز سب سے اہم ہے وہ ہے حافظہ اور جودت ذہن ،امام بخاری کواللہ نے غیر معمولی حافظہ اور ذہن عطا کیا تھا۔ علم کی بزم میں آئے چند سال بھی نہ گزرے تھے کہ ہر طرف ان کے خداداد حافظہ کا شہرہ ہو گیا جہاں جہاں امام بخاری کا وجود پہنچتا تھا وہاں اس سے پہلے ان کا نام پہنچ جاتا تھا اور جب کسی آبادی میں قدم رکھتے تو وہاں کی مجلسیں علم و عمل کی روشتی سے منور اور تاباں ہو جاتیں آس پاس کے تشنہ لب امام پر ٹوٹ پڑے اور امام کے گرد و پیش علم و عمل کے پروانوں کا ہجوم ہو جاتا۔ امیرا لمومنین فی الحدیث حضرت امام بخاری رحمہ اللہ بغداد میں عباسی حکومت کا پایہ تخت بغداد کبھی دنیائے اسلام کا مرکز اور اسلامی علوم و فنون کا بیش بہا مخزن رہ چکا ہے۔ یہی حضرت سید المحدثین امام بخاری رحمہ اللہ کی شہرت و علمی قبولیت کا زمانہ ہے۔ متکلمین و محدثین فقہاء ومفسرین اطراف عالم سے سمٹ سمٹ کر بغداد میں جمع ہو چکے تھے۔ اس دور میں حضرت امام بخاری رحمہ اللہ بغداد میں تشریف لائے۔ پورا بغداد آپ کی شہرت سے گونج اٹھا ۔ ہر مسجد ہر مدرسہ ہر خانقاہ میں آپ کے ذہن و حفظ و ذہانت و مہارت حدیث کا چرچا ہونے لگا۔ آخر دارالخلافہ کے بعض محدثین نے آپ کے امتحان کی ایک ترکیب سوچی وہ یہ کہ سو احادیث نبوی میں سے ہر حدیث کی سند دوسری حدیث کے متن میں ملا دی اوران کو دس آدمیوں پر برابر تقسیم کر دیا اور مقررہ تاریخ پر مجمع عام میں آپ کے امتحان کا فیصلہ کیا گیا۔ چنانچہ مقررہ وقت پر سارا شہر امنڈ آیا۔ ان دس آدمیوں نے نمبروار اختلاط کی ہوئی احادیث امام صاحب کے سامنے پڑھنی شروع کیں۔ اور آپ سے استصواب چاہا۔ مگر آپ ہر شخص اور ہر حدیث کے بارے میں یہی فرماتے رہے کہ لا اعرفہ (میں اس حدیث کو نہیں جانتا) اس طرح جب سو احادیث ختم ہو چکیں تو لوگوں میں چہ میگوئیاں شروع ہوئیں۔ کسی کا خیال تھا کہ امام حقیقت حال کو پہچان چکے ہیں۔ اور کسی کا خیال تھا کہ آپ نے محدثین بغداد کے سامنے سپر ڈال دی ہے۔ امام المحدثین اسی وقت کھڑے ہوکر پہلے سائل کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا۔ اما حدیثک الاول فبھذا الاسناد خطاء و صوابہ کذا یعنی تم نے پہلی حدیث جس سند سے بیان کی تھی وہ غلط تھی اس کی اصل سند یہ ہے۔ اسی طرح آپ نے دسوں اشخاص کی سنائی ہوئی احادیث کو بالکل صحیح درست کر کے بہ ترتیب سوالات پڑھ کر سنا دیا۔ اس خداداد حافظہ و مہارت فن حدیث کو دیکھہ کر اہل بغداد حیرت زدہ ہوگئے۔ اور بالا تفاق تسلیم کر لیا کہ فن حدیث میں عصر حاضر میں آپ کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ ، علامہ ابن حجر عسقلانی یہ واقعہ لکھنے کے بعد فرماتے ہیں، یہاں امام بخاری کی امامت تسلیم کرنی پڑتی ہے۔ تعجب یہ نہیں کہ امام بخاری نے غلط احادیث کی تصحیح کی اسلئے کہ وہ تو تھے ہی حافظ حدیث، تعجب تو اس کرشمہ پر ہے کہ امام بخاری نے ایک ہی دفعہ میں ان کی بیان کردہ ترتیب کے مطابق وہ تمام تبدیل شدہ حدیثیں بھی یاد کر لیں۔
(ھدیۃ الساری جز۲ص۲۵۱)
امام مسلم تشریف لائے۔ اور ایک معلق حدیث کا درمیانی حصہ سنا کر پوچھا کہ یہ حدیث آپ کے پاس ہو تو اسے متصل فرما دیجئے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی وقت حدیث کو متصل السند پڑھ کر سنا دیا۔ اسی مجلس کا قصہ ہے کہ کسی نے یہ حدیث مع سند پڑھی ۔ حجاج بن محمد عن ۔ بن جریج عن موسی بن عقبۃ عن سھیل ابن ابی صالح عن ابیہ عن ابی ھریرۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کفارۃ المجلس اذا قام العبد ان یقول سبحنک اللھم وبحمدک استغفرک واتوب الیک۔ سن کر امام مسلم بولے کہ اس حدیث کی اس سے اونچی سند ساری دنیا میں نہیں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا ٹھیک ہے مگر اس کی سند معلول ہے۔ یہ سن کر امام مسلم رحمہ اللہ علیہ حیرت میں رہ گئے اور فرمانے لگے کہ علت سے آگاہی فرمائیے۔ حضرت امام نے فرمایا کہ رہنے دیجئے جس پر اللہ نے پردہ ڈال رکھا ہے۔ آپ کو بھی اس پر پردہ ڈالنا چاہیے۔ مگر امام مسلم نے اصرار فرمایا تو آپ نے فرمایا ۔ اچھا سنو غیر معلول سلسلہ سند یوں ہے۔ حدثنا موسٰی بن اسمٰعیل حدثنا وھیب حدثنا موسی بن عقبۃ عن عون بن عبداللہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کفارۃ المجلس ۔۔۔ اذا الحدیث ۔ حدیث کی علت کے سلسلہ میں حضرت امام نے بتلایا کہ موسیٰ بن عقبہ کی کوئی حدیث سہیل سے مرفوع نہیں ہے۔ پھر اس کے لئے حضرت امام نے ثبوت پیش فرمایا۔ جسے سب حاضرین مجلس علمائے حدیث نے تسلیم کیا
ایک مبارک خواب: آپ فرماتے ہیں کہ رأیت رسول اللہ ا وکأننی واقف بین یدیہ وبیدی مروحۃ اذب عنہ۔مجھے ایک رات حالت خواب میں حضور سید عالم ا کی زیارت کا شرف حاصل ہوا کہ میں آپ کے سامنے کھڑا ہوں اور میرے ہاتھ میں پنکھاہے جس سے میں آپ کے قریب آنے والی مکھیاں اڑا رہا ہوں بیدار ہو کر معبرین سے تعبیر پوچھی گئی تو انہوں نے بتلایا کہ انت تذب عنہ الکذب(رب کریم تمھیں توفیق عطا فرمائے گا کہ تم حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم سے کذب وافتراء کو دور کروگے) اور جھوٹے لوگوں نے جو احادیث خود وضع کر لی ہیں، صحیح احادیث کو آپ ان سے بالکل علیحدہ چھانٹ دیں گے۔اسی دوران آپ کے بزرگ ترین استاد حضرت اسحق بن راہویہ نے ایک روز فرمایا کاش آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح صحیح احادیث پر مشتمل ایک جامع مختصر کتاب تصنیف کر دیتے۔حضرت امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں میرے دل میں یہ بات بیٹھہ گئی اور میں نے اسی دن سے جامع صحیح کی تدوین کا عزم بالجزم کر لیا۔اسی سلسلہ میں نجم بن فضیل اور وراق بخاری کا خواب بھی قابل لحاظ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قبر شریف سے باہر تشریف لائے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم قدم مبارک اٹھاتے ہیں، امام بخاری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک کی جگہ پر اپنا قدم رکھہ دیتے ہیں۔ ابو زید مروزی کا خواب حافظ ابن حجر رحمہ اللہ علیہ نے نقل کیا ہے کہ میں رکن اور مقام کے درمیان بیت اللہ کے قریب سورہا تھا۔ خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا کہ اے ابوزید! کب تک شافعی کی کتاب کا درس دیتے رہو گے اور ہماری کتاب کا درس نہ دو گے۔ عرض کیا حضور فداک ابی وامی آپ کی کتاب کونسی ہے؟ فرمایا جسے محمد بن اسماعیل بخاری نے جمع کیا ہے۔ہر طرح اس حدیث کی صحت کا یقین ہوا، تب میں نے اس کے اندارج کے لئے قلم اٹھایا۔ اس کو میں نے اپنی نجات کے لئے جحت بنایا ہے۔ اور چھہ لاکھہ حدیثوں سے چھانٹ چھانٹ کر میں نے اسے جمع کیا ہے۔ تعداد احادیث:حافظ ابن حجر عسقلانی کی تحقیق کے مطابق احادیث بخاری کی تعداد مع تعلیقات ،شواہداور مکررات نوھزارچھ سو بیاسی(9682)ہیاور مسن احادیظ مع مکررات سات ہزار تین سوستانوے(7397)ہیں اور اگر مکررات بھی حذف کرلیجائیں تو مرفوع احادیث کی کل تعداد دو ہزار چھ سو تےئیس(2623)ہے جملہ معلقات کی تعداد ایک ہزار تین سو اکتالیس (1341)ہے اور متتابعات کی تعداد تین سو چوالیس (3044)ہے علم الاسناد میں امام بخاری رحمہ اللہ علیہ کی مہارت تامہ مشہور مقولہ ہے الا سناد من الدین ولو لا الاسناد لقال من شآء ماشآء یعنی اسناد کا علم بھی دینی علوم میں داخل ہے ۔ اگر اسناد نہ ہوتی تو جو شخص جو کچھہ چاہتا کہہ ڈالتا ۔ اسی لئے محدث کامل کے لئے ضروری ہے کہ وہ متون احادیث کے ساتھہ تمام رواۃ حدیث کے بارے میں ان کی پیدائش اور وفات کے اوقات کی خبر رکھتا ہو۔ ان کے باہمی ملاقات کے سنین یاد ہوں۔ ان کے القاب اور کنیتیں یاد ہوں۔ اور جملہ راویوں کے الفاظ حدیث بھی پوری طرح ضبط ہوں۔ امام بخاری رحمہ اللہ علیہ اس فن میں مہارت تامہ رکھتے تھے۔ حافظ احمد بن حمدون کا بیان ہے کہ میں عثمان بن ابوسعید بن مروان کے جنازہ میں حاضر ہوا۔ امام بخاری بھی تشریف لائے ہوئے تھے۔ اس موقع پر امام محمد بن یحیٰی ذہلی نے امام بخاری سے اسمائے رواۃ اور علل احادیث کے سلسلہ میں کچھ پوچھا۔ امام بخاری نے اس قدر برجستگی سے جوابات عنایت فرمائے جیسے کوئی قل ھو اللہ احد تلاوت کرتا ہو۔ اصطلاح حدیث میں علت قادحہ اس پوشیدہ سبب کا نام ہے جس سے حدیث کی صحت مشکوک اور مجروح ہو جاتی ہے۔ علم حدیث میں کمال حاصل کرنے کے لئے صرف یہی ایک چیز ایسی اہم ہے جس کے لئے بے پناہ قوت حافظہ، ذہن رسا اور نقد و انتقاد کی کامل مہارت درکار ہے۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ علیہ کو باری تعالیٰ نے ان جملہ علوم میں مہارت تامہ عطافرمائی تھی۔ احاشد بن اسماعیل کہتے ہیں امام بخاری ہمارے ساتھ مشائخ بخارا کے پاس جایا کرتے تھے اس وقت امام بخاری نو عمر تھے درس میں جا کر بیٹھتے ۔ سب لوگ حدیثوں کو لکھتے اور یاد کرتے مگر امام صاحب خاموش بیٹھے رہتے اور ایک لفظ نہ لکھتے۔ ساتھی ملامت کرتے کہ میاں جب تم لکھتے نہیں تو آتے کیوں ہو؟ حاشد کہتے ہیں کہ پندرہ سولہ روز یونہی گزر گئے سترھویں روز امام بخاری نے تنگ آ کر کہا کہ تمہاری ملامت کی حد ہو گئی لاؤ اپنے دفتر نکالو اور دکھاؤ تم لوگوں نے کیا لکھا ہے۔ ہم اس وقت پندرہ ہزار سے زائد حدیثیں لکھ چکے تھے ہم نے اپنے دفتر امام بخاری کے سامنے لا کر رکھدیئے۔ امام نے تمام حدیثیں بھری مجلس میں زبانی سنادیں اور ہم نے جان لیا یہ جو نایاب خزانہ ہمارے کاغذوں میں ہے وہ امام بخاری کے سینے میں محفوظ ہے اور ہمیں امام کی یادداشت سے اپنے نوشتوں کی اصلاح کرنی پڑی ۔ طریقہ تالیف الجامع الصحیح البخاری اس بارے میں خود امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے کوئی حدیث اس کتاب میں اس وقت تک داخل نہیں کی جب تک غسل کر کے دو رکعت نماز ادا نہ کر لی ہو۔ بیت اللہ شریف میں اسے میں نے تالیف کیا اور دو رکعت نماز پڑھ کر ہر حدیث کے لئے استخارہ کیا۔ مجھے جب آپکی سب سے بلند پایہ تصنیف صحیح بخاری ہے۔ آپ نے بخاری کی ترتیب و تالیف میں صرف علمیت، ذکاوت اور حفظ ہی کا زور خرچ نہیں کیا بلکہ خلوص، دیانت، تقویٰ اور طہارت کے بھی آخری مرحلے ختم کر ڈالے اور اس شان سے ترتیب و تدوین کا آغاز کیا کہ جب ایک حدیث لکھنے کا ارادہ کرتے تو پہلے غسل کرتے، دو رکعت نماز استخارہ پڑھتے بارگاہِ ربّ العزت میں سجدہ ریز ہوتے ا ور اس کے بعد ایک حدیث تحریر فرماتے۔ اس سخت ترین محنت اور دیدہ ریزی کے بعد سولہ سال کی طویل مدت میں یہ کتاب زیورِ تکمیل سے آراستہ ہوئی اور ایک ایسی تصنیف عالمِ وجود میں آگئی جس کا یہ لقب قرار پایا:ا صح ا لکتب بعد کتا ب ا للہ یعنی اﷲ تعالیٰ کی کتاب (قرآن مجید) کے بعد سب سے زیادہ صحیح کتاب ہے۔اُمّت کے ہزاروں محدثین نے سخت سے سخت کسوٹی پر کسا، پرکھا اور جانچا مگر جو لقب اس مقدس تصنیف کیلئے من جانب اﷲ مقدر ہو چکا تھا وہ پتھر کی کبھی نہ مٹنے والی لکیریں بن گیا۔ 
 شرط کا بیان:
آپ وہی حدیث بیان کرتے تھے جس کو ثقہ نے ثقہ سے مشہور صحابی تک روایت کی ہو اور معتبر ثقات اس حدیث میں اختلاف نہ کرتے ہوں اور سلسلہ اسناد متصل ہو۔ اگر صحابی سے دو شخص راوی ہوں تو بہتر ورنہ ایک معتبر راوی بھی کافی ہے۔امام مسلم نے امام بخاری سے علم حدیث حاصل کیا اور فائدہ اٹھایا لیکن وہ امام بخاری کے اکثر اساتذہ کے بھی شاگرد ہیں (یعنی دونوں نے ایک ہی ا ستادوں سے علم حا صل کیا) اور ان دونوں کی کتابیں قرآن مجید کے بعد تمام کتابوں سے زیادہ صحیح ہیں۔ علما کااس امر پر اتفاق ہے کہ صحیح بخاری صحت میں صحیح مسلم سے افضل ہے۔ بخاری شریف کے علاوہ بھی امام صاحب کی 22 اہم اور بلند پایہ تصانیف ہیں۔ آپ کی مجالسِ درس زیادہ تر بصرہ، بغداد اور بخارا میں رہیں، لیکن دنیا کا غالباً کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں امام بخاری کے شاگرد سلسلہ بسلسلہ نہ پہنچے ہوں۔ طالب حق کو دنیا میں دو کتابیں ہی کافی ہیں ! ایک اﷲ تعالیٰ کی کتاب قرآنِ کریم جو سب کے نزدیک مشہور اور متواتر ہے، اور دو سری رسول اکرم اکی احادیث کی کتاب صحیح بخاری ہے اگرچہ احادیث رسول اﷲا پر کتابیں اور بھی ہیں لیکن کوئی بھی ان میں سے صحیح بخاری کے ہم پلہ نہیں۔ اسی لئے علما نے صحیح بخاری کو ا صح الکتب بعد کتا ب ا للہ کہا ہے۔ لہٰذا طالب حق کو یہی دو کتابیں کافی ہیں۔ یعنی قرآن مجید اور صحیح بخاری تدوینِ حدیث تدوینِ حدیث (احادیث کوجمع کرنا) کی ابتدا خلفائے راشدین ہی سے ہوئی ہے۔ حضرت عمر فاروق کو اگر ذرا بھی شبہ ہو جاتا تو دلیل اور گواہ طلب کر لیتے تھے۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود کے بارے میں محدثین لکھتے ہیں کہ روایت میں انتہائی سختی برتتے تھے اور اگر کوئی شاگرد الفاظِ حدیث یاد کرنے میں کوتاہی کرتا تو ڈانٹتے تھے۔ تحقیق و تنقید کی بنیاد حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق نے ڈالی۔ تابعین نے اس کے اصول و ضوابط مرتب کئے اور تبع تابعین نے مستقل اور باضابطہ فن کی حیثیت دی ۔ بخاری شریف کو اگر اسلامی علوم کا انسا ئیکلوپیڈیا کہا جائے تو بالکل صحیح ہو گا۔
وفات :
محمد بن ابی حاتم وراق فرماتے ہیں میں نے غالب بن جبریل سے سنا کہ امام بخاری رحمتہ اللہ تعالی علیہ خرتنگ میں انہیں کے پاس تشریف فرما تھے۔ امام بخاری چند روز وہاں رہے پھر بیمار ہوگئے۔ اس وقت ایک ایلچی آیا اور کہنے لگا کہ سمرقند کے لوگوں نے آپ کوبلایا ہے۔ امام بخاری نے قبول فرمایا۔ موزے پہنے، عمامہ باندھا۔ بیس قدم گئے ہوں گے۔ کہ ا نہوں نے کہا مجھ کو چھوڑ دو ، مجھے ضعف ہو گیا ہے۔ ہم نے چھوڑ دیا۔ امام بخاری نے کئی دعائیں پڑھیں پھر لیٹ گئے۔ آپ کے بدن سے بہت پسینہ نکلا۔ دس شوال 256 ھ بعد نماز عشاء آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ اگلے روز جب آپ کے انتقال کی خبر سمرقند اور ا طراف میں مشہور ہوئی تو کہرام مچ گیا۔ پورا شہر ماتم کدہ بن گیا۔ جنازہ اٹھا تو شہر کا ہر شخص جنازہ کے ساتھ تھا۔ نماز ظہر کے بعد اس علم و عمل اور زہد و تقویٰ کے پیکر کو سپردِ خاک کر دیا گیا۔ جب قبر میں رکھا تو آپکی قبر سے مشک کی طرح خوشبو پھوٹی اور بہت دنوں تک یہ خوشبو باقی رہی۔ 
(ابن ابی حاتم)
ا نا للہ وا نا ا لیہ راجعون
اعتراض:
امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ صحیح بخاری میں حدیث پیش کرتے ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس رسول اللہ کے (ترکہ میں سے) اپنے میراث مانگنے آئے اور وہ دونوں اس وقت فدک کی زمین اور خیبر کی زمین سے اپنا حصہ وصول کر رہے تھے تو ان دونوں سے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہمارا کوئی وارث نہ ہوگا اور جو کچھ ہم نے چھوڑا وہ صدقہ ہے صرف اس مال سے آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھائیں گے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا خدا کی قسم میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو کام کرتے ہوئے دیکھا ہے اس کو نہیں چھوڑتا ہوں چنانچہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملنا جلنا چھوڑ دیا اور ان سے گفتگو چھوڑ دی یہاں تک کہ وفات پاگئیں۔
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1645 ،- فرائض کی تعلیم کا بیان :
منکرین حدیث اس حدیث پر اعتراض کرتے ہیں کہ اگر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس فیصلے کو ماننےسے انکار کیوں کیا؟؟؟ اور ساتھ ہی یہ اعتراض بھی نقل کرتے ہیں کہ یہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی شان پر بھی چوٹ پڑتی ہے ۔کیونکہ فاطمہ رضی اللہ عنہم نے مرتے دم تک ابوبکر رضی اللہ عنہ سے گفتگو کی اور نہ ہی ملاقات کی۔
جواب:-
دراصل یہاں صرف اور صرف مغالطوں سے کام لینے کی کوشش کی جارہی ہے،کیونکہ اگر تمام طرق احادیث اسی مسئلہ پر جمع کیے جائیں تو یہ سارے اعتراضات کا لعدم ہوجاتے ہیں۔رہی بات اس مسئلے کی کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی پیش کردہ حدیث مانے سے انکار کیوں کیا؟؟تو اس بات کو ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا تک یہ حدیث نہ پہنچی تھی تب تو انہوں نے وراثت مانگی لیکن جب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ انہیں حدیث سنائی تو انہوں نے کبھی بھی وراثت کا سوال نہیں کیا۔اور نی ہی کسی صحیح حدیث میں موجود ہے کہ انہوں نے حدیث سننے کے بعد حدیث کی مخالفت کی ہو۔لہذا یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا فرماں رسولصلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل طور پر عاملہ تھیں۔
جن احادیث میں یہ ذکر ہو ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کبھی بھی ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے گفتگواس امر پر محمل ہے کہ وراثت کے مسئلے کے لیے گفتگو نہ فرمائی لیکن ملاقات ترک نہ کی اور نہ اس کی کوئی واضح دلیل ہے۔
حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:۔
{فھجرتہ فاطمۃ فلم تکلمہ حتیٰ ماتت} ووقع عندبن شبۃ من وجہ اٰخر عن معمر{فلمہ تکلمہ فی ذالک المال}فتح الباری ،ج 6 ،ص164
ترجمہ:-{فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملاقات ترک کی اور مرتے دم تک ان سے گفتگو نہ کی}معمر سے بطریق یہ روایت ہے کہ {جس روایت میں یہ ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے گفتگو نہ کی اس سے مراد یہ ہے کہ } فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے وراثت کے مال کے بارے میں گفتگو نہ کی۔"
یعنی وراثت کے مسئلے پر گفتگو نہ کی لہذا اگر کوئی ان باتوں سے فاطمہ رضی اللہ عنہا کا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مطلق ناراضگی مرادلے گا تو یہ غلط ہے۔کیونکہ دوسری روایت اس بات پر شاہد ہیں کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے گفتگو بھی فرمائی اور ان سے ملاقات بھی کی ۔
امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب السنن الکبری میں زکر فرماتے ہیں۔
"امام مرضت فاطمۃ رضی اللہ عنہا اتاھا ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ فاستاذن علیھا فقال علیٰ : یافاطمۃ ؛ ھزا ابوبکر یستاذن علیک فقالت : اتحب ان اذن لہ قال نعم فاذنت لہ فدخل علیھا یترضاھا"{السنن الکبری ، ج 6 ،ص 491 ،رقم 12735
ترجمہ:-"جب فاطمہ رضی اللہ عنہا بیمار ہوئیں تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کے پاس تشریف لائے اور آنے کی اجازت طلب کی تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : فاطمہ ، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے ہیں آپ سے ملنے کی اجازت طلب کر رہے ہیں۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کیا آپ ان سے ملاقات کی اجازت طلب دیں گے ؟؟تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیاں نہیں پس وہ تشریف لائے اور ان کو راضی کیا۔"
سبحان اللہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تمام اعمال اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کے لیے ہوا کرتے تھے ۔الحمدللہ اس حدیث نے واضح کردیا کہ ان میں کو ئی بھی ایک دوسرے سے خفا نہیں تھا اور نہ ہی ناراضی تھی بلکہ احا دیث ہی پر عمل پیرا ہوتے تھے اور اپنی دنیا اور آخرت کی نجات بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم اتباع میں ہی سمجھتے تھے۔

No comments:

Post a Comment