Saturday 17 October 2015

ترک رفع یدین بعد الافتتاح کے دلائل



حدیث جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین

’’قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ ابْنُ حِبَّا نٍ اَخْبَرَ نَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ یُوْسُفَ قَالَ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدِ الْعَسْکَرِیُّ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ شُعْبَۃَ عَنْ سُلَیْمَانَ قَالَ سَمِعْتُ الْمُسَیِّبَ بْنَ رَافِعٍ عَنْ تَمِیْمِ بْنِ طُرْفَۃَعَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَرضی اللہ عنہما عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ و سلم اَنَّہٗ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَاَبْصَرَقَوْمًا قَدْرَفَعُوْا اَیْدِیَھُمْ فَقَا لَ قَدْ رَفَعُوْھَا کَاَنَّھَااَذْنَابُ خَیْلٍ شُمُسٍ اُسْکُنُوْا فِی الصَّلَاۃِ۔‘‘
(صحیح ابن حبان ج3ص178،صحیح مسلم ج1ص181 )
ترجمہ:حضرت جابربن سمرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مسجدمیں داخل ہوئے لوگوں کو رفع یدین کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: ’’انہوں نے اپنےہاتھوں کو شریر گھوڑوں کی دموںکی طرح اٹھایا ہےتم نماز میں سکون اختیار کرو ۔‘‘ (نماز میںرفع یدین نہ کرو)۔



مذکورہ حدیث اپنے اندازِ استدلال اور وضاحتِ الفاظ کے ساتھ بالکل صریح ہے اور احناف کے دعویٰ عدم رفع فی الصلوۃ کو مکمل ہے۔
ذیل میں اس روایت سے ترکِ رفع کے استدلال پر کئے گئے اعتراضات کا جائزہ لیا جاتا ہے:

اعتراض نمبر 1= اس حدیث میں رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد والے رفع یدین کا ذکر نہیں۔
جواب =
ہمار ا دعویٰ ہے کہ نماز میں رفع یدین نہ کیا جائے،چاہے وہ رکوع والا ہو یا سجود والا۔حدیث کے الفاظ پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتاہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو نماز میں رفع یدین کرتے دیکھا تو فرمایا: اسکنوا فی الصلوۃ(نماز میں سکون اختیار کرو)اس سے مذکورہ رفع یدین کی نفی ہوجاتی ہے۔جیسا کہ مشہور محدثین  مثلاً علامہ زیلعی اور علامہ بدرالدین عینی نے تصریح کی ہے۔یہ حضرات فرماتے ہیں:
انما یقال ذلک لمن یرفع یدیہ فی اثناء الصلوۃ وہو حالۃ الرکوع او السجود ونحو ذالک(نصب الرایہ للزیلعی ج1ص472، شرح سنن ابی داود للعینی ج3ص29)
کہ یہ الفاظ (نماز میں سکون اختیار کرو)اس شخص کو کہے جاتے ہیں جو دوران نماز رفع یدین کر رہا ہو اور یہ حالت رکوع یا سجود وغیرہ کی ہوتی ہے۔
لہذا یہ اعتراض باطل ہے۔

اعتراض نمبر 2 = حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمہ اللہ اور شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ سے نقل کیا، جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ دونوں حضرات اس حدیث کو بطور دلیل پیش نہیں کرتے،  ان کا کہنا ہے کہ یہ سلام کے متعلق ہے۔
جواب  =
الف: ان دونوں حضرات کا موقف ترک رفع یدین کا ہے(ادلہ کاملہ،درس ترمذی)
ب: عرض ہے کہ اگر ان حضرات نے اس حدیث کو دلیل نہیں بنایا تو دیگرحضرات محققین ومحدثین نے تو بنایاہے۔مثلاً
1.امام ابوالحسن القدوری (التجرید ج2ص519)
2.علامہ زیلعی (نصب الرایہ ج1ص472)
3.علامہ عینی (شرح سنن ابی داود ج3ص29)
4.ملاعلی قاری (فتح باب العنایہ ج1ص78 اور حاشیہ مشکوٰۃ ص 75)
5.امام محمد علی بن زکریا المنبجی  (اللباب فی الجمع بین السنۃ والکتاب ج1ص256)
6.مولانا محمد ہاشمی سندھی )رسالہ کشف الرین(
7.حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی (اعلاء السنن للعثمانی: ج3ص56)
8.شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی (اوجز المسالک: ج 2ص66)
9.شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی (فتح الملہم: ج3 ص317)
10.شیخ الاسلام مولانا ظفر احمد عثمانی (اعلاء السنن للعثمانی: ج3ص56)
11.مولانا الشیخ محمد عبد اللہ بن مسلم البہلوی (ادلۃ الحنفیۃ: ص167)
12.امین الملۃ مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی (تجلیات صفدر: ج2، ص313)
13.مناظر اسلام حضرت مولانا حبیب اللہ ڈیروی  (نور الصباح: جص76)
د: اسی حدیثِ جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ سے ترکِ رفع پر استدلال کی نسبت سےمفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم اور مولانا حبیب اللہ ڈیروی  علیہ رحمہ کی آپس میں بات چیت بذریعہ خط و کتابت تفصیلاً ملاحظہ فرمانے کے لیے دیکھیں " نور الصباح ، ج 2،  ص 321"
تنبیہ:شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ نے ترک رفع یدین کے دلائل پر مشتمل ایک تحریر کی تصدیق کرتے ہوئےالجواب صحیح“ لکھاہے۔ ان دلائل میں یہی حدیث جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ  موجود ہے۔خود علی زئی کی زبانی یہ حقیقت سنیے:
مری سے تجمل حسین صاحب نے ایک چار ورقی پمفلٹ: مسئلہ رفع یدین “کے عنوان سے بھیجا ہے،  جسے کسی دوست محمد مزاری دیوبندی نے لکھاہے اور محمد رفیع عثمانی دیوبندی نے اس پمفلٹ کی تصدیق کی ہے،نیز محمد تقی عثمانی، محمد عبدالمنان اور عبدالرؤف وغیرہ نے الجواب صحیح“لکھ کر اس پر مہریں لگائی ہیں۔“ (الحدیث :93ص11)

اعتراض نمبر 3 = اس حدیث پر محدثین کا اجماع ہے کہ اس حدیث کا تعلق تشہد کے ساتھ ہے کیونکہ سب محدثین نے اس حدیث پر سلام کے وقت اشارہ سے منع کرنے کے ابواب باندھے ہیں۔ اور کسی محدث نے اس حدیث سے ترکِ رفع پر استدلال نہیں کیا۔
جواب =
یہ حدیث اور بوقت سلام اشارہ سے منع کی حدیث دو الگ الگ احادیث ہیں، تفصیل آگے آ رہی ہے۔
·        اس حدیث پر امام ابو داوَد نے یوں باب باندھا ہے: باب النظر فی الصلوٰۃ {ابو داوَد ص 138 ج 1}
·        امام عبدالرزاق علیہ رحمہ نے یوں باب باندھا ہے : باب رفع الیدین فی الدعاء {مصنف عبدالرزاق ص 252  ج 2}
·        امام بخاری کے استاد ابوبکر بن شیبہ  نے یوں باب باندھا ہے:  باب من کرہ رفع الیدین فی الدعاء {مصنف ابن ابی شیبہ  ص 486  ج 2}
·        نیز قاضی عیاض مالکی علیہ رحمہ اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں : وقد ذکر  ابن القصار ھٰذا الحدیث حجۃ فی النھی عن رفع الایدی علی روایۃ المنع من ذالک جملۃ {لا کمال العلم بفوائد مسلم ص 344 ج 2}
·        امام نووی علیہ رحمہ نے اپنی کتاب شرح المہذب میں فرمایا جسکا خلاصہ یہ ہے کہ اس حدیث سے امام ابوحنیفہ، امام سفیان ثوری ، امام ابن ابی لیلیٰ اور امام مالک علیہ رحمہ نے ترک رفع یدین پر استدلال کیا ہے۔ {المجموع شرح المہذب جلد 3، ص 400}
آئیے امام مسلم جن سے یہ حدیث پیش کی گئی ہے ان کے ابواب کو ذرا تفصیلاً دیکھتے ہیں:
امام مسلم نے باب یوں قائم فرمایا ہے: باب الامر بالسکون فی الصلوٰۃ والنھی عن الاشارۃ بالید ورفعھا عندالسلام واتمام الصفوف الاول والیراص فیھما والامر بالاجتماع
·        پہلا حصہ الامر بالسکون فی الصلوٰۃ، نماز میں سکون اختیار کرنے کا باب: باب کے اس حصے کے ثبوت میں یہی حدیث اسکنو فی الصلوٰۃ والی لائے ہیں
·        دوسرا حصہ النھی عن الاشارۃ بالید ورفعھا عند السلام، سلام کے وقت  ہاتھ سے اشارہ کی ممانعت:  اس حصہ مکے ثبوت کے لیے دوسری حدیث لائے ہیں  وانما یکفی احدکم ان یضع یدہ علی فخذہ ثم یسلم علی اخیہ من علی یمینہ وشمالہ ۔ بس تمہارے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اپنا ہاتھ اپنی ران پر رکھے ، پھر اپنے دائیں بائیں والے پر سلام کرے۔
·        تیسرا حصہ ہے ، واتمام الصفوف الاول والیراص فیھما والامر بالاجتماع، پہلی صفوں کو مکمل کرنا اور ان میں جڑنا اور اجتماع کے حکم کے بارے میں: اس حصے کو ثابت کرنے کے لیے تیسری حدیث لائے ہیں استووا ولا تختلفوا
پس ثابت ہوا کہ سلام کا لفظ دوسری حدیث کے متعلق ہے۔ پہلی حدیث پر باب الامر بالسکون فی الصلوٰۃ ہے یعنی نماز میں سکون اختیار کرنے کاباب۔ اس کے نیچے حدیث وہی لائی گئی ہے جس مین رفع یدین کو سکون کے خلاف قرار دے کر منع فرمایا دیا گیا۔ لہٰذا جو حدیث ہم پیش کر رہے ہیں، اس پر باب الامر بالسکون فی الصلوٰۃ ہے، اس میں سلام اور تشہد کا لفظ نہیں۔

اعتراض نمبر 4 = یہ حدیث سلام کے وقت رفع یدین سے منع کی ہے نہ کہ رکوع جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت کی رفع یدین کے بارے میں۔
جواب =
جیسا کہ اعتراض نمبر 3 کے جواب میں بیان کر دیا گیا ہے کہ امام مسلم علیہ رحمہ نے اس حدیث پر نماز میں سکون اختیار کرنے کا باب باندھا ہے اور سلام کے وقت اشارے سے منع کرنے کے لیے حضرت جابر بن سمرۃ سے دوسری حدیث لائے ہیں، جس سے اس اعتراض کا سارا دم خم ختم ہو جاتا ہے۔ مگر غیر مقلدین کے اعتراضات کا مکمل مدلل جواب دیا جاتا ہے تاکہ مزید گنجائش باقی نہ رہے انشاءاللہ تعالیٰ:
·        پہلی روایت مین جابر بن سمرۃ رضی الہ عنہ کا شاگرد تمیم بن طرفہ ہے۔ دوسری میں جابر رضی اللہ عنہ کا شاگرد عبد اللہ بن القبطیہ ہے۔
·        پہلی روایت میں ہے خرج علینا یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم پر نکلے۔ دوسری روایت میں ہے صلینا مع رسول اللہ ، یعنی ہم نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔
·        پہلی روایت میں ہے رافعی ایدیکم  یعنی رفع یدین کا ذکر ہے۔ دوسری روایت میں ہے  تشیرون بایدیکم تومنون بایدیکم تم اشارہ کرتے ہو۔
·        پہلی روایت میں سلام کا ذکر نہیں ، دوسری میں سلام کا ذکر ہے۔
·        پہلی روایت میں ہے اسکنو ا فی الصلوٰۃ ، یعنی نماز میں سکون اختیار کرو، دوسری روایت میں ہے انما یکفی احدکم ان یضع یدہ علی فخذہ
ان دونوں روایتوں کو غور سے دیکھا جائے تو دونوں روایتوں میں پانچ فرق نظر آتے ہیں۔ پہلی روایت میں ہے کہ ہم اکیلے نماز پڑھ رہے تھے، آپ تشریف لائے تو یہ واقعہ الگ ہوا۔ دوسری روایت میں ہے حضور صلی اللہ علپہ والہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے ، یہ واقعہ الگ ہوا۔ پہلی حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم  رافعی ایدیکم فرما کر رفع یدین کا نام لیتے ہیں اور دوسری میں رفع یدین کا نام تک نہیں بلکہ اشارے کا لفظ ہے۔ بہرحال دونوں روایتوں کو ایک بنانا فریب اور دھوکا ہو گا نہ کہ دونوں کو دو بتانا۔ چونکہ دو واقعے الگ الگ ہیں، ہم دونوں کو الگ الگ رکھتے ہیں، ملاتے نہیں لہٰذا الگ الگ رکھنا حقیقت حال سے اگاہ کرنا ہو گا۔ حقیقت حال سے آگاہ کرنے کو اہل انصاف میں سے تو کوئی بھی دھوکہ نہیں کہتا،  ہاں بے انصاف جو چاہیں کہیں۔
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز رکرے
پہلی حدیث میں رفع یدین سے منع کیا گیا ہے اور دوسری میں سلام والے اشارے سے۔ ہمارا احناف کا دونوں روایتوں  پر عمل ہے۔ نہ ہم رفع یدین  کرتے ہیں اور نہ ہی سلام کے وقت اشارہ کرتے ہیں۔
ایک اور بات قابلِ غور ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ جب اکیلے نماز پڑھتے تھے تو بوقتِ سلام ہاتھوں کا اشارہ نہیں کرتے تھے، ہاتھوں کااشارہ اس وقت ہوتا تھا جب باجماعت نماز پڑھتے اور پہلی حدیث میں ہے خرج علینا رسول ا للہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علہ والہ وسلم ہماری طرف آئے، ہم نماز پڑھ رہے تھے۔ سوال یہ ہے کہ یہ نماز فرض تھی ہرگز نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم گھر ہوتے تو  صحابہ کرام رضی اللہ عنہ مسجد میں نماز کے لیے اتنا لمبا بیٹھے رہتے کہ کبھی نیند آنے لگتی اور حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم  اس وقت تشریف لائے۔ وہ صحابہ رضی اللہ عنہم فرضوں کی جماعت آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس وقت تشریف لائے۔ وہ صحابہ رضی اللہ عنہ فرضوں کی جماعت آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بغیر کس طرح کرا سکتے تھے؟ ثابت ہوا کہ نماز فرض نہیں تھی بلکہ صحابہ کرام کی انفرادی نماز تھی جو نفل یا سنن  ہو سکتی ہیں۔ جب نماز جماعت والی نہیں تھی بلکہ انفرادی فعل یا سنن نفل وغیرہ نماز تھی تو اس میں سلام کے وقت اشارہ ہوتا ہی نہیں تھا تو آقا نے منع کس چیز سے کیا؟ یقیناً وہ رکوع سجدے والا رفع یدیں ہی تھا  جس کو  صحابہ کرام رضی اللہ عنہ   کرتے تھے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ   علیہ والہ وسلم ناراض ہوئے اور فرمایا اسکنوا فی الصلوٰۃ نماز میں سکون اختیار  کرو۔ مسلم شریف کا باب الامر فی الصلوٰۃ ج 1 ص 80 دیکھیں، اس میں اشارے کا ذکر جس حدیث میں ہے، اس میں صلینا مع رسول  اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کہ ہم آپ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے۔ ابوداوَد باب السلام ج 1 ص 143 پر دیکھیں اور غور کریں کہ نماز باجماعت ہے اور اشارہ  بھی ہے۔ جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کنا  اذا صلینا خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فسلم  احدانا اشار بیدہ من یمینہومن عن یسارہ یہاں بھی سلام کے اشارے کا جہاں ذکر ہے، وہاں جماعت کا ذکر بھی ہے۔ نسائی باب السلام بالیدین ج 1 ص 156 مع التعلیقات میں ہے صلیت مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فکنا اذا سلمنا قلنا بایدینا السلام علیکم یہاں بھی جماعت کا ذکر ہے، ساتھ سلام کے اشارے کا ذکر ہے۔ یہ طحاوی شریف ج 1 ص 190 باب السلام فی الصلوٰۃ کیف  ہو میں یہی جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ  کی روایت ہے کنا اذا صلینا خلف النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلمنا بایدینا جب ہم نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھتے تو ہاتھوں سے سلام کرتے تھے۔ اس کے علاوہ کتاب الام  للشافعی علیہ رحمہ ، مسند احمد ، بیہقی دیکھیں۔ جہاں سلام کے وقت اشارے کا لفظ ہو گا وہاں جماعت کی نماز کاذکر بھی ہو گا۔کسی صحابی رضی اللہ عنہ  نے اکیلے نماز ادا کی ہو اور ہاتھوں سے اشارہ بھی کیا ہو یعنی سلام کے وقت اشارہ بھی کیا ہو، موجود نہیں ہے لہٰذا اس سلام کے اشارے کا تعلق جماعت کی نماز سے ہے نہ کہ انفرادی نماز سے۔ انفرادی نماز میں صرف رکوع سجدے والا رفع یدین تھا ، ہاتھوں کا اشارہ نہیں تھا لہٰذا نفرادی نماز میں جو عمل تھا ہی نہیں ، اسے آپ  صلی اللہ علیہ والہ وسلم کیسے منع کر سکتے تھے۔  ہاں جو عمل تھا ، وہ رفع یدین رکوع و سجود کا تھا ، اسی سے ہی منع فرمایا ہے۔
ضمنی اعتراض: اگر اس حدیث سے " فی الصلوٰۃ "یعنی نماز کے اندر  کا رفع یدین  منع ثابت ہوتا ہے تو پھر اس سے تو تکبیرِ تحریمہ والا رفع یدین بھی ختم ہو جاتا ہے۔
جواب: نماز تکبیرِ تحریمہ سے شروع ہوتی ہے اور سلام پر ختم ہوتی ہے۔ وکان یختم الصلوٰۃ بالتسلیم حدیث شریف میں آتا ہےتحریمھا التکبیر وتحلیلھا التسلمیم {ترمذی شریف ص 32} نما تکبیرِ تحریمہ سے شروع ہوتی ہے اور سلام پر ختم ہو جاتی ہے لہٰذا  جس فعل سے نماز شروع ہو رہی ہے، اسے فی الصلوٰۃ نہیں کہا جاسکتا۔ ثناء فی الصلوٰۃ، تعوذ فی الصلوٰۃ، قومہ فی الصلوٰۃ، جلسہ و سجدہ فی الصلوٰۃ، سجدے والا رفع یدین فی الصلوٰۃ، تشہد فی الصلوٰۃ۔ تکبیرِ تحریمہ آغاز کا نام ہے اور نماز شروع کرنے کا طریقہ ہے۔ سلام نماز کے اختتام کا نام ہے یعنی ختم کرنے کا طریقہ ہے۔ وکان تکتم بالتسلیم {مسلم ج 1 ص 195} جس طرح حدیث پاک سے ثا بت ہو چکا ہے۔ اب قابلِ غور بات یہ ہے کہ جب رکوع و سجدہ فی الصلوّۃ ہیں تو ان کا رفع یدین بھی فی الصلوٰۃ ہو گا لہٰذا اسکنو فی الصلوٰۃ  میں نماز کے اندر والے رفع یدین سے ہی منع ثابت ہو گی نہ کہ تحریمہ والے سے کیونکہ رفع یدین بوقتِ تحریمہ فی الصلوٰۃ نہیں بلکہ فی افتتاح الصلوٰۃ ہے جس طرح ابو داوَد ج 1 ص 105 ،  پر موجود ہے کہ تحریمہ والے رفع یدین  کو رفع افتتاح الصلوٰۃ سے تعبیر کیا گیا ہے یا عند الدخول فی الصلوٰۃ جس طرح بخاری ج 1 ص 102 ، پر موجود ہے۔ جسطرح امام بخاری علیہ رحمہ باب باندھتے ہیں باب رفع الیدین فی التکبیرۃ الاولی مع الافتتاح یہاں لفظ مع الافتتاح تحریمہ کے رفع یدین کے لیے استعمال کیا  ہے۔  اسی صفحہ 102 پر دیکھیں ، امام بخاری علیہ رحمہ کا باب الخشوع فی الصلوٰۃ۔ نماز میں خشوع کا باب اور آگے جو حدیث لاتےہیں، وہ یہ ہے اقیمو االرکوع والسجود فواللہ انی لا اراکم من بعدی اچھی طرح رکوع اور سجدہ کیا کرو میں تمہیں پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔ خشوع فی  الصلوٰۃ کا باب باندھ کے پھر رکوع اور سجدہ کا بیان فرما کر بتلانا چاہتے ہیں  کہ رکوع اور سجدے کا جوڑ فی الصلوٰۃ کے ساتھ ہے اور فی الصلوٰۃ کا سب سے زیادہ تعلق رکوع اور سجدے کے ساتھ ہے۔ فی الصلوٰۃ کا لفظ اکثر و بیشتر انہیں افعال و اعمال پر بولا جاتا ہے جو نماز میں تکبیرِ تحریمہ اور سلام کے درمیان ہیں، اس کی چند مثالیں دیکھئے:
·        امام بخاری ج 1 ص  99 پر باب باندھتے ہیں اذا بکی الامام فی الصلوٰۃ، جب امام نماز میں روئے۔ امام تکبیرِ تحریمہ کے ساتھ ہی رونا شروع نہیں کر دیتا بلکہ بوقتِ تلاوت روتا ہے جس طرح ترجمہ الباب  کی حدیث سے ثابت ہو رہا ہے۔ گویا رونا تحریمہ کے بعد ہوتا ہے، اسی لیے تو فی الصلوٰۃ کہا گیا ہے۔
·        بخاری ج1 ص 102 پر باب ہے باب وضع الیسی الیمنی علی الیسرہ فی الصلوٰۃ ، بائیں ہاتھ پر دایاں ہاتھ رکھنا نماز میں۔ غور فرمائیں کہ ہاتھ پر ہاتھ تحریمہ کے بعد ہی رکھا جاتا ہے جس کو فی الصلوٰۃ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
·        بخاری شریف ج 1 ص 103 باب البصر  الی الامام فی الصلوٰۃ ، نماز میں امام کی طرف دیکھنا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ظہر اور عصر کی نماز میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ڈاڑھی مبارک کی حرکت کو دیکھ کر پہچان جاتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  ظہر اور عصر کی نماز میں قراءۃ فرماتے ہیں۔ تو بوقت  قراءۃ نماز میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کی ریش مبارک کو دیکھنا اور قراءۃ کو پہچاننا تحریمہ کے بعد ہی ہوتا تھا لہٰذا امام بخاری علیہ رحمہ فرماتے ہیں رفع البصر امام کی طرف  نظر اٹھانا فی الصلوٰۃ نماز کے اندر  یعنی تکبیرِ تحریمہ کے بعد۔ یہاں بھی تحریمہ کے بعد ہونے والے عمل کو فی الصلوٰۃ کہا گیا۔
·        بخاری ج 1 ص 104 پر امام بخاری علیہ رحمہ باب باندھتے ہیں باب وجوب القراءۃ للامام والماموم فی الصلوٰۃ ۔ یہاں قراءۃفی الصلوٰۃ فرمایا یعنی قراءۃ تحریمہ کا نام نہیں بلکہ قراءۃ تحریمہ کے بعد اور سلام سے پہلے ہوتی ہے۔ اسی طرح  اسکنوا افی الصلوٰۃ میں بھی منع تحریمہ والے رفع یدین سے نہیں بلکہ اس رفع یدین سے ہے جو تحریمہ کے بعد نماز میں کیا جاتا ہے۔
·        مسلم شریف ج 1 ص 169 پر امام نووی علیہ رحمہ باب باندھتے ہیں۔ اثبات التکبیر فی کل خفض ورفع فی الصلوٰۃ ، نماز میں ہر اونچ نیچ پر تکبیر کا اثبات۔ اب اونچ نیچ رکوع اور سجدے میں ہوتی ہے اور یہاں  رکوع و سجدہ میں اونچ نیچ کو فی الصلوٰۃ کہا گیا۔لا محالہ رکوع اور سجدے سے قبل اور بعد کی اونچ نیچ تحریمہ کے بعد اور سلام سے قبل ہے اسی لیے فی الصلوٰۃ کہا گیا یعنی نمازمیں۔ بعینٰہ اسی طرح مسلم کی ج 1 ص 181 والی اسکنو فی الصلوٰۃ والی روایت میں فی الصلوٰۃ سے مراد رفع یدین ہے جو تحریمہ کے بعد ہوتا ہے یعنی رکوع اور سجدے کے وقت۔
·        مسلم شریف ج 1 ص 173 باب التشھد فی الصلوٰۃ۔
·        مسلم ج 1 ص 183 باب التوسط فی القراءۃ فی الصلوٰۃ۔
·        مسلم ج۱ ص 210 باب السھو فی الصلوٰۃ۔ نماز میں بھولنے کا بیان اور آگے ص 211 پر حدیث پاک لائے ہیں کہ ان رسول اللہ صلی علیہ والہ وسلم قام فی الصلوٰۃ الظھر وعلیہ جلوس، بے شک نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بیٹھنا تھا بجائے بیٹھنے کے نماز میں کھڑے ہو گئے۔ بعد میں سجدہ سہوکیا
·        مسلم ج 1 ص 202 باب کراھۃ مسح الحصی وتسویۃ التراب فی الصلوٰۃ۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ بوقت سجدہ مسجد میں پڑی مٹی ہاتھ سے برابر کرتے تھے، اسی کی کراہت کا بیان کیا گیا۔ اور سجدہ نماز کے اندر تحریمہ کے بعد کا ہے اسی لیے اسے فی الصلوٰۃ کہا گیا۔
·        مسلم ج 1 ص 206 باب جواز الخطوۃ والخطوتین فی الصلوٰۃ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں جب منبر بنوا کر  رکھ دیا گیا تو رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم  منبر پر چڑھ گئے اور وہاں تکبیرِ تحریمہ کہی اور بعد میں بحالتِ نماز منبر سے اتر آئے۔ نماز کی حالت کا یہ عمل بعد تحریمہ تھا اسی لیے فی الصلوٰۃ کہا گیا۔
تلک عشرۃ کاملہ

ضمنی اعتراض: دونوں حدیثوں میں تشبیہ ایک چیز سے دی گئی ہے، کانھا اذناب خیل شمس لہٰذا دونوں حدیثیں ایک ہیں۔
جواب: ان احادیث کے الگ الگ ہونے کے دلائل سے یہ روزِ روشن کی طرح واضح ہو گیا کہ یہ احادیث الگ الگ ہیں۔
باقی تشبیہ ایک چیز کے ساتھ دینے سے چیز ایک نہیں بن جاتی۔ دیکھیں کوئی کہتا ہے کپڑا دودھ کی طرح سفید ہے۔ بطخ دودھ کی طرح سفید ہے۔ دانت دودھ کی طرح سفید ہیں۔ گائے دودھ کی طرح سفید ہے۔ بال دودھ کی طرح سفید ہیں۔ اب کپڑا ،  بطخ، دانت، گائے، بال پانچ چیزیں مشبہ ہیں ، دودھ مشبہ بہٰ ہے یعنی  پانچ چیزوں کو صرف دودھ کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ اب کون عقل مند یہ کہہ سکتا ہے کہ بطخ اور گائے یا بال اور دانت ایک شے ہیں کیونکہ تشبیہ صرف ایک چیز سے دی گئی ہے۔ اب اگر عندالسلام والے اشارے اور رکوع کے رفع یدین کو مست گھوڑوں کی دموں سے تشبیہ دی گئی ہے تو دونوں حدیثیں ایک کیسے ہو گئیں اور دونوں عمل ایک کیسے ہو گئے۔

اعتراض  نمبر 5 = یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک عمل خود نبی پاک نے پہلے کیا اور بعد میں اسی اپنے کیے ہوئے عمل کو مست گھوڑوں کی دمیں فرمایا۔ یہ ممکن نہیں۔ اس سے تو نبی علیہ صلوٰۃ والسلام کی تنقیص اور توہین ہوتی ہے۔ نعوذ باللہ
جواب = اشارہ عند السلام کو تو غیر مقلدین بھی مانتے ہیں کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کیا تھا۔ آخر نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ایسا  کیا یا کرتے دیکھا  نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کی تعلیم سے کیا یا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی موجودگی میں ہوا اور پہلے اپ دیکھتے رہے بعد میں فرمایا کانھا اذناب خیل ۔ گزارش یہ ہے کہ سلام کے وقت ہاتھوں کا  اٹھانا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کس کو دیکھ کر شروع کیا تھا؟ سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  آپ سلی اللہ علیہ والہ وسلم کے عمل یا حکم کے بغیر ایسا کیونکر کر رہے تھے؟ یقیناً  اس پر آپ سلی اللہ علیہ والہ وسلم کا عمل تھا یا حکم یا تقریر۔ ان تینوں صورتوں میں وہی اعتراض جو یہ غیر مقلدین کرتے ہیں وہ ان ان پر بھی ہو سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے وہ فعل جو کیا  ہے یا حکم دیا ہے یا کرنے پر خاموش رہ چکے ہیں، بعد میں اسے گھوڑوں کی دمیں کس طرح فرما  سکتے  ہیں؟  کیا  جب  یہ فعل  دموں والا بوقت سلام ہوتا رہا، اس وقت آپ اس پر خوش تھے، اس لیے خاموش رہے؟
نیز حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے دیگر ایسی مثالیں موجود ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے خود ایک کام کیا اور پھر بعد میں اس کے منسوخ ہونے پر اس کے لیے سخت الفاظ استعمال کیے۔
·        نماز میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے اقعاء کرنا ثابت ہے [ترمذی ج 1، ص 38 ۔ ابوداوْد ج 1، ص 123] لیکن پھر خود اسے  عقبۃ الشیطان کہا [مسلم ج 1، ص 195] = [اقعاء کا معنی دونوں پیروں کو کھڑا  کر کے ان کے اوپر بیٹھ جانا ہے۔ دیکھیں اپنے کیے ہوئے فعل کو عقبۃ  الشیطان کہا جا رہا ہے]

اعتراض نمبر 6 = امام بخاری علیہ رحمہ نے فرمایا کہ جو بھی اس حدیث سے  ترکِ رفع یدین پر استدلال کرتا ہے اس کا علم میں کوئی حصہ نہیں۔
جواب: اولاً تو اعتراض نمبر 3 کے تحت امام نووی علیہ رحمہ کا ارشاد نقل کیا جا چکا ہے کہ:
·        امام نووی علیہ رحمہ نے اپنی کتاب شرح المہذب میں فرمایا جسکا خلاصہ یہ ہے کہ اس حدیث سے امام ابوحنیفہ، امام سفیان ثوری ، امام ابن ابی لیلیٰ اور امام مالک علیہ رحمہ نے ترک رفع یدین پر استدلال کیا ہے۔ {المجموع شرح المہذب جلد 3، ص 400}
اور یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ حدیث کے معنی کے اعتبار سے فقہاء کو ترجیح حاصل ہے نہ کہ محدثین کو جیسا کہامام ترمذی فرماتے ہیں کہ " الفقھاء ھم اْعلم بمعانی الحدیث " یعنی فقہاء معنی حدیث محدثین سے زیادہ جانتے ہیں۔ [سنن الترمذی: ج 1، ص 193، کتاب الجنائز، باب ماجاء فی غسل المیت]۔۔۔۔۔ اب آپ ہی بتائیں کہ کیا امام اعظم ابوحنیفہ و سفیان ثوری و مالک و ابن ابی لیلیٰ جیسے امام اور فقہاء  کو اس جملے کے تحت جاہل اور بے علم مان لیا جائے؟ یقیناً اس کا جواب نفی میں ہے۔
اگر اس قسم کی باتیں ہی ماننی ہیں تو امام مسلم علیہ رحمہ جو کہ امام بخاری علیہ رحمہ کے شاگرد ہیں انہوں نے اپنے استاد امام بخاری علیہ  رحمہ کو منتحل الحدیث یعنی صرف حدیث کا دعوے دار فرما رہے ہیں۔ یعنی حدیث میں ان کا دعویٰ تو ہے مگر وہ بات نہیں جو درحقیقت مشہور ہے۔ ادھر امام بخاری علیہ رحمہ لوگوں کو بے علم کہتے ہیں ادھر ان کے اپنے ہی شاگرد ان کو صرف حدیث کا دعوے دار فرما رہے ہیں اور حدیچ سے گویا بے علم کہتے ہیں۔ اب اس سے بڑھ کر امام مسلم کی اپنے استاد سے اور کیا ناراضگی ہو گی؟ باوجود شاگرد ہونے کے پوری مسلم شریف میں اپنے استاد سے ایک بھی حدیث نہیں لائے۔
بات کا مقصد یہ ہے کہ  ایسی  غیر عالمانہ باتیں  بڑے بڑے علماء سے ہو جایا کرتی ہیں۔ جیسے امام بخاری علیہ رحمہ کو ایسی کسی بات سے فرق نہیں پڑتا بالکل اسی طرح ترک رفع یدین پر اس حدیث کو پیش کرنے والوں پر امام بخاری کی بات کا کوئی فرق نہیں پڑتا۔

اعتراض نمبر 6 = اگر اس حدیث کو ترک رفع پر مان بھی لیا جائے تو حنفی پھر وتر اور عیدین کی رفع یدین کیوں کرتے ہیں، انہیں وہ بھی چھوڑ دینی چاہئیں، کیونکہ وہ بھی فی الصلوٰۃ  یعنی نماز کے اندر کی رفع یدین ہیں۔
جواب: اس حدیث سے ہمارا استدلال کس کس طرح سے ہے یہ اوپر واضح کر دیا گیا ہے۔
·        ہمارا استدلال سے واضح ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نفل نماز پڑھ رہے تھے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم وہاں باہر سے تشریف لائے  [خرج علینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم]۔ اگر یہ عیدین کی نماز ہوتی تو  نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم جماعت کروا رہے ہوتے۔ یہ تو غیر مقلدین بھی مانتے ہیں کہ نمازِ عیدین جماعت سے ہوتی ہیں اس کے تو وہ بھی قائل نہیں کہ نمازِ عیدین انفرادی پڑھی جائے۔ تو یہ محال ہے کہ عیدین ہو رہی ہو اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نماز میں شریک نہ ہوں اور یہ بھی محال ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نےبغیر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے جماعت کروانی شروع کر دی ہو۔ پس یہ  مان لیا جائے کہ یہ عیدین کی نماز تھی تو یہ ماننا لازم آئے گا کہ نمازِ عید قضاء ہو گئی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بتایا بھی نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بعد میں تشریف لائے۔ اسی طرح اگر وتر کی نماز مانا جائے تو بھی عشاء کی نماز کی جماعت کا مسئلہ اور سوال اٹھتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نماز کی جماعت سے رہ گئے اور بعد میں تشریف لائے اور صحابہ کرام نے انتظار بھی نہیں کیا اور خود جماعت کروا لی اور وتر بھی پڑھنے لگے تب جا کے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف لائے۔ یہ محال ہے کیونکہ صحابہ کرام تو نبی پاک علیہ صلوٰۃ والسلام کا عشاء میں اتنا انتظار فرماتے تھے کہ انہیں نیند آنے لگتی۔
·        دوسری بات یہ ہے کہ عام نمازوں اور عیدین و وتر میں فرق ہے۔ جب بھی احکامِ عیدین و وتر آتے ہیں ساتھ واضح لفظ عید یا وتر موجود ہوتا ہے۔ جب کہ اس حدیث میں عام نماز کا عمومی لفظ ہے، پس اصول کے لحاظ سے خصوص کو عموم پر قیاس نہیں کیا جا سکتا، پس یہ قیاس مع الفارق ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔

·        تیسری بات یہ ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جس رفع یدین کو شریر گھوڑوں کی دم فرمایا ہے وہ  بغیر ذکر کے رفع یدین ہے، اور عیدین و وتر کا رفع یدین اسی طرح تحریمہ کا رفع یدین ذکر کے ساتھ ہے۔ یعنی رفع یدین کا الگ سے ذکر موجود ہے۔ جب کہ غیر مقلدین عام نمازوں میں جو رفع یدین کرتے ہیں وہ بغیر ذکر کے ہے، یعنی رکوع کو جاتے ہیں تواللہ اکبر کہتے ہیں، پس وہ اللہ اکبر انتقالِ رکوع کا ذکر ہے نہ کہ رفع یدین کا۔ اگر غیر مقلدین کہیں کہ وہ رفع یدین کا ذکر ہے تو پھر رکوع کی طرف انتقال کے وقت کا ذکر کہاں گیا؟ ہمارے وتر و عیدین کے رفع یدین چونکہ مع الذکر ہے تو اس کی تشبیہ گھوڑوں کی دمیں بنتی ہی نہیں، جبکہ غیر مقلدین کا رفع یدین بغیر ذکر کے ہے اس لیے وہ اس تشبیہ پر پورا پورا اترتے ہیں۔ چناچہ احناف کی رفع یدین اذناب خیل نہیں بلکہ  عبادت ہے کیونکہ اللہ پاک کا بھی فرمان ہے کہ  اقم الصلوٰۃ لذکری۔ پس یہ رفع یدین جو عیدین و وتر و تحریمہ کا ہے یہ بھی فرق کی وجہ سے الگ ہے اور قیاس مع الفارق ہونے کی وجہ سے یہ اعتراض بھی باطل ثابت ہوا۔

:دلیل نمبر1
قَالَ اللہُ تَعَالیٰ: قَدْاَفْلَحَ الْمُؤمِنُوْنَ الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلٰوتِھِمْ خَاشِعُوْنَ
(سورۃ مومنون:1،2)
ترجمہ: پکی بات ہے کہ وہ مومن کامیاب ہوگئے جو نماز میں خشوع اختیار کرنے والے ہیں۔
تفسیر: قَالَ اِبْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا مُخْبِتُوْنَ مُتَوَاضِعُوْنَ لَایَلْتَفِتُوْنَ یَمِیْناً وَّلَا شِمَالاً وَّ لَا یَرْفَعُوْنَ اَیْدِیَھُمْ فِی الصَّلٰوۃِ…الخ
(تفسیر ابن عباس رضی اللہ عنہما :ص212)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ’’خشوع کرنے والے سے مراد وہ لوگ ہیں جونماز میں تواضع اورعاجزی اختیار کرتے ہیں اوروہ دائیں بائیں توجہ نہیں کرتے ہیں اورنہ ہی نماز میں رفع یدین کرتے ہیں۔‘‘

:دلیل نمبر2
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اَحْمَدُبْنُ شُعَیْبِ النَّسَائِیُّ اَخْبَرَ نَا سُوَیْدُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّہِ بْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ سُفْیَانَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ الْاَسْوَدِ عَنْ عَلْقَمَۃَ عَنْ عَبْدِاللّٰہِ قَالَ اَلَااُخْبِرُکُمْ بِصَلٰوۃِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ؛ فَقَامَ فَرَفَعَ یَدَیْہِ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ثُمَّ لَمْ یُعِدْ۔
(سنن النسائی ج1ص158،سنن ابی دائود ج1ص116 )
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’کیامیں تمہیں اس بات کی خبر نہ دوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے نماز پڑھتے تھے ؟حضرت علقمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے پہلی مرتبہ رفع یدین کیا(یعنی تکبیر تحریمہ کے وقت) پھر(پوری نمازمیں)رفع یدین نہیں کیا۔‘‘

:دلیل نمبر3
اَ لْاِمَامُ الْحَافِظُ اَبُوْحَنِیْفَۃَ نُعْمَانُ بْنُ ثَابِتٍ یَقُوْلُ سَمِعْتُ الشَّعْبِیَّ یَقُوْلُ سَمِعْتُ الْبَرَائَ بْنَ عَازِبٍ یَقُوْلُ؛کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَاافْتَتَحَ الصَّلَاۃَ رَفَعَ یَدَیْہِ حَتّٰی یُحَاذِیَ مَنْکَبَیْہِ لَایَعُوْدُ بِرَفْعِھِمَا حَتّٰی یُسَلِّمَ مِنْ صَلَا تِہٖ۔
(مسند ابی حنیفہ بروا یۃ ابی نعیم رحمہ اللہ ص344،سنن ابی دائود؛ ج 1 ص 116 )
ترجمہ: حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو رفع یدین کرتے،(اس کے بعد پوری نماز میں) سلام پھیرنے تک دوبارہ رفع یدین نہیں کرتے تھے۔‘‘

:دلیل نمبر4
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اَبُوْبَکْرٍ عَبْدُاللّٰہِ بْنُ الزُّبَیْرِالْحُمَیْدِیُّ ثَنَا الزُّھْرِیُّ قَالَ اَخْبَرَنِیْ سَالِمُ بْنُ عَبْدِاللّٰہِ عَنْ اَبِیْہِ قَالَ (رَضِیَ اللہُ عَنْہُ) رَائیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَاافْتَتَحَ الصَّلٰوۃَ رَفَعَ یَدَیْہِ حَذْوَ مَنْکَبَیْہِ وَاِذَااَرَادَاَنْ یَّرْکَعَ وَبَعْدَ مَا یَرْفَعَ رَاْسَہٗ مِنَ الرَّکُوْعِ فَلَا یَرْفَعُ وَلَا بَیْنَ السَّجْدَتَیْنِ۔
(مسند حمیدی ج2ص277،مسند ابی عوانۃ ج 1 ص 334 )
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھاجب نماز شروع کرتے تو رفع یدین کرتے ۔رکوع کی طرف جاتے ہوئے، رکوع سے سراٹھاتے ہوئے اور سجدوں کے درمیان رفع یدین نہیں کرتے تھے۔‘‘

:دلیل نمبر5
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ ابْنُ حِبَا نٍ اَخْبَرَ نَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ یُوْسُفَ قَالَ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدِ الْعَسْکَرِیُّ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍعَنْ شُعْبَۃَ عَنْ سُلَیْمَانَ قَالَ سَمِعْتُ الْمُسَیِّبَ بْنَ رَافِعٍ عَنْ تَمِیْمِ بْنِ طُرْفَۃَعَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّہٗ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَاَبْصَرَقَوْمًا قَدْرَفَعُوْا اَیْدِیَھُمْ فَقَالَ قَدْ رَفَعُوْھَا کَاَنَّھَااَذْنَابُ خَیٍل شُمُسٍ اُسْکُنُوْا فِی الصَّلَاۃِ۔‘‘
(صحیح ابن حبان ج3 ص178 ،صحیح مسلم ج1ص181 )
ترجمہ: حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے لوگوں کو رفع یدین کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا : ’’انہوں نے اپنے ہاتھوں کوشریرگھوڑوں کی دموں کی طرح اٹھایاہے تم نماز میں سکون اختیار کرو ۔‘‘(نماز میں رفع یدین نہ کرو)

:دلیل نمبر6
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ مُحَمَّدُ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ الْبُخَارِیُّ حَدَّثَنَا یَحْیٰ بْنُ بُکَیْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا اللَّیْثُ عَنْ خَالِدٍ عَنْ سَعِیْدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَۃَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِوبْنِ عَطَائٍ اَنَّہٗ کَانَ جَالِسًا مَعَ نَفَرٍ مِّنْ اَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرْنَا صَلٰوۃَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ اَبُوْحُمَیْدِ السَّاعِدِیُّ اَنَا کُنْتُ اَحْفَظُکُمْ لِصَلٰوۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَاَ یْتُہٗ اِذَا کَبَّرَ جَعَلَ یَدَیْہِ حَذْوَ مَنْکَبَیْہِ وَاِذَا رَکَعَ اَمْکَنَ یَدَیْہِ مِنْ رُکْبَتَیْہِ ثُمَّ ھَصَرَظَھْرَہٗ فَاِذَا رَفَعَ رَاْسَہٗ اِسْتَویٰ حَتّٰی یَعُوْدَ کُلُّ فَقَارٍ مَّکَانَہٗ وَاِذَا سَجَدَ وَضَعَ یَدَیْہِ غَیْرَمُفَتَرِشٍ وَّلَا قَابِضَہُمَا۔
(صحیح بخاری؛ ج1ص114 ‘ صحیح ابن خزیمہ؛ ج1ص298)
ترجمہ : محمد بن عمر وبن عطاء رحمہ اللہ ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے فرماتے ہیں :’’ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نما زکاذکر کیا ( کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیسے نمازپڑھتے تھے؟) توحضرت ابوحمیدساعدی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’میں تم سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازپڑھنے کے طریقے کو زیادہ یاد رکھنے والا ہوں پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز پڑھنے کے طریقے کو بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب تکبیر تحریمہ کہی تو اپنے ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اٹھایااور جب رکوع کیا تو اپنے ہاتھوں سے اپنے گھٹنوں کومضبوطی سے پکڑاپھر اپنی پیٹھ کو جھکایا جب سر کو رکوع سے اٹھایا توسیدھے کھڑے ہوگئے حتی کہ ہرہڈی اپنی جگہ پر لوٹ آئی اورجب سجدہ کیاتو اپنے ہاتھوں کو اپنے حال پر رکھا نہ پھیلایا اورنہ ہی ملایا ۔‘‘

:دلیل نمبر7
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اَبُوْجَعْفَرٍ اَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ الطَّحَاوِیُّ حَدَّثَنَا ابْنُ اَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ ثَنَا نُعَیْمُ بْنُ حَمَّادٍ قَالَ ثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوْسٰی قَالَ ثَنَا ابْنُ اَبِیْ لَیْلٰی عَنْ نَافِعٍ عَنْ اِبْنِ عُمَرَ… وَعَنِ الْحَکَمِ عَنْ مِقْسَمٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ؛ تُرْفَعُ الْاَیْدِیْ فِیْ سَبْعِ مَوَاطِنَ: فِی افْتِتَاحِ الصَّلٰوۃِ وَ عِنْدَ الْبَیْتِ وَعَلَی الصَّفَائِ وَالْمَرْوَۃِ وَبِعَرْفَاتٍ وَ بِالْمُزْدَلْفَۃِ وَعِنْدَ الْجَمْرَ تَیْنِ۔
(سنن طحاوی ج1ص416 )
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسات جگہوں پر ہاتھوں کو اٹھایا جاتاہے
٭…1 شروع نماز میں ٭…2 بیت اللہ کے پاس ٭…3 صفاء پر ٭…4 مروہ پر ٭…5 عرفات میں ٭…6 مزدلفہ میں ٭…7 جمرات کے پاس۔

:دلیل نمبر8
قَالَ الْاِمَامُ اَبُوْبَکْرِ الاِسْمَاعِیْلِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ بْنُ صَالِحِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ اَبُوْمُحَمَّدٍ صَاحِبُ الْبُخَارِیُّ صَدُوْقٌ ثَبْتٌ قَالَ حَدَّثَنَا اِسْحَاقُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ الْمَرْوَزِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَابِرِ السَّھْمِیُّ عَنْ حَمَّادِ (ابْنِ اَبِیْ سُلَیْمَانَ ) عَنْ اِبْرَاہِیْمَ (النَّخْعِیِّ ) عَنْ عَلْقَمَۃِ (بْنِ قَیْسٍ) عَنْ عَبْدِاللّٰہِ(بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ) قَالَ صَلَّیْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاَبِیْ بَکْرٍ وَّ عُمَرَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَافَلَمْ یَرْفَعُوْا اَیْدِیَھُمْ اِلَّاعِنْدَافْتِتَاحِ الصَّلَاۃِ۔
(کتاب المعجم،امام اسماعیلی؛ ج2ص692،سنن کبریٰ امام بیہقی رحمہ اللہ ج2 ص79 )
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ نماز پڑھی انہوں نے پوری نماز میں صرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کی ۔‘‘

:دلیل نمبر9
قَالَ الْاِمَامُ ابْنُ قَاسِمٍ (حَدَّثَنَا)وَکِیْعٌ عَنْ اَبِیْ بَکْرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ قَطَّافِ النَّھْشَلِیِّ عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ عَنْ اَبِیْہِ اَنَّ عَلِیًّا کَانَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ اِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاۃَ ثُمَّ لَا یَعُوْدُ۔
(المدونۃ الکبریٰ؛ ج۱ص۷۱،مسند زید بن علی ص۱۰۰)
ترجمہ: ’’حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ جب نمازشروع کرتے تو رفع یدین کرتے پھر پوری نما زمیں رفع یدین نہیں کرتے تھے‘‘۔

:دلیل نمبر10
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اَبُوْ بَکْرِ بْنِ اَبِیْ شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا اَبُوْبَکْرِ بْنِ عَیَّاشٍ عَنْ حُصَیْنٍ عَنْ مُجَاھِدٍقَالَ مَارَاَیْتُ اِبْنَ عُمَرَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ اِلَّافِیْ اَوَّلِ مَا یَفْتَتِحُ۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ج1ص268 )
ترجمہ: معروف تابعی حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو شروع نماز کے علاوہ رفع یدین کرتے ہوئے نہیں دیکھا‘‘۔



رک رفع الیدین بعد الافتتاح کے دلائل



ترک رفع یدین کے دلائل فرقہ اہلحدث کے اعتراضات کے جوابات کیساتھ

سوال .. ... رفع الیدین رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت فرض ہے یا واجب یا سنت متواترہ دائما ؟؟؟

اگر فرض ہے تو اس کی دلیل قرآن و حدیث کی روشنی میں دیں ؟؟؟

اگر واجب ہے تو اس کی دلیل قرآن و حدیث کی روشنی میں دیں ؟؟؟

اگر سنت متواترہ دائما ہے تو اس کی دلیل دیں ؟؟؟

کسی صحیح حدیث سے دکھا دیں کی نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کرام کو فرمایا ہو کہ رفع یدین رکوع جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت کیا کرو ؟؟؟

کسی صحیح حدیث سے دکھا دو کہ نبی کریم ﷺ نے رفع یدین کی فضیلت بیان کی ہو یا ثواب بیان کیا ہوا مسواک جتنی ہی صحیح ؟؟؟؟

اگر کوئی غیر مقلد رفع یدین مذکورہ مقامات کی قولی حدیث سے سنت ثابت نہ کرسکے اور قیامت تک نہ کرسکے گا تو آنحضرت ﷺ کے ارشادات عالیہ سے زیر بحث رفع یدین کا اتنا ثواب ثابت کردے جتنا اشراق کی نماز ، تحیۃ الوضوء اور مسواک کا ثواب ہے میرا دعویٰ ہے کہ دنیا کا کوئی غیر مقلد آنحضرت ﷺ کے ارشادات عالی سے رفع یدین کی اتنی ترغیب بھی نہیں دکھا سکتا اگر کسی میں ہمت ہے تو میدان میں آئے اور آنحضرت ﷺ سے رفع یدین کا مسواک جتنا ثواب ثابت کردے ؟؟؟

کفن باندھے ہوئے سر سے
میں صدقے دست قاتل کے میرے قاتل نکل گھر سے

کسی صحیح حدیث سے دکھا دیں کہ نبی کریم ﷺ نے آخر عمر تک رفع یدین کیا ہو اور اسکے کرنے کی ترغیب دی ہو یا فرمایا ہو کہ جس کی رفع یدین نہیں اس کی نماز نہیں ؟؟؟

کسی صحیح حدیث سے دکھا دیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہو کہ جس نے نماز میں رفع یدین نہ کی اس کی نماز نہیں ؟؟؟؟

غیر مقلدین سجدوں میں رفع یدین کیوں نہیں کرتے جب کہ ان کے علماء اس حدیث کو صحیح غیر منسوخ مانتے ہیں تو پھر سجدوں میں رفع یدین کیوں نہیں اگر منسوخ ہے تو دلیل حدیث سے دو منسوخیت کی جس میں اسے منسوخ کہا ہو ؟؟؟؟


ترک رفع یدین کے دلائل اہلحدث کے اعتراضات کے جوابات کیساتھ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم

امابعد

اللہ تعالیٰ کی کروڑوں رحمتیں ہوں مفسرین کرام ،محدثین عظام اور فقہاء امت خیر الانام پر جنہوں نے نہایت اخلاص کے ساتھ شب و روز محنت فرما کر عوام الناس کو قرآن کریم کی آیات کا شان نزول اور تفسیر ی نکات بتائے احادیث رسول ﷺ کے مبارک الفاظ امت تک پہنچائے اور نت نئے آنے والے مسائل کو قرآن و حدیث کی روشنی میں حل فرما کر عامة الناس کو سمجھائے اس عظیم خدمت پر ان نفوس قدسیہ کو جتنا بھی خراج تحسین پیش کیا جائے کم ہے ۔ان حضرات کے درمیان اگر کبھی کسی مسئلہ پر اختلاف ہوا بھی تو اسے حق وباطل یا اسلام و کفر کا معیار نہ بنایا گیا بلکہ عمومی طور اولیٰ غیر اولیٰ راجح و مرجوح کی حیثیت حاصل رہی ۔بعض نے فرمایا یہ طریقہ زیادہ مناسب ہے بعض نے فرمایا دوسرا طریقہ زیادہ مناسب ہے ۔انہیں مسائل میں سے مسئلہ رفع یدین بھی ہے ۔ اس میں اختلاف اکابرین امت سے چلا آرہا ہے بعض نے نماز میں رفع یدین کرنا زیادہ مناسب و راجح جانا اور بعض نے نماز میں رفع یدین نہ کرنا زیاد مناسب اور راجح جانا ۔ تمام اکابر اپنی اپنی تحقیق پر عمل کرنے کے باوجود دوسرے کی نماز کو باطل قرار نہیں دیتے تھے ،یہی وجہ ہے کہ جب تک یہ مسئلہ (رفع یدین ) مخلص اور خدا کا خوف رکھنے والے علماء کے ہاں رہا تو اس پر بحث (کہ کون سا طریقہ زیادہ اولیٰ ہے) محض درس گاہ میں علماء کے طبقہ میں ہوا کرتی تھی اور وہ بھی سب ائمہ کا احترام کرتے ہوئے ۔مگر جب یہ خالص علمی بحث ان لوگوں کے ہاتھ آئی جو اخلاص فی الدین اور اتحاد بین المسلمین کے مفہوم اور ابجد سے بھی ناواقف ہیں تو الامان والحفیظ نتیجہ یہ نکلا ہر مسجد میں ہر مکتب میں ہر دوکان پرایک ہنگامہ کھڑا کردیا گیا اور وہ بھی بے نماز سے نہیں اذان سن کر گپیں ہانکنے والے سے نہیں بلکہ مسجد میں آنے والے نمازی سے کہ تیری تو نماز ہی نہیں ہوئی ،تیری تو نماز ہی سنت کے مطابق نہیں ،تیری نماز تو اولی نماز نہیں یہ سن کر پچاس سال سے اپنے ملک میں مسلمانوں کے متواتر عمل کے مطابق نماز پڑھنے والا بے چارہ پریشان ہوکر پوچھتا ہے کہ وجہ کیا ہے ؟ تو جواب ملتا ہے کیونکہ تو نے نماز میں رفع یدین نہیں کی قارئین مکرم فرمائیے اس عزیز نے کتنے بے نمازوں کو نمازی بنایا اور کتنے نمازیوں کو بے نماز کہا ؟ انا للہ وانا الیہ راجعون


اگر یہ دین میں مخلص ہوتا تو تبلیغی جماعت کی طرح دروازہ دروازہ پر دستک دے کر گلی گلی کوچہ کوچہ میں گشتیں فرماکر دوکان دوکان پر دعوت دے کر لوگوں کو نمازی بناتا مسجد میں ترقی و رونق کا سبب بنتا نہ کہ نمازیوں کے دلوں میں وساوس ڈال کر ان کو بد دل کرتا ۔

ستم بالائے ستم اس اللہ کے بندے نے یہ بھی نہ سوچا کہ اس بات (جو نماز میں رفع یدین نہیں کرتا اس کی نماز نہیں ہوتی ) سے کتنے اصحاب رسول اائمہ مجتہدین ،مفسرین قرآن محدثین عظام اولیاء کبار فقہاء امت بے نماز ہونے کے زمرہ میں آئیں گے ۔

خدارا آپ اپنی اداﺅں پے ذرا غور کریں

چونکہ سواد اعظم اہل السنة والجماعة کے مزاج میں اعتدال پسندی اور اتحاد بین المسلمین ہے بایں وجہ حتی الوسع چشم پوشی سے کام لیا گیا اور فضاء کو مکدر ہونے سے بچایا گیا مگر فریق ثانی نے سادہ لوح سنی مسلمانوں کو ورغلانا شروع کردیاکہ دلائل کی دنیا میں احناف کا دامن قرآن وحدیث سے خالی ہے ان کے پاس صرف اور صرف فقہ حنفی ہے اور کچھ نہیں ان حالات میں بادل ناخواستہ حالات وواقعات سے مجبور ہوکر محض اللہ کی رضاءکے لئے اہل السنة والجماعة حنفیہ کی تائید میں چند دلائل قرآن وحدیث سے پیش کرتا ہوں تاکہ اہل السنة والجماعة احناف کو اپنے مسلک کے دلائل معلوم ہوسکیں ۔اس ادنیٰ سی کاوش کو اللہ تعالیٰ منظور فرماکر ذریعہ نجات بنائیں آمین

نوٹ

میرے ان معروضات کے مخاطب امام شافعی ،ؒ امام مالک ؒ،اما م احمد بن حنبل ؒ کے مقلدین ہرگز ہرگز نہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جو تقلیدکو شرک اور قیاس کو کارشیطان سے تعبیر کرتے ہیں ۔

حقیقت حال یہ ہے کہ عہد نبوت امیں وحی الہٰی سے دوسرے احکام کی طرح نماز کے احکامات کی تکمیل بھی تدریجاً ہوئی ۔اسی کی طرف ابو داود شریف ج1 ص74 باب کیف الاذان میں اشارہ ہے حضرت ﷺ نے فرمایا احیلت الصلوٰة ثلاثة احوال نماز میں تین مرتبہ تبدیلی ہوئی ۔ گرامی قدر احبابجب ذخیرہ احادیث پر نظر پڑتی ہے تو مسئلہ رفع یدین میں رسول اللہ ﷺ کے کئی عمل مبارک سامنے آتے ہیں ہر ہر حرکت پر رفع یدین یعنی نماز شروع کرتے رکوع کو جاتے رکوع سے اٹھتے وقت سجدہ کو جاتے سجدہ سے اٹھتے دوسرے سجدہ میں جاتے
سجدہ سے سر مبارک اٹھاتے وقت رفع یدین کرنا ۔

بحوالہ ابوداود شریف ج ص 108 مسنداحمد ج3 ص381 ابن ماجہ ص62 دارقطنی ج1 ص289 مغنی ابن قدامہ ج 1 ص 212 تلخیص الحبیر ج1 ص542

دو سجدوں کے درمیان رفع یدین

بحوالہ نسائی شریف ج1 ص123 فتح الباری شرح بخاری ج2 ص185 ابو داود شریف ج1 ص105 ابن ماجہ شریف ص62

اور علامہ البانیؒ لکھتے ہیں

سجدوں میں جاتے وقت رفع یدین کرنا:

غیر مقلدین سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کہ غیر مقلدین سجدوں کی رفع یدین کیوں نہیں کرتے ؟جبکہ سجدوں میں جاتے وقت کا رفع یدین 10 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے۔

غیر مقلدین کے مانے ہوئے اور مستند شدہ محقق اور محدث علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی سجدہ میں جاتے وقت بھی رفع یدین کرتے تھے۔

یہ رفع یدین 10 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے اور ابن عمر، ابن عباس رضی اللہ عنہم اور حسن بصری، طاؤس، ابن عمر رضی اللہ عنہ کے غلام نافع، سالم بن نافع، قاسم بن محمد، عبداللہ بن دینار، اور عطاء اس کو جائز سمجھتے ہیں۔ عبدالرحمٰن بن مھدی نے اس کو سنت کہا ہے اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اس پہ عمل کیا ہے، امام مالک رح اور امام شافعی رح کا بھی ایک قول یہی ہے۔

( نماز نبوی صلی اللہ علیہ وسلم، علامہ ناصر الدین البانی، صفحہ 131)

جب سجدوں کا رفع یدین حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ ساتھ دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سےصحیح سند کے ساتھ غیر مقلدین کے تصدیق شدہ محقق کی تصریح کے ساتھ ثابت ہے تو غیر مقلد ان صحیح احادیث پہ عمل کیوں نہیں کرتے؟
یہ وہی عبداللہ ابن عمر رضی اللہ ہیں جن سے غیر مقلدین اپنی رفع یدین کی حدیث روایت کرتے ہیں۔

سجدوں سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کرنا:

علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ سجدوں سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کو صحیح کہتے ہیں۔

امام احمد اس مقام پر رفع یدین کے قائل ہیں بلکہ وہ ہر تکبیر کے وقت رفع یدین کے قائل ہیں، چنانچہ علامہ ابن قیم فرماتے ہیں کہ ابن الاثیر امام احمد سے نقل کرتے ہیں کہ ان سے رفع یدین کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ جب بھی نمازی اوپر یا نیچے ہو دونوں صورتوں میں رفع یدین ہے نیز اثرم بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام احمد کو دیکھا وہ نماز میں اٹھتے بیٹھتے وقت رفع یدین کرتے تھے۔

یہ رفع یدین انس، ابن عمر، نافع، طاؤس، حسن بصری، ابن سیرین اور ایوب سختیانی سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے۔

( نماز نبوی صلی اللہ علیہ وسلم، علامہ ناصر الدین البانی، صفحہ 142)

یہاں علامہ البانی رح نے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سجدوں سے سر اٹھاتے وقت کا رفع یدین صحیح سند سے ثابت کیا۔

غیر مقلدین سجدوں میں جاتے وقت اور سر اٹھاتے وقت رفع یدین کیوں نہیں کرتے؟؟؟

جو جواب یہاں غیر مقلدین کا وہی ہماری طرف سے بقیہ مقام کا


ہر رکعت کی ابتداء میں رفع یدین

بحوا لہ دار قطنی ج1 ص 287 صحیح ابن خزیمہ ج1 ص321 ابوداود شریف ج 1 ص109 طحاوی شریف ج1 ص 109 ابن ماجہ ص 62

رکوع میں جاتے اور رکوع سے سراٹھاتے وقت رفع یدین

بحوالہ ابن ماجہ ص 61 دار قطنی ج1 ص 289 نسائی شریف ج1 ص 102 ابوداود شریف ج1 ص104 بخاری شریف ج1 ص102

صرف اور صرف ابتداء نماز میں رفع یدین

بحوالہ ترمذی شریف ج1 ص58 ابوداود شریف ج 1 ص 109 نسائی شریف ج1 ص117 طحاوی شریف ج1 ص110 دارقطنی ج1 ص 293 جامع المسانید لخوارزمی ج1 ص352 نصب الرایہ ج1 ص406 موطا امام محمد ص 88 صحیح ابن حبان ج 3 ص 187 مصنف ابن ابی شیبہ ج1 ص267 مصنف عبدالرزاق ج 2 ص 71 مسند امام اعظم ص50

تفصیلی حوالہ جات ملاحظہ فرماویں

نہایت قابل غوربات یہ ہے کہ پہلے تین مقامات ( ہر حرکت کی رفع یدین ۔سجدوں کے درمیان رفع یدین ۔ہر رکعت کی ابتداءمیں رفع یدین ) کی رفع یدین پر نہ غیر مقلد دوستوں کا عمل ہے نہ اہل السنة والجماعة احناف کا حالانکہ ان مقامات کی رفع یدین سے منع غیر مقلدین کے اصول کے مطابق کسی صحیح صریح غیر معارض فرمان نبوی ﷺ سے ثابت نہیں ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان پر عمل کیوں نہیں ؟ تو اس کے جواب میں احناف تو فرمائیں گے چونکہ رفع یدین کثرت سے بتدریج قلت کی طرف آرہا ہے اس لئے پہلے ہر حرکت پر رفع یدین تھا جب اس سے کم رفع یدین کا عمل حضرت ﷺ سے ثابت ہوگیا تو سابقہ عمل متروک ہوگیا پھر سجدوں کی رفع یدین سے کم والا عمل حضرت ﷺ سے مل گیا تو سابقہ عمل متروک ہوگیا پھر دوسری اور چوتھی رکعت کی ابتداء سے کم رفع یدین کا عمل سامنے آگیا تو یہ عمل بھی متروک ہوگیا اب غیر مقلدین اور احناف کے درمیان اختلاف صرف اس بات پر رہا کہ آیا رکوع کو جاتے رکوع سے سر اٹھاتے وقت اور تیسری رکعت کی ابتداء میں رفع یدین اللہ کے نبی ﷺ کا دائمی وآخری عمل ہے یا نہ تو سابقہ اصول کے پیش نظر انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ جب ہمیں صرف اور صرف ابتداء کی رفع یدین کی روایات صحاح ستہ سے مل گئیں تو ضد اور تعصب کو دل سے نکال کر فقط ابتداء نماز میں ہی رفع یدین کرنی چاہئیے اور بس
ورنہ کہنے والے کہہ سکتے ہیں کہ غیر مقلدین دن رات حدیث حدیث کہنے کے باوجود ان احادیث پر بھی عمل نہیں کرتے جن میں ہر حرکت پر رفع یدین کا ذکر ہے ،ان احادیث پر بھی عمل نہیں کرتے جن میں دو سجدوں کے درمیان رفع یدین ثابت ہے ان احادیث پر بھی عمل نہیں کرتے جن میں دوسری اور چوتھی رکعت کی ابتداء میں رفع یدین کا ثبوت ہے ۔
وما التوفیق الا باللہ

فائدہ
چونکہ نماز میں رکوع کو جاتے رکوع سے سر اٹھاتے اور تیسری رکعت کی ابتداء میں رفع یدین کے متعلق غیر مقلدین کا دعوی ہے کہ یہی طریقہ سنت نبوی ﷺ ہے اس کے بغیر نماز سنت کے مطابق نہیں ہوتی یہی اللہ کے نبی ﷺ کا آخری اور دائمی عمل ہے لہذا بوجہ مدعی ہونے کے ان (غیر مقلدین ) پر شریعت یہ ذمہ داری عائد کرتی ہے کہ اپنے دعوی کو اپنے اصول کے مطابق ( صحیح صریح غیر معارض صحاح ستہ کی حدیث سے ) ثابت کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نبی ﷺ نے ضابطہ بیان فرمایا البینة علی المدعی گواہ مدعی کے ذمہ ہیں
ترمذی شریف ج1 ص194

اصولی طور پر احناف کے ذمہ دلائل پیش کرنا نہیں مگر پھر بھی اتمام حجت کے لئے چند حوالہ جات ہدیہ قارئین ہیں ۔

نوٹ

اختصار کے پیش نظر بعض قریب المفہوم روایات کو ایک عنوان کے تحت درج کیا گیا ہے

مستدلات حنفیہ

(۱) پہلی دلیل قرآن مجید سے ملاحظہ ہو

قدافلح المومنون الذین ھم فی صلوٰتہم خاشعون

بلا شبہ وہ مومن کامیاب ہوئے جو اپنی نماز میں خشوع کرنے والے ہیں ۔سورة المومنون پارہ 18

اس آیت کی تفسیر میں ترجمان القرآن رسول اللہ ﷺ کے چچا زاد حضرت عبداللہ بن عباس رض فرماتے ہیں مخبتون متواضعون لا یلتفتون یمیناً ولاشمالاً ولا یرفعون ایدیہم فی الصلوٰة

ترجمہ ، عاجزی و تواضع کرنے والے نہ دائیں بائیں التفات کرتے اور نہ نماز میں رفع یدین کرتے ہیں
تفسیر ابن عباس ص 395 (تفسیر ابن عباس رض :ص212)

طرزاستدلال

آیت کریمہ کی تفسیر میں سیدنا ابن عباس رض صحابی رسول ﷺ فرماتے ہیں وہ مومن کامیاب ہیں جو نماز میں رفع یدین نہیں کرتے یعنی نماز کے اندر والی رفع یدین ( رکوع کو جاتے رکوع سے سراٹھاتے تیسری رکعت کی ابتداءمیں ) سے روکا جارہا ہے

حضرت عبد ا للہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ان آیات کی تفسیر میں ”لا یرفعون ایدیہم فی الصلوٰة [نہ ہی نمازمیں رفع یدین کرتے ہیں]کے واضح الفاظ موجود ہیں۔
لا یرفعون ایدیہم فی الصلوٰة“ کے الفاظ سے نمازکے اندر پائے جانے والے ہر رفع یدین کی نفی ہو جاتی ہے چاہے وہ رکوع سے پہلے کا ہو ، رکوع کے بعد کا ہو ، سجدوں کے وقت کا ہو یا تیسری رکعت کے شروع کا، الگ سے ہر ایک کو ذکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ جیسے ”لَاالہ الا اللہ“ میں لَاسے ہر معبودِ باطل کی نفی ہو جاتی ہے چاہے وہ لات ہو یا عزی یا کوئی اور، ہر ایک کا ذکر ضروری نہیں۔

اعتراض:

اس [تفسیر ابن عباس] کا مرکزی راوی محمد بن مروان السدی الصغیر کذاب ہے اور باقی سند بھی سلسلۃ الکذب ہے

نیز شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ کے حوالے سے لکھا:" اس سلسلۂ سند کو محدثین نے سلسلۃ الکذب" قرار دیا ہے ۔

جواب:

بطور تمہید چند باتیں عرض ہیں ۔

1: ایسا ممکن ہے کہ ایک آدمی ایک فن میں ماہر ، ثقہ اور معتبر ہو اور بعینہ وہی آدمی دوسرے فن میں ضعیف ، متروک بلکہ کذاب تک ہو ۔ یعنی ایک فن کا ماہر ضروری نہیں کہ دوسرے فن میں بھی ماہر ہو ۔ کتب اسماء الرجال کا جائزہ لینے سے یہی بات واضح ہوتی ہے

جیسے:

1: امام بخاری : آپ کی تالیف ”التاریخ الکبیر“ کو فنِ تاریخ میں وہ درجہ حاصل نہیں جو صحیح بخاری کو فنِ حدیث میں ہے، حالانکہ دونوں آپ کی تالیف ہیں ۔

2 : محمد بن اسحاق بن یسار : فنِ حدیث میں ائمہ نے ان کوکذاب ، لیس بالقوی ، لایحتج بہ وغیرہ فرمایا (الضعفاء والمتروکین لابن الجوزی ج3ص41وغیرہ) اور اسی محمد بن اسحاق بن یسار کو علم مغازی کا”امام“ اور ”مرجع“ کہا گیا ہے ۔ (تذکرۃ الحفاظ للذہبی ج1ص130وغیرہ)

3 : عاصم بن ابی النجود الکوفی : حافظ ابن حجر ان کے بارے میں فرماتے ہیں:”لہ اوہام“،لیکن فن قراءۃ میں حجت قرار دیا (تقریب التہذیب ص471)

4 : حفص بن سلیمان الاسدی:امام ذہبی نے ائمہ کی جروح نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ فنِ قراءۃ میں ثقہ، ثبت وضابط ہے بخلاف فنِ حدیث کے اس میں ایسا نہیں (معرفۃ القراء الکبار ج1ص140) اسی کے بارے میں حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: متروک الحدیث ہے ،لیکن فنِ قراءۃ کا امام ہے۔ (تقریب لابن حجر ص257)

5 : عیسی بن میناء المدنی: امام ذہبی فرماتے ہیں کہ یہ فنِ قراءۃ میں معتبر تھے، لیکن فنِ حدیث میں ناقابل اعتبار ہے (میزان الاعتدال ج3ص327)

6 : مقاتل بن سلیمان:حافظ خلیلی فرماتے ہیں کہ یہ علماءِ تفسیر کے ہاں عظیم الشان مقام ومرتبہ کے مالک ہیں، لیکن حفاظ حدیث نے انہیں روایت میں ضعیف قرار دیاہے۔ (الارشاد للخلیلی ج3ص928 بحوالہ ارشیف ملتقی التفسیر)

2:جید محدثین مثلاً امام بیہقی،امام ذہبی،حافظ ابن حجر عسقلانی نے امام الجرح والتعدیل امام یحیٰ بن سعید القطان کے حوالے سے یہ اصول نقل کیاہے:

تساھلوا فی التفسیر عن قوم لایوثقونھم فی الحدیث ثم ذکر لیث بن ابی سلیم وجُوَيْبِرِ بن سعید والضحاک ومحمد بن السائب یعنی الکلبی وقال ھولاء لایحمد حدیثھم ویکتب التفسیر عنھم ،

(دلائل النبوۃ للبیہقی ج1ص33،میزان الاعتدال للذہبی ج1ص391 فی ترجمۃ جويبر بن سعيد ، تہذیب التہذیب لابن حجر ج1ص594رقم 1164 فی ترجمۃ جويبر بن سعيد )

ترجمہ: ائمہ نے فنِ تفسیر میں ایسے لوگوں (کی مرویات کے بارے میں )نرمی اختیار کی ہے جن کو حدیث میں معتبر قرار نہیں دیتے۔ پھر(یحییٰ بن سعید القطان) نے لیث بن ابی سلیم، جویبر بن سعید اور محمد بن السائب الکلبی کا نام لیا اور فرمایا کہ ان( جیسے) حضرات کی نقل کردہ حدیث تو قابلِ مدح نہیں البتہ ان کی تفسیر لکھی جائے گی ۔

3 : وہ ائمہ جو فن تفسیر میں مشہور ہیں یا تو روایۃً مشہور ہیں یا دِرایۃً، اگر محدثین ان پر روایت کے اعتبار سے کلام کریں تو لازمی نہیں کہ ان کی دِرایت بھی غیرمعتبر ہو بلکہ جہتِ دِرایت پر غور کیا جائے گا۔محدثین کے کلام کرنے سے ان کی جہتِ دِرایت متاثر نہ ہوگی۔ (ارشیف ملتقی اہل التفسیر عدد1ص1588 تا 1595 ملخصاً)

4 : روایت کو تو کذب سے تعبیر کرسکتے ہیں لیکن درایت کو کذب نہیں کہا جاسکتا بلکہ اسے خطاء یا صواب سے تعبیر کیا جائے گا (ایضاً)

اس تمہید کے بعد جواب عرض ہے کہ

نمبر 1 : محمد بن مروان السدی الصغیر پر جرح فنِ حدیث کے اعتبار سے ہے ۔ امام بخاری فرماتے ہیں:

لایکتب حدیثہ البتۃ (میزان الاعتدال ج4ص263 رقم الترجمہ:7679) کہ اس کی احادیث ہر گز نہ لکھی جائیں ۔

اور فن تفسیر میں اسے ”صاحب التفسیر“ اور ”المفسر“ کہا گیا ہے۔ (مغانی الاخیار ج5ص429، شذرات الذہب ج1ص318)

دوسرے رواۃ (الکلبی اور ابوصالح ) کو ائمہ نے مفسر کے طور پر ذکر کیاہے (الکامل لابن عدی ج 6 ص 2132 میزان الاعتدال ج 3 ص 556 ، معرفۃ الثقات للعجلی ج1ص242) بلکہ کلبی سے تفسیر لینے کو امام یحییٰ القطان نے جائز قرار دیا (دلائل النبوۃ ج1ص33وغیرہ) اور ابو صالح کو ثقہ قرار دیا گیا ہے۔ (معرفۃ الثقات للعجلی ج1ص292)

امام ذھبی علیہ رحمہ نے میزان الاعتدال میں ابن عدی علیہ رحمہ سے نقل کیا ہے،
قال ابن عدی وحدث عن الکلبی سفیان و شعبۃ وجماعۃ ورضوہ فی التفسیر واما فی الحدیثہ عند المناکیر "

ترجمہ " محمد بن السائب کلبی سے امام سفیان، امام شعبہ اور ایک اور جماعت نے ان سے حدیث نقل کی ہے، تفسیر میں ان سے وہ خوش ہوتے ہیں ، البتہ احادیث بعض اس کے پاس وہ ہیں جو منکر ہیں" میزان الاعتدال للذھبی جلد 3، ص 533

لہذا فقرہ نمبر1 اور 2 کی رو سے ان کی تفسیر حجت ہے۔

نمبر 3 : اس سلسلۂ سند پر روایتی نقطۂ نظر سے کلام ہے لیکن ازروئے فقرہ نمبر3 یہ درایتی نقطۂ نظر کو چنداں مضر نہیں۔

درایۃً اس آیت سے ترک رفع یدین ثابت ہوتا ہے۔وہ اس طرح کہ اس آیت میں کامیاب مومنین کے اوصاف بیان ہوئے ہیں جن میں ایک وصف ”ھمْ فیْ صلٰوتھمْ خاشعوْنَ“ ہےکہ وہ نماز میں خشوع (تواضع و عاجزی اور سکون)اختیار کرتے ہیں۔ خشوع کا حاصل یہ ہے کہ حرکات محضہ سے اجتناب کیا جائے (جیسا کہ مفسرین نے”خشوع“ کا معنی کرتے ہوئے لکھا:”تظهر آثارها على الجوارح فتجعلها ساكنة مستشعرة أنها واقفة بين يدي اللّه“ [التفسیر الوسیط: ج10، ص12]خشوع و خضوع کے آ ثار اعضاء پر ظاہر ہوتے ہیں اور اسے سکون والا بنا دیتے ہیں۔ وہ یہ بات جانتا ہے کہ اللہ کے سامنے کھڑا ہے]اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم کے بارےمیں روایت نقل کی کہ یہ حضرات نماز میں ایسے کھڑے ہوتے تھے گویا کہ لکڑی زمین میں نصب ہے [السنن الکبریٰ :ج2ص358]
ان جیسی روایات کا حاصل یہ ہے کہ خشوع کا تقاضا اس وقت پورا ہو گا جب حرکاتِ محضہ سے اجتناب کر کے سکون کیا جائے)نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: أَقمِ الصلَاةَ لذِكرِي [طہٰ:14]
ترجمہ: میرے ذکر کے لیے نماز قائم کرو۔

رکوع کو جاتے ،رکوع سے اٹھتے اورتیسری رکعت کےشروع میں جو رفع یدین کیا جاتاہے وہ چونکہ ذکر سے خالی ہوتا ہے اس لیے حرکت ِمحضہ ہے اور خشوع و سکون کے خلاف ہے۔ تو آیت میں لفظ”خَاشِعُوْنَ“ بھی اس رفع یدین کےترک کا تقاضا کرتا ہے۔پس درایۃً منع ثابت ہوا۔ و اللہ اعلم بالصواب

تنبیہ1: اس تفسیر کی تائید مشہور ثقہ تابعی حضرت حسن بصری رحمہ اللہ م110ھ سے مروی تفسیر سے بھی ہوتی ہے۔ آپ رحمہ اللہ”الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلٰوتِھِمْ خَاشِعُوْنَ“ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

”خاشعون الذین لایرفعون ایدیہم فی الصلوۃ الا فی التکبیرۃ الاولیٰ “،(تفسیر السمرقندی ج2ص408طبع بیروت)

ترجمہ: ”خَاشِعُوْنَ“ سے مراد وہ لوگ ہیں جو صرف تکبیرِ اولیٰ کے وقت رفع یدین کرتے ہیں۔

تنبیہ 2 :حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بھی نماز میں رفع یدین سے منع اور سکون کرنے کا حکم ہے، جو مزید تائید ہے کہ مذکورہ رفع یدین مومنین کے وصف ”خَاشِعُوْنَ“ کے خلاف ہے۔
(اس حدیث پر غیر مقلدین کے اعتراضات کے جوابات تفصیلا آگے آ رہے ہیں)۔

ضمنی اعتراض : جزء رفع یدین کے حوالے سے یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین کرتے تھے۔

جواب : جزء رفع یدین میں یہ روایت ان الفاظ سے مروی ہے:

عن ابی جمرۃ قال رایت ابن عباس رضی اللہ عنہما یرفع یدیہ حیث کبر و اذا رفع راسہ من الرکوع۔ (جزء رفع یدین للبخاری:رقم:21)

ترجمہ: ابو جمرہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ رفع یدین کرتے ہیں جب تکبیر کہتے ہیں اور جب رکوع سے سر اٹھاتے ہیں۔

اس سے غیر مقلدین کا ”مذہب“ کسی طرح ثابت نہیں ہوتا، اس لیے کہ :

1 : اس کی سند میں ابو جمرۃ (”ج “کے ساتھ) مجہول ہے اس لیے سند صحیح نہیں۔ (نسخہ دہلی، اسوہ ص۲۷) افسوس کہ غیر مقلدین نے تحریف کر کے اس کو ابو حمزہ بنا دیاہے۔ (جزء رفع یدین للبخاری مترجم از حضرت اوکاڑوی: ص279)

2 : غیرمقلدین کا موقف یہ ہے کہ رکوع کو جاتے ، رکوع سے سر اٹھاتے اور تیسری رکعت کے شروع میں رفع یدین کیا جائے جو دس دفعہ کی رفع یدین بنتی ہے، لیکن اس اثرسے [بشرط صحت] تو یہ معلوم ہوتا ہےکہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما چار رکعت میں پانچ دفعہ تو رفع یدین کرتے تھے اور پانچ دفعہ نہیں کرتے تھے۔ گویا چار رکعت نماز میں پانچ سنتیں ترک فرماتے تھے۔ پھر یہ اثر غیرمقلدین کو سود مند کہاں ؟؟؟

اس غیر صحیح اثر کے بر خلاف حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے سند صحیح سے مروی ہے:لاَ ترْفعُ الأَيدِي إِلاَّ في سبعِ موَاطنَ؛حينَ يفتتحُ الصلاَةَ الحدیث (المعجم الکبیر: ج11 ص385 رقم الحدیث 11904)

’’سات جگہوں پر ہاتھوں کواٹھایا جاتا ہے ایک جب نماز شروع کی جائے الخ ۔

اور اس کے علاوہ دیکھیں کشف الاستار ج1 ص 251 شرح معانی الآثار ج1 ص 54 معجم طبرانی کبیر ج 11 ص 452

ان مقامات میں غیر مقلدین کے مزعومہ مقامات کا ذکر نہیں ہے۔


(2) حضرت عبداللہ بن مسعود رض کی مرفوع حدیث صحاح ستہ کی مشہور کتاب ترمذی ج1 ص 58 پر ہے

قال الا اصلی بکم صلوٰة رسول اللہ ﷺ فصلی ولم یرفع یدیہ الا فی اول مرة

صحابی رسول ﷺ حضرت ابن مسعود رض نے فرمایا کہ میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز پڑھ کر نہ دکھاوں پھر آپ نے نماز پڑھی اور صرف پہلی مرتبہ (تکبیر تحریمہ کے وقت ) رفع یدین فرمائی

امام ترمذی اس کے متعلق فرماتے ہیں

حدیث ابن مسعود حدیث حسن ج۱/ص59

یہ حدیث حسن ہے یعنی ضعیف نہیں

حافظ ابن حجر فرماتے ہیں ھذا الحدیث حسنہ الترمذی وصححہ ابن حزم

اس حدیث کو امام ترمذیؒ نے حسن اور علامہ ابن حزم ؒ المحلی میں فرماتے ہیں ان ھذا الخبر صحیح یہ حدیث صحیح ہے المحلی ج 3 ص 4 دار الکتب العلمیہ اور دیکھے التلخیص الحبیر
ج1 ص 546

مزید تفصیل نور الصباح فی ترک رفع الیدین بعد الافتتاح ج 1 ص 91 پر ملاحظہ کریں

اس روایت کے تمام راوی صحیح مسلم کے راوی ہیں الجوہر النقی ج2 ص78

یہ حدیث ان مقامات پر بھی دیکھی جاسکتی ہے

نسائی شریف ج1 ص102 مصنف ابن ابی شیبہ ج1 ص267 مغنی لابن قدامہ ج1 ص 205 مسند ابی یعلی ج4 ص 167 مزید حوالہ جات نور الصباح فی ترک رفع الیدین بعد الافتتاح ج 1 ص 89 پر ملاحظہ کریں

اخبرنا سوید بن نصر حدثنا عبد اللہ بن مبارک عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمٰن بن الاسود عن علقمۃ عن عبداللہ قال الا اخبرکم بصلوٰة رسول اللہ ﷺ قال فقام فرفع یدیہ اول مرة ثم لم یعد
(سنن النسائی ج1ص158، سنن ابی دائود ج1ص 116 )

حضرت عبداللہ بن مسعود صنے فرمایا (اپنے حلقہ تلامذہ کو )کیا میں تمھیں رسول اللہ ﷺ کی نماز کی خبر نہ دوں پھر آپ کھڑے ہوئے صرف پہلی مرتبہ رفع یدین فرمائی اور پھر رفع یدین نہ فرمائی۔

غیر مقلدین حتی الامکان اس روایت کو ساقط الاعتبار قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ صراحتا ان کے خلاف ہے ابوداؤد میں روایت کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں ، الا اصلی بکم صلٰوۃ رسول اللہ ، صلوٰۃ مفعول مطلق ہے اور اس کی اضافت رسول کی طرف ہے اسے اضافت نوعیہ کہا جاتا ہے معنیٰ ہوگا کیا میں تمہیں ایسی نماز نہ پڑھاؤں جو نبی ﷺ کی نماز کی طرح ہو ،

سند کے رواۃ

1 سوید بن نصر ثقۃ ، التقریب ج2 ص96

2 عبد اللہ بن مبارک ، ثقۃ ثبت فقیہ عالم جواد مجاھد جمعت فیہ خصال الخیر امام ، التقریب ج2 ص260

3 سفیان ثوری ثقۃ حافظ فقیہ عابد حجۃ امام ، التقریب ج2 ص50

امام سفیان ثوری ؒ المتوفی 161 علامہ ذہبی ؒ ان کو الامام شیخ الاسلام سید الحفاط اور الفقیہہ لکھتے ہیں تذکرۃ ج1 ص 190 امام شعبہ ؒ و ابن معین اور ایک بہت بڑٰ جماعت یہ کہتی ہے کہ سفیان ؒ فن حدیث میں امیر المؤمنین تھے ابن مبارک ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے گیارہ سو شیوخ سے احادیث کی سماعت کی ہے جن میں سفیان ثوری ؒ سے افضل کوئی بھی نہ تھا ۔ ان کی تعریف و توصیف کیلئے یہ الفاط کیا کم ہیں ؟ شعبہ ؒ فرماتے ہیں سفیان ؒ مجھ سے بڑے حافظ ہیں ورقاء ؒ فرماتے ہیں سفیان ؒ نے اپنا نظیر خود بھی نہیں دیکھا ہوگا امام احمد ؒ فرماتے تھے میرے نزدیک سفیان ؒ سے بڑھ کر کوئی نہیں ۔ اور امام اوزاعی ؒ فرماتے ہیں کہ اس سر زمین پر کوئی ایسا نہیں رہا جن پر تمام امت متفق ہو ۔ ہاں مگر وہ سفیان ثوری ؒ ہی ہے . تذکرہ ج1 ص 191

امام قطان ؒ فرماتے ہیں کہ سفیان ثوری ؒ ، امام مالک سے سب چیزوں میں بڑھ کر ہیں . تذکرہ ج1 ص 191
علامہ خطیب لکھتے ہیں کہ وہ ائمہ مسلمین کے بہت بڑے امام اور اعلام دین کے بہت بڑے علم تھے سب کا ان کی امامت پر اتفاق ہے ۔ بغدادی ج9 ص 152 تہذیب التہذیب ج4 ص 114

حافظ ابن کثیرؒ لکھتے ہیں کہ وہ احد ائمۃ الاسلام اور عابد متقی اور بے شمار تابعین ؒ سے روایتیں کرنے والے تھے ۔ البدایہ و النہایہ ج1 ص134

نواب صدیق حسن خان صاحب لکھتے ہیں کہ امام سفیان ؒ ثوری از اصحاب مذاہب متبوعہ بود محدث جلیل و عارف نبیل علم را باسلوک یکجا داشت ۔تقصار ص27

سفیان ثوری ؒ پر اعتراض کا جواب آگے آرہا ہے ..

4 عاصم بن کلیب ، قال ابن معین ثقۃ وقال ابو حاتم صالح وقال احمد بن صالح المصری یعد من وجوہ الکوفیین الثقات وقال ابن سعد ثقۃ یحتج بہ و لیس بکثیر الحدیث ، تھذیب التھذیب ج5 ص56
بجائے اس کے غیر مقلدین عاصم بن کلیب پر اعتراض نقل کریں تو اس کا جواب نور الصباح فی ترک رفع الیدین بعد الافتتاح ص 95 تا 99 دیکھیں اگر ہم یہان نقل کرینگے تو یہ تحریر بڑی طویل ہوجائے گی . اگر شوق ہو تو ہم یہاں تحریر میں بھی نقل کردینگے

5 عبد الرحمان بن الاسود ثقۃ ،، التقریب ج2 ص 306

6 علقمۃ ثقۃ ثبت عالم ،، التقریب ج 3 ص 34

7 عبد اللہ بن مسعود صحابی لا یسئل عن مثلہ لان الصحابۃ کلھم عدول

اختلاف عبد اللہ بن مسعود ابن عمر میں ابن مسعود کا قول معتبر ہے

حضرت عبد اللہ بن مسعود رض کے بارے مین حاکم فرماتے ہیں اذا اجتمع ابن مسعود و ابن عمر واختلفا فابن مسعود اولی ان یتبع ، معارف السنن ج2ص501

اگر کسی مسئلہ مین ابن مسعود اور ابن عمر دونوں کا قول موجود ہو اور ان مین اختلاف ہو تو ایسی صورت میں ابن مسعود اس بات کے زیادہ لائق ہیں کہ ان کی پیروی کی جائے ،

رفع الیدین کی رویات ابن عمر سے منقول ہین اسی طرح ترک رفع کی روایات بھی ان سے مروی ہیں بالفرض اگر ان سے ترک کی روایات منقول نہ بھی ہوتیں تب بھی ان کا اختلاف حضرت عبد اللہ بن مسعود رض سے ہے اور مذکورہ عبارت سے اس اختلاف میں جانب راجح کی تعین ہوگئ لہذا حضرت عبد اللہ بن مسعود کی روایت کو ترجیح دیتے ہوئے ترک رفع کی روایات کو راجح قرار دیا جائے گا

امام ترمذی مذکورہ حدیث کے متعلق فرماتے ہیں حدیث ابن مسعود حدیث حسن . ترمذی

علامہ ابن حزم المحلی میں فرماتے ہین ان ھذا الخبر صحیح ، یہ حدیث صحیح ہے .. المحلی ج3 ص 4

مشکوٰۃ کی عبارت سے اعتراض

صاحب مشکوٰۃ نے مشکوٰۃ میں بحوالہ ابوداؤد اس حدیث کو نقل کیا اور اس کے بعد فرمایا قال ابو داؤد لیس ھو بصحیح علی ھذا المعنیٰ ... مشکوٰۃ ج1 ص77

کہ یہ حدیث اس معنی پر درست نہیں . اس عبارت کے متعلق محققین فرماتے ہیں کہ ابو داؤد کے صحیح نسخوں میں یہ عبارت موجود نہیں ..

علامہ شمس الحق عطیم آبادی کہتے ہیں کہ میرے پاس ابو داؤد کے دو پرانے نسخے موجود ہیں . ان مین یہ عبارت مذکور ہے .. عون المعبود ج2 ص 340

لیکن جب عام و متداول نسخوں مین یہ عبارت موجود نہیں تو شخصی اور نادر نسخوں کا اعتبار نہین کیا جائے گا

مذکورہ حدیث مرفوع ہے

غیر مقلدین کہتے ہیں کہ یہ حدیث مرفوع نہیں بلکہ الا اصلی بکم قول صحابی و عمل صحابی کا بیان ہے لہذا یہ حدیث موقوف ہے

جواب ، مسلم قاعدہ ہے کہ قول صحابی و فعلہ فیما لا یدرک بالقیاس حکمہ حکم الرفع

جو چیزیں عقل کے بس میں نہ ہوں ان میں صحابی کے قول کا درجہ حدیث مرفوع کا ہے

اور نماز بھی غیر مدرک بالقیاس ہے

2 : حدیث میں مفعول مطلق نوعی کا بیان ہے کہ اپنی نماز کو رسول اللہ ﷺ کی نماز سے تشبیہ دی صلاۃ رسول اللہ ﷺ لہذا یہ مرفوع صریحی کے حکم میں ہے اگر یہ الفاظ نہ ہوتے تب بھی حکم رفع ثابت ہوجاتا ان الفاظ کیساتھ رفع صراحتا ثابت ہوگیا لہذا یہ حدیث مرفوع صریحی کے حکم میں ہے


اعتراض نمبر 1: امام سفیان بن سعید بن مسروق الثوری رحمہ اللہ ثقہ ہونے کے ساتھ مدلس بھی تھے……مدلس کی عن والی روایات ضعیف ہوتی ہے ,

جواب نمبر1: امام سفیان بن سعید بن مسروق الثوری رحمہ اللہ(م161ھ)خیر القرون کے محدث ہیں اور احناف کےنزدیک خیر القرون کی تدلیس صحتِ حدیث کے منافی نہیں ۔
{قواعد فی علوم الحدیث : ص159}


جواب نمبر2 : تدلیس کے اعتبار سے محدثین نے رواۃ حدیث کے مختلف طبقات بنائے ہیں، بعض طبقات کی روایات کو صحت حدیث کے منافی جبکہ دوسرے بعض کی روایات کو مقبول قرار دیا ہے ۔ امام سفیان بن سعید الثوری رحمہ اللہ کو محدثین کی ایک جماعت جن میں امام ابوسعید العلائی، علامہ ابن حجر، محدث ابن العجمی شامل ہیں، نے”طبقہ ثانیہ“میں شمار کیا ہے۔
(جامع التحصیل فی احکام المراسیل ص113،طبقات المدلسین ص64، التعلق الامین علی کتاب التبیین لاسماء المدلسین ص92)

نیزعصر حاضر میں الدکتور العواد الخلف اور سید عبدالماجد الغوری نے بھی امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کو مرتبہ/طبقہ ثانیہ میں شمار کیا ہے۔
(روایات المدلسین للعواد الخلف ص170،التدلیس والمدلسون للغوری ص104)

خود زبیر علی زئی غیرمقلد کے”شیخ “ بدیع الدین راشدی غیر مقلد نے بھی امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کو طبقہ ثانیہ میں شمار کیا ہے۔(جزء منظوم ص89)

اور محدثین نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ طبقہ ثانیہ کے مدلس کی روایت مقبول ہے، اس کی تدلیس صحت حدیث کے منافی نہیں۔
(التدلیس والمدلسون للغوری ص104، جامع التحصیل فی احکام المراسیل ص113، روایات المدلسین للعواد الخلف ص32)

علامہ جزائری ؒ علامہ اب حزم ؒ سے محدثین کا ضابطہ بیان کرتے ہوئے ان مدلسین کی فہرست بتاتے ہیں جن کی روایتیں باوجود تدلیس کے صحیح ہین اور ان کی تدلیس سے صحت حدیث پر کوئی اثر نہیں پڑتا چنانچہ لکھتے ہیں کہ
منھم کان جملۃ اصحاب الحدیث وائمۃ المسلمین کالحیں البصری وابی اسحاق السبیعی وقتادہ بن دعامۃ وعمر بن دینار و سلیمٰن الاعمش وابی الزبیر وسفیان الثوریؒ وسفیان بن عیینۃ
( توجیہ النظر ص 251 )

ان مدلسین میں جلیل القدر محدث اور مسلمانوں کے امام شامل ہیں جیسے حسن بصری ؒ ابو اسحاق السبیعی ؒ قتادہ بن دعامۃ ؒ عمرو بن دینار سلیمٰن اعمش ابو الزہیر ؒ سفیاں ثوری ؒ اور سفیان بھی عیینۃ وغیرہ

یاد رہے کہ جملہ محدثین کا یہ طے شدہ قائدہ ہے اور اس بات کی بھی تصریح کی ہے کہ اگر مدلس راوی کا کوئی متابع موجود ہو اور اس کا متابع مل جائے تو الزامِ تدلیس کا عیب اور طعن اس سے اٹھ جاتا ہے اور ختم ہو جاتا ہے .
چنانچہ مبارک پوری صاحب لکھتے ہین کہ تدلیس کا طعن متابعت سے اٹھ جاتا ہے .. تحقیق الکلام ج1 ص62

اور امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کی دو محدثین نے متابعت تامہ بھی کررکھی ہے۔
1: امام ابوبکر النہشلی (کتاب العلل للدار قطنی ج5ص172سوال804)
2: اما م وکیع بن جراح (التمہید لابن عبدالبر ج4ص189)

( ( ایک مزے کی بات کہ خود سینے پر ہاتھ باندھنے میں اہلحدث انہی کی روایت سے استدال کرتے ہیں جب کہ اس روایت میں مؤمل پر شدید جرح ہے نہ کہ سفیان ؒ پر وہاں یہ اپنے تعصب کا اظہار کرتے ہیں اور اسی سے استدلال کرتے ہین ) )

اعتراض نمبر 2: اس روایت کو جمہور محدثین نے ضعیف،خطا اور وہم قرار دیا ہے ،

جواب : جن چند محدثین کے نام ذکر کیے ہیں ان کی جرح یا تو مبہم وغیر مفسر ہے، یا ایسی بنیاد پر ہے جو وجہِ جرح نہیں بنتی بلکہ بعض حضرات کا اسلوب یہ بتاتا ہے کہ انہوں نے اپنی جرح سے رجوع کرلیا تھا ، لیکن غیر مقلدین نے جوں کی توں نقل کردی اور حقیقتِ حال چھپانے میں عافیت سمجھی ۔ مثلاً امام ابن مبارک اور امام ابوداود رحمہما اللہ کی جروح مبہم وغیرمفسر ہیں، اصول حدیث کی رو سے ناقابل قبول ہیں۔
(الکفایہ فی علم الروایہ للخطیب ص101،صیانۃ صحیح مسلم لابن الصلاح ص96، توجیہ النظر ج2ص550)
مزید یہ جرح ان حضرات کو اول عمر میں تھی، آخر عمر میں اس سے رجوع فرمالیا تھا، جیسا کہ ابن مبارک رحمہ اللہ کے آخری عمر کے شاگرد سوید بن نصر المروزی کی روایت میں اور امام ابوداؤد کی وفات والے سال کے نسخہ (اللؤلوی)میں یہ جرح مذکور نہیں۔
(سنن النسائی ج1 ص158 باب ترک ذلک، سنن ابو داؤد نسخہ اللؤلوی)
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے الفاظ کا بھی جرح سے کوئی تعلق نہیں،امام بخاری رحمہ اللہ کے ہاں تو یہ روایت ”صحیح“قرار پاتی ہے (کیونکہ انہوں نے عبداللہ بن ادریس کی روایت کو اس کے مقابلہ میں اصح کہا،جو دلیل ہے کہ وہ اس کو صحیح مانتے ہیں)لیکن مدہوش ”محکک“ نے خواہ مخواہ انہیں بھی جارحین میں شمار کر کے گنتی بڑھا دی۔ امام ابوحاتم الرازی،امام دارقطنی،امام ابن حبان رحمہم اللہ وغیرہ کی جروح بھی غیرمبین السبب ہونے کی وجہ سے مردود ہیں۔

(تفصیل کے لیے دیکھیے مولانا حبیب اللہ ڈیروی رحمہ اللہ کی کتاب نور الصباح ج1ص82تا147)

علی زئی غیرمقلد نے مبہم جروح تو نقل کردیں لیکن یہ نقل نہ کیا کہ اس حدیث کو جید محدثین نے صحیح/ حسن کہا ہے، جن میں امام ترمذی، امام دارقطنی، علامہ ابن حزم، امام ابن قطان الفاسی، امام زیلعی ، شارح بخاری امام عینی، علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری وغیرہ شامل ہیں۔
(مسئلہ ترک رفع یدین از متکلم اسلام حضرت مولانا محمد الیاس گھمن صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ ص6مخطوط)

البانی صاحب کی بات نقل کر دیتے ہیں۔ غور سے پڑھیے :
قال الالبانی :والحق انہ حدیث صحیح واسنادہ صحیح علی شرط مسلم (التعلیق علی المشکوٰۃ للالبانی ج1ص254)
ترجمہ:البانی نے کہا کہ یہ حدیث صحیح ہے اور اس کی سند مسلم کی شرط پرصحیح ہے۔

ناظرین ہم نے یہان مکمل جرح بھی نقل کردی جو اعتراضات کے جوابات یہاں مناسب سمجھے ان کے جوابات ہم نے یہان بیان کردیئے مزید جوابات دیکھنے ہو تو نور الصباح فی ترک رفع یدین بعد الافتتاح میں دیکھ لیں ......

تنبیہ! اصول فقہ حدیث کا ضابطہ ہے کہ اذا استدل المجتہد بحدیث الخ جس حدیث سے کوئی فقہی و مجتہد و محدث استدلال کرے وہ اس کے نزدیک صحیح ہے
تدریب الراوی ج 1ص 48، تلخیص الحبیر ج2ص143، قواعد فی علوم الحدیث 57

حدیث ابن مسعود کو صحیح قرار دینے والے حضرات محدثین

1۔ حضرت ابر اہیم النخعیؒ 96ھ مسند ابی حنیفہ بروایت حسن ص 13، مسند ابی حنیفہ بروایت ابی یوسف ص21، موطا امام محمد ص93، کتاب الحجہ لامام محمد ج1ص96، مسند ابن الجعد ص292، سنن الطحاوی ج1ص162,163، مشکل الآثار للطحاوی ج2ص11، جامع المسدنید ج1ص352، معجم الکبیر للطبرانی ج 22ص22، سنن دار قطنی ج1ص394، سنن الکبری للبیہقی ج2ص81
2۔ امام اعظم ابو حنیفہ التابعی ؒ 150ھ مسند ابی حنیفہ بروایت حسن ص13، مسند ابی حنیفہ بروایت ابی یوسف ص 21، موطا امام محمد ص93، کتاب الحجہ ج 1ص96، سنن الطحاوی ج1ص162، جامع المسانید ج1ص353، الاوسط لا بن المنذر ج3ص148، التجريد للقدروی ج5ص272، حلیة العماءللشاشی ج1ص189، المحلی ابن حزم ج4ص119 ۔ج1ص301، التمیہد ج9ص213، الاتذکار لا بن البر ج4ص 99، مناقب المکی ج1ص130، مغنی لابن قدامہ ج2ص172، دلائل الاحکام ج1ص263، شرح سنن ابن ماجہ المغلطائی ج5ص1466,1467، عمدة القاری ج5ص272

3۔ امام سفیان ثوری ؒ161ھ جزء رفع الیدین ص46، ترمذی ج 1ص59، الاوسط لابن منذر ج3ص148، حلیة العماءللشاشی ج1ص189، التجرید للقدوری ج1ص272، شرح البخاری لابن بطال ج 2ص423، التمہید ج 9ص213،الاستذکار ج4ص99، شرح النہ للبغوی ج2 ص24،مغنی لابن قدامہ ج2ص172، دلائل الاحکام لابن شداد ج1ص263، شر ح سنن ابن ماجہ للمغلطائی ج5ص1466، عمدة القاری ج5ص272

4۔امام ابن القاسم المصریؒ 191ھ ، المدونة الکبری لامام مالک ج1ص71
5۔ امام وکیع بن الجراح الکوفی ؒ 197ھ ، جزء رفع الیدىن للبخاری ص46، عمدة القاری ج5ص272
6۔امام اسحاق بن ابی اسرائیل المروزی ؒ 246ھ ، سنن دار قطنی ج1 ص399,400 سند صحیح
7۔امام محمد بن اسماعیل البخاری256ھ ، جزءرفع الیدین للبخاری ص25، للزئی ص 112
8۔ امام ابو داؤد السجستانی275ھ ، تاریخ بغداد الخطیب ج 9ص59، تذکرة الحفاظ ج2ص127، النکت لابن حجرص141
9۔امام ابو عیسی ترمذی ؒ 279ھ ، ترمذی ج1ص59، شرح الھدایہ للعینی ج2ص294
10۔ امام احمد بن شعیب نسائی 303ھ ، النکت لابن حجر ص165، زہر الربی للسیوطی ص3
11۔ امام ابو علی الطوسی 312ھ ، مختصر الاحکام مستخرج الطوسی علی جامع الترمذی ج 2ص103، شرح ابن ماجہ للحافظ للمغلطائی ج 5ص1467
12۔ امام ابو جعفر الطحاوی ؒ 321 ھ ، الطحاوی ج1ص162، الرد علی الکرانی بحوالہ جوہر النقی ص77,78
13۔امام ابو محمد الحارثی البخاری ؒ 340ھ ، جامع المسانید ج 1ص353 مکة المکرمة
14۔امام ابو علی النسابوری ؒ349ھ ، النکت لابن حجر ؒ ص165، زہر الربی علی النسائی للسیوطی ص3
15۔امام ابو علی ابن السکن المصری ؒ353ھ ، النکت لا بن حجر 164 زہر الربی للسیوطی ص3
16۔ امام محمد بن معاویہ االاحمر ؒ 358ھ ، النکت لابن حجر ص164، زہر الربی للسیوطی 3
17۔امام ابو بکر ابن السنی ؒ 364ھ ، الارشاد لامام الخلىلی ص زہر الربی للسیوطی ص 3
18۔ امام ابن عدی ؒ365ھ ، النکت لا بن حجر ص164 زہر الربی ص3
19۔امام ابو الحسن الدار قطنی ؒ 385ھ ، کتاب العلل ج 5ص172، النکت ص164 زہر الربی ص3
20۔ امام ابن مندة390ھ ، النکت لا بن حجر 164، زہر الربی للسیوطی ص3
21۔ امام ابو عبد اﷲ الحاکم ؒ 405ھ ، النکت لابن حجر ص164 زہر الربی للسیوطی ص3
22۔ امام عبد الغنی بن سعید ؒ 409ھ ، النکت لابن حجر ص164 زہر الربی للسیوطی ص3
23۔ امام ابو الحسین القدوری ؒ 428ھ ، التجرید للقدوری ؒ ج2ص518
24۔امام ابو یعلی الخلیلی ؒ446ھ ، الارشاد للخلیلی ص النکت ص164 زہر الربی للسیوطی ص3
25۔ امام ابو محمد ابن حزم 456ھ ، المحلی لا بن حزم ج 4ص121 مصر
26۔ امام ابوبکر الخطیب للبغدادی ؒ 463ھ ، النکت الابن حجر ص163 زہر الربی للسیوطی ص3
27۔ امام ابوبکر السرخسی ؒ 490ھ ، المبسوط للسرخسی ج 1ص14
28۔ امام موفق المکی ؒ568 ھ ، مناقب موفق المکی ج1ص130,131
29۔امام ابو طاہر السلفی ؒ 576ھ ، النکت الابن حجر ص163 زہر الربی للسیوطی ص3
30۔ امام ابوبکر کاسانی ؒ587ھ ، بدائع الصنائع للکاسانی ؒ ج1ص40
31۔امام ابن القطان الفاسیؒ 628ھ ، بیان الوھم والا ےھام لابن القطان الفاسی ج3ص367
32۔ امام محمد الخوارزمی 655ھ ، جامع المسانید
33۔امام ابو محمد علی بن زکریا المنجی ؒ686ھ ، اللباب فیا الجمع بین السنة والکتاب ج1 ص256
34۔ امام ابن الترکمانی ؒ745ھ ، الجوہر النقی علی البیہقی لا بن الترکمانی ج2ص77,78
35۔امام حافظ مغلطائی 762ھ ، شرح ابن ماجہ الحفاظ المغلطائی ج 5ص1467
36۔ امام حافظ زیلعی ؒ 672ھ ، نصب الرایہ للزیلعی ج1ص396وفی نسخة ج1ص474
37۔امام حافظ عبد القادر القرشی ؒ 775ھ ، الحاوی علی الطحاوی ج 1ص530
38۔ امام فقیہ محمد البابرقی 786ھ ، العنایہ شرح الھدایہ ج1ص269
39۔ امام فقیہ محمد الکردری 826 ھ ، مناقب کردری ج1ص174
40۔محدث احمد بن ابی بکر البوصیری ؒ 840ھ ، اتحاف الخیرة المھرہ للبوصیری ج10ص355,356
41۔ محدث محمود العینی ؒ 855ھ ، شرح سنن ابی داؤد للحافظ العینی ؒ ج 3ص341,342 ، شرح الھدایہ عینی ج2 ص294
42۔امام ابن الھمام ؒ 861ھ ، فتح القدیر شرح الھدایہ لابن الھمام ج1ص269,270
43۔ملا علی قاری ؒ1014ھ ، مرقات ج2ص269، شرح الفقایہ ج1ص257,58، شرح مسند ابی حنیفہ للعلی قاری ص38
44۔ امام محمد ھاشم السندھی ؒ1154ھ ، کشف الدین مترجم لمصمدہاشم السندھی ص15,16
45۔امام حافظ محدث محمد الزبیدی ؒ 1205ھ ، عقود الجواھر المنفیہ للزبیدی
46۔ امام محمد بن علی النیموی ؒ 1344ھ ، آثار السنن مع التعلیق للنمیوی ؒ ص132
47۔امام حافظ خلىل احمد السہارنفوری 1346ھ ، بذل المجھود ج2ص21
48۔ مولانا انور شاہ کاشمیری ؒ1350ھ ، نیل الفرقدین لکشمیری ص56,57,58,64,66,61
49۔ علامہ ظفر احمد عثمانی ؒ ، اعلاءالسنن للعثمانی ؒ ج 3ص45,46
50۔ امام شیخ الحدیث زکریا المدنی ؒ ، اوجز المسالک علی موطا مالک
51۔علامہ محمد زہیر الشاویش ؒ ، تعلیق علی شرح السنة للبغوی ج3ص24بیروت
52۔ علامہ احمد محمد الشاکر المصری غیر مقلد ، الشرح علی الترمذی لا حمد شاکر المصری ج2ص41 دارالعمران بیروت
53۔علامہ شعیب الارناؤط ، تعلیق علی شرح السنہ للبغوی ج3ص24 بیروت
54۔ الشیخ حسین سلیم اسد ، تعلیق علی مسند ابی یعلی شیخ حسین سلیم اسد ج8ص454۔ ج9ص209 دمشق بیروت
55۔ ناصر الدین البانی غیر مقلد ، مشکوة بتحقیق الالبانی ج1ص254بیروت

اس کے علاوہ مزید تفصیل نور الصباح فی ترک رفع الیدین بعد الافتتاح ص 82 تا 133 دیکھیں

مکرم ناظرین

مختصرًا شہر کوفہ کی اہمیت سمجھ لیں تاکہ بات سمجھنا آسان ہوجائے ۔
17 ہجری میں سیدنا عمر رض کے حکم سے یہ شہر آباد کیا گیا اور اس کے ارد گرد فصحاء و بلغاء عرب مقیم ہوئے جناب امیر المومنین حضرت عمر رض نے امورمملکت چلانے کے لئے حضرت سعد بن ابی وقاص رض کا تقرر فرمایا اور قرآن وحدیث کی تعلیم کے لئے حضرت عبداللہ بن مسعود رض کو مقرر کیا گیا

امیر المومنین نے اہل کوفہ کی طرف لکھا لقد اٰثر تکم بعبداللہ علی نفسی
ابن مسعود رض کی مجھے بھی ضرورت تھی مگر تمہاری ضرورت علمی کے پیش نظر ان کو بھیج رہا ہوں

مورخ عجلی فرماتے ہیں انہ توطن الکوفة وحدھا من الصحابة نحو الف وخمس ماة صحابی بینہم سبعین بدریا

کوفہ میں پندرہ سو صحابہ اقامت پذیر ہوئے جن میں سے ستر بدری صحابہ تھے ۔

ابن سیرین فرماتے ہیں اتیت الکوفة فرایت فیھا اربعة الاف یطلبون الحدیث واربع ماة قد فقہوا
جب میں کوفہ میں پہنچا تو شہر میں چار ہزار محدث اور چارسو فقہاء کو موجود پایا ۔

امام بخاریؒ فرماتے ہیں ولا احصی مادخلت الکوفة فی طلب الحدیث

مجھے طلب حدیث کے سلسلہ میں اتنا زیادہ کوفہ جانا ہوا کہ میں شمار نہیں کرسکتا۔

شیر خدا سیدنا علی المرتضی رض جب کوفہ تشریف لائے تو کثرت فقہاء کو دیکھ کر خوش ہوئے اور فرمایا رحم اللہ ابن ام عبد قد ملا ھذہ القریة علما
اللہ تعالیٰ ابن مسعود رض پر رحم فرمائیں انہوں نے اس بستی کو علم سے بھر دیا ۔
'
حضرت علی رض نے یہ بھی فرمایا اصحاب ابن مسعودص سرج ہذہ القریة
ابن مسعودص کے شاگر اس بستی کے چراغ ہیں
مقدمہ نصب الرایہ

نیز ابن مسعود ص وہ صحابی ہیں جن سے خلفاءراشدین بھی روایت بیان کرتے ہیں اکمال فی اسماءالرجال

قارئین مکرم اس مختصر تمہید سے آپ نے کوفہ کی عظمت سمجھ لی نہایت ہی توجہ سے سمجھیں اسی شہر میں جو پندرہ صد اصحاب رسول ا کا وطن ہے جس میں ستر بدری صحابہ قیام پذیر ہیں جہاں چار ہزار محدثین اور چار صد فقہاء موجود ہیں جہاں امام بخاری ؒ طلب حدیث کے لئے بار بار حاضری دے رہے ہیں وہیں عبداللہ بن مسعود رض نماز پڑھ کر دکھا رہے ہیں اور نماز میں رفع یدین نہیں فرماتے مگر ایک صحابی اور ایک تابعی بھی عدم رفع یدین کے سبب اعتراض نہیں کررہا بلکہ حضرت عبداللہ بن مسعود رض اور حضرت علی رض کے تمام تلامذہ رفع یدین نہیں فرماتے ۔ ملاحظہ ہو مصنف ابن ابی شیبہ ج۱ / ص ۷۶۲

اب سمجھنے کی بات یہ ہے کہ خیر القرون میں ابن مسعود رض نے جو اللہ کے نبی ﷺ کا طریقہ نماز ذکر کیا اس پر کسی ایک نے بھی اعتراض نہ کیا ۔ ہاں اب کوئی کرتا رہے تو اس کی اپنی قسمت ............

(3) حدیث مسند ابو عوانہ کی بحث:۔

امام ابو عوانہ نے مسند میں "رفع الیدین فی افتتاخ الصلٰوة قبل التکبیر بحذاءمنکبیہ وللرکوع ورفع راسہ من الرکوع وانہ لا یرفع بین السجدتین"۔ کے عنوان کے تحت حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی ایک مرفوع حدیث بیان کی تھی ۔

حدثنا عبداللہ بن ایوب المخرمی وسعد ان بن نصر و شعیب بن عمرو فی آخرین قالوا ثنا سفیان بن عیینة عن الزھری عن سالم عن ابیہ قال رایت رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم اذا افتتح الصلاة رفع یدیہ حتی یحاذی بھما وقال بعضھم حذو منکبیہ واذا ارادان یرکع وبعد ما یرفع راسہ من الرکوع لا یرفعھما وقال بعضھم ولا یرفع بین السجدتین والمعنی واحد

محدث ابو عوانہؒ فرماتے ہیں کہ ہم سے عبداللہ بن ایوب مخزومی اور سعدان بن نصر اور شعیب بن عمرو تینوں نے حدیث بیان کی اور انہوں نے فرمایا کہ ہم سے سفیان بن عینة نے حدیث بیان کی انہوں نے زہری سے اور انہوں نے سالم سے اور وہ اپنے باپ ابن عمر سے روایت کی اور حضرت عبداللہ بن عمروؒفرماتے ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ جب نماز شروع کرتے تو رفع یدین کرتے کندھوں کے برابر اور جب ارادہ کرتے کہ رکوع کریںاور رکوع سے سر اٹھانے کے بعد تو آپ ُ رفع یدین نہ کرتے اور بعض راویوں نے کہا ہے کہ آُپ سجدتین میں بھی رفع یدین نہ کرتے مطلب سب راویوں کی روایت کا ایک ہی ہے ۔


غیر مقلدین اس میں لا یرفعھما کو زبردستی بعد والے الفاظ سے ملاتے ہیں

۔"جب ارادہ کرتے رکوع کریں اور رکوع سے سر اٹھاتے تو آپ رفع یدین نہ کرتے"یہ مکمل ایک جملہ ہے لیکن غیر مقلدین کہتے ہیں کہ یہ جملہ ایسے نہیں بلکہ صرف اتنا ہے"جب ارادہ کرتے رکوع کریں اور رکوع سے سر اٹھاتے تو آپ" اس سے آگے جو آپ رفع یدین نہ کرتے غیر مقلدین بضد ہیں کہ اسکے اگلے جملے کے ساتھ ملایا جاے تو پھر ایسے بن جاے گا رفع یدین نہ کرتے اور بعضوں نے کہا کہ آپ سجدوں میں بھی رفع یدین نہیں کرتے تھے اب غور کیا جاے غیر مقلدین کے بناے ہوے جملہ میں سب سے پہلے جو "رفع یدین نہ کرتے " کے الفاظ ہیں وہ بلکل مہمل (یعنی جسکا کوی مطلب نہ ہو) بنتے ہیں۔ اور جملہ بہت بے ڈھنگا سا ہو جاتا ہے۔ یہ ضد صرف علیزی گروپ والے اسی لیے کر رہے ہیں کہ پھر اس سے جو کچھ بھی ہو حدیث کا مطلب یہ نکلے گا کہ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کرتے تھے۔ لیکن اگر جملہ ایسے ہو جیسا کہ وہ اصل میں ہے" جب ارادہ کرتے رکوع کریں اور رکوع سے سر اٹھاتے تو آپ رفع یدین نہ کرتے"۔تو مطلب یہ بنے گا کہ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین نہیں کرتے تھے۔یہ جملہ اسی طرح ہے جیسے میں نے بتایا کیونکہ اگر حدیث کو بلکل ویسے بھی پڑھیں

میں نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ نماز شروع کرتے تو رفع یدین کرتے کندھوں کے برابر اور جب ارادہ کرتے رکوع کریں اور رکوع سے سر اٹھاتے تو آپ رفع یدین نہ کرتے اور بعضوں نے کہا کہ آپ سجدوں میں بھی رفع یدین نہیں کرتے تھے۔

اس میں کہیں بھی کومہ یا فل سٹاپ نہیں ہے اسکو ایسے پڑھنے سے بھی وہی مطلب نکلتا ہے جو میں بتا رہا ہوں۔ اسکے علاوہ اسی باب کی دوسری حدیث میں "یرفعھما " کے الفاظ ہیں۔ جس سے پتا چلا کہ جب رفع کا اثبات آے گا تو یرفعھما سے پہلے لا کا لفظ نہیں آے گا ۔
مسند ابی عوانہ کے نسخوں میں فلا اور ولا کی بحث:۔

جب غیر مقلدین کو اس بارے میں اور کچھ نہیں ملتا تو شور مچاتے ہیں کہ حنفیوں نے مسند ابی عوانہ کی حدیث میں تحریف کر دی اور الفاظوں کو بھی بدلہ جیسا کہ کچھ غیر مقلدین نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے ۔ غیر مقلدین بحث کرتے ہیں کہ حدیث میں جہاں "واذا ارادا ایرفع و بعد ما یرفع راسہ من الرکوع فلا یرفعھما" یعنی اور جب ارادہ کرتے حضور اکرم ﷺ کہ رکوع کریں اور رکوع سے سر اٹھائیں تو رفع یدین نہیں کرتے ۔

غیر مقلدین شور مچاتے ہیں کہ یہاں "فلا" نہیں بلکہ "ولا" ہے ۔اور علیزی کذاب نے اپنی کتاب میں ایک دو نسخوں کے سکین لگا کر یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ یہاں ف نہیں بلکہ و ہے ۔

ایک نکتہ:۔

اسکے علاوہ ایک نکتہ یاد رکھیں کہ ف اگر ہو تو بات ٹھیک ہے اگر ولا یرفعھما بھی ہو تو بھی ہماری بات صحیح ہوگی کیونکہ اذا شرف ہے اسی لیے فہ ہونے کی صورت میں جزا ماننا پڑے گا اور اگر اذا کے لیے جزا نہ ہو تو عبارت کا مطلب نا مکیمل رہے گا اسی لیے "لا یرفعھما"کا تعلق ما قبل سے ہے اور ما بعد سے نہیں ہے ۔

مزید تفصیل نور الصباح فی ترک رفع الیدین بعد الافتتاح ص53 تا ص57 دیکھیں

(4) عن عبداللہ بن مسعود رض ان رسول اللہ ﷺ کان لا یرفع یدیہ الا عند افتتا ح الصلوٰة ثم لا یعود
حضرت عبداللہ بن مسعود رض روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز شروع کرتے وقت رفع یدین فرماتے تھے پھر کہیں ہاتھ نہ اٹھاتے ۔

مسند امام اعظم ج1 ص50 جامع المسانید لخوارزمی ج1 ص352

اس روایت کا ہر راوی اپنے وقت کا بڑا فقیہ ہے

مزید تفصیل نور الصباح فی ترک رفع الیدین بعد الافتتاح ج1 ص 155 تا 157 دیکھیں


(5) عن عبداللہ بن مسعود رض قال صلیت مع النبی او مع ابی بکر ومع عمر فلم یرفعوا ایدیہم الا عند التکبیرة الاولی فی افتتاح الصلوٰة

حضرت ابن مسعود رض فرماتے ہیں میں نے اللہ کے نبی ﷺ اور سیدنا ابوبکر رض و عمر رض کے ساتھ نمازیں پڑھیں یہ حضرات ابتداء نماز کے بعد کسی جگہ رفع یدین نہ فرماتے
دارقطنی ج1 ص295 مسند ابی یعلی ج4 ص 167

(6) حدثنا محمد بن الصباح البزاز نا شریک عن یزید بن ابی زیاد عن عبد الرحمٰن بن ابی لیلی عن البراء بن عاذب ان رسول اللہ ﷺ کان اذا افتتح الصلوٰة رفع یدیہ الی قریب من اذنیہ ثم لایعود ............. (( ای الی رفع الیدین ))
حضرت براء بن عاذب رض روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز کا آغاز کرتے تو کانوں تک ہاتھ اٹھاتے ، اس کے بعد رفع یدین نہین کرتے تھے . ابو داؤد ص 116 مکتبہ امدادیہ و مکتبہ حقانیہ ص118 مکتبہ رحمانیہ اس روایت کے مزید حوالہ جات کیلئے دیکھین نور الصباح ص157

اعتراض
اس حدیث پر غیر مقلدین کا اعتراض ہے کہ اس کی سند مین ایک راوی یزید بن ابی زیاد کوفی واقع ہے جو کہ ضعیف ہے اور آخر عمر میں اس کا حافطہ خراب ہوگیا تھا ..

الجواب .... یزید بن ابی زیاد کوفی پر اگرچہ بعض محدثین نے کلام کیا ہے مگر وہ ثقہ ہے . امام مسلم ؒ فرماتے ہیں کہ وہ سچا ہے اور اس سے روایت بھی کی جاسکتی ہے مقدمہ صحیح مسلم ص4 ملخصا امام ترمذی ؒ اس کی حدیث کو حسن صحیح کہتے ہین دیکھیئے ترمذی ج 1 ص 16 ج 1 ص 96 ج 2 ص 218
اس کی مزید تفصیل کیلئے دیکھئے نور الصباح ص 158 تا 161

عن براء بن عازب ؓ ان رسول اللہ ﷺ کان یرفع یدیہ اذا افتتح الصلوٰة ثم لا یرفعہما حتی ینصرف

صحابی رسول ﷺ حضرت براء بن عازب رض فرماتے ہیں اللہ کے نبی ﷺ صرف پہلی تکبیر کے وقت ہاتھ اٹھاتے پھر نماز سے فارغ ہونے تک کسی جگہ ہاتھ نہ اٹھاتے ۔
المدونة الکبری ج1 ص192 مصنف ابن ابی شیبہ ج1 ص267 مسند ابی یعلی ج2 ص90

(7) حدثنا حسین بن عبد الحمٰن انا وکیع عن عن ابن ابی لیلیٰ عن عیسیٰ عن الحکم عن عبد الرحمٰن بن ابی لیلیٰ عن البراء بن عازب رض قال رایت رسول اللہ ﷺ رفع یدیہ حین افتتح الصلوٰة ثم لم یرفعہما حتی انصرف

حضرت براءبن عازب رض صحابی رسول ﷺ فرماتے ہیں میں نے حضرت ﷺ کو دیکھا آپ ﷺ نماز شروع کرتے وقت رفع یدین فرماتے پھر نماز ختم ہونے تک رفع یدین نہ فرماتے ۔
ابوداود ج 1 ص 116 ص 117

اعتراض امام ابوداود نے فرمایا ہے ہذا الحدیث (لم یصح) لیس بصحیح یہ حدیث صحیح نہیں ۔ اس کی وجہ محمد بن ابی لیلی پر اعتراض ہے ۔

جواب اگرچہ بعض نے اس پر کلام کیا ہے مگر حضرت زائدہ ؒ فرماتے ہیں
کان افقہ اہل الدنیا یعنی محمد بن ابی لیلی دنیا کا نامور فقیہ تھا

ماہر فن علامہ عجلی فرماتے ہیں کان فقیہاً صاحب السنة صدوقاً جائز الحدیث وکان عالماً بالقرآن وکان من احسب الناس

محمد بن ابی لیلی باعمل فقیہ تھے؛ انتہائی سچے تھے ؛ جائز الحدیث تھے؛ قرآن کریم کے عالم تھے اور شریف النسب تھے۔

یعقوب ابن سفیان فرماتے ہیں
ثقة عدل ۔ محمد ابن ابی لیلی ثقہ بھی ہیں عدل بھی ہیں ۔
تہذیب التہذیب ج9 ص261

یہی بات مشہور غیر مقلد عالم نے عون المعبود ج2 ص263 پر نقل کی ہے ۔
قال احمد بن یونس سالت الزائدة عن ابن ابی لیلی فقال ذاک افقہ الناس
احمد بن یونس ؒ فرماتے ہیں میں نے حضرت زائدہ سے ابن ابی لیلی کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا وہ نامورفقیہ ہیں ۔

قال بشر بن الولید سمعت ابا یو سف آپ نے فرمایا عہدہ قضاء پر ابن ابی لیلی سے بڑھکر کتاب اللہ کاقاری؛ اللہ کے دین کا فقیہ؛ حق گو؛اور پر ہیز گار نہیں آیا۔ میزان الاعتدال ج6 ص 222

جس وقت ابن ابی لیلی کی اتنی توثیق ہو گئی تو روایت درجہ حسن کو جاپہنچے گی بایں وجہ اس پر کوئی اعتراض نہ رہا۔

ہماری اس بات کی تائید ملاحظہ ہو میزان الاعتدال ج6 ص 223 پر علامہ ذہبی ؒ متوفی 748 فرماتے ہیں حسنہ الترمذی امام ترمذی نے اسے درجہ حسن میں مانا ہے ۔

خلاصة الجواب امام ابو داود یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ یہ حدیث درجہ صحیح نہیں بلکہ درجہ حسن کو پہنچی ہوئی ہے ۔

اس روایت کی مزید تفصیل نور الصباح فی ترک رفع الیدین بعد الافتتاح ج1 ص 164 پر دیکھیں


مزید تفصیل نور الصباح فی ترک رفع الیدین بعد الافتتاح ج 1 ص 164 تا 167 دیکھیں

(8) عن ابی ہریرة رض قال کان رسول اللہ ﷺ اذا دخل فی الصلوٰة رفع یدیہ مدا
سیدنا ابوہریرہ ص سے مروی ہے آپ ﷺ فرماتے ہیں اللہ کے نبی ﷺ جب نماز میں داخل ہوتے اچھی طرح رفع یدین فرماتے

ابوداود شریف ج1 ص 110 باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع ‚ترمذی شریف ج1 ص55 نسائی شریف ج1 ص102 مسند ابوہریرہ رض ج1 ص278 اس روایت کو امام ترمذی اصح فرمارہے ہیں ج1 ص 55

اورغیر مقلد شوکانی کہتے ہیں الحدیث لا مطعن فی اسنادہ ۔اس کے اسناد میں کوئی اعتراض نہیں نیل الاوطار ج1 ص355

طرز استدلال صحاح ستہ کی اس روایت سے ثابت ہوا کہ سیدنا ابوہریرہ رض صرف پہلی رفع یدین کو بیان فرمارہے ہیں اگر درمیان میں (رکوع کو جاتے یا سر اٹھاتے )بھی رفع یدین ہوتی تو حضرت ابوہریرہ ص اسے بھی بیان فرماتے ۔

(۹) ان ابا ھریرة رض کان یصلی لہم فیکبرکلما خفض و رفع فلما انصرف قال واللہ انی لاشبہکم صلوٰة برسول اللہ
ابن عبدالرحمن راوی حدیث فرماتے ہیں جناب ابوہریرہ رض انکو نمازیں پڑھاتے تو ہر حرکت پر صرف تکبیر (اللہ اکبر ) کہتے ۔پھر جب حضرت ابو ہریرہ رض نماز مکمل فرماچکے تو قسم اٹھا کر فرمایا یہ طریقہ نماز حضرت ﷺ کی نماز سے بہت زیادہ مشابہ ہے ۔
صحیح مسلم ج۱/ص۹۶۱‚صحیح بخاری ج۱/ص۰۱۱ صحیح ابن خذیمہ ج۱/ص۷۱۳"ابوداودشریف ج۱/ص۱۲۱… موطاامام مالک ص۱۶ موطاامام محمد ص۸۸ مسند ابی یعلی ج۴/ص۵۱۴

طرز استدلال ناظرین گرامی قدر۔
حضرت ابو ہریرہ رض جس نماز کو رسول اللہ ﷺ کی حد درجہ مشابہ نماز قرار دے رہے ہیں اس میں رکوع کو جاتے رکوع سے سراٹھاتے اور تیسری رکعت کے ابتداءکا رفع یدین مذکور نہیں

(۹) اہل مدینہ اور ابوہریرہ رض
جب مروان نے حضرت ابوہریرہ رض کو مدینہ طیبہ میں حاکم مقرر فرمایا تو سیدنا ابوہریرہ رض نے نماز پڑھائی مگر رکوع کو جاتے، رکوع سے سر اٹھاتے، تیسری رکعت کی ابتداء میں رفع یدین نہیں فرمائی، جب نماز سے فارغ ہوئے تو
ا قبل علی اہل المسجد فقال والذی نفسی بیدہ انی لا شبہکم صلوٰة برسول اللہﷺ
نمازیوں کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا اللہ کی قسم میر اطریقہ نماز رسول اللہ ا سے بہت زیادہ مشابہ ہے نسائی شریف ج ۱ /ص۶۱۱/۷۱۱
گرامی قدر حضرات سیدنا ابوہریرہ صنے نماز میں رفع یدین نہیں فرمائی اور اسے رسول اللہ ﷺ کی نماز قرار دیا مگر مدینہ شریف کے نمازیوں میں سے کسی ایک نے بھی اسے رسول اللہ ﷺ کی مخالف نماز نہ سمجھا، نہ کہا اگر نماز میں رفع یدین کرنا مسنون ہوتا تو کم ازکم ایک صحابی رض ایک تابعی تو لازماً تردید فرماتا۔کیا ان میں سنت پر عمل کا جذبہ اتنا بھی نہ تھا جتنا آج غیر مقلدین میں ہے ؟

(10) حضرت ابوہریرہ رض فرماتے ہیں اللہ کے نبی ﷺ تین کام کرتے تھے جسے لو گ چھوڑ چکے ہیں اذا قام الی الصلوٰة رفع یدیہ مداًجب نماز کے لیے اٹھتے تو اچھی طرح رفع یدین فرماتے پھر قراة سے قبل کچھ دیر سکوت فرماتے اور اللہ تعالیٰ سے فضل طلب کرتے Žویکبر کلماخفض ورفع پھر ہر حرکت پر تکبر کہتے ۔

طرز استدلال

دیکھئے حضرت ابوہریرہ رض صرف پہلی رفع یدین کا ذکر فرماتے ہیں پھر اس کا ذکر نہیں کرتے۔ مسند ابو ہریرہ ص ص ۸۷۲ ‚اس سے ملتی جلتی روایت نسائی شریف ج ۱/ص۲۰۱پر بھی موجود ہے ۔

(11) عن ابن مسعود رض صلیت خلف النبیﷺ وابی بکرؓ و عمرؓ فلم یرفعوایدیہم الا عند افتتاح الصلوٰة ۔
حضرت ابن مسعود رض فرماتے ہیں میں نے حضرت ﷺ ابوبکر رض و عمر رض کے پیچھے نمازیں پڑھیں مگر یہ حضرات شروع نماز کے علاوہ رفع یدین نہیں فرماتے تھے ۔بیہقی شریف ج۲/ص۰۸
اس روایت پر محمد بن جابر کی وجہ سے اعتراض کیا گیا مگر علامہ ماردینی متوفی ۵۴۷ھ نے آج سے چھ سو تہتر سال قبل محمدبن جابر کی توثیق فرمادی ہے ۔ملاحظہ ہو الجوہر النقی علی البیہقی ج۲/ص۸۷
(12)

حضرت ابن مسعود رض فرماتے ہیں اللہ کے نبی

ا یکبر فی کل خفض ورفع و قیام وقعود ویسلم عن یمینہ وعن یسارہ........ وکان ابوبکرؓ و عمرؓ یفعلان ذالک
سیدنا ابن مسعودص فرماتے ہیں اللہ کے نبی ﷺ ہر حرکت پر تکبیر کہتے تھے دائیں بائیں السلام علیکم ورحمة اللہ کہتے تھے اور ابوبکر رض و عمر رض بھی اسی طرح کرتے تھے ۔مسند ابی یعلی ج۴/ص ۳۹۱
ناظرین مکرم آپ نے حضرت ﷺ کے ساتھ ساتھ خلیفة النبی ﷺ سیدنا ابوبکر رض اور مراد نبوت ﷺ حضرت عمر رض کا عمل (عدم رفع یدین ) بھی پڑھ لیا اور وہ بھی جلیل القدر صحابی حضرت ابن مسعود ص کی زبانی ۔ اب میں انصاف آپ پر چھوڑتا ہوں الیس منکم رجل رشید

(13) حضرت اسود ؒفرماتے ہیں رایت عمربن الخطاب یرفع یدیہ فی اول تکبیرة ثم لا یعود
میں نے حضرت عمر ص کو دیکھا انہوں نے صرف پہلی تکبیر پر ہی رفع یدین فرمائی پھر نہ فرمائی ۔طحاوی شریف ج۱/ص۱۱۱
اس روایت کے متعلق امام طحاوی متوفی ۱۲۳ نے فرمایا وھو حدیث صحیح یہ حدیث صحیح ہے گویا اس کی صحت کا اقرار آج سے گیارہ سو سال پہلے ہوچکا ہے ۔

(14) عاصم بن کلیب کے والد حضرت کلیب جو کہ حضرت علی رض کے تلامذہ میں سے تھے فرماتے ہیں
ان علی بن ابی طالب ؓ کان یرفع یدیہ فی التکبیر ة الاولی التی یفتتح بہا الصلوٰة ثم لایرفعہما فی شیء من الصلوٰة ۔سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ صرف پہلی تکبیر پر رفع یدین فرماتے تھے بعدہ کسی مقام پر نہ فرماتے ۔موطا امام محمد ص ۸۸/۰۹ ‚مصنف ابن ابی شیبہ ج۱/ص۷۶۲ƒبیہقی شریف ج۲/ص۰۸
فائدہ بعض دوست اس کی سند میں موجود عاصم بن کلیب پر اعتراض کرتے ہیں توانہیں ترمذی شریف ج۱/ص۸۴۲ پر دیکھ لینا چاہیئے سند میں عاصم بن کلیب ہے مگر امام ترمذی اسے ہذا حدیث حسن صحیح فرمارہے ہیں ۔ورنہ اگر ابوبکر النہشلی کی وجہ سے اعتراض کا موڈ ہو تو الجوہر النقی علی البیہقی ج۲/ص۸۷ پر ملاحظہ فرمالیں کیونکہ آج سے چھ سو تہتر سال پہلے اس کی توثیق ہوچکی ہے۔

(15) جب کوفہ میں سیدنا علی المرتضیٰ رض تشریف فرماچکے تو
کان اصحاب عبداللہ واصحاب علی لا یرفعون ایدیہم الا فی افتتاح الصلوٰة
حضرت ابن مسعود رض اور سیدنا شیر خدا کے تلامذہ (ہزاروں ) پہلی تکبیر کے بعد رفع یدین نہیں فرماتے تھے
مصنف ابن ابی شیبہ ج۱/ص۷۶۲
علامہ ماردینی فرماتے ہیں یہ بات سند صحیح وجلیل سے ثابت ہے الجوہرالنقی علی البیہقی ج ۲/ص۹۷

(16) وکان اصحاب ابن مسعودؓ یرفعون فی الاولی ثم لا یعودون ۔
حضرت ابن مسعود رض کے شاگرد صرف پہلی مرتبہ رفع یدین فرماتے تھے المدونة الکبری ج۱/ص۲۹۱
سنائیے انکی (عبداللہ بن مسعود رض حضرت علی المرتضیٰ رض اور انکے ہزاروں شاگردوں) نماز سنت کےمطابق تھی یا نہ؟
(17)

عن ابن عباسؓ عن النبی ﷺ قال لا ترفع الایدی الا فی سبع مواطن حین یفتتح الصلوٰة وحین ید خل المسجد الحرام فینظر الی البیت وحین یقوم علی الصفا ءوحین یقوم علی المروة وحین یقف مع الناس عشیة عرفةو بجمع والمقامین حین یرمی الجمرة
جامع المسانید ج ۲۳/ص۵۰۱۹ ‚مصنف ابن ابی شیبہ ج۱/ص۷۶۲

حضرت ابن عباس رض حضرت ﷺ سے روایت کرتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا سات مقامات پر ہی رفع یدین کرنی چاہیئے نماز شروع کرتے وقت ‚جب بیت اللہ شریف پر نظر پڑے صفاء پر کھڑے ہوکر "مروہ پر کھڑے ہوکر … عرفات میں مزدلفہ میں جمرتین پر

اعتراض
(۱) اس میں تو وتر اور عیدین کی تکبیرات کے وقت رفع یدین کا ذکر بھی نہیں حالانکہ احناف وتر اور عیدین میں رفع یدین کرتے ہیں۔
جواب ، اس روایت میں فرائض کی رفع یدین کا ذکر ہے یعنی نماز اورحج جبکہ وتر اور عیدین فرض نہیں

اعتراض

(۲) بعض دوست محمد بن ابی لیلی پر معترض ہیں
جواب اس کی توثیق دلیل نمبر ۶ کے ضمن میں گذکر چکی ہے

(18) قال مالک لا اعرف رفع الیدین فی شییء من تکبیر الصلوٰة لا فی خفض ولا فی رفع الا فی افتتاح الصلوٰة
حضرت امام مالک ؒ فرماتے ہیں میں نماز کی شروع والی رفع یدین کے علاوہ کسی رفع یدین کو نہیں جانتا ۔المدونة الکبری ج۱/ص۰۹۱

طرز استدلال

حضرت امام مالک ؒ مدینہ طیبہ کے امام ہیں اور ۹۷۱ھ میں وفات پائی۔ مدینہ شریف مرکز اہل اسلام ہے مگر امام مالک ؒ رکوع کو جاتے، سر اٹھاتے ،اور تیسری رکعت، کی رفع یدین کو جانتے تک نہیں اور حضرت کا یہ ارشاد ۹۷۱ھ سے قبل کا ہے
گویا دوسری صدی میں ابتداءنماز کے علاوہ رفع یدین متروک ہوچکا تھا۔

(19) جلیل القدر محدث ابوبکر بن عیاش فرماتے ہیں ۔
مارایت فقیہا قط یفعلہ یرفع یدیہ فی غیر التکبیرة الاولی
میں نے کسی فقیہ کو ابتدائی رفع یدین کے علاوہ رفع یدین کرتے نہیں دیکھا ۔
طحاوی شریف ج۱/ص۲۱۱

(20) امام ترمذی ؒفرماتے ہیں
وبہ یقول غیر واحد من اہل العلم من اصحاب النبی ﷺ والتابعین وھو قول سفیان واہل الکوفة
یہی مذہب (صرف پہلی تکبیر پر رفع یدین )ہے اصحاب النبی ا میں سے کئی اہل علم کا اور یہی مذہب ہے تابعین کا حضرت سفیان کا اور اہل کوفہ کا ۔
ترمذی شریف ج۱/ص۸۵

طرز استدلال

صحاح ستہ کے امام ترمذی ؒ فرماتے ہیں عدم رفع یدین اصحاب رسول ﷺ تابعین اور اہل کوفہ کا مذہب ہے ۔
ان کی نماز کو خلاف سنت کہتے ہوئے خوف خدا کرنا چاہیئے

(21) عن ابن عباس ؓعن النبی ﷺ قال ترفع الایدی فی سبع مواطن فی افتتاح الصلوٰة الخ
صحابی رسول ﷺ حضرت ابن عباس رض حضرت ﷺ سے روایت کرتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا سات مقامات پر رفع یدین کی جائے نماز شروع کرتے وقت ‚جب بیت اللہ شریف پر نظر پڑے ƒ صفاء پر کھڑے ہوکر"مروہ پر کھڑے ہوکر…عرفات میں مزدلفہ میں جمر تین پر
طحاوی شریف ج /ص۱۳۳ ‚نصب الرایہ ج۱/ص۱۹۳

(22) بالکل یہی روایت حضرت عبداللہ بن عمر رض سے ۔
طحاوی شریف ج۱ / ص۱۳۳‚نصب الرایہ ج ۱/ص۰۹۳ پر موجود ہے ۔
نوٹ یہ روایت موقوف ومرفوع دونوں طریقوں سے مروی ہے

(23) عبدالعزیز بن حکیم فرماتے ہیں
رایت ابن عمر ؓیرفع یدیہ حذاء اذنیہ فی اول تکبیرة افتتاح الصلوٰة ولم یرفعہما فیما سوی ذالک
میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رض کو دیکھا وہ ابتداء نماز کے علاوہ رفع یدین نہ فرماتے ۔
موطا امام محمد ص۰۹

(24) حضرت مجاہد تابعی فرماتے ہیں
صلیت خلف ابن عمر فلم یکن یرفع یدیہ الا فی التکبیرة الاولی من الصلوٰة
میں نے ابن عمر رض کے پیچھے نماز پڑھی آپ نے صرف پہلی تکبیر میں رفع یدین فرمائی ۔
مصنف ابی شیبہ ج۱/ص۸۶۲‚ طحاوی ص۰۱۱ ۔

نوٹ

حضرت مجاہد ؒدس سال حضرت ابن عمر رض کی خدمت میں رہے ۔
فیض الباری ج۱/۲۷۱

(25) جناب سالم بن عبداللہ اپنے والد عبداللہ بن عمر رض سے روایت فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ﷺ کو دیکھا ۔
اذا افتتح الصلوٰة رفع یدیہ حذ و منکبیہ واذااراد ان یرکع و بعد ما یرفع را ¿سہ من الرکوع فلا یرفع ولا بین السجد تین جب نما زشروع کرتے تو رفع یدین فرماتے، پھر رکوع کو جاتے، رکوع سے سر اٹھاتے اور دو سجدوں کے درمیان رفع یدین نہ فرماتے ۔
مسند الحمیدی ج۲ /ص۷۷۲

(26) عن ابن عمرؓ قال رایتکم رفعتم ایدیکم فی الصلوٰة واللہ انہا لبدعة مارایت رسول اللہ ﷺ فعل ہذا قط
حضرت ابن عمر رض فرماتے ہیں کہ میں نے تمہیں دیکھا ہے کہ تم نماز میں رفع یدین کررہے ہو خدا کی قسم یہ بدعت ہے میں نے حضرت ﷺ کو اس طر ح کرتے نہیں دیکھا ۔
کامل ابن عدی ج۲/ص۰۶۱

(27) حضرت ابن عمر رض سے اسی مفہوم کی روایت میزان الاعتدال ج۲ /ص۶۲ پر بھی موجود ہے ۔
نوٹ اس مقام پر حضرت کا بدعت فرمانا بمعنی عدم مواظبت ہے یعنی نماز میں رفع یدین کی مواظبت(دائمی عمل ) حضرت ﷺ سے ثابت نہیں

.(28) حضرت ابراہیم نخعی ؒ فرماتے ہیں
لا ترفع یدیک فی شییءمن الصلوٰة بعد تکبیر ة الاولی
موطا امام محمد ص۸۸
ائے مخاطب نماز میں پہلی تکبیر کے بعد رفع یدین نہ کر

(29) حضرت امام زین العابدین ؒفرماتے ہیں
کان النبی ﷺیکبر فی الصلوٰة کلما خفض و رفع فلم تزل تلک صلٰوتہ حتی لقی اللہ
اللہ کے نبی ا نماز میں (رکوع کو جاتے ،اٹھتے ،سجدہ کو جاتے اور سر مبارک اٹھاتے ) اللہ اکبر فرماتے تھے ۔یہانتک کہ حضرت اکا وصال ہوگیا ۔
موطا امام مالک ص۱۶
طرز استدلال امام زین العابدین ؒاللہ کے نبی ﷺ کی نماز میں رکوع کو جاتے ،سر اٹھاتے صرف اللہ اکبر بیان فرماتے ہیں رفع یدین کا ذکر نہیں کرتے ۔

(30) صحاح ستہ کی شہرہ آفاق کتاب صحیح مسلم شریف میں ہے
حضرت جابر بن سمر ہؓ صحابی رسول ﷺ فرماتے ہیں
خرج علینا رسول اللہ ﷺ فقال مالی اراکم رافعی ایدیکم کانھا اذناب خیل شمس اسکنو افی الصلوٰة
حضرت ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے (نماز پڑھنے کی حالت میں ) تو فرمایا کیا بات ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ تم شریر گھوڑوں کی دموں کی طرح رفع یدین کرتے ہو نماز میں ساکن رہو ۔
نسائی شریف ج۱/ص۳۳۱‚ابوداود شریف ج۱/ص۳۴۱مسلم شریف ج۱/ص۱۸۱"طحاوی شریف ج۱/ص۱۲۲…صحیح ابن حبان ج ۳ / ص ۸۷۱ مصنف عبدالرزاق ج۲/ص۲۵۲

ناظرین مکرم

صحیح مسلم کی یہ روایت اپنے مفہوم میں بالکل واضح ہے کہ حضرت ﷺ نے صحابہ کرامؓ کو نماز میں رفع یدین کرتے دیکھا تو ناراض ہوکر فرمایا شریر گھوڑوں کی دموں کی طرح رفع یدین کررہے ہو پھر حکم دیا، امر فرمایا اسکنو افی الصلوٰة نماز میں ساکن رہا کرو ۔یعنی نماز کے اندر والی رفع یدین (رکوع کو جاتے، رکوع سے سر اٹھاتے ،دو سجددوں کے درمیان ) نہ کیا کرو
مغالطہ بعض لوگ اس روایت کو سلام کے وقت کی رفع یدین سے روکنے کی دلیل بتاتے ہیں حالانکہ یہ سراسر مغالطہ ہے وہ دوسری روایت ہے جو اس کے نیچے مذکور ہے ۔
علامہ زیلعی ؒ فرماتے ہیں رفع الیدین عند الرکوع و عند رفع الراس من الرکوع سے ممانعت والی حدیث الگ ہے اور بوقت سلام سلام ہاتھ اٹھانے والی حدیث الگ ہے ، نصب الرایہ ج1 ص 482
دونوں کو ایک شمار نہیں کر سکتے اگرچہ دونوں حضرت جابر بن سمرہ رض سے مروی ہیں ،
دوسری بات یہ ہے کہ اشتراک فی الحدیثین اس وقت ہوگا جب دونوں حدیثوں کے رواۃ میں بھی اشتراک ہو یہاں یہ صورت نہیں سوائے حضرت جابر کے باقی رواۃ مختلف ہیں لہذا دونوں کو ایک قرار دینا درست نہیں
نیز اگر دونوں حدیثوں کو ایک شمار کیا جائے تو حدیث ممانعت سلام والی حدیث کی تاکید ہوگی اور دونوں سے ایک ہی حکم ثابت ہوگا اور اگر اس حدیث کو منع رفع الیدین عند الرکوع پر محمول کیا جائے اور دوسری کو ممانعت رفع عند التسلیم پر تو یہ تاسیس ہے اور التاسیس اولی من التاکید ، یا الحمل علی المعنی الجدید اولی ، لہذا اسے عند الرکوع پر محمول کرین گے
ہمارا استدلال مالی اراکم رافعی ایدیکم سے نہیں بلکہ اسکنوا فی الصلوٰۃ سے ہے نماز میں سکون اختیار کرو اور یہ الفاظ زائد اور عموم پر دلالت کرتے ہیں یعنی اسکنوا عند الرکوع اسکنوا رفع الراس من الرکوع والعبرۃ لعموم اللفظ لا لخصوص المورد
اس لئے اسکنوا فی الصلوٰۃ میں غور کریں یہ نماز ہی کی بات ہے نہ کے نماز کے بعد کی

تفصیلی جواب

مذکورہ حدیث اپنے اندازِ استدلال اور وضاحتِ الفاظ کے ساتھ بالکل صریح ہے اور احناف کے دعویٰ عدم رفع فی الصلوۃ کو مکمل ہے۔
ذیل میں اس روایت سے ترکِ رفع کے استدلال پر کئے گئے اعتراضات کا جائزہ لیا جاتا ہے:

اعتراض نمبر 1= اس حدیث میں رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد والے رفع یدین کا ذکر نہیں۔
جواب =
ہمار ا دعویٰ ہے کہ نماز میں رفع یدین نہ کیا جائے،چاہے وہ رکوع والا ہو یا سجود والا۔حدیث کے الفاظ پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتاہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو نماز میں رفع یدین کرتے دیکھا تو فرمایا: اسکنوا فی الصلوۃ(نماز میں سکون اختیار کرو)اس سے مذکورہ رفع یدین کی نفی ہوجاتی ہے۔جیسا کہ مشہور محدثین مثلاً علامہ زیلعی اور علامہ بدرالدین عینی نے تصریح کی ہے۔یہ حضرات فرماتے ہیں:
انما یقال ذلک لمن یرفع یدیہ فی اثناء الصلوۃ وہو حالۃ الرکوع او السجود ونحو ذالک(نصب الرایہ للزیلعی ج1ص472، شرح سنن ابی داود للعینی ج3ص29)
کہ یہ الفاظ (نماز میں سکون اختیار کرو)اس شخص کو کہے جاتے ہیں جو دوران نماز رفع یدین کر رہا ہو اور یہ حالت رکوع یا سجود وغیرہ کی ہوتی ہے۔
لہذا یہ اعتراض باطل ہے۔

اعتراض نمبر 2 = حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمہ اللہ اور شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ سے نقل کیا، جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ دونوں حضرات اس حدیث کو بطور دلیل پیش نہیں کرتے، ان کا کہنا ہے کہ یہ سلام کے متعلق ہے۔
جواب =
الف: ان دونوں حضرات کا موقف ترک رفع یدین کا ہے(ادلہ کاملہ،درس ترمذی)
ب: عرض ہے کہ اگر ان حضرات نے اس حدیث کو دلیل نہیں بنایا تو دیگرحضرات محققین ومحدثین نے تو بنایاہے۔مثلاً
1.امام ابوالحسن القدوری (التجرید ج2ص519)
2.علامہ زیلعی (نصب الرایہ ج1ص472)
3.علامہ عینی (شرح سنن ابی داود ج3ص29)
4.ملاعلی قاری (فتح باب العنایہ ج1ص78 اور حاشیہ مشکوٰۃ ص 75)
5.امام محمد علی بن زکریا المنبجی (اللباب فی الجمع بین السنۃ والکتاب ج1ص256)
6.مولانا محمد ہاشمی سندھی )رسالہ کشف الرین(
7.حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی (اعلاء السنن للعثمانی: ج3ص56)
8.شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی (اوجز المسالک: ج 2ص66)
9.شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی (فتح الملہم: ج3 ص317)
10.شیخ الاسلام مولانا ظفر احمد عثمانی (اعلاء السنن للعثمانی: ج3ص56)
11.مولانا الشیخ محمد عبد اللہ بن مسلم البہلوی (ادلۃ الحنفیۃ: ص167)
12.امین الملۃ مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی (تجلیات صفدر: ج2، ص313)
13.مناظر اسلام حضرت مولانا حبیب اللہ ڈیروی (نور الصباح: ج1 ص76)

د: اسی حدیثِ جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ سے ترکِ رفع پر استدلال کی نسبت سےمفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم اور مولانا حبیب اللہ ڈیروی علیہ رحمہ کی آپس میں بات چیت بذریعہ خط و کتابت تفصیلاً ملاحظہ فرمانے کے لیے دیکھیں " نور الصباح ، ج 2، ص 321"
تنبیہ:شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ نے ترک رفع یدین کے دلائل پر مشتمل ایک تحریر کی تصدیق کرتے ہوئے”الجواب صحیح“ لکھا ہے۔ ان دلائل میں یہی حدیث جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ موجود ہے۔ خود علی زئی کی زبانی یہ حقیقت سنیے:
”مری سے تجمل حسین صاحب نے ایک چار ورقی پمفلٹ: ”مسئلہ رفع یدین “کے عنوان سے بھیجا ہے، جسے کسی دوست محمد مزاری دیوبندی نے لکھا ہے اور محمد رفیع عثمانی دیوبندی نے اس پمفلٹ کی تصدیق کی ہے، نیز محمد تقی عثمانی، محمد عبدالمنان اور عبدالرؤف وغیرہ نے ”الجواب صحیح“لکھ کر اس پر مہریں لگائی ہیں۔“ (الحدیث :93ص11)

اعتراض نمبر 3 = اس حدیث پر محدثین کا اجماع ہے کہ اس حدیث کا تعلق تشہد کے ساتھ ہے کیونکہ سب محدثین نے اس حدیث پر سلام کے وقت اشارہ سے منع کرنے کے ابواب باندھے ہیں۔ اور کسی محدث نے اس حدیث سے ترکِ رفع پر استدلال نہیں کیا۔
جواب =
یہ حدیث اور بوقت سلام اشارہ سے منع کی حدیث دو الگ الگ احادیث ہیں، تفصیل آگے آ رہی ہے۔
· اس حدیث پر امام ابو داوَد نے یوں باب باندھا ہے: باب النظر فی الصلوٰۃ {ابو داوَد ص 138 ج 1}
· امام عبدالرزاق علیہ رحمہ نے یوں باب باندھا ہے : باب رفع الیدین فی الدعاء {مصنف عبدالرزاق ص 252 ج 2}
· امام بخاری کے استاد ابوبکر بن شیبہ نے یوں باب باندھا ہے: باب من کرہ رفع الیدین فی الدعاء {مصنف ابن ابی شیبہ ص 486 ج 2}
· نیز قاضی عیاض مالکی علیہ رحمہ اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں : وقد ذکر ابن القصار ھٰذا الحدیث حجۃ فی النھی عن رفع الایدی علی روایۃ المنع من ذالک جملۃ {لا کمال العلم بفوائد مسلم ص 344 ج 2}
· امام نووی علیہ رحمہ نے اپنی کتاب شرح المہذب میں فرمایا جسکا خلاصہ یہ ہے کہ اس حدیث سے امام ابوحنیفہ، امام سفیان ثوری ، امام ابن ابی لیلیٰ اور امام مالک علیہ رحمہ نے ترک رفع یدین پر استدلال کیا ہے۔ {المجموع شرح المہذب جلد 3، ص 400}


آئیے امام مسلم جن سے یہ حدیث پیش کی گئی ہے ان کے ابواب کو ذرا تفصیلاً دیکھتے ہیں:
امام مسلم نے باب یوں قائم فرمایا ہے: باب الامر بالسکون فی الصلوٰۃ والنھی عن الاشارۃ بالید ورفعھا عندالسلام واتمام الصفوف الاول والیراص فیھما والامر بالاجتماع
· پہلا حصہ الامر بالسکون فی الصلوٰۃ، نماز میں سکون اختیار کرنے کا باب: باب کے اس حصے کے ثبوت میں یہی حدیث اسکنو فی الصلوٰۃ والی لائے ہیں
· دوسرا حصہ النھی عن الاشارۃ بالید ورفعھا عند السلام، سلام کے وقت ہاتھ سے اشارہ کی ممانعت: اس حصہ مکے ثبوت کے لیے دوسری حدیث لائے ہیں وانما یکفی احدکم ان یضع یدہ علی فخذہ ثم یسلم علی اخیہ من علی یمینہ وشمالہ ۔ بس تمہارے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اپنا ہاتھ اپنی ران پر رکھے ، پھر اپنے دائیں بائیں والے پر سلام کرے۔
· تیسرا حصہ ہے ، واتمام الصفوف الاول والیراص فیھما والامر بالاجتماع، پہلی صفوں کو مکمل کرنا اور ان میں جڑنا اور اجتماع کے حکم کے بارے میں: اس حصے کو ثابت کرنے کے لیے تیسری حدیث لائے ہیں استووا ولا تختلفوا
پس ثابت ہوا کہ سلام کا لفظ دوسری حدیث کے متعلق ہے۔ پہلی حدیث پر باب الامر بالسکون فی الصلوٰۃ ہے یعنی نماز میں سکون اختیار کرنے کاباب۔ اس کے نیچے حدیث وہی لائی گئی ہے جس مین رفع یدین کو سکون کے خلاف قرار دے کر منع فرمایا دیا گیا۔ لہٰذا جو حدیث ہم پیش کر رہے ہیں، اس پر باب الامر بالسکون فی الصلوٰۃ ہے، اس میں سلام اور تشہد کا لفظ نہیں۔

اعتراض نمبر 4 = یہ حدیث سلام کے وقت رفع یدین سے منع کی ہے نہ کہ رکوع جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت کی رفع یدین کے بارے میں۔
جواب =
جیسا کہ اعتراض نمبر 3 کے جواب میں بیان کر دیا گیا ہے کہ امام مسلم علیہ رحمہ نے اس حدیث پر نماز میں سکون اختیار کرنے کا باب باندھا ہے اور سلام کے وقت اشارے سے منع کرنے کے لیے حضرت جابر بن سمرۃ سے دوسری حدیث لائے ہیں، جس سے اس اعتراض کا سارا دم خم ختم ہو جاتا ہے۔ مگر غیر مقلدین کے اعتراضات کا مکمل مدلل جواب دیا جاتا ہے تاکہ مزید گنجائش باقی نہ رہے انشاءاللہ تعالیٰ:
· پہلی روایت مین جابر بن سمرۃ رضی الہ عنہ کا شاگرد تمیم بن طرفہ ہے۔ دوسری میں جابر رضی اللہ عنہ کا شاگرد عبد اللہ بن القبطیہ ہے۔
· پہلی روایت میں ہے خرج علینا یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم پر نکلے۔ دوسری روایت میں ہے صلینا مع رسول اللہ ، یعنی ہم نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔
· پہلی روایت میں ہے رافعی ایدیکم یعنی رفع یدین کا ذکر ہے۔ دوسری روایت میں ہے تشیرون بایدیکم تومنون بایدیکم تم اشارہ کرتے ہو۔
· پہلی روایت میں سلام کا ذکر نہیں ، دوسری میں سلام کا ذکر ہے۔
· پہلی روایت میں ہے اسکنو ا فی الصلوٰۃ ، یعنی نماز میں سکون اختیار کرو، دوسری روایت میں ہے انما یکفی احدکم ان یضع یدہ علی فخذہ
ان دونوں روایتوں کو غور سے دیکھا جائے تو دونوں روایتوں میں پانچ فرق نظر آتے ہیں۔ پہلی روایت میں ہے کہ ہم اکیلے نماز پڑھ رہے تھے، آپ تشریف لائے تو یہ واقعہ الگ ہوا۔ دوسری روایت میں ہے حضور صلی اللہ علپہ والہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے ، یہ واقعہ الگ ہوا۔ پہلی حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم رافعی ایدیکم فرما کر رفع یدین کا نام لیتے ہیں اور دوسری میں رفع یدین کا نام تک نہیں بلکہ اشارے کا لفظ ہے۔ بہرحال دونوں روایتوں کو ایک بنانا فریب اور دھوکا ہو گا نہ کہ دونوں کو دو بتانا۔ چونکہ دو واقعے الگ الگ ہیں، ہم دونوں کو الگ الگ رکھتے ہیں، ملاتے نہیں لہٰذا الگ الگ رکھنا حقیقت حال سے اگاہ کرنا ہو گا۔ حقیقت حال سے آگاہ کرنے کو اہل انصاف میں سے تو کوئی بھی دھوکہ نہیں کہتا، ہاں بے انصاف جو چاہیں کہیں۔
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز رکرے
پہلی حدیث میں رفع یدین سے منع کیا گیا ہے اور دوسری میں سلام والے اشارے سے۔ ہمارا احناف کا دونوں روایتوں پر عمل ہے۔ نہ ہم رفع یدین کرتے ہیں اور نہ ہی سلام کے وقت اشارہ کرتے ہیں۔
ایک اور بات قابلِ غور ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ جب اکیلے نماز پڑھتے تھے تو بوقتِ سلام ہاتھوں کا اشارہ نہیں کرتے تھے، ہاتھوں کااشارہ اس وقت ہوتا تھا جب باجماعت نماز پڑھتے اور پہلی حدیث میں ہے خرج علینا رسول ا للہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علہ والہ وسلم ہماری طرف آئے، ہم نماز پڑھ رہے تھے۔ سوال یہ ہے کہ یہ نماز فرض تھی ہرگز نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم گھر ہوتے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ مسجد میں نماز کے لیے اتنا لمبا بیٹھے رہتے کہ کبھی نیند آنے لگتی اور حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس وقت تشریف لائے۔ وہ صحابہ رضی اللہ عنہم فرضوں کی جماعت آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس وقت تشریف لائے۔ وہ صحابہ رضی اللہ عنہ فرضوں کی جماعت آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بغیر کس طرح کرا سکتے تھے؟ ثابت ہوا کہ نماز فرض نہیں تھی بلکہ صحابہ کرام کی انفرادی نماز تھی جو نفل یا سنن ہو سکتی ہیں۔ جب نماز جماعت والی نہیں تھی بلکہ انفرادی فعل یا سنن نفل وغیرہ نماز تھی تو اس میں سلام کے وقت اشارہ ہوتا ہی نہیں تھا تو آقا نے منع کس چیز سے کیا؟ یقیناً وہ رکوع سجدے والا رفع یدیں ہی تھا جس کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کرتے تھے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ناراض ہوئے اور فرمایا اسکنوا فی الصلوٰۃ نماز میں سکون اختیار کرو۔ مسلم شریف کا باب الامر فی الصلوٰۃ ج 1 ص 80 دیکھیں، اس میں اشارے کا ذکر جس حدیث میں ہے، اس میں صلینا مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کہ ہم آپ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے۔ ابوداوَد باب السلام ج 1 ص 143 پر دیکھیں اور غور کریں کہ نماز باجماعت ہے اور اشارہ بھی ہے۔ جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کنا اذا صلینا خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فسلم احدانا اشار بیدہ من یمینہومن عن یسارہ یہاں بھی سلام کے اشارے کا جہاں ذکر ہے، وہاں جماعت کا ذکر بھی ہے۔ نسائی باب السلام بالیدین ج 1 ص 156 مع التعلیقات میں ہے صلیت مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فکنا اذا سلمنا قلنا بایدینا السلام علیکم یہاں بھی جماعت کا ذکر ہے، ساتھ سلام کے اشارے کا ذکر ہے۔ یہ طحاوی شریف ج 1 ص 190 باب السلام فی الصلوٰۃ کیف ہو میں یہی جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کنا اذا صلینا خلف النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلمنا بایدینا جب ہم نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھتے تو ہاتھوں سے سلام کرتے تھے۔ اس کے علاوہ کتاب الام للشافعی علیہ رحمہ ، مسند احمد ، بیہقی دیکھیں۔ جہاں سلام کے وقت اشارے کا لفظ ہو گا وہاں جماعت کی نماز کاذکر بھی ہو گا۔کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے اکیلے نماز ادا کی ہو اور ہاتھوں سے اشارہ بھی کیا ہو یعنی سلام کے وقت اشارہ بھی کیا ہو، موجود نہیں ہے لہٰذا اس سلام کے اشارے کا تعلق جماعت کی نماز سے ہے نہ کہ انفرادی نماز سے۔ انفرادی نماز میں صرف رکوع سجدے والا رفع یدین تھا ، ہاتھوں کا اشارہ نہیں تھا لہٰذا نفرادی نماز میں جو عمل تھا ہی نہیں ، اسے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کیسے منع کر سکتے تھے۔ ہاں جو عمل تھا ، وہ رفع یدین رکوع و سجود کا تھا ، اسی سے ہی منع فرمایا ہے۔
ضمنی اعتراض: اگر اس حدیث سے " فی الصلوٰۃ "یعنی نماز کے اندر کا رفع یدین منع ثابت ہوتا ہے تو پھر اس سے تو تکبیرِ تحریمہ والا رفع یدین بھی ختم ہو جاتا ہے۔
جواب: نماز تکبیرِ تحریمہ سے شروع ہوتی ہے اور سلام پر ختم ہوتی ہے۔ وکان یختم الصلوٰۃ بالتسلیم حدیث شریف میں آتا ہے تحریمھا التکبیر وتحلیلھا التسلمیم {ترمذی شریف ص 32} نما تکبیرِ تحریمہ سے شروع ہوتی ہے اور سلام پر ختم ہو جاتی ہے لہٰذا جس فعل سے نماز شروع ہو رہی ہے، اسے فی الصلوٰۃ نہیں کہا جاسکتا۔ ثناء فی الصلوٰۃ، تعوذ فی الصلوٰۃ، قومہ فی الصلوٰۃ، جلسہ و سجدہ فی الصلوٰۃ، سجدے والا رفع یدین فی الصلوٰۃ، تشہد فی الصلوٰۃ۔ تکبیرِ تحریمہ آغاز کا نام ہے اور نماز شروع کرنے کا طریقہ ہے۔ سلام نماز کے اختتام کا نام ہے یعنی ختم کرنے کا طریقہ ہے۔ وکان تکتم بالتسلیم {مسلم ج 1 ص 195} جس طرح حدیث پاک سے ثا بت ہو چکا ہے۔ اب قابلِ غور بات یہ ہے کہ جب رکوع و سجدہ فی الصلوّۃ ہیں تو ان کا رفع یدین بھی فی الصلوٰۃ ہو گا لہٰذا اسکنو فی الصلوٰۃ میں نماز کے اندر والے رفع یدین سے ہی منع ثابت ہو گی نہ کہ تحریمہ والے سے کیونکہ رفع یدین بوقتِ تحریمہ فی الصلوٰۃ نہیں بلکہ فی افتتاح الصلوٰۃ ہے جس طرح ابو داوَد ج 1 ص 105 ، پر موجود ہے کہ تحریمہ والے رفع یدین کو رفع افتتاح الصلوٰۃ سے تعبیر کیا گیا ہے یا عند الدخول فی الصلوٰۃ جس طرح بخاری ج 1 ص 102 ، پر موجود ہے۔ جسطرح امام بخاری علیہ رحمہ باب باندھتے ہیں باب رفع الیدین فی التکبیرۃ الاولی مع الافتتاح یہاں لفظ مع الافتتاح تحریمہ کے رفع یدین کے لیے استعمال کیا ہے۔ اسی صفحہ 102 پر دیکھیں ، امام بخاری علیہ رحمہ کا باب الخشوع فی الصلوٰۃ۔ نماز میں خشوع کا باب اور آگے جو حدیث لاتےہیں، وہ یہ ہے اقیمو االرکوع والسجود فواللہ انی لا اراکم من بعدی اچھی طرح رکوع اور سجدہ کیا کرو میں تمہیں پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔ خشوع فی الصلوٰۃ کا باب باندھ کے پھر رکوع اور سجدہ کا بیان فرما کر بتلانا چاہتے ہیں کہ رکوع اور سجدے کا جوڑ فی الصلوٰۃ کے ساتھ ہے اور فی الصلوٰۃ کا سب سے زیادہ تعلق رکوع اور سجدے کے ساتھ ہے۔ فی الصلوٰۃ کا لفظ اکثر و بیشتر انہیں افعال و اعمال پر بولا جاتا ہے جو نماز میں تکبیرِ تحریمہ اور سلام کے درمیان ہیں، اس کی چند مثالیں دیکھئے:
· امام بخاری ج 1 ص 99 پر باب باندھتے ہیں اذا بکی الامام فی الصلوٰۃ، جب امام نماز میں روئے۔ امام تکبیرِ تحریمہ کے ساتھ ہی رونا شروع نہیں کر دیتا بلکہ بوقتِ تلاوت روتا ہے جس طرح ترجمہ الباب کی حدیث سے ثابت ہو رہا ہے۔ گویا رونا تحریمہ کے بعد ہوتا ہے، اسی لیے تو فی الصلوٰۃ کہا گیا ہے۔
· بخاری ج1 ص 102 پر باب ہے باب وضع الیسی الیمنی علی الیسرہ فی الصلوٰۃ ، بائیں ہاتھ پر دایاں ہاتھ رکھنا نماز میں۔ غور فرمائیں کہ ہاتھ پر ہاتھ تحریمہ کے بعد ہی رکھا جاتا ہے جس کو فی الصلوٰۃ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
· بخاری شریف ج 1 ص 103 باب البصر الی الامام فی الصلوٰۃ ، نماز میں امام کی طرف دیکھنا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ظہر اور عصر کی نماز میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ڈاڑھی مبارک کی حرکت کو دیکھ کر پہچان جاتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ظہر اور عصر کی نماز میں قراءۃ فرماتے ہیں۔ تو بوقت قراءۃ نماز میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ریش مبارک کو دیکھنا اور قراءۃ کو پہچاننا تحریمہ کے بعد ہی ہوتا تھا لہٰذا امام بخاری علیہ رحمہ فرماتے ہیں رفع البصر امام کی طرف نظر اٹھانا فی الصلوٰۃ نماز کے اندر یعنی تکبیرِ تحریمہ کے بعد۔ یہاں بھی تحریمہ کے بعد ہونے والے عمل کو فی الصلوٰۃ کہا گیا۔
· بخاری ج 1 ص 104 پر امام بخاری علیہ رحمہ باب باندھتے ہیں باب وجوب القراءۃ للامام والماموم فی الصلوٰۃ ۔ یہاں قراءۃ فی الصلوٰۃ فرمایا یعنی قراءۃ تحریمہ کا نام نہیں بلکہ قراءۃ تحریمہ کے بعد اور سلام سے پہلے ہوتی ہے۔ اسی طرح اسکنوا افی الصلوٰۃ میں بھی منع تحریمہ والے رفع یدین سے نہیں بلکہ اس رفع یدین سے ہے جو تحریمہ کے بعد نماز میں کیا جاتا ہے۔
· مسلم شریف ج 1 ص 169 پر امام نووی علیہ رحمہ باب باندھتے ہیں۔ اثبات التکبیر فی کل خفض ورفع فی الصلوٰۃ ، نماز میں ہر اونچ نیچ پر تکبیر کا اثبات۔ اب اونچ نیچ رکوع اور سجدے میں ہوتی ہے اور یہاں رکوع و سجدہ میں اونچ نیچ کو فی الصلوٰۃ کہا گیا۔لا محالہ رکوع اور سجدے سے قبل اور بعد کی اونچ نیچ تحریمہ کے بعد اور سلام سے قبل ہے اسی لیے فی الصلوٰۃ کہا گیا یعنی نمازمیں۔ بعینٰہ اسی طرح مسلم کی ج 1 ص 181 والی اسکنو فی الصلوٰۃ والی روایت میں فی الصلوٰۃ سے مراد رفع یدین ہے جو تحریمہ کے بعد ہوتا ہے یعنی رکوع اور سجدے کے وقت۔
· مسلم شریف ج 1 ص 173 باب التشھد فی الصلوٰۃ۔
· مسلم ج 1 ص 183 باب التوسط فی القراءۃ فی الصلوٰۃ۔
· مسلم ج۱ ص 210 باب السھو فی الصلوٰۃ۔ نماز میں بھولنے کا بیان اور آگے ص 211 پر حدیث پاک لائے ہیں کہ ان رسول اللہ صلی علیہ والہ وسلم قام فی الصلوٰۃ الظھر وعلیہ جلوس، بے شک نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بیٹھنا تھا بجائے بیٹھنے کے نماز میں کھڑے ہو گئے۔ بعد میں سجدہ سہوکیا
· مسلم ج 1 ص 202 باب کراھۃ مسح الحصی وتسویۃ التراب فی الصلوٰۃ۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ بوقت سجدہ مسجد میں پڑی مٹی ہاتھ سے برابر کرتے تھے، اسی کی کراہت کا بیان کیا گیا۔ اور سجدہ نماز کے اندر تحریمہ کے بعد کا ہے اسی لیے اسے فی الصلوٰۃ کہا گیا۔
· مسلم ج 1 ص 206 باب جواز الخطوۃ والخطوتین فی الصلوٰۃ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں جب منبر بنوا کر رکھ دیا گیا تو رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم منبر پر چڑھ گئے اور وہاں تکبیرِ تحریمہ کہی اور بعد میں بحالتِ نماز منبر سے اتر آئے۔ نماز کی حالت کا یہ عمل بعد تحریمہ تھا اسی لیے فی الصلوٰۃ کہا گیا۔
تلک عشرۃ کاملہ

ضمنی اعتراض: دونوں حدیثوں میں تشبیہ ایک چیز سے دی گئی ہے، کانھا اذناب خیل شمس لہٰذا دونوں حدیثیں ایک ہیں۔
جواب: ان احادیث کے الگ الگ ہونے کے دلائل سے یہ روزِ روشن کی طرح واضح ہو گیا کہ یہ احادیث الگ الگ ہیں۔
باقی تشبیہ ایک چیز کے ساتھ دینے سے چیز ایک نہیں بن جاتی۔ دیکھیں کوئی کہتا ہے کپڑا دودھ کی طرح سفید ہے۔ بطخ دودھ کی طرح سفید ہے۔ دانت دودھ کی طرح سفید ہیں۔ گائے دودھ کی طرح سفید ہے۔ بال دودھ کی طرح سفید ہیں۔ اب کپڑا ، بطخ، دانت، گائے، بال پانچ چیزیں مشبہ ہیں ، دودھ مشبہ بہٰ ہے یعنی پانچ چیزوں کو صرف دودھ کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ اب کون عقل مند یہ کہہ سکتا ہے کہ بطخ اور گائے یا بال اور دانت ایک شے ہیں کیونکہ تشبیہ صرف ایک چیز سے دی گئی ہے۔ اب اگر عندالسلام والے اشارے اور رکوع کے رفع یدین کو مست گھوڑوں کی دموں سے تشبیہ دی گئی ہے تو دونوں حدیثیں ایک کیسے ہو گئیں اور دونوں عمل ایک کیسے ہو گئے۔

اعتراض نمبر 5 = یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک عمل خود نبی پاک نے پہلے کیا اور بعد میں اسی اپنے کیے ہوئے عمل کو مست گھوڑوں کی دمیں فرمایا۔ یہ ممکن نہیں۔ اس سے تو نبی علیہ صلوٰۃ والسلام کی تنقیص اور توہین ہوتی ہے۔ نعوذ باللہ
جواب = اشارہ عند السلام کو تو غیر مقلدین بھی مانتے ہیں کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کیا تھا۔ آخر نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ایسا کیا یا کرتے دیکھا نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیم سے کیا یا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی موجودگی میں ہوا اور پہلے اپ دیکھتے رہے بعد میں فرمایا کانھا اذناب خیل ۔ گزارش یہ ہے کہ سلام کے وقت ہاتھوں کا اٹھانا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کس کو دیکھ کر شروع کیا تھا؟ سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے عمل یا حکم کے بغیر ایسا کیونکر کر رہے تھے؟ یقیناً اس پر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا عمل تھا یا حکم یا تقریر۔ ان تینوں صورتوں میں وہی اعتراض جو یہ غیر مقلدین کرتے ہیں وہ ان ان پر بھی ہو سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے وہ فعل جو کیا ہے یا حکم دیا ہے یا کرنے پر خاموش رہ چکے ہیں، بعد میں اسے گھوڑوں کی دمیں کس طرح فرما سکتے ہیں؟ کیا جب یہ فعل دموں والا بوقت سلام ہوتا رہا، اس وقت آپ اس پر خوش تھے، اس لیے خاموش رہے؟
نیز حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے دیگر ایسی مثالیں موجود ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے خود ایک کام کیا اور پھر بعد میں اس کے منسوخ ہونے پر اس کے لیے سخت الفاظ استعمال کیے۔
· نماز میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے اقعاء کرنا ثابت ہے [ترمذی ج 1، ص 38 ۔ ابوداوْد ج 1، ص 123] لیکن پھر خود اسے عقبۃ الشیطان کہا [مسلم ج 1، ص 195] = [اقعاء کا معنی دونوں پیروں کو کھڑا کر کے ان کے اوپر بیٹھ جانا ہے۔ دیکھیں اپنے کیے ہوئے فعل کو عقبۃ الشیطان کہا جا رہا ہے]

اعتراض نمبر 6 = امام بخاری علیہ رحمہ نے فرمایا کہ جو بھی اس حدیث سے ترکِ رفع یدین پر استدلال کرتا ہے اس کا علم میں کوئی حصہ نہیں۔
جواب: اولاً تو اعتراض نمبر 3 کے تحت امام نووی علیہ رحمہ کا ارشاد نقل کیا جا چکا ہے کہ:
· امام نووی علیہ رحمہ نے اپنی کتاب شرح المہذب میں فرمایا جسکا خلاصہ یہ ہے کہ اس حدیث سے امام ابوحنیفہ، امام سفیان ثوری ، امام ابن ابی لیلیٰ اور امام مالک علیہ رحمہ نے ترک رفع یدین پر استدلال کیا ہے۔ {المجموع شرح المہذب جلد 3، ص 400}
اور یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ حدیث کے معنی کے اعتبار سے فقہاء کو ترجیح حاصل ہے نہ کہ محدثین کو جیسا کہامام ترمذی فرماتے ہیں کہ " الفقھاء ھم اْعلم بمعانی الحدیث " یعنی فقہاء معنی حدیث محدثین سے زیادہ جانتے ہیں۔ [سنن الترمذی: ج 1، ص 193، کتاب الجنائز، باب ماجاء فی غسل المیت]۔۔۔۔۔ اب آپ ہی بتائیں کہ کیا امام اعظم ابوحنیفہ و سفیان ثوری و مالک و ابن ابی لیلیٰ جیسے امام اور فقہاء کو اس جملے کے تحت جاہل اور بے علم مان لیا جائے؟ یقیناً اس کا جواب نفی میں ہے۔
اگر اس قسم کی باتیں ہی ماننی ہیں تو امام مسلم علیہ رحمہ جو کہ امام بخاری علیہ رحمہ کے شاگرد ہیں انہوں نے اپنے استاد امام بخاری علیہ رحمہ کو منتحل الحدیث یعنی صرف حدیث کا دعوے دار فرما رہے ہیں۔ یعنی حدیث میں ان کا دعویٰ تو ہے مگر وہ بات نہیں جو درحقیقت مشہور ہے۔ ادھر امام بخاری علیہ رحمہ لوگوں کو بے علم کہتے ہیں ادھر ان کے اپنے ہی شاگرد ان کو صرف حدیث کا دعوے دار فرما رہے ہیں اور حدیچ سے گویا بے علم کہتے ہیں۔ اب اس سے بڑھ کر امام مسلم کی اپنے استاد سے اور کیا ناراضگی ہو گی؟ باوجود شاگرد ہونے کے پوری مسلم شریف میں اپنے استاد سے ایک بھی حدیث نہیں لائے۔
بات کا مقصد یہ ہے کہ ایسی غیر عالمانہ باتیں بڑے بڑے علماء سے ہو جایا کرتی ہیں۔ جیسے امام بخاری علیہ رحمہ کو ایسی کسی بات سے فرق نہیں پڑتا بالکل اسی طرح ترک رفع یدین پر اس حدیث کو پیش کرنے والوں پر امام بخاری کی بات کا کوئی فرق نہیں پڑتا۔

اعتراض نمبر 7 = اگر اس حدیث کو ترک رفع پر مان بھی لیا جائے تو حنفی پھر وتر اور عیدین کی رفع یدین کیوں کرتے ہیں، انہیں وہ بھی چھوڑ دینی چاہئیں، کیونکہ وہ بھی فی الصلوٰۃ یعنی نماز کے اندر کی رفع یدین ہیں۔
جواب: اس حدیث سے ہمارا استدلال کس کس طرح سے ہے یہ اوپر واضح کر دیا گیا ہے۔
· ہمارا استدلال سے واضح ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نفل نماز پڑھ رہے تھے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم وہاں باہر سے تشریف لائے [خرج علینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم]۔ اگر یہ عیدین کی نماز ہوتی تو نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم جماعت کروا رہے ہوتے۔ یہ تو غیر مقلدین بھی مانتے ہیں کہ نمازِ عیدین جماعت سے ہوتی ہیں اس کے تو وہ بھی قائل نہیں کہ نمازِ عیدین انفرادی پڑھی جائے۔ تو یہ محال ہے کہ عیدین ہو رہی ہو اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نماز میں شریک نہ ہوں اور یہ بھی محال ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نےبغیر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے جماعت کروانی شروع کر دی ہو۔ پس یہ مان لیا جائے کہ یہ عیدین کی نماز تھی تو یہ ماننا لازم آئے گا کہ نمازِ عید قضاء ہو گئی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بتایا بھی نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بعد میں تشریف لائے۔ اسی طرح اگر وتر کی نماز مانا جائے تو بھی عشاء کی نماز کی جماعت کا مسئلہ اور سوال اٹھتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نماز کی جماعت سے رہ گئے اور بعد میں تشریف لائے اور صحابہ کرام نے انتظار بھی نہیں کیا اور خود جماعت کروا لی اور وتر بھی پڑھنے لگے تب جا کے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف لائے۔ یہ محال ہے کیونکہ صحابہ کرام تو نبی پاک علیہ صلوٰۃ والسلام کا عشاء میں اتنا انتظار فرماتے تھے کہ انہیں نیند آنے لگتی۔
· دوسری بات یہ ہے کہ عام نمازوں اور عیدین و وتر میں فرق ہے۔ جب بھی احکامِ عیدین و وتر آتے ہیں ساتھ واضح لفظ عید یا وتر موجود ہوتا ہے۔ جب کہ اس حدیث میں عام نماز کا عمومی لفظ ہے، پس اصول کے لحاظ سے خصوص کو عموم پر قیاس نہیں کیا جا سکتا، پس یہ قیاس مع الفارق ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔

· تیسری بات یہ ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جس رفع یدین کو شریر گھوڑوں کی دم فرمایا ہے وہ بغیر ذکر کے رفع یدین ہے، اور عیدین و وتر کا رفع یدین اسی طرح تحریمہ کا رفع یدین ذکر کے ساتھ ہے۔ یعنی رفع یدین کا الگ سے ذکر موجود ہے۔ جب کہ غیر مقلدین عام نمازوں میں جو رفع یدین کرتے ہیں وہ بغیر ذکر کے ہے، یعنی رکوع کو جاتے ہیں تو اللہ اکبر کہتے ہیں، پس وہ اللہ اکبر انتقالِ رکوع کا ذکر ہے نہ کہ رفع یدین کا۔ اگر غیر مقلدین کہیں کہ وہ رفع یدین کا ذکر ہے تو پھر رکوع کی طرف انتقال کے وقت کا ذکر کہاں گیا؟ ہمارے وتر و عیدین کے رفع یدین چونکہ مع الذکر ہے تو اس کی تشبیہ گھوڑوں کی دمیں بنتی ہی نہیں، جبکہ غیر مقلدین کا رفع یدین بغیر ذکر کے ہے اس لیے وہ اس تشبیہ پر پورا پورا اترتے ہیں۔ چناچہ احناف کی رفع یدین اذناب خیل نہیں بلکہ عبادت ہے کیونکہ اللہ پاک کا بھی فرمان ہے کہ اقم الصلوٰۃ لذکری۔ پس یہ رفع یدین جو عیدین و وتر و تحریمہ کا ہے یہ بھی فرق کی وجہ سے الگ ہے اور قیاس مع الفارق ہونے کی وجہ سے یہ اعتراض بھی باطل ثابت ہوا۔


اب جس کے دل میں آئے وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کر سر عام رکھ دیا

قارئین ذی وقار

اس مختصر تحریر میں نہایت ہی اختصار سے اہل السنة والجماعة احناف کے صرف چند عدد دلائل پیش کیے ہیں انشاءاللہ العزیز اگر پڑھنے والا محترم بھائی تعصب و تنگ نظری سے اجتناب کرتے ہوئے اس تحریر کا مطالعہ کرے گا تو کم از کم دو باتیں یقینی طور پر سمجھ آجائیں گی ۔
وہ اللہ کے بندے جو دن رات صرف اور صرف ایک ہی رٹ لگاتے ہیں کہ اہل السنة والجماعة احناف کا دامن احادیث نبویہ ﷺ سے خالی ہے ان کے پاس صرف اور صرف فقہ حنفی ہے تو وہ اس بات میں سو فیصد جھوٹ بولتے ہیں ۔ہم نے انتہائی اختصار کے باوجود اپنے مدعٰی پر تیس احادیث نبوی ﷺ وآثار صحابہ و تابعین پیش کردیئے اگر تحریر بڑی ہوتی تو تعداد کئی گنا زیادہ ہوتی ۔
اہل السنة والجماعة حنفیہ جس پر عمل کرتے ہیں ( صرف اور صرف ایک مرتبہ ابتداء نماز میں رفع یدین کرتے ہے ) وہ مکمل مسئلہ قرآن کریم کی تفسیر اللہ کے نبی ﷺ کے عمل اور ارشادات کے ساتھ ساتھ صحابہ اور تابعین سے ثابت ہے ۔

نہایت ہی اہم گذارش

چونکہ اہل السنة والجماعة احناف کا مسلک متعلق رفع یدین سن 150 ہجری میں مدون ہوچکا تھا لہذا اگر کوئی اہل علم ہمارے پیش کردہ دلائل پر سندًا اعتراض کرنا چاہے تو اسے 150 ہجری سے قبل متوفی راوی پر بحث کرنا ہوگی بعد میں آنے والے پر جرح معتبر نہ ہوگی

کیونکہ ہمارا مسلک آج نہیں بلکہ 150 ہجری سے پہلے مدون ہوچکا تھا۔

فوائد
فائدہ نمبر
تما م ائمہ صحاح ستہ مقلد تھے
اما م بخاریؒ کو علامہ تقی الدین سبکی نے طبقات شافعیہ میں اور غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن خان نے ابجد العلوم میں شافعی المسلک لکھا ہے ۔

امام مسلم ؒکو شیخ عبداللطیف سندھی اور نواب صدیق حسن خان نے شافعی تسلیم کیا ہے ۔
امام ابوداودؒ کو شیخ ابو اسحاق شیرازی طبقات الفقہاء میں اور محدث کبیر حضرت سید محمد انو ر شاہ کشمیری ؒنے علامہ ابن تیمیہ کے طریق سے حنبلی المسلک لکھا ہے ۔

امام ابن ماجہ ؒکو حضرت شاہ ولی اللہ حنبلی فرماتے ہیں ۔

امام ترمذی ؒ کو معارف السنن ج۱/ص۲۲ پر شافعی المسلک لکھا ہے

امام نسائیؒ بقول حضرت شاہ عبدالعزیزؒ اور نواب صدیق حسن خان شافعی المسلک تھے۔
معارف السنن ج۱/ص۲۲‚ظفر المحصلین باحوال المصنفین

فائدہ نمبر
غیر مقلدین کے نزدیک تقلید شرک اور اس کا انجام کفر ہے ۔
ہدیة المہدی ص۵۴ ‚نزل الابرار ج۱/ص۴

فائدہ نمبر
مسئلہ رفع یدین میں غیر مقلدین اور ہمارااختلاف دوام اور ہمیشگی میں ہے ان کے نزدیک حضرت ﷺ نے چار رکعت والی نماز میں ہمیشہ ہمیشہ دس مقامات پر رفع یدین فرمائی ہے اور اٹھارہ پر رفع یدین نہیں فرمائی اور ہمارے نزدیک حضرت ﷺ کا دوام ثابت نہیں ۔

فائدہ نمبر
چاررکعت والی نماز میں اٹھائیس حرکات ہیں نماز شروع کرتے ‚رکوع کو جاتے رکوع سے سراٹھاتے " پہلے سجدہ میں جاتے …پہلے سجدہ سے سر اٹھاتے دوسرے سجدہ میں جاتے دوسرے سجدہ سے سر اٹھاتے وقت ۔
اور یہی عمل ہر رکعت میں ہوتا ہے لہذا سات کو چار سے ضرب دینے سے حاصل ضر ب اٹھائیس بنتا ہے
مگرغیر مقلد صرف دس مقامات پر رفع یدین کرتے ہیں اور اٹھا رہ مقامات پر نہیں کرتے ۔نماز کی ابتداء رکوع کو جاتے رکوع سے سر اٹھاتے "اور تیسری رکعت کی ابتداء میں رفع یدین کرنا۔ چار رکعتوں میں دس مقامات بنیں گے ۔

فائدہ نمبر
غیر مقلدین کا مسنون طریقہ نماز
نماز کی ابتداء، رکوع کو جاتے ، رکوع سے سر اٹھاتے وقت اور تیسری رکعت کی ابتداء میں رفع یدین کرنا ۔
صلوٰة الرسول ص۰۶۱
یہ اللہ کے نبی ﷺ کا دائمی آخر عمر تک کا عمل ہے ۔
صلوة الرسول ص۱۰۲
نما ز میں رفع یدین (اختلافی )سنت موکدہ ہے ۔
صلوة الرسول ص۵۰۲
جو نماز اس طریقہ پر نہ پڑھی جائے وہ یقینا ناقص ہے ۔
صلوة الرسول ص۱۱۲
نوٹ صلوة الرسول مولفہ محمد صادق سیالکوٹی پر چھ جید غیر مقلد علماء کی تصدیقات ہیں اور چودہ مختلف اخبارات وجرائد کے توصیفی کلمات موجود ہیں۔ یعنی غیرمقلدین کے ہاں یہ عام اور معمولی کتاب نہیں ۔
لہذا
غیر مقلدین حضرات کو مندرجہ بالا فوائد کی روشنی میں
اللہ کے نبی ﷺ کے صحیح صریح غیر معارض ارشادات طیبہ سے اپنے عمل کے مطابق یہ ثابت کرنا ہوگا کہ اللہ کے نبی ﷺ پہلی اور تیسری رکعت کی ابتداء اور رکوع کو جاتے اورسر اٹھاتے وقت ہمیشہ رفع یدین کرتے رہے دوسری اور چوتھی رکعت کی ابتداء میں اور سجدوں کے درمیان کبھی رفع یدین نہیں فرمائی ۔
نیز چونکہ ان کے نزدیک تقلید شرک اور اس کا انجام کفر ہے لہذا انہیں ایسی کسی کتاب سے دلیل پیش کرنا ہوگی جو کسی مقلد یا مجتہد کی تالیف و تصنیف نہ ہو ۔

غیر مقلدین کے دلائل پر ایک نظر
عموماً غیر مقلدین اپنے طریقہ نماز (چار رکعت والی نماز میں پہلی او ر تیسری رکعت کی ابتداءمیں اور رکوع کو جاتے رکوع سے سر اٹھاتے ہمیشہ رفع یدین کرنا دوسری اور چوتھی رکعت کی ابتداء اور سجدوں کے درمیان کبھی بھی رفع یدین نہ کرنا ) کو مسنون طریقہ نماز بتلاتے ہوئے بطور دلیل حضرت ابن عمر ؓ حضرت مالک بن الحویرث ؓ حضرت وائل ابن حجر ؓ حضرت ابو حمید الساعدیؓ حضرت انس بن مالک ؓ اوردیگر اصحاب رسول ﷺ کی مرویات کتب حدیث سے نقل کرتے ہیں
مگر اچھی طرح ذہن نشین فرماویں
یہ روایا ت ان کا مستدل نہیں بن سکتیں کیونکہ
یہ تمام کتب حدیث مقلدین کی تصنیف کی ہوئی ہیں اور ہم فائدہ نمبر ۲ میں بیان کرچکے ہیں کہ غیر مقلدین کے نزدیک تقلید شرک ہے لہذا مشرکین کی تصنیفات سے دلیل پکڑنا ہر گز ہرگز درست نہیں ۔
غیرمقلدین بڑا شور مچاتے ہین کہ رفع یدین کے بغیر نماز نہیں تو اب ان سے میرا سوال ہے کہ رفع یدین فرض ہے یا واجب یا سنت متواترہ دائمہ
جو بھی کہیں لیکن ہر ایک کی تعریف دلیل کیساتھ
کوئی ایک صحیح حدیث دکھادیں جس مین آپ ﷺ نے فرمایا ہو کہ رفع یدین کے بغیر نماز نہیں ہوتی
یا آپ ﷺ نماز میں رع یدین کی فضیلت مسواک جتنی بیان کردیں
یا ایک صحیح حدیث دکلھا دیں جس میں آپ ﷺ نے نماز کا طریقہ سکھایا ہو اور اس مین رفع یدین کا ذکر کیا ہو

ان تمام مرویات میں کسی ایک مقام پر بھی اللہ کے نبی ﷺ سے یہ ثابت نہیں کہ جو اس اختلافی رفع یدین کو نہیں کرے گا اس کی نماز سنت کے مطابق نہیں ہوگی ۔
ان تمام روایات میں کسی ایک مقام پر بھی بسند صحیح صراحةً اللہ کے نبی ﷺ سے آخر عمر تک ہمیشہ ہمیشہ اختلافی رفع یدین کرنا ثابت نہیں کیونکہ اختلاف دوام رفع یدین میں ہے محض ثبوت میں نہیں ۔
ان تمام روایات میں کسی ایک حدیث میں بھی غیر مقلدین کا مکمل مسئلہ رفع یدین ثابت نہیں ۔
یعنی پہلی اور تیسری رکعت کی ابتداء اور رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے حضرت ﷺ کا ہمیشہ رفع یدین کرنا اور دوسری اور چوتھی رکعت کی ابتداء اور سجدوں کے درمیان کبھی بھی رفع یدین نہ کرنا ۔
کسی بھی روایت سے چار رکعت والی نماز میں دس مقامات پر رفع یدین کرنے اور اٹھارہ مقامات پر رفع یدین نہ کرنے کاحکم حضرت ﷺ سے ثابت نہیں
' کسی ایک روایت کے متعلق بھی حضرت ﷺ کے ارشاد سے اس کا صحیح ہونا ثابت نہیں ۔
ضروری گذارش
کیا صحاح ستہ میں سے ایک ،ایک اور صرف ایک ایسی صحیح ،صریح غیر معارض روایت پیش کی جاسکتی ہے جس میں حضرت کریم ﷺ کا ارشاد مبارک ہو ۔
چار رکعت والی نماز میں پہلی رکعت اور تیسری رکعت کی ابتداء اور رکوع کو جاتے اور سر اٹھاتے وقت ہمیشہ ہمیشہ رفع یدین کرنے کا حکم ہو اور دو سر ی و چوتھی رکعت کی ابتداء اور سجدوں میں رفع یدین نہ کرنے کا حکم ہو
جو شخص نماز میں ( اختلافی ) رفع یدین نہ کرے اس کی نماز سنت کے مطابق نہ ہوگی
بزبان نبوت ﷺ اس حدیث کا صحیح ہونا ثابت ہو
جس کتاب کا حوالہ دیا جائے وہ کسی مقلد کی تصنیف نہ ہو


مزید تفصیل کیلئے نور الصباح فی ترک رفع الیدین بعد الافتتاح کا مطالعہ کریں

جن حضرات کو جو بات بھی کرنی ہے اس کتابhttp://www.facebook.com/ismail.mardan.7547/media_set?set=a.511027965658186&type=3

No comments:

Post a Comment