Monday 7 September 2020

صُلح حدیبیہ، عہدِنبوی کی سیاست خارجہ کا شاہ کار

صُلح حدیبیہ، عہدِنبوی کی سیاست خارجہ کا شاہ کار

ایک کام یاب سیاست دان اور فاتح سپہ سالار وہ نہیں جو صرف میدانِ جنگ میں دشمن کوشکست فاش سے دوچار کرے، بلکہ درحقیقت اصل کام یاب سیاست دان اور فاتح سپہ سالار وہ ہے جو میدان مکالمہ میں ایسی شرائط منواکر اور مان کر صلح کرے، جس کے بعد کامیابیوں اور فتوحات کے راستے ہموار ہوجائیں اور تھوڑے ہی عرصے میں اس صلح کے ثمرات ملک، قوم اور ملت بلکہ آنے والی نسلوں تک پہنچیں۔ کیوں کہ بسا اوقات میدان جنگ میں فتح پانے والے میدان مکالمہ میں ایسی مات کھا جاتے ہیں کہ صدیوں تک ان کی فوج اور قوم سنبھالے نہیں سنبھل سکتی۔ پستی، ذلت، رسوائی اور شکست اس قوم کا مقدر بن جاتی ہے اور میدان جنگ میں فتح ان کے لئے کوئی قابلِ فخر بات نہیں رہتی۔ اس لئے جس بیدارمغزی، دوراندیشی اور چستی کی ضرورت میدان جنگ میں ہوتی ہے اس سے کہیں بڑھ کر میدان مکالمہ میں بیدار مغزی، دوراندیشی اور چستی کی ضرورت ہوتی ہے۔

اسی تناظر میں ہم صلح حدیبیہ کی شرائط کا مطالعہ کریں گے، کیوں کہ بظاہر صلح حدیبیہ کی شرائط میں آپ صلی الله علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شکست اور اہل مکہ کی فتح نظر آتی ہے اور ایسے لگتا ہے کہ مسلمانوں نے دب کر سخت اور کڑی شرائط پر صلح کی، لیکن نتائج مابعد بالکل اس کے برعکس نظر آتے ہیں، اس لئے ہمیں دیکھنا ہے کہ اس صلح کا کیا پس منظر تھا اور وہ کیا وجوہات اور مصلحتیں تھیں جن کو سامنے رکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ صلح کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس بیدارمغزی اور دوراندیشی کا ثبوت دیا اور مستقل قریب میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی سیاست خارجہ اور مسلمانوں کی اجتماعی زندگی پر اس صلح کے کیا فوائد، نتائج اور اثرات مرتب ہوئے؟

صلح حدیبیہ کا پس منظر:

صلح حدیبیہ کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے اس کا کچھ پس منظر جاننا ضروری ہے: ” سن چھ ہجری اسلامی تاریخ او رریاست مدینہ کا ایک اہم سال تھا۔ مدنی ریاست تین اہم دشمن قوتوں کے درمیان واقع تھی۔ شمال میں خیبر وغیرہ یہودی قوت کے مرکز تھے، شمال مشرق میں فزارہ وغطفان کے قبائل خیبر والوں کے حلیف تھے اور ان کی مسلمانوں سے بنتی نہ تھی اور جب بھی انہیں موقع ملتا مسلمانوں کی بستی پر تاخت کے درپے رہتے۔ تو جنوب میں مشرکین مکہ اور ان کے حلیف تھے، جو سب کے سب غم وغصے سے بے قرار اور مسلمانوں کے خلاف خار کھائے بیٹھے تھے اور سابقہ ناکامیوں کی جلن الگ تھی۔ آثار یہ نظر آرہے تھے کہ خیبر میں جابسے ہوئے (جلاوطنانِ مدینہ یعنی) بنی نضیر کی کوششیں رنگ لائیں گی اور یہود، غطفان اور قریش یہ سہ گانہ قوت مدینہ پر ہلہ بول دے گی، جس کی مدافعت مسلمانوں کے لیے آسان نہ تھی اور ایک ہی وقت میں تینوں قوتوں کے ساتھ لڑنا مسلمانوں کے لیے مشکل تھا۔ اگر مسلمان مکہ جاتے تو خطرہ تھا کہ اہل خیبر اور ان کے حلفاء مدینہ پر چڑھ نہ دوڑیں۔ اوراگر مسلمان خیبر جائیں تو اہل مکہ اپنے حلفاء سمیت مدینہ آکر اسے لوٹ نہ لیں، کیوں کہ مدینہ بیچوں بیچ واقع ہے۔ خیبر اس کے شمال میں کوئی پانچ منزل کی مسافت پر واقع ہے، تو مکہ اس کے جنوب میں بارہ منزل پر ہے۔ ان حالات میں سیاست دانی کا اقتضا یہی ہوسکتا ہے کہ ان دشمن قوتوں میں سے کسی ایک سے صلح کرکے دوسرے کے مقابلہ میں اس کو دوست، ورنہ کم ازکم غیرجانبدار بنا دیا جائے اور جب ایک سے فراغت ہو تو دوسرا خود ہی ہتھیار ڈال دے گا، پھر اسے سر زوری کی جرات نہ ہوگی۔ لیکن سوال یہ تھا کہ صلح مکہ والوں سے کی جائے یا خیبروالوں سے؟

چوں کہ خیبر کے حلیف ومعاون یعنی فزارہ وغطفان محض لوٹ مار کے شائق اور بالکل بے اصول خانہ بدوش عرب تھے، جب کہ یہود تمدنی اور نسلی وجود سے عربوں سے الگ تھے، ان کو اپنی جلاوطنی اور جائیداد کے لٹنے کا داغ تھا، جو جائیداد کی واپسی کے بغیر مٹ نہ سکتا تھا۔ سرمایہ داری کی وجہ سے کوئی معمولی فائدہ ان کو مطمئن نہ کرسکتا تھا اور نہہی ان کی بات پر کوئی اعتماد کیا جاسکتا تھا بلکہ یوں کہا جاسکتا ہے کہ خیبر کا مال دار مرکز نسبةً ایک غیرجنگ جو قوم کے قبضے میں ہونے سے آسان تر مال غنیمت تھا۔ جب کہ دوسری طرف مکہ مسلمانوں کے لیے بہت سی رعایتوں کا متقاضی تھا۔ مسلمان مہاجرین سب ہی مکی تھے اوراہل مکہ سب ان کے رشتہ دار تھے۔ کعبہ مسلمانوں کی نماز کا قبلہ اورحج کی منزل مقصود تھا۔ اہل مکہ کی تباہی سے زیادہ ان کا اسلام زیادہ مفید ہوسکتا تھا، کیوں کہ قریش کے معاشی اور تمدنی تعلقات تمام عرب سے تھے اور ان کی صلاحیتیں پورے عرب میں سب سے زیادہ تھیں، کیوں کہ ان میں بات کا پاس تھا، وہ دُھن کے پکے تھے، قومی مفاد کے لیے تن، من دھن سے لگ جاتے تھے۔ طبیعت مہمات پسند تھی، ادبی ذوق اور انتظام ملک کی قابلیت وملکہ بھی عام بدویوں کے مقابلے میں ان میں کہیں بڑھا ہوا تھا اور حالات سے یہ بھی ظاہر ہورہا تھا کہ اہل مکہ مسلمانوں کے معاشی دباؤ کے باعث اب واقعی صلح پر آمادہ ہوچکے تھے اور صرف لاج رکھنے کے لیے کسی اچھی شرط کے منتظر تھے۔ ان حالات میں معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے یہ سوچ کہ اگر حج کے مہینوں میں مکہ جائیں اور ارادہ طوافِ کعبہ اور قربانی وعمرہ کے لیے ہو اورقریش کو منہ مانگی شرطیں پیش کر دی جائیں تو کچھ تعجب نہیں کہ وہ صلح پر آمادہ ہوجائیں ۔“ (ڈاکٹر محمد حمیدالله: رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی سیاسی زندگی، دارالاشاعت کراچی، ص: 106-100)

دریں اثنا رسولِ کریم صلی الله علیہ وسلم کو مدینہ کے اندر یہ خواب بھی دکھلایا گیا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے صحابہٴ کرام مسجد حرام میں داخل ہوئے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے خانہ کعبہ کی کنجی لی اور صحابہ سمیت بیت الله کا طواف او رعمرہ کیا، پھر کچھ لوگوں نے سر کے بال منڈوائے اور کچھ نے کٹوانے پر اکتفا کیا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہٴ کرام کو اس خواب کی اطلاع دی تو انہیں بڑی مسرت ہوئی اورانہوں نے یہ سمجھا کہ اس سال مکہ میں داخلہ نصیب ہوگا۔ (مولانا صفی الرحمن مبارک پوری، الرحیق المختوم، لاہور، ص: 459)

مکہ کی جانب مسلمانوں کی روانگی او راہل مکہ کی جانب سے روکنے کی کوشش:

مدینہ طیبہ میں قابل کار مسلمان تین ہزار کے قریب تھے ۔ (رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی سیاسی زندگی، ص: 105)

آپ صلی الله علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ میں نمیلہ بن عبدالله لیثی کو عامل (گورنر) مقرر کیا۔ (ابوالفداء اسماعیل بن کثیر، البدایہ والنہایہ، ج 4، ص: 196)

اور چودہ سو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ عمرہ کا احرام باندھ کر ذی قعدہ کے شروع میں خاموشی کے ساتھ مکہ کی جانب روانہ ہوئے۔ قربانی کے جانور ساتھ تھے ارادہ محض مسالمانہ تھا، اس لیے جنگی ہتھیار تک نہیں تھے، سوائے تلواروں کے جو نیاموں میں تھیں۔ ایک جاسوس جو حالات معلوم کرنے کے لیے پیشگی بھیج دیا گیا تھا. اس نے آکر اثنائے راہ میں اطلاع دی کہ قریش کو پتہ چل چکا ہے اور مقابلے کی تیاریاں کررہے ہیں اور حلیف قبائل کو بھی جمع کررہے ہیں۔ اور خالد بن ولید دو سو سواروں کے ساتھ کراع الغمیم تک پہنچ چکے ہیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم خالد سے کتراکر دا ہنی طرف کا دشوار گزار راستہ اختیار کرکے حدیبیہ تک پہنچ گئے، جو مکہ سے بارہ میل کے فاصلے پر واقع ہے اور وہاں قیام کیا۔ (البدایہ والنہایہ، ج 4، ص: 197۔ سیرت النبی، ج 3، ص: 101۔ الرحیق المختوم، ص: 461)

سفارتی سرگرمیاں او ربیعتِ رضوان:

حدیبیہ آتے ہی سفارتی سرگرمیاں شروع ہوگئیں، قریش کے نمائندے اور کارندے آ آکر مقصد معلوم کرنے لگے، آخر رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنے دامادحضرت عثمان کو مکہ مکرمہ بھیجا کہ مختارِکل کی حیثیت سے گفت وشنید کریں ۔ (رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی سیاسی زندگی، ص: 106)

اور انہیں یہ بات سمجھائیں کہ ہم محض عمرہ کی نیت سے بیت الله کی تعظیم کے لیے آئے ہیں، ہمارا جنگ کا کوئی ارادہ نہیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کا پیغام اہل مکہ تک پہنچا دیا  اور اہل مکہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اس مقصد کے لیے روکے رکھا کہ باہم مشورہ کرکے حضرت عثمان کو ان کے لائے ہوئے پیغام کا جواب دیں۔ ادھر مسلمانوں میں یہ افواہ پھیل گئی کہ حضرت عثمان کو اہل مکہ نے شہید کردیا ہے۔ جب آپ صلی الله علیہ وسلم کو یہ اطلاع ملی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت عثمان کے انتقام اور اہل مکہ سے معرکہ آرائی کرنے پر صحابہ کرام کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بیعت لی۔ کسی نے موت پر تو کسی نے میدان چھوڑکر نہ بھاگنے پر بیعت کی۔ اس بیعت کو بیعت رضوان کہتے ہیں۔ (رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی سیاسی زندگی، والرحیق المختوم، ص: 465)

اسی کے بارے میں الله تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی: ﴿لَقَدْ رَضِیَ اللَّہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ إِذْ یُبَایِعُونَکَ تَحْتَ الشَّجَرَة﴾․(سورہ فتح: 18)

ترجمہ: ”الله مؤمنین سے راضی ہوا جب وہ آپ سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے۔“

صلح اور دفعات صلح:

بہرحال قریش نے صورتِ حال کی نزاکت محسوس کرلی، لہٰذا جھٹ سُہیل بن عمرو کو معاملاتِ صلح طے کرنے کے لیے روانہ کیا، تاکید کر دی کہ صلح میں لازماً یہ بات طے کی جائے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم اس سال واپس چلے جائیں اور ایسا نہ ہو کہ عرب یہ کہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم ہمارے شہر میں جبراً داخل ہوگئے اور ہم کچھ نہ کرسکے اور ہماری رسوائی ہو۔ (ابن ہشام، سیرة النبی، ج3، ص: 104)

ان ہدایت کو لے کر سہیل بن عمرو آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے، کچھ گفت وشنید کے بعد صلح کے دفعات یہ طے پائے:

1.        رسول الله صلی الله علیہ وسلم اس سال مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے بغیر واپس جائیں گے، اگلے سال مسلمان مکہ آئیں گے اور تین روز قیام کریں گے اور ان کے ساتھ سواری کا ہتھیار ہوگا یعنی میانوں میں تلواریں ہوں گی اور ان سے کسی قسم کا تعرض نہ کیا جائے گا۔

2.        دس سال تک فریقین جنگ بند رکھیں گے، اس عرصے میں لوگ مامون رہیں گے، کوئی کسی پر ہاتھ نہیں اٹھائے گا۔

3.    قبائل عرب میں سے جومحمد صلی الله علیہ وسلم کے عہد وپیمان میں داخل ہونا چاہے داخل ہوسکے گا او رجو قریش کے عہد وپیمان میں داخل ہونا چاہے داخل ہوسکے گا، جو قبیلہ جس فریق میں شامل ہوگا وہ اس فریق کا ایک جز سمجھا جائے گا، لہٰذا ایسے کسی قبیلے پر زیادتی ہوئی تو خود اس فریق پر زیادتی متصور ہو گی (اس دفعہ کے مطابق بنوخزاعہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے حلیف بنے اور بنوبکر نے قریش کا حلیف بننے کا اعلان کیا)۔

4.    قریش کا جو آدمی اپنے سرپرست کی اجازت کے بغیر یعنی بھاگ کر محمد صلی الله علیہ وسلم کے پاس جائے گا، محمد صلی الله علیہ وسلم اسے واپس کریں گے، لیکن محمد صلی الله علیہ وسلم کے ساتھیوں میں سے جو شخص (پناہ کی غرض سے بھاگ کر) قریش کے پاس آئے گا قریش اسے واپس نہ کریں گے۔ (الرحیق المختوم، ص: 466۔ البدایہ والنہایہ، ج 4، ص: 200)

سفیرِمکہ کا کچھ باتوں پر اَڑنا اور آپ صلی الله علیہ وسلم  کا اس کی باتوں کو مان لینا:

معاہدہ تحریر کیے جانے کے دوران اہل مکہ کے سفیر سہیل بن عمرو کچھ باتوں پر اَڑتے رہے، لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم ان باتوں کو معمولی نوعیت کا سمجھ کر اہل مکہ کے سفیر کی باتوں کو مانتے رہے، مثلاً: ”بسم الله الرحمن الرحیم“ پر سہیل نے اعتراض کیا کہ ہم رحمن کو نہیں جانتے، اس لیے عرب کے دستور کے مطابق ”باسمک اللھم“ لکھو، آپ صلی الله علیہ وسلم نے مان لیا کیوں کہ اس میں کوئی شرک یا بت پرستی کی بات نہیں تھی، جب آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ لکھوایا کہ یہ وہ معاہدہ ہے جو محمد رسول الله اور سہیل بن عمرو کے مابین طے پایا، تو سہیل نے لفظ ”رسول الله“ پر اعتراض کیا کہ اگر ہم آپ کو رسول مانتے تو جھگڑا کس چیز پر؟ اس لیے رسول الله کا لفظ کاٹ دو۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے کاٹ دیا کیوں کہ اس میں مسلمانوں کا کوئی نقصان نہیں تھا۔ اسی اثنا میں سہیل بن عمرو کے بیٹے ابوجندل (رضی اللہ عنہ)، جو مسلمان ہوچکے تھے اور باپ نے ان کو قید کر رکھا تھا، وہ بیڑیاں گھسیٹتے ہوئے مسلمانوں کے پاس پہنچے کہ مجھے مشرکین کی قید سے چھڑا کر اپنے ساتھ لے چلو، لیکن جب سہیل نے اسے واپس کیے بغیر صلح سے انکار کردیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ابوجندل کو یہ تسلی دے کر واپس کردیا کہ آپ تھوڑا اور صبر کریں، الله آپ کے لیے خلاصی کی راہ نکال لے گا۔ (البدایہ والنہایہ، ج 4، ص: 208)

اسی دوران قریش کے پرجوش او رجنگ باز ستر اسی کے قریب نوجوانوں نے صلح کی کوشش کو سبوتاژ کرنے کے لیے مسلمانوں میں گھس کر ہنگامہ برپاکر نے کی، کوشش کی لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم کے جاں بازوں نے انہیں گرفتار کرلیا، مگر آپ صلی الله علیہ وسلم نے صلح کی خاطر انہیں معاف کردیا اور چھوڑدیا ۔ (الرحیق المختوم، ص: 466)

اسی بارے میں الله تعالیٰ کا یہ ارشاد نازل ہوا: ﴿وَہُوَ الَّذِیْ کَفَّ أَیْْدِیَہُمْ عَنکُمْ وَأَیْْدِیَکُمْ عَنْہُم بِبَطْنِ مَکَّةَ مِن بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَکُمْ عَلَیْْہِم﴾․ (سورہ فتح، آیت: 24)

ترجمہ: ”وہی ہے جس نے بطنِ مکہ میں ان کے ہاتھ تم سے روکے او ر تمہارے ہاتھ ان سے روکے اس کے بعد کہ تم کو ان پر قابو دے چکا تھا۔“

اس معاہدہ کی دفعات کا حاصل:

اس معاہدے ( جسے اہل مکہ اپنی فتح او رعام مسلمان اپنی شکست سمجھ رہے تھے یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے دقیقہ رس مدبر بھی اپنی بے چینی چھپا نہ سکے) کے مندرجات پر جب بنظر غائر دیکھا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ درحقیقت مسلمانوں کی ایک بہت بڑی فتح اور دوسری فتوحات کے لیے پیش خیمہ تھا۔ جو شخص بھی اس کی دفعات کا ان کے پس منظرسمیت جائزہ لے گا اسے کوئی شبہ نہ رہے گا کہ یہ مسلمانوں کی فتح مبین اور نصر عزیز تھی اور رسول صلی الله علیہ وسلم کی سیاست خارجہ کا شاہ کار تھا۔

دفعہ نمبر:1.  اس کے مطابق اگرچہ اہلِ مکہ مسلمانوں کواس سال مسجد حرام سے روکنے میں کام یاب رہے، لیکن حقیقت میں یہ دفعہ اس پابندی کے خاتمے کا اعلان تھا جو قریش نے مسلمانوں پر مسجدِحرام میں داخلے سے متعلق عائد کر رکھی تھی، مگر ظاہر ہے کہ یہ وقتی او ربے حیثیت فائدہ تھا۔ (الرحیق المختوم، ص: 469)

دفعہ نمبر: 2.  (جس کے مطابق دس سال تک جنگ بندی کا اعلان تھا) یہ چیز تو مسلمان خود چاہتے تھے کہ قریش مسلمانوں سے صلح کرلیں اور مسلمانوں کی جنگوں میں غیر جانب دار رہیں۔ یہ دفعہ درحقیقت مسلمانوں کی قوت کو تسلیم کرنا تھا، کیوں کہ قریش نے اب تک مسلمانوں کے وجود کو تسلیم ہی نہیں کیا تھا اور انہیں نیست ونابود کرنے کا تہیہ کیے بیٹھے تھے، انہیں انتظار تھا کہ ایک نہ ایک دن یہ قوت دم توڑ دے گی۔ اس کے علاوہ قریش جزیرة العرب کے دینی پیشوا اور دنیاوی صدر نشین ہونے کی حیثیت سے اسلامی دعوت اور عام لوگوں کے درمیان پوری قوت کے ساتھ حائل رہنے کے لیے کوشاں رہتے تھے۔ اس پس منظر میں دیکھیے تو صلح کی جانب محض جھک جانا ہی مسلمانوں کی قوت کا اعتراف اور اس بات کا اعلان تھا کہ اب قریش اس قوت کو کچلنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ (ایضاً)

دفعہ نمبر:3.  (جس میں عرب قبائل کو یہ آزادی دی گئی تھی کہ وہ محمد صلی الله علیہ وسلم اور قریش میں سے جس کے حلیف بننا چاہیں بن سکتے ہیں ) اس کے پیچھے صاف طو رپر نفسیاتی کیفیت کار فرما نظرآتی ہے کہ قریش کو دنیاوی صدر نشینی اور دینی پیشیوائی کا جو منصب حاصل تھا اسے انہوں نے بالکل بھلا دیا تھا اور اب صرف اپنی پڑی تھی۔ ان کو اس سے کوئی سروکار نہ تھا کہ بقیہ لوگوں کا کیا بنتا ہے؟ یعنی اگر سارے کا سارا جزیرہ العرب حلقہ بگوش اسلام ہو جائے تو قریش کو اس کی کوئی پروا نہیں اور وہ اس میں کسی طرح کی مدخلت نہ کریں گے ۔ اس دفعہ پر غور کیا جائے تو درحقیقت قریش کے عزائم اور مقاصد کے لحاظ سے یہ ان کی شکست فاش اور مسلمانوں کی فتح مبین کا برملا اظہار تھا۔ آخر اہل اسلام اور اعدائے اسلام کے درمیان جو خوں ریز جنگیں پیش آئی تھیں ان کا منشا اورمقصد اس کے سوا کیا تھاکہ عقیدے او ردین کے بارے میں لوگوں کو مکمل آزادی او رخود مختاری حاصل ہوجائے، یعنی اہل اسلام یہ چاہتے تھے کہ اپنی آزاد مرضی سے جو شخص چاہے مسلمان ہو اور جو چاہے کافر رہے، کوئی طاقت ان کی مرضی اور ارادے کے سامنے روڑا بن کر کھڑی نہ ہو، مسلمانوں کا یہ مقصد تو ہرگز نہ تھا کہ دشمن کے مال ضبط کیے جائیں، انہیں موت کے گھاٹ اتارا جائے اورانہیں زبردستی مسلمان بنایا جائے، یعنی مسلمانوں کا مقصد صرف وہی تھا جسے علامہ اقبال نے یوں بیان کیا ہے #

شہادت ہے مطلوب ومقصود مؤمن

نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی

(علامہ اقبال: بالِ جبریل، ص: 86)

دفعہ نمبر:4.   اس دفعہ پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ قریش نے مسلمانوں کو مذکورہ تین رعایتیں دے کر صرف ایک رعایت حاصل کی، جو اس دفعہ میں مذکور ہے، لیکن یہ رعایت حددرجہ معمولی اور بے وقعت تھی اور اس میں مسلمانوں کاکوئی نقصان نہ تھا، کیوں کہ یہ معلوم تھا کہ جب تک مسلمان مسلمان رہے گا، الله، رسول اور مدینة الاسلام سے بھاگ نہیں سکتا، اس کے بھاگنے کی صرف ایک صورت ہوسکتی تھی کہ وہ مرتد ہوجائے، خواہ ظاہراً، خواہ درپردہ اور ظاہر ہے کہ جب مرتد ہوجائے تو مسلمانوں کو اس کی ضرورت نہیں، بلکہ اسلامی معاشرے میں اس کی موجودگی سے کہیں بہتر ہے کہ وہ الگ ہوجائے اور یہی وہ نکتہ ہے جس طرف رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد میں اشارہ فرمایا تھا: ”انہ من ذھب منا الیھم فابعدہ الله“․ (صحیح مسلم مع شرح النواوی، ج 5، ص: 477) ”جو ہمیں چھوڑکر ان مشرکین کی طرف بھاگے اسے الله نے ہم سے دور کردیا“۔ باقی رہے مکے کے باشندے جو مسلمان ہوچکے تھے یا مسلمان ہونے والے تھے تو ان کے لیے اگرچہ اس معاہدے کی رو سے مدینہ میں پناہ گزیں ہونے کی گنجائش نہ تھی، لیکن الله کی زمین تو بہرحال کشادہ تھی۔ حبشہ کی سر زمین تو پہلے بھی مسلمانوں کے لیے اپنی آغوش واکر چکی تھی، جب مدینے کے باشندے اسلام کا نام بھی نہیں جانتے تھے، اسی طرح آج بھی زمین کا کوئی ٹکرا مسلمانوں کے لیے اپنی آغوش کھول سکتا تھا۔ اور یہی بات تھی جس کی طرف رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد میں فرمایا: ”ومن جاء نا منھم سیجعل الله فرجاً ومخرجاً“․ (ایضاً) ”ان کا جو آدمی ہمارے پاس آئے الله اس کے لیے کشادگی اور نکلنے کی جگہ بنادے گا“۔ پھر اس قسم کے تحفظات سے اگرچہ بظاہر قریش نے عزت وقار حاصل کیا تھا، مگر یہ درحقیقت قریش کی سخت نفسیاتی گھبراہٹ، پریشانی، اعصابی دباؤ اور شکستگی کی علامت تھی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں اپنے بت پرست سماج کے بارے میں سخت خوف لاحق تھا اور وہ محسوس کررہے تھے کہ ان کا یہ سماجی گھروندا ایک کھائی کے ایسے کھوکھلے او راندر سے کٹے ہوئے کنارے پر کھڑا ہے جو کسی بھی دم ٹوٹ کر گرنے والا ہے، لہٰذا اس کی حفاظت کے لیے اس طرح تحفظات حاصل کر لینا بہت ضروری ہے۔ دوسری طرف رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے جس فراخ دلی کے ساتھ یہ شرط منظور کی (کہ قریش کے یہاں پناہ لینے والے کسی مسلمان کو واپس نہ طلب کریں گے) وہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کو اپنے سماج کی ثابت قدمی او رپختگی پر پورا اعتماد تھا اور اس قسم کی شرط آپ صلی الله علیہ وسلم کے لیے قطعاً کسی اندیشے کا سبب نہ تھی۔ (الرحیق المختوم، ص: 472 ,471)

صلح حدیبیہ کے فوائد، نتائج واثرات:

صلح کے بعد تین دن تک آپ صلی الله علیہ وسلم نے حدیبیہ میں قیام فرمایا، پھر روانہ ہوئے تو راستے میں یہ سورت اتری: ﴿إِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحاً مُّبِیْناً﴾․ (سورہ فتح، آیت: 1) ”ہم نے تجھ کو کھلی ہوئی فتح عطا کی.“ تمام مسلمان جس چیز کو شکست سمجھ رہے تھے خدا نے اس کو 'فتح مبین' کہا۔ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بلاکر فرمایا: یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ انہوں نے تعجب سے پوچھا کہ: کیا یہ فتح ہے! ارشاد ہوا کہ: ہاں۔ صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو تسکین ہوگئی اور مطمئن ہوگئے۔ (صحیح مسلم شرح النواوی، ج 5، ص: 478)

علامہ شبلی نعمانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: نتائج مابعد نے اس رازِ سربستہ کی عقدہ کشائی کی، اب تک مسلمان اور کفار ملتے جلتے نہ تھے۔ اب صلح کی وجہ سے آمدورفت شروع ہوئی، خاندانی اور تجارتی تعلقات کی وجہ سے کفار مدینہ میں آتے، مہینوں قیام کرتے اور مسلمانوں سے ملتے جلتے تھے، باتوں باتوں میں اسلامی مسائل کا تذکرہ آتا رہتا تھا۔ اس کے ساتھ ہر مسلمان اخلاص، حسن عمل، نیکو کاری، پاکیزہ اخلاقی کی ایک زندہ تصویر تھا۔ جو مسلمان مکہ جاتے تھے ان کی صورتیں یہی مناظر پیش کرتی تھیں ۔ اس سے خودبخود کفار کے دل اسلام کی طرف کھنچے آتے تھے۔ اس معاہدہ صلح سے لے کر فتح مکہ تک اس قدر کثرت سے لوگ اسلام لائے کہ کبھی نہیں لائے تھے۔ (علامہ شبلی نعمانی، سیرت النبی، دارالاشاعت، کراچی، ج 1، ص: 266)

اسی دوران حضرت خالد بن ولید، عمروبن عاص اور عثمان بن طلحہ رضی الله عنہم مسلمان ہوگئے، جب یہ لوگ خدمت نبوی میں حاضر ہوئے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”مکہ نے اپنے جگرگوشوں کو ہمارے حوالے کردیا ہے۔“ اس بارے میں سخت اختلاف ہے کہ یہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کس سن میں اسلام لائے۔ اسماء الرجال کی عام کتابوں میں اسے سن 8 ہجری کا واقعہ بتایا گیا ہے۔ لیکن نجاشی کے پاس حضرت عمروبن عاص رضی الله عنہ کے اسلام لانے کا واقعہ مشہور ہے جو سن7 ھ کا ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہے کہ حضرت خالد بن ولید اور عثمان بن طلحہ رضی الله عنہم اس وقت مسلمان ہوئے تھے جب حضرت عمرو بن عاص رضی الله عنہ حبشہ سے واپس آئے تھے، کیوں کہ انہوں نے حبشہ سے واپس آکر مدینہ کا قصد کیا تو راستے میں ان دونوں سے ملاقات ہوئی۔ اور تینوں حضرات نے ایک ساتھ خدمتِ نبوی میں حاضر ہوکر اسلام قبول کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سبھی حضرات سن 7ھ کے اوائل میں مسلمان ہوئے۔ (مولانا صفی الرحمن مبارک پوری، الرحیق المختوم، ص: 474)

امام زہری کا بیان ہے کہ: صلح حدیبیہ جیسی فتح اس سے پہلے اسلام میں حاصل نہیں ہوئی تھی۔ اس سے پہلے مسلمانوں او راہل مکہ کی ملاقات صرف لڑائیوں میں ہوتی تھی، لیکن جب صلح ہوئی اور جنگ نے سامان حرب رکھ دیا اور لوگ ایک دوسرے سے مامون ہوگئے تو ایک دوسرے سے ملنے لگے، بات چیت کرنے لگے اور بحث مباحثہ ہونے لگا اور جوبھی کچھ ہوش حواس اور عقل رکھتا تھا اس نے جب بھی اسلام کے بارے میں گفتگو کی وہ مسلمان ہوگیا، پچھلے اُنیس سال میں اتنے لوگ مسلمان نہیں ہوئے جتنے ان دو سال (صلح حدیبیہ سے فتح مکہ تک) میں لوگ مسلمان ہوئے۔ (البدایہ والنہایہ، ج 4، ص: 474)

صلح حدیبیہ کے فوائد وثمرات کو مختصراً اس طرح سمیٹا جاسکتا ہے:

اس میں پہلی مرتبہ عرب میں اسلامی ریاست کا وجود باقاعدہ تسلیم کیا گیا۔ اس سے پہلے تک عربوں کی نگاہ میں محمد صلی الله علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کی حیثیت محض قریش اور قبائل عرب کے خلاف خروج کرنے والے ایک گروہ کی تھی اور وہ ان کو برادری سے باہر (Outlaw) سمجھے تھے۔ اب خود قریش ہی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے معاہدہ کرکے سلطنت اسلامی کے مقبوضات پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اقتدار مان لیا اور قبائل عرب کے لیے یہ دروازہ بھی کھول دیا کہ ان دونوں سیاسی طاقتوں میں سے جس کے ساتھ چاہیں حلیفانہ معاہدات کرلیں۔

مسلمانوں کے لیے زیارت بیت الله کا حق تسلیم کرکے قریش نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ گویا یہ بھی مان لیا کہ اسلام کوئی بے دینی نہیں ہے، جیسا کہ وہ اب تک کہتے چلے آرہے تھے، بلکہ عرب کے مسلمہ ادیان میں سے ایک ہے اور دوسرے عربوں کی طرح اس کے پیرو بھی حج وعمرہ کے مناسک ادا کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ اس سے اہل عرب کے دلوں کی وہ نفرت کم ہوگئی جو قریش کے پروپیگنڈے سے اسلام کے خلاف پیدا ہوگئی تھی۔

دو سال کے لیے جنگ بندی کا معاہد ہ ہوجانے سے مسلمانوں کو امن میسر آگیا اور انہوں نے عرب کے تمام اطراف ونواح میں پھیل کر اس تیزی سے اسلام کی اشاعت کی کہ صلح حدیبیہ سے پہلے پورے 19 سال میں اتنے آدمی مسلمان نہ ہوئے تھے جتنے اس کے بعد دو سال کے اندر مسلمان ہوگئے۔ یہ اسی صلح کی برکت تھی کہ یا تو وہ وقت تھا جب حدیبیہ کے موقع پر حضور صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ صرف چودہ سو آدمی آئے تھے یا دو ہی سال کے بعد جب قریش کی عہدشکنی کے نتیجے میں حضور صلی الله علیہ وسلم نے مکہ پر چڑھائی کی تو دس ہزار کا لشکر آپ صلی الله علیہ وسلم کے ہمرکاب تھا۔

قریش کی طرف سے جنگ بندی ہوجانے کے بعد آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کو یہ موقع مل گیا کہ اپنے مقبوضات میں اسلامی حکومت کو اچھی طرح مستحکم کرلیں اور اسلامی قانون کے اجرا سے مسلم معاشرے کو ایک مکمل تہذیب وتمدن بنا دیں۔ یہی وہ نعمتِ عظمیٰ ہے جس کے متعلق الله تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:﴿الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الإِسْلاَمَ دِیْناً﴾․ (سورہ مائدہ، آیت: 3)

ترجمہ: ”آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے۔“

قریش سے صلح کے بعد جنوب کی طرف سے اطمینان نصیب ہو جانے کا فائدہ یہ بھی ہواکہ مسلمانوں نے شمال عرب اور وسطِ عرب کی تمام مخالف طاقتوں کو بآسانی مسخر کرلیا۔ صلح حدیبیہ پر تین ہی مہینے گزرے تھے کہ یہودیوں کا سب سے بڑا گڑھ خیبر فتح ہوگیا اور اس کے بعد فدک، وادی القریٰ، تیما اور تبوک کی یہودی بستیاں اسلام کے زیرنگیں آتی چلی گئیں۔ پھر وسطِ عرب کے تمام قبیلے بھی، جو یہود اور قریش کے ساتھ گٹھ جوڑ رکھتے تھے، ایک ایک کرکے تابع فرمان ہوگئے۔ اس طرح حدیبیہ کی صلح نے دو سال کے اندر ہی عرب میں قوت کا توازن اتنا بدل دیا کہ قریش اور مشرکین کی طاقت دب کر رہ گئی اور اسلام کا غلبہ یقینی ہوگیا۔

اور محض تین سال کے مختصر عرصے میں مسلمانوں نے پرامن ذرائع سے اپنی مملکت کو تقریباً دس گنا پھیلاکر پورے جزیرہ نما عرب کو اپنا مطیع بنالیا اور وہاں سے رومی اور ایرانی اثرات بالکل خارج کرکے ایک ایسی مستحکم حکومت قائم کردی جو پندرہ ہی سال میں تین براعظموں پر پھیل گئی۔ اور جو اس سے ٹکرایا پاش پاش ہوکر رہ گیا۔ اور جس نے سر تسلیم خم کیا اور اسلام کی رنگ وزبان سے بالاتر قومیت میں برابری کے حصے کے ساتھ شریک ہوگیا۔ (ڈاکٹر محمد حمید الله:، رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی سیاسی زندگی: 107)

یہی وہ صلح حدیبیہ ہے جسے عہدِ نبوی کی سیاست خارجہ کا شاہ کار کہنا بے جانہ ہوگا۔ :: ڈاکٹر بشیر احمد رند :: #Sa_Sagar

https://saagartimes.blogspot.com/2020/09/blog-post_46.html



No comments:

Post a Comment