Wednesday 23 September 2020

رشتے: جن کے بغیر انسانی زندگی ادھوری ہے

 رشتے: جن کے بغیر انسانی زندگی ادھوری ہے


اللہ تعالیٰ کا نظام ہی ایسا ہے کہ یہاں جو بھی انسان آتا ہے وہ کسی رشتے کی بدولت آتا ہے۔ مرد وعورت کا نکاح ہوتا ہے اور ان سے ایک اور انسان پیدا ہوتا ہے، جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے:

وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖۤ  اَنۡ خَلَقَ لَکُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ اَزۡوَاجًا لِّتَسۡکُنُوۡۤا اِلَیۡہَا وَ جَعَلَ بَیۡنَکُمۡ  مَّوَدَّۃً  وَّ رَحۡمَۃً ؕ اِنَّ  فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ  لِّقَوۡمٍ  یَّتَفَکَّرُوۡنَ (سورہ الروم آیت نمبر: 21)

ترجمہ: اور اس کی ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تم میں سے بیویاں پیدا کیں، تاکہ تم ان کے پاس جاکر سکون حاصل کرو، اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت کے جذبات رکھ دیے، یقینا اس میں ان لوگوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں جو غوروفکر سے کام لیتے ہیں۔ 

عام طور پر نکاح سے پہلے میاں بیوی الگ الگ ماحول میں پرورش پاتے ہیں، لیکن نکاح کے بعد ان میں ایسا گہرا رشتہ پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے پچھلے طرز زندگی کو خیر باد کہہ کر ایک دوسرے کے ہورہتے ہیں، ان کے درمیان یک بیک وہ محبت پیدا ہوجاتی ہے کہ ایک دوسرے کے بغیر رہنا ان کے لئے مشکل ہوجاتا ہے، جوانی میں ان کے درمیان محبت کا جوش ہوتا ہے اور بڑھاپے میں اس پر رحمت اور ہمدردی کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ (آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی)

انسان کے پیدا ہونے کے ساتھ ہی پہلا رشتہ ماں باپ کے ساتھ بنتا ہے، پھر بہن بھائی، ماموں، چچا، دادادادی اورنانا نانی وغیرہ، یعنی اگر ہم یہ کہیں تو بے جا نہ ہوگا کہ انسان کی زندگی کی تکمیل ہی رشتوں سے ہوتی ہے۔ خونی رشتوں کے علاوہ بھی کچھ رشتے انسان کی زندگی میں آتے ہیں۔ آج کی نشست میں ہم انسانی رشتوں اور ان کی اقسام کو سپردِ قلم کریں گے۔

(1) اللہ کے بنائے ہوئے رشتے:

انسان نے جس خاندان اور قوم میں پیدا ہونا ہوتا ہے وہ اللہ کی طرف سے طے ہوتا ہے جس میں انسان کی مرضی نہیں چلتی۔ یہ والدین اور بہن بھائیوں کا رشتہ ہے، جس کو حقیقی رشتہ کہا جا تا ہے۔ اس لیے ان کا حق بھی دوسرے تمام رشتوں سے زیادہ ہے یعنی ان کے ساتھ نباہ زیادہ کرنا ہے، ان سے درگزرکا معاملہ زیادہ کرنا ہے نیز آپ کے نیکی کے پہلے حق دار بھی یہی لوگ ہیں۔ ہمارے ہاں بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو دنیا کے باقی رشتوں میں تو کمال کے ہوتے ہیں مگرحقیقی رشتوں میں صفر۔ جبکہ یہ بات تصدیق شدہ ہے کہ جو انسان اپنے حقیقی رشتوں کے ساتھ نباہ کرتا ہے اللہ اس کی عمر میں برکت ڈال دیتا ہے۔ البتہ ایک چیز مستثنیٰ ہے کہ خدانخواستہ جب انسان کا اپنا کوئی سگا حد سے زیادہ گناہ گار یا بے دین ہوجائے یا اس حالت پر پہنچے کہ دوسرے انسانوں کو اس سے خطرہ لاحق ہو تو اس سے دُوری ہی میں عافیت ہے۔ اسی طرح بعض اوقا ت انسان کو اپنے رشتہ داروں کے ساتھ تعلق رکھنا مشکل ہوجاتا ہے تو اس کا بہترین حل یہ ہے کہ رشتے کو بالکل ہی چھوڑا نہ جائے بلکہ اس کو ہلکا کیا جائے۔ جیسے پرانے زمانے میں لوگ رات کو سوتے ہوئے لالٹین کی لو کو کم کردیتے تھے ایسا ہی آپ بھی اس رشتے کی لو کم کردیں۔ حقیقی رشتوں کو نبھانے میں اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ یہ رشتہ بدلے کی بنیاد پرنہ ہو، کہ وہ ہماری خوشی میں نہیں آیا تو میں کیوں جاؤں؟ بلکہ اپنی طرف سے ہر طرح سے یہ رشتہ نبھانے کی کوشش کریں، اپنی ذمہ داری صرف اللہ کی رضا کے لیے ادا کریں۔ آزمائش کا نام ہی یہی ہے کہ کوئی انسان آپ کے ساتھ اچھا نہیں پھر بھی آپ اس کے ساتھ اچھا کررہے ہیں۔

(2) وہ رشتے جو آپ خود بناتے ہیں:

اس رشتے میں انتخاب اور فیصلہ آپ کا اپنا ہوتا ہے۔ یہ بیوی، دوست اور کولیگز ہوسکتے ہیں۔ اس کا حکم یہ ہے کہ جب آپ نے کہہ دیا اور مان لیا کہ میں تمہارے ساتھ چلنے کو تیار ہوں تو پھر اپنے کہے ہوئے کی لاج رکھنی ہے اور اس رشتے کو نبھانا ہے۔ اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ اگر کسی انسان کو پرکھنا ہو کہ وہ کس قدر اچھا ہے تو اس کے پرانے ملازم اور دوست دیکھو کہ کتنے اس کے ساتھ ہیں۔ پچھلے دِنوں ہمیں ایک الیکٹریشن کی ضرورت تھی، مجھے رضوان صاحب نے کہا کہ ہمارا اپنا الیکٹریشن بازار سے دُگنی قیمت مانگ رہا ہے۔ میں نے کہا کوئی بات نہیں، اسی کو بلوالیں، کیونکہ میرا اپنا نظریہ یہ ہے کہ جس انسان نے آپ کے ساتھ وقت گزارا ہو تو ایک طرح سے اس کے ساتھ اپنائیت کا تعلق بن جاتا ہے، لہٰذا اس تعلق کو ہمیشہ قائم رکھنا چاہیے۔ اسی طرح مخلص دوست بھی اللہ کی طرف سے ایک تحفہ ہوتا ہے جو ہر آزمائش اور مصیبت میں انسان کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔

3) وہ لوگ جو آپ کی زندگی میں خود آجاتے ہیں:

انسان کی زندگی میں کوئی نہ کوئی خلا ایسا ہوتا ہے جس میں لوگ آتے ہیں، بیٹھتے ہیں اور کچھ عرصے بعد خود ہی چلے جاتے ہیں۔ جیسے بس میں سفر کرتے ہوئے، کسی کمپنی میں جاب کرتے ہوئے یا کسی مجبوری میں ساتھ جڑنے والا، مولانا رومی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے کوے اور ہنس کو ایک تالاب میں اکھٹے پانی پیتے دیکھا، میں بڑا حیران ہوا کیونکہ دونوں کی جنس مختلف ہے۔ جب پاس جاکر دیکھا تو معلوم ہوا کہ دونوں کی ٹانگیں زخمی ہیں۔ تب مجھے پتا چلا کہ ان کو مجبوری نے جوڑا ہے۔ اس تیسرے رشتے میں آپ کے ساتھ تمام کائنات شامل ہوتی ہے اور اس کی بنیاد زیادہ تر آپ کی اخلاقیات پر ہوتی ہے۔ کبھی کبھار کوئی ایک تعلق ایسا بھی ہوتا ہے جس میں یہ تینوں رشتے نکل آتے ہیں۔ جیسے آپ کسی ڈاکٹر کے پاس اپنی ضرورت سے گئے۔ اس نے آپ کا چیک اپ کیا، درمیان میں کھانے کا وقت ہوا. اس نے آپ کو کھانے پر روکا۔ عمومی تعلق کے بعد آپ کی اس کے ساتھ دوستی بن گئی۔ باتیں کرتے کرتے آپ پر یہ انکشاف ہوا کہ وہ ڈاکٹر آپ کا دور کا رشتے دار بھی ہے، تو اب وہ انجان شخص آپ کا واقف، دوست اور رشتے دار بھی بن گیا۔

بہترین رشتہ کون سا؟

ان تین طرح کے رشتوں میں بہترین رشتہ وہ ہے جو آپ کو فائدہ دے، آپ کی ترقی میں معاون ہو اور آپ کا ’’دی بیسٹ‘‘ جگائے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی احادیث ایسی ہیں جو معاشرتی اصلاح پر مبنی ہیں اور میری خواہش ہے کہ یہ چیزیں منبر و محراب سے زیادہ سے زیادہ بولی جائیں تاکہ ہمارے معاشرے میں اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں، جیسا کہ آپ کے فرمان کا مفہوم ہے:

۱۔ دنیا کی بہترین متاع، نیک صالحہ عورت (بیوی) ہے۔ (سنن ابن ماجہ: حدیث نمبر: 797) (اَلدُّنْیَا مَتَاعٌ وَخَیْرُ مَتَاعِ الدُّنْیَا الْمَرْاَۃُ الصَّالِحَۃُ)  

۲۔ اچھی بیوی وہ ہے جس پر تمہاری نگاہ پڑے اور تمہارا دل خوش ہوجائے۔ (خیرالنسآء امراٗۃ اذا نظرتھا سرتک) [صحيح • انظر حديث رقم -٣٢٩٨- في صحيح جامع]

بیوی ایک ہم سفر کا نام ہے اور ہم سفر، ہم خیال بھی ہوتو زندگی کا سفر خوب صورت بن جاتا ہے۔ بہترین بیوی وہ ہے جو اپنے شوہر کا ’’دی بیسٹ‘‘ اور باطن کی اچھائیاں جگا دے۔ معاشرے میں ہمیں اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو یہ رویے سکھانے کی ضرورت ہے کیونکہ عورت وہ ذات ہے جو انسان کے اندر کا فرشتہ جگاسکتی ہے، وہ ایک کیڑے کو بھی ہاتھی بناسکتی ہے۔ اسی موقع پر عقل مندوں نے کہا ہے کہ ’’ہر کامیاب مرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔‘‘

عورت دنیا کی سب سے بڑی حوصلہ افزا ئی والی شخصیتـ:

دنیا کی تاریخ میں سب سے بڑا پریشر اگر کسی انسان پر آیا ہے تو وہ نبی اور پیغمبر ہے۔ کیونکہ ان کو پوری امت کی اصلاح کا کام اور ذمہ داری دی جاتی ہے اور ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جب پہلی بار وحی اتری تو اس کے بعد وہ گھر تشریف لائے اور اپنی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ: «زملوني زملوني» مجھے چادر اوڑھادو۔  پھر فرمایا کہ: «لقد خشيت على نفسي» "مجھے اپنے آپ پر خوف آرہا ہے." تو ا س وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جن الفاظ کے ساتھ حوصلہ افزائی کی وہ سنہرے الفاظ کے ساتھ لکھنے قابل ہیں۔ ان جملوں کونصاب میں شامل کرنا چاہیے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: «كلا والله ما يخزيك الله ابدا، إنك لتصل الرحم، وتحمل الكل، وتكسب المعدوم، وتقري الضيف، وتعين على نوائب الحق» اللہ کی قسم! ہرگز نہیں، اللہ آپ کو رسوا نہیں کرے گا۔ کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، اور غریبوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، اور مفلس کو کماکر دیتے ہیں، اور مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کے کاموں میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ (صحیح البخاری، کتاب الوحی: 5904 - 4957ان الفاظ میں حسنِ سلوک اور معاشرتی اچھائیوں کا ذکر کیا گیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات سے حوصلہ دیا گیا کہ چونکہ آپ عبادت گزار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین اخلاق والے بھی ہیں، اسی لیے اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معاشرتی زندگی ایک کامیاب زندگی ہے جو کہ لوگوں کے لئے ایک نمونہ ہے۔ اسی طرح وہ دوست بھی آپ کے لئے بہترین ہے جو آپ کے اند ر کی اچھائیوں کو جگادے۔ اسی وجہ سے اسلام نے نیک صحبت میں بیٹھنے اور غلط محفلوں میں نہ جانے کا حکم دیا ہے کیونکہ صحبت اور ماحول انسان کے اندر شر اور خیر دونوں کو جگاتا ہے۔

رشتہ ہمیشہ تین چیزیں مانگتا ہے:

دنیا کے کسی بھی رشتے کے لئے تین چیزیں خوراک کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ 

1: وقت، 

2: توجہ اور

3: قربانی 

ہیں۔ ہمارے اکثر رشتے اس لئے ناکام ہوجاتے ہیں کہ ہم یہ تین چیزیں نہیں دے پاتے حالانکہ یہ کسی بھی رشتے کے لئے بنیاد ہے اور اگر بنیاد کمزور ہو تو پھر عمارت بھی کمزور ہی ہوگی۔ ہم سب اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ ہمارا معاشرہ رشتوں کے گلدستوں سے سجا ہوا ہے۔ ہر دُکھ، سکھ میں ہمارے رشتے دار ہی ہمارے بازُو اور حوصلہ بنتے ہیں۔ اللہ کی اس نعمت پر شکر ادا کرنے کا مقام ہے۔ اپنی حقیقی رشتوں اور وہ رشتہ جس کو آپ پوری زندگی نباہنا چاہتے ہیں، اس میں وقت، توجہ اور قربانی ضرور شامل کریں، تب ہی وہ رشتہ پائیدار ہوگا اور آپ کے لئے خوشی اور سکون کا باعث بھی۔ (قاسم علی شاہ) ( تدوین و اضافہ: ایس اے ساگر)

https://saagartimes.blogspot.com/2020/09/blog-post_23.html

 ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے

عن عبدالله بن مسعود: الخَلقُ عيالُ اللَّهِ، فأحبُّ الخلقِ إلى اللَّهِ مَن أحسنَ إلى عيالِهِ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ساری مخلوق اللہ کی عیال(گویا اس کا کنبہ) ہے اس لئے اللہ کو زیادہ محبوب اپنی مخلوق میں وہ آدمی ہے جو اللہ کی عیال (یعنی اس کی مخلوق) کے ساتھ احسان اور اچھا سلوک کرے

Aap ﷺ Ne Farmaya Sari Makhlooq Allah ki Ayal (Goya Uska Kunba) Hai Is Liye Allah Ko Ziyada Mahboob Apni Makhlooq Me Wo Aadmi Hai Jo Allah Ki Ayal (Yani Uski Makhlooq) Ke Saath Ahsan Or Accha Sulook Karne Wala Ho

आप ﷺ ने फ़र्माया सरि मख्लूक़ अल्लाह की अयाल है (जेसे के उसका कुनबा) है इस लिये अल्लाह को ज़ियदा महबूब अपनी मख्लूक़ मे वो आदमी है जो अल्लाह की अयाल (यानी उसकी मख्लूक़) के साथ अहसान ओर अच्छा सुलूक कर्ने वाला हो

*Hadees Ka Matlab:

Islam Har Insan Ke Saath Bhalai Or Acchai Karne Ka Hukum Deta Hai Bager Uski Shakal,Rang,Roop,Dharam,Or Zaat Ki Taraf Dekhe Hue

البيهقي (ایس اے ساگر)



No comments:

Post a Comment