Wednesday 2 September 2020

تعلیمی اداروں میں سزا کا اسلامی تصور

تعلیمی اداروں میں سزا کا اسلامی تصور

تعلیمی اداروں میں تعلیم کے لئے تشدد اور مارپیٹ کا تصور بہت شدید قسم کی وابستگی رکھتا ہے، لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ سخت مار کے بغیر بچے تعلیم حاصل نہیں کرسکتے ہیں۔ یہ ایک غلط تصور ہے، اس سے بچے کو تعلیم سے نفرت بھی ہوسکتی ہے اور تعلیمی سلسلے کو ادھورا چھوڑکر بھاگ بھی جاتے ہیں۔      
درس وتدریس کے سلسلے میں قرآنی تعلیمات یہ ہیں کہ آپ نرم خوئی اور رحم دلی سے کام لیں اور درشت مزاجی سے گریز کریں۔ اللہ تعالیٰ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہیں: 
’’فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَہُمْ، وَلَوْکُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ۔‘‘ (۱) 
’’پس اللہ کی رحمت ہی تھی جس کی بنا پر آپ لوگوں کے لئے نرم خو ہوگئے اور اگر آپ درشت مزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہوجاتے۔‘‘ 
اسی طرح پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ’’میں ہر معاملہ میں آسانی کرنے والا استاذ بناکر بھیجا گیا ہوں۔‘‘(۲)     
ان واضح ارشادات کی روشنی میں تعلیم کو مارنے سے نہیں، بلکہ پیار سے عام کرنے کی ضرورت ہے۔ آج المیہ یہ ہے کہ بعض اساتذہ بچوں کو بڑی بے رحمی سے مارتے ہیں اور جب چھڑی اٹھاتے ہیں تو پھر روئی کی طرح دھنک کر رکھ دیتے ہیں، ان کو اس وقت کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ چھڑی بچے کے جسم پر کہاں لگ رہی ہے، اس سے نقصان کا کس قدر اندیشہ ہے۔ بعض اساتذہ کو دیکھا گیا ہے کہ وہ بچوں کی ہڈی پر زور زور سے چھڑیاں مارتے ہیں، بچوں کو تھپڑ، مکے، گھونسے اور لاتیں مارتے ہیں۔ بچوں کے ہاتھ پاؤں کو بے دردی سے مروڑتے ہیں۔ یہ سب چیزیں قرآن وسنت، خلف وسلف کے افکار اور فقہ اسلامی کے سراسر خلاف ہیں۔     
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ طلباء کرام کو جرائم پر سزادی جاسکتی ہے۔ اس طرح علم وادب سکھانے کے لئے بھی بقدرِ ضرورت سزا کی اجازت ہے، جس کے لئے شریعت نے حد مقرر کی ہے۔ جرائم پر سزا کا تصور قرآن نے تسلیم کیا ہوا ہے، مثلاً خاوند کو اجازت ہے کہ وہ اپنی بیوی کو تعظیم کے دائرے میں رکھے۔ نفسیاتی سزا کے طور پر اس سے ہم بستری نہ کرے۔ اگر نفسیاتی سزا بے اثر ہوتی ہے تو اُسے معمولی طور پر جسمانی سزا دے سکتا ہے۔ باپ کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ بچوں کو راہِ راست پر لانے کے لئے مارے۔ اس معاملہ میں جس حدیث کا حوالہ آتا ہے اس کے مطابق بچوں کو سات سال کی عمر میں کہنا چاہئے کہ وہ نماز پڑھیں اور دس سال کی عمر میں انہیں مارنے کا بھی حق ہے۔ شارحین حدیث نے اس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ بچوں کو تعلیمی اداروں میں مارنا اسلامی تعلیمات سے روگردانی نہیں ہے، البتہ کڑی سزا اور بچوں کو مرعوب کرنے کے لئے موقع بہ موقع ڈنڈا چلانا مضر اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ سزا فقہ اسلامی کی روشنی میں فقہ اسلامی میں یہ تصریح موجود ہے کہ اساتذہ کی اول ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ اپنے شاگردوں کو بہت شفقت سے پڑھانے کا اہتمام کریں، وقتاً فوقتاً ان کو ترغیب دینے اور شوق دلانے کا سلسلہ رکھیں۔ اگر کبھی غلطی ہوجائے تو زبانی سمجھانے کی کوشش کریں۔ اگر سمجھانا مفید نہ ہو تو زبانی تنبیہ کریں، کچھ ڈانٹ پلادیں (لیکن تنبیہ اور ڈانٹ میں غیرمہذب کلمات استعمال کرنے سے اجتناب کریں) اگر یہ بھی مفید نہ ہو تو پھر بوقت ِضرورت بقدرِ ضرورت سزا دینے کی بھی گنجائش ہے، مگر سزا دینے میں چند باتوں کی احتیاط کی جائے:     
۱: ۔۔۔۔۔ اتنا نہ مارا جائے کہ جسم پر کوئی گہرا نشان ہوجائے: علامہ حصفکی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:  
’’إذا ضرب المعلم الصبی ضربًا فاحشًا فإنہ یعزر و یضمنہ لومات ۔‘‘ (۳) 
’’جب استاد بچے کو سخت مارے تو اس استاد کو تعزیرکی جائے گی، اگر بچہ مرگیا تو وہ اس کا ضامن ہوگا ۔‘‘     
علامہ ابن عابدین رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: 
’’لیس لہ أن یضربھا فی التأدیب ضربًا فاحشًا وھوالذی یکسر العظم أویحرق الجلد أو یسوّدہٗ۔‘‘(۴) 
’’استاد کے لئے یہ جائز نہیں کہ شاگرد کو ادب دلانے کے لئے سخت مارے، سخت مارنے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی ہڈی ٹوٹے، کھال اُکھڑے یا کھال سیاہ ہوجائے۔‘‘     
۲: ۔۔۔۔ سزابچے کے تحمل سے زیادہ نہ ہو: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک معلم سے فرمایا: ’’إیّاک أن تضرب فوق الثلاث فإنک إذا ضربتَ فوق الثالث اقتص اللّٰہُ منک۔‘‘ (۵) 
’’تین ضرب سے زیادہ مت مارو، اگر تم تین ضرب سے زیادہ ماروگے تو اللہ تعالیٰ تم سے قصاص لے گا۔‘‘     
۳:۔ ۔۔۔۔ چہرے پر نہ مارا جائے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرے پر مارنے سے منع فرمایا ہے۔ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: چہرے پر مارنے کی ممانعت اس وجہ سے ہوئی ہے کہ یہ اعظم الاعضاء ہے اور اجزاء شریفہ اور لطیفہ پر مشتمل ہے، اگر کسی نے چہرے پر تھپڑ مارا تواس پر ضمان لازم ہے، جیساکہ علامہ ابن عابدین رحمة اللہ علیہ نے اس بات پر تصریح کی ہے: 
’’ فلوضربہٗ علی الوجہ أوعلٰی المذاکیر یجب الضمان بلاخلاف ۔‘‘ (۶) 
’’اگر کسی کو چہرے پر مارا یا اندام مخصوصہ پر تواس پر بغیر کسی خلاف کے ضمان واجب ہوگی۔‘‘     
۴:۔ ۔۔۔ بلاقصور نہ مارا جائے: اگر کسی استاد نے بلاقصور بچے کو مارا تو یہی استاذ سزا پانے کے قابل ہے۔ شامی میں ہے: ’’إذا ضربھا بغیر حق  وجب علیہ التعزیر وإن لم یکن فاحشا۔‘‘ (۷) 
’’جب (بچے) کو بغیر قصور مارا تو اس پر تعزیر واجب ہوگی، اگر چہ اس نے سخت نہیں مارا ہو۔‘‘     
درمختار کے اس قول ’’لہٗ إکراہ طفلہ علی تعلیم القرآن وأدب وعلم‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ بدتمیزی کرنا اور سبق میں کوتاہی کرنا دونوں قصور ہیں جن کی وجہ سے بچوں کو سزا دینا جائز ہے۔     
۵: ۔ ۔۔۔ سزا ضربِ معتاد سے زیادہ نہ ہو: خواہ کیفاً ہو (جیسے بچے کو الٹا مارنا) خواہ کماً ہو (جیسے تین ضربوں سے زیادہ مارنا) خواہ محلاً ہو (جیسے چہرے اور اندام مخصوصہ پر مارنا) شامی میں ہے کہ اگر کسی نے ضرب معتاد سے زیادہ مارا تو اس پر ضمان واجب ہوگا۔ سزا اور جدید تعلیمی نفسیات کی تحقیق جدید تعلیمی نفسیات کی تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ طلبہ کو اخلاقی جرائم پر سزا دی جاسکتی ہے، اس کے علاوہ جسمانی سزا طلبہ کے تعلیمی عمل پر بُرا اثر ڈالتی ہے، لہٰذا حتیٰ الامکان جسمانی سزا سے معلم گریز کرے۔ سزا طالب علم کی عزتِ نفس اورخودداری مجروح کرتی ہے۔ استاد کے خلاف نفرت پیدا کرتی ہے اور بسا اوقات طالب علم سلسلۂ تعلیم ہی ختم کردیتا ہے، لہٰذا استاد کو بچوں کی نفسیات سے پوری طرح واقف ہونا چاہئے۔ امام غزالی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: 
تدریس کے دوران استاد کو طالب علم کی نفسیات کے مطابق اپنے تدریسی امور سرانجام دینے چاہئیں۔ 
مسلم مفکرین: تعلیم اور سزا
 ۱: ۔۔۔۔۔ ابن خلدون رحمۃ اللہ علیہ: خوب یاد رکھئے! تعلیم کے سلسلے میں بے جا مارپیٹ اور ڈانٹ ڈپٹ مضر ہے، خصوصاً چھوٹے بچوں کے حق میں، کیونکہ یہ استاد کی نااہلی اورغلط تربیت کی نشانی ہے۔ جن کی نشوونما ڈانٹ ڈپٹ اور قہر وتشدد سے ہوتی ہے، خواہ وہ پڑھنے والے بچے ہوں یا لونڈی غلام یا نوکر چاکر، ان کے دل ودماغ پر استاد کا قہر ہی چھایا ہوتا ہے۔ بے چاروں کی طبیعت بجھ کر رہ جاتی ہے، امنگ وحوصلہ پست ہوجاتا ہے، شوق ودلچسپی جاتی رہتی ہے اور طبیعت میں مستی پیدا ہوجاتی ہے، بلکہ بعض اوقات تودماغ معطل ہوکر رہ جاتا ہے۔ تشدد سے جھوٹ اور بدباطنی پیدا ہوتی ہے اور خود داری سلب ہوجاتی ہے، گویا جبر وتشدد بچوں کو مکروفریب اور دغابازی کی تعلیم دیتا ہے۔ (۸) 
۲… امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ: استاد کو بچوں کی بدسلوکی پر نصیحت کرنا چاہئے، لیکن سزا کے معاملے میں اُسے کھلے عام اور طوالت سے پرہیز کرنا ہوگا، کیونکہ اس سے طالب علم اور استاذ کے درمیان احترام کا پردہ ہٹ جاتا ہے۔(۹)
 ۳… ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ: استاذ کو کڑی سزا دینے کا حق نہیں، تاوقتیکہ وہ اس کے والد یا سرپرست سے اجازت نہیں لے لیتا۔(۱۰)
 ۴… معلم تیونس Al.Qalishi: استاد صاحب ناراض ہو تو اس حالت میں اس کو مارنا نہیں چاہئے، کیونکہ ایسے موقع پر اس کے ذاتی احساسات حالات کو مسخ کرسکتے ہیں۔ اسی معلم نے ایک اور اصول پر زور دیا ہے، وہ یہ ہے کہ استاذ کو ذاتی وجوہات کی بنا پر سزا نہیں دینی چاہئے.(۱۱) 
----------------------------------------
۱: ۔۔۔۔۔ آل عمران: ۱۵۹۔        
۲: ۔۔۔۔۔ مسلم، ج: ۲، ص: ۱۱۰۴۔       
 ۳: ۔۔۔۔۔ الدرالمختار، ج: ۴، ص: ۷۹، دارالفکر بیروت۔ 
۴: ۔۔۔۔۔ رد المحتار، ج: ۴، ص: ۷۹۔    
۵: ۔۔۔۔۔ بحوالہ ردالمحتار، ج: ۶، ص: ۴۲۶۔    
۶: ۔۔۔۔۔ رد المحتار، ج: ۶، ص: ۵۶۶۔ 
۷: ۔۔۔۔۔ فتاویٰ شامی، ج:۴، ص: ۷۹۔                
۸: ۔۔۔۔۔ مقدمہ ابن خلدون، حصہ دوم، ص: ۴۶۵۔ 
۹: ۔۔۔۔۔ اردو ترجمہ اسلامک سسٹم آف ایجوکیشن، ط: مجید بک ڈپو، لاہور، ص: ۳۷۳ تا ۴۲۳۔               
۱۰: ۔۔۔۔۔ ایضاً۔            
۱۱: ۔۔۔۔۔ ایضاً۔ :: نقلہ: #ایس_اے_ساگر


No comments:

Post a Comment