Friday 18 September 2020

محرمِ اسرارِ دیں ومشیخیت حدیث کے مسند نشیں: حضرت العلامہ مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری رحمہ اللہ (١٣٦٠هجري =١٩٤٠ء-١٤٤١هجري = ٢٠٢٠ء)

محرمِ اسرارِ دیں ومشیخیت حدیث کے مسند نشیں: حضرت العلامہ مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری رحمہ اللہ (١٣٦٠هجري =١٩٤٠ء-١٤٤١هجري = ٢٠٢٠ء)

-------------------------------
--------------------------------

یوں تو گلستانِ علم وفن اور مرغزارِ دین و دانش "دارالعلوم دیوبند" میں کھلنے اور کھل کر شش جہات  معطر کردینے والا ہر پہول اپنے جلو میں الگ الگ رنگ وبو بسائے ہوا ہوتا ہے "ہر گلِ را رنگ وبوے دیگر است"؛ لیکن  دارالعلوم دیوبند کی  معاصر بلکہ ماضی قریب کی شخصیتوں میں جس قابل فخر سپوت کی حیثیت" نابغہ روزگار" کے بطور مسلم رہی ہے ان میں ممتاز اور اہم نام حضرت الاستاذ علامہ مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری رحمہ اللہ کا بھی ہے۔

 میکدہ فکر وفن "دارالعلوم دیوبند" کے اس ساقیِ مستانہ کے جرعہ کش  وبادہ نوش اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ گوناگوں خوبیوں اور کمالات کے جامع تھے، ذہین وفطین تھے، محرمِ اسرار دین تھے، مفسرقرآن تھے،  وسیع النظر محدث تھے، گہرائی وگیرائی کے حامل بالغ نظر ودور اندیش فقیہ تھے، استنتاجی، استنباطی  واستخراجی اوصاف سے مالا مال زود نویس مؤلف تھے، علم وعمل کے پیکر فیض رساں مقبول واعظ تھے، حق گو، جری اور بے باک مصلح تھے، نکتہ سنج، نکتہ داں، حلم مزاج، خوش طبع، خوش مزاج، باوقار، بلند حوصلہ، بلند نگاہ، زہد واستغناء،  صبر وقناعت وخود داری کے پیکرمحسن ومربی تھے، امانت ودیانت میں اپنی  مثال آپ  تھے، سادگی اور بے تکلفی کا مجسمہ تھے۔ جامعیت، اعتدال، جمال وکمال کا حسین امتزاج تھے، آپ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے ، آپ کی ہمہ جہت صلاحیت اور جو ہر ذاتی کے ایک ایک پہلو پہ ہزاروں صفحات لکھے جائیں گے۔

ان تمام متنوع کمالات کے ساتھ آپ کی ایک انفرادی حیثیت اور امتیازی شناخت تفہیمی لیاقت اور ترسیلی قوت ہے، تقریر ہو یا تحریر! آپ کا انداز تدریس و تحریر البیلا،  منفرد، اچھوتا، سحر انگیز اور دل فریب ہوتا تھا، مشکل سے مشکل ترین اور غامض ودقیق مباحث کو اپنے اسلوب خاص اور ترتیب دلکش سے چٹکیوں میں حل کردیتے تھے۔ حضرت الاستاذ رحمہ اللہ  اپنی  اس  مشک بار اثر انگیزی اور ممتاز وخداداد ترسیلی قوت وموثر وپرکشش انداز تفہیم کے اعتبار سے اپنے ہم عصروں میں  ممتاز نظر آتے ہیں۔

اس معجز نما اور کرشماتی انداز کا ہی اثر تھا کہ دارالحدیث تحتانی اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود آپ کے درس میں  تنگ پڑجاتی، درس کا رعب اور آپ کا جاہ و جلال دیدنی ہوتا ، بام و در پہ سکوت طاری ہوتا، طلبہ پروانہ نچھاور ہوتے ۔ آپ کے درس سے غیرحاضری کا شاید ہی کوئی طالب علم سوچتا، پورےعالمانہ وقار اور جاہ و جلال کے ساتھ مسند نشیں ہوتے، مجتہدانہ ومحققانہ شان سے درایت وروایت کی جامعیت کے ساتھ  ایسے مرتب انداز میں حدیث پہ گفتگو فرماتے کہ مسائل دو اور  دو چار کی طرح نکھڑ کر ذہن نشیں ہوجاتے۔

یوں تو آپ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے، آپ  کی ذات مختلف اوصاف وکمالات، محاسن اور خوبیوں کا حسین مرقع تھی؛ تاہم  میرے مشاہدے اور مطالعے کی حد تک آپ کی شخصیت پہ دارالعلوم دیوبند کی تدریسی زندگی کی چھاپ نسبتا گہری بلکہ غالب تھی، گلہائے رنگ رنگ میں سے آپ کی تدریسی شان اور رنگ و آہنگ  سب سے جدا وممتاز تھی، یعنی آپ دیگر تمام محاسن کے اعتراف کے علی الرغم بطور خاص آپ کی تدریسی  خوبیاں بے مثال تھیں، پیچیدہ عبارت،  مشکل مباحث اور دقیق مقامات کی ایسی دلچسپ تشریح ،  کیف افزا اور دلنشیں تفہیم فرماتے کہ ذہن نا رسا میں سارے مباحث گویا انڈیل دیتے تھے، آپ کا طریقہ تدریس وترسیل بڑا ہی مثالی، موثر، دلچسپ اور ماہرانہ تھا، آپ کے حلقہ درس میں افتادگی یا بوریت نام کی کوئی چیز نہ ہوتی، موضوع کتاب کی تفہیم وتسہیل کے لیے اختیار کردہ  آپ کا اچھوتا انداز واسلوب  تقلیدی نہیں؛ بلکہ تخلیقی واختراعی  ہوتا، ایک سال تک پیہم استفادے کے بعد ہم نے آپ کی تدریسی امتیازات وخصوصیات جاننے کی جو اپنی سی ناتمام کوشش کی وہ کچھ یوں ہوسکتی  ہے:

*  زیر تدریس مضمون کتاب  پہ  آپ مکمل عبور، دسترس  ومہارت رکھتے  تھے۔

*  پڑھائے جانے والے مضمون کو ازبر ومستحضر ،اعادہ وجائزہ  کے ساتھ  ذہن میں مرتب ومنظم بھی کرکے آتے۔

*  درسی نصاب میں دستیاب مواد پہ اکتفا نہ کرتے؛ بلکہ دیگر منتشر ومتفرق حقائق کے لئے غیر نصابی کتابوں سے بھی مراجعت کرتے۔یعنی کہ پورے فن پہ حاوی ہوکر پڑھاتے۔

* معصوم اذہان پہ اپنی تبحر علمی، کثرت مطالعہ، اور مرعوبیت  کی دھاک بٹھانے کی بجائے، طلبہ کے ذہنی اور نفسیاتی تقاضوں سے ہم آہنگ، حشو وزوائد سے پاک، قدر ضرورت، سہل وسبک، مختصر ودلنشین انداز میں مسائل کی تشریح کرتے۔

*  پیش کردہ تقریر درس پہ طلبہ کے استدراکات، علمی اعتراضات ومناقشات کو خندہ پیشانی سے سنتے، مطمئن کرنے کی کوشش فرماتے۔ یہ انداز طلبہ میں اکتسابی دلچسپی کی نمو وفروغ اور شوق ودلچسپی کے اضافے کا باعث بنتا۔ 

* دوران درس طلبہ کی جذباتیت، احساس، دلچسپیوں اور ذہانت واستعداد  کا خاص خیال رکھتے، حوصلہ شکن اور جذبات مجروح کرنے والے کرخت، درشت  فقروں یا انداز ہم نے کبھی نہیں دیکھا۔

* وقت کے حد درجہ پابند تھے، اپنی ذمہ داریوں اور متعلقہ فرائض کا  آپ کو  شدید احساس تھا۔

* آپ کے علم وعمل میں پوری مطابقت تھی۔

*  نظم وضبط، اخلاص، سچائی، امانت ودیانت، صبر وتحمل، محنت واستقامت کے پیکر تھے۔

ان خصوصیات وامتیازات کی وجہ سے آپ کی تدریس بے حد مقبول تھی،اس سے   طلبہ کی ذہنی صلاحیتوں میں وسعت واستحکام اور خود اعتمادی پیدا ہوتی تھی ۔ 

ہمارا دورے کا سال 1999عیسوی مطابق 1419 ہجری کا ہے، جب دورے کی  درسگاہ دارالحدیث تحتانی ہوا کرتی تھی،  سامنے کی سیٹ پر شیخ کے بالکل محاذات اور قاری العبارہ والی مخصوص نشست کے بازو میں جگہ لینے میں بامراد ہوگیا تھا، ہمارے سال دورحدیث شریف میں درس کا نظام الأوقات کچھ  اس طرح سے تھا: 

(1)    مسلم شریف اول مع مقدمہ / حضرت مولانا قمرالدین صاحب مدظلہ (پہلی گھنٹی، چھ ماہ) 

(2)    مسلم شریف جلد  ثانی حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی ( پہلی گھنٹی، آخری چھ ماہ)

ترمذی ثانی  حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب (دوسری گھنٹی) 

ترمذی اول و طحاوی شریف (حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری رحمہ اللہ  (تیسری گھنٹی) 

بخاری شریف اول حضرت شیخ نصیر احمد خان صاحب بلند شہری رحمہ اللہ (چوتھی گھنٹی)

 شمائل ترمذی حضرت مولانا عبد الخالق صاحب  مدراسی ( پانچویں گھنٹی، ہفتے میں چند دن) 

سنن  ابن ماجہ شریف حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوری رحمہ اللہ( پانچویں گھنٹی) 

سنن ابی داؤد شریف ثانی، حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی مدظلہ (چھٹی گھنٹی)

سنن ابی داؤد شریف  اول حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی (چھٹی گھنٹی) 

ترمذی شریف اول  حضرت مفتی سعید صاحب پالنپوری رحمہ اللہ (بعد مغرب) 

 بخاری شریف ثانی حضرت مولانا شیخ عبدالحق صاحب اعظمی رحمہ اللہ (بعد عشاء) 

موطا امام مالک  حضرت مولانا  قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوری حفظہ اللہ (روز جمعہ) 

 موطا امام محمد حضرت مفتی محمد  امین صاحب پالنپوری حفظہ اللہ (روز جمعہ) 

ہر استاذ کی اپنی ایک شان اور اپنا مخصوص و منفرد انداز تھا، کسی کے درس میں فقہی انداز غالب ہوتا تو کسی  کے یہاں درایت حدیث پر زور دیا جاتا۔ کسی کا درس  اسماء الرجال پر محققانہ نقد وتبصرہ کا مظہر ہوتا تو کسی کے یہاں عشق نبوی کا دلکش نظارہ دیکھنے کو ملتا، کہیں جلال تو کہیں جمال، کسی کی سادگی پر مرنے کو جی چاہتا، تو کسی کا رعب ودبدبہ سے استقامت اور عزم  کا درس ملتا، غرضیکہ ایک سے ایک  اصحاب فضل و کمال اور ارباب علم و تحقیق کا حسین سنگم،  جہاں سے تشنگان علوم اپنے اپنے ظرف کے مطابق نہایت ہی ذوق و شوق کےساتھ اسرار و حکم جمع کرنے میں مصروف کار نظر آتے۔

طلبہ کے ساتھ شفقت، مہربانی، خیر خواہی اور ان کی جذباتیت، وجدان، احساس، دلچسپیوں اور ذہانت واستعداد  کا خاص خیال رکھنے کی ایک حسین یاد گار ذکر کرنے کو جی چاہتا ہے. ہمارے  دورے کا سال تھا، ہم نے اپنے رفقاء گرامی قدر مفتی شمشیر حیدر قاسمی اور مفتی مجتبی حسن قاسمی کے اشتراک سے  طالبعمانہ بساط کے مطابق حدیث شریف سے متعلق عربی کتابوں وشروحات  کا اچھا خاصہ ذخیرہ جمع کرلیا تھا، جن کتابوں تک رسائی ہمارے دسترس سے باہر تھی، ان سے استفادے کے لئے دارالعلوم دیوبند کے پرشکوہ کتبخانہ سے رجوع کیا جاتا، لیکن چونکہ کتب خانہ کھلنے اور بند ہونے خصوصا عربی شروحات سے استفادے کے وہی اوقات ہوتے  تھے جو درس کے اوقات  تھے، جس کی وجہ استفادے کی کوئی شکل نہیں بن پارہی تھی؛  اس لئے رفقاء سے مشورہ کرکے یہ طے پایا کہ حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد صاحب رحمہ اللہ سے رجوع کیا جائے، ممکن ہے ان سے مل کر استفادے کی کوئی مناسب راہ نکل آئے؛ چناں چہ ایک درخواست تیار کی گئی اور اس کو  لیکر حضرت استاذ محترم کے آستانے پر حاضری دی گئیں  درخواست میں دو باتوں کی گزارش کی گئی تھی: 

(1) رات میں کم ازکم ایک بجے تک کتب خانہ کھولے جانے کا نظم ہو (تاکہ دورہ حدیث شریف کے جو طلبہ گیارہ کبھی ساڑھے گیارہ بجے تک حضرت شیخ ثانی سے بخاری شریف جلد ثانی کا سبق پڑھ کر مطالعہ کرنا چاہیں بآسانی مطالعہ کرسکیں).

(2) مسلم شرئف جلد ثانی کے لئے کسی حنفی محدث کی کوئی شرح کتب خانہ میں ابتک نہیں آئی  ہے؛  لہذا تکملہ "فتح الملہم" کتب خانہ میں منگوادی جائے تاکہ باذوق طلبہ اس سے اپنی علمی تشنگی بجھاسکیں، حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ  نے درخواست پڑھ کر ہماری حوصلہ افزائی فرمائی اور ارشاد فرمایا: مولانا عبدالخالق صاحب مدراسی سے ملو!  ہم بھی ان سے کہہ دیں گے؛  چنانچہ ہم لوگ واپس آگئے اور مغرب بعد مسجد رشید میں حضرت مولانا عبد الخالق صاحب مدراسی مدظلہ کے پاس  حاضر ہوگئے، حضرت والا دامت برکاتہم کی خدمت عالیہ میں اپنے مطالبات پیش کردیئے۔ حضرت والا دامت برکاتہم نے ہماری گزارش کی تحسین فرمائی اور دوسرے ہی دن سے حسب درخواست رات کے ایک بجےتک کتب خانہ کھلنے کا نظم فرمادیا، اور ایک سیٹ 'تکملہ فتح الملہم' بھی کتب خانہ میں فراہم کردیا گیا (ہمیں ایسا محسوس ہوا کہ "فتح الملہم" کا وہ  سیٹ حضرت کا ذاتی ہے جسے حضرت نے ہماری درخواست پر فوری طور پر کتب خانے میں دے دیا) پھر  چند ہی دنوں کے بعد "فتح الملہم" کے متعدد نسخے کتب خانے میں آگئے۔ یہ واقعہ آپ کی خرد نوازی ، حوصلہ افزائی اور افراد سازی کی بہترین صلاحیت کا حسین مظہر ہے جو آپ کے جوہر ذاتی کا طرہ امتیاز تھا۔

آپ کی جامع الکمالات شخصیت کی دوسری انفرادی شان معارف ولی اللہی اور علوم نانوتوی کی توضیح وترجمانی ہے، ویسے تو آپ کی مستقل تصانیف، شروحات،  مراجع وتعلیقات کی تعداد تو پچاس کے قریب پہونچتی ہے ؛ لیکن ان تمام تحریری کاوشوں میں سب سے مشہور ، فائق اور مفید ترین بے نظیر اور عظیم ترین علمی کارنامہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (1114 ہجری  1176 ہجری) کی "حجة الله البالغة"  کی اردو اور عربی زبانوں میں شروحات لکھنا ہے 

اردو زبان میں رحمة الله الواسعة  کے نام سے پانچ ضخیم جلدوں تقریبا چھتیس سو چودہ صفحات پر مشتمل ہے ، جبکہ عربی زبان میں "حجة الله البالغة" کی محققانہ اور بصیرت افروز تحقیق ، تعلیق وتحشیہ کے ساتھ دو جلدوں میں تیرہ سو چالیس مجموعی صفحات پر مشتمل دار ابن کثیر دمشق سے شائع ہوچکی ہے۔

اوپر میں مذکور آپ کی تدریسی امتیازات وخصوصیات کافی حد تک آپ کی تالیفات ،تعلیقات وشروحات میں بھی جھلکتی ہیں، جن میں بحث ونظر کے لعل ویاقوت، دقیق تحقیقات کے ہیرے اور  گہری کاوشوں کے موتی پورے آب وتاب کے ساتھ چمک رہے ہیں، آپ کی تمام درسی شروحات وقیع تحقیق اور بصیرت افروز معلومات اور  انوکھے انداز تشریح وتوضیح کا شاہکار ہیں،  اللہ نے انہیں بے پناہ مقبولیت بخشی ہے، علماء وطلبہ کے مابین متداول ہیں۔

حضرت الاستاذ رحمہ اللہ ابتداءا غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، عالمی  اعتبار، استناد، مرجعیت، مشیخیت، محبوبیت ، مقبولیت اور علمی فضل وکمال میں  جو مقام بلند حاصل کیا وہ اپنی ذاتی محنت، لگن، قدردانی وقت، عشق مقصد، انہماک عمل، ریاضت،  جفاکشی، انتھک محنت، سوزعشق ، جستجوے پیہم ، جان گسل و صبرآزما  طویل مجاہدے، اوقات زندگی کی بامقصد تقسیم وانضباط ، اور استغناء وخود داری کے باعث حاصل کیا، شوق کمال  اور خوف زوال سے یکسر عاری، پانے کا  خمار تھا نہ کھونے کا آزار! 

عزم وہمت کے آپ کوہ ہمالہ اور فولادی اعصاب کے مالک تھے، روح فرسا اور جاں گسل حوادث و مصائب سے بھی آپ کے پائے صبر و استقامت میں  تزلزل نہ آسکا،  زندگی کے راز اور وقت کی قیمت کو آپ نے خوب اچھی طرح جان لیا تھا، شب وروز کے ایک ایک لمحے کی آپ کے یہاں تقسیم تھی ،  پیرانہ سالی اور عمر عزیز کی آخری منزل کو بھی آپ نے ایسا حوصلہ مندانہ اور مجاہدانہ گزارا جس کا ہم لوگ تصور بھی نہیں کرسکتے، فکر ونظر میں رسوخ وتصلب تھا، اظہار حق ورد منکرات میں مصلحت اندیشی آپ کے مسلک میں بالکل روا نہ تھی ، جسے حق سمجھتے پورے دلائل کے ساتھ بے لاگ وبے باک، دو ٹوک و برملا اس کا اظہار فرماتے۔

 آپ طبعا  سادگی پسند تھے، سادہ پہنتے، سادہ کھاتے، پر اوروں کو اچھا کھلاتے،  مہمانوں کے لئے کشادہ دست وفیاض  تھے، طلبہ کے تخلیقی وتحقیقی علمی کاوشوں کو سراہتے، حوصلہ افزائی فرماتے، نقد  انعامات دیتے اور دعائوں سے بھی  نوازتے۔ نکتہ سنج، دور اندیش ومعاملہ فہم تھے۔ سادگی، خاکساری ومسکنت آپ کی شناخت تھی۔ علم دین سے دنیا کمانے کو معیوب سمجھتے، معاشی بے چارگی کے ایام میں تدریس پہ جو مشاہرات وصول کیے تھے آسودگی حال کے بعد پائی پائی واپس فرمادیا جو ملینوں کی رقم بنتی ہے، اجتماعی غوغاے ہائو ہو سے نفور تھا، جلسے جلوس میں خاص دینی ودعوتی داعیے کے بغیر شرکت سے گریزاں رہتے۔

25 رمضان  1441 ہجری مطابق 19 مئی 2020  کو صبح چھ بجے، ہشت پہل ہیرا، علم و فضل کا آفتاب عالمتاب، تدریس وتالیف کا یہ لعل درخشان طویل علالت کے بعد ہمیشہ کے لئے روپوش ہو گیا، انا للہ وانا الیہ راجعون، 25 رمضان کو ہی نماز جنازہ ادا کی گئی، اور ممبئی کے جو گیشوری کے اوشیورہ  قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا، خدا آپ کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے، آپ کے تلامذہ وفیض یافتگان کو خدا تعالی انہی کے نقش قدم وخطوط پہ تدریس وتعلیم کی توفیق بخشے۔ آمین

دن رات مے کدے میں گزرتی تھی زندگی 

اخترؔ وہ بے خودی کے زمانے کدھر گئے؟ 

کفش بردار حضرت: 

شکیل منصور القاسمی/ بیگوسرائے 

٤ ذي الحجة ١٤٤١ هجري



No comments:

Post a Comment