Monday 21 September 2020

سنت شروع ہی کی تھی کہ فرض کی جماعت شروع ہوجائے؟

 سنت شروع ہی کی تھی کہ فرض کی جماعت شروع ہوجائے؟

-------------------------------
--------------------------------

حضرت مسئلہ دریافت کرنا ھے کہ اگر کسی نے ظہر سے پہلے چار رکعت سنت موکدہ کی نیت باندھی اور اتنے میں ظہر کی نماز باجماعت شروع ہوگئی. اب کیا کریں.

ایک صاحب نے مسئلہ بیان کیا اگر ایک رکعت پڑھ چکنے کے بعد جماعت شروع ہوگئی  تو دوسری رکعت پوری کرکےسلام پھرکر جماعت میں شریک ہوجاے  

یہ تو ٹھیک ھے. 

دوسرا مسئلہ بتایا کہ اگر کسی نے ظہر کی چار رکعت سنت موکدہ کی نیت باندھی  ساتھ ہی جماعت شروع ہوگئی  ایک رکعت بھی پڑھی  تو اس صورت میں قیام کے حالت میں سلام پھیرکر جماعت میں شامل ہوجاے  2  نمبرکا مسئلہ وضاحت فرمائیں؟  

ابوالہاشم جموں

الجواب وباللہ التوفیق:

سنن ونوافل شروع کی تھی کہ فرض کی جماعت شروع ہوگئی  تو دو رکعت مکمل کرنے سے پہلے سنت قطع کرکے جماعت میں شریک ہونے کی اجازت نہیں ہے۔

ہاں اگر کوئی تنہا فرض پڑھ رہا ہو، پھر اسی جگہ اس فرض کی جماعت شروع ہوجائے تو تنہا فرض پڑھنے والا پہلی رکعت کا سجدہ کرنے سے پہلے پہلے کھڑے کھڑے ایک طرف سلام کرکے فرض میں شریک ہوجائے، اس حالت میں سجدہ سے پہلے والے حصۂ نماز کا اعتبار نہیں، یعنی اس کے قطع پہ کچھ واجب نہیں۔

ہاں اگر سجدہ کرچکا ہے تو اب دو رکعت مکمل کرکے فرض میں شریک ہو. 

پہلی رکعت کا سجدہ کرنے سے پہلے پہلے رکعت چھوڑکر شامل جماعت ہونا فرض سے متعلق ہے. سنن ونوافل میں اگرچہ ایک رکعت بھی نہ پڑھی ہو کہ جماعت شروع ہوجائے تو اسے بہرحال دو رکعت مکمل کرنا ہے، یہاں ایک رکعت سے پہلے قطع صلوۃ کی گنجائش نہیں ہے۔ درمختار مع الشامی میں ہے:

(ويقتدي بالإمام) وهذا (إن لم يقيد الركعة الأولى بسجدة أو قيدها) بها (في غير رباعية أو فيها و) لكن (ضم إليها) ركعة (أخرى) وجوبا ثم يأتم إحرازا للنفل والجماعة (وإن صلى ثلاثا منها) أي الرباعية [ص: 53] (أتم) منفردا (ثم اقتدى) بالإمام (متنفلا ، ويدرك) بذلك (فضيلة الجماعة) حاوي (إلا في العصر) فلا يقتدي لكراهة النفل بعده (والشارع في نفل لا يقطع مطلقا) ويتمه ركعتين (وكذا سنة الظهر و) سنة (الجمعة إذا أقيمت أو خطب الإمام) يتمها أربعا (على) القول (الراجح) لأنها صلاة واحدة ، وليس القطع للإكمال بل للإبطال خلافا لما رجحه الكمال 

رد المحتار على الدر: المختار53/2

اس میں محل استشہاد: [والشارع في نفل لا يقطع مطلقا) ويتمه ركعتين (وكذا سنة الظهر و) سنة (الجمعة إذا أقيمت أو خطب الإمام) يتمها أربعا (على) القول (الراجح) لأنها صلاة واحدة ۔

(قوله مطلقا) أي سواء قيد الأولى بسجدة أو لا (قوله خلافا لما رجحه الكمال) حيث قال: وقيل يقطع على رأس الركعتين، وهو الراجح لأنه يتمكن من قضائه بعد الفرض. ولا إبطال في التسليم على الركعتين، فلا يفوت فرض الاستماع والأداء على الوجه الأكمل بلا سبب. ا هـ.] ہے. 

ولو كان في السنة قبل الظهر والجمعة فأقيم أو خطب يقطع على رأس الركعتين، يروى ذلك عن أبي يوسف رحمه الله، وقد قيل يتمها (وإن كان قد صلى ثلاثا من الظهر يتمها) لأن للأكثر حكم الكل فلا يحتمل النقض.

(قوله يروى ذلك عن أبي يوسف) وعن أبي حنيفة أيضا . …. وقيل يتمها، وإليه أشار في الأصل أنها صلاة واحدة ، والأول أوجه لأنه متمكن من قضائها بعد الفرض، ولا إبطال في التسليم على رأس الركعتين فلا يفوت فرض الاستماع والأداء على الوجه الأكمل بلا سبب.

(فتح القدير للمحقق ابن الهمام الحنفي (2/ 461)

(وإن كان) قد شرع (في سنة الجمعة فخرج الخطيب أو) شرع (في سنة الظهر فأقيمت) الجماعة (سلم) بعد الجلوس (على رأس ركعتين) كما روي عن أبي يوسف والإمام (وهو الأوجه) لجمعه بين المصلحتين (ثم قضى السنة) أربعا لتمكنه منه (بعد) أداء (الفرض) مع ما بعده فلا يفوت فرض الاستماع والأداء على وجه أكمل ولا إبطال وإليه مال شمس الأئمة السرخسي والبقالي.

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح (ص: 292)

واللہ اعلم بالصواب 

شکیل منصور القاسمی

https://saagartimes.blogspot.com/2020/09/blog-post_21.html



No comments:

Post a Comment