Monday 18 May 2020

ہندوستان سے مسلمانوں کا صفایا کیسے کیا جائے؟

ہندوستان سے مسلمانوں کا صفایا کیسے کیا جائے؟ 

گجرات میں 2002 میں مسلمانوں کی نسل کشی  کے دوران اوراس کے بعد شمالی ہند کے مسلمانوں کو اکثریہ کہتے سنا گیا تھا کہ ایسے حالات شمالی ہند میں کبھی نہیں ہو سکتے۔ اللہ معاف کرے، اس جملے میں گجراتی مسلمانوں کے تئیں کسی قدر تحقیر کا پہلو بھی ہوتا تھا۔ مگر مظفرنگر میں ہماری آنکھوں کے سامنے گجرات دوہرایا گیا اور ہم بے بسی کے عالم میں سب کچھ دیکھتے رہے۔ اللہ نہ کرے ہمیں دوبارہ ایسے حالات دیکھنا پڑیں مگربظاہرحالات بہتر ہونے کے کوئی آثارنظرنہیں آرہے ہیں۔ مجھے یہ بھی یاد ہے جب تقریباً ۲۰ سال پہلے راج شیکھر شیٹی نے دلت وائس میں ایک مضمون شائع کیا، جس میں ہندوستان اور اسپین کے حالات کا موازنہ کیا گیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ یہاں اسپین دوہرائے جانے کی تیار کی جا چکی ہے، تو مجھ سمیت بہت سے مسلمانوں نے اسے سنسنی خیزی پر محمول کیا تھا۔ آج بھی ہندوستانی کی بڑی تعداد اپنے آپ کو خود فریبی  میں مبتلا کرنے کی پرانی روش پر قائم ہے۔ ان کی دلیل اس کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے کہ ہندوستان کے ۲۰ کروڑ مسلمانوں کا صفایا نہیں کیا جاسکتا۔ جی ہاں ۲۰ کروڑ کی وہی بے جان بھیڑ جس کی حیثیت ایک ریوڑ سے زیادہ نہیں جس میں سے قصائی اپنی من پسند بھیڑ پکڑ کر لیجاتا ہے اور ذبحہ کرڈالتا ہے اور باقی بھیڑیں اس کا ڈالا ہوا چارہ کھانے میں مست رہتی ہیں۔ دور دراز کے علاقے تو چھوڑیے، اس سال فروری میں دہلی میں ہونے والے حالیہ فسادات میں مسلمانوں پر جو ظلم ہوا اور جس طرح الٹا انہیں کو مجرم بھی بنادیا گیا، وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ اسی دارالسلطنت میں ہماری آنکھوں کے سامنے لنچنگ کے واقعات کے علاوہ وزیر اعظم کی رہائش گاہ سے کچھ ہی فاصلے  جے این یو کے طالب علم نجیب احمد کو 25 اکتوبر 2016 کو غائب کردیا گیا۔ اپنے بیٹے کے بارے میں بتائے جانے کی درخواست لے کر ہر در کی ٹھوکریں کھا کر تھک جانے اور ناامید ہوجانے کے بعد اس کی غمزدہ ماں اپنا غم لئے اپنے گھر پر جا کر بیٹھ گئی ہے۔ اس سے پہلے مرادآباد، ہاشم پورہ اور دیگر بڑے فسادات میں معصوموں کو مجرم بنایا جانا اورمجرموں کا صاف بچ جانا بھی ہمارے سامنے ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگ یہ سب دیکھنے کے بعد کس طرح اندیکھی کررہے ہیں اور اپنے آپ کو دھوکہ دیے چلے جا رہے ہیں۔ ذیل میں راج شیکھر شیٹی صاحب کے انگریزی میں لھے گئے چشم کشا اور فکر انگیز مضمون کا اردو ترجمہ شائع کیا جارہا ہے۔ یہ مضمون دلت وائس، 16-31 مئی، 1999 ، میں شائع ہوا تھا جس میں راج شیکھر صاھب  نے لکھا تھا: ’’ اؑس وقت تو محض بیج بوئے جا رہے ہیں فصل کاٹے جانے کا وقت تو ابھی آنا ہے۔ اور فصل کاٹے جانے کے وقت ہندوستان میں جو کچھ کاٹا جا رہا ہوگا وہ وہی ہوگا جو اسپین میں ہوچکا ہے‘‘  پڑھئے اور غور کیئجے  — محمد غزالی خان مسلمانوں نے اسپین پر 721   بعد از مسیح سے 780 بعد از مسیح تک حکومت کی۔ اس کے باوجود آج اسپین میں مسلمانوں کا وجود نہیں ہے۔ حالانکہ وہاں تمام شعبہ ہائے زندگی پر اسلام کے اثرات ہیں۔ اسپین کی زبان میں دیگر یورپی زبانوں کی بہ نسبت عربی کے زیادہ الفاظ موجود ہیں، اس کی موسیقی پر عرب موسیقی کا اثر ہے، اس کی ثقافت پر یورپین تہذیب کے بجائے عرب ثقافت  کی چھاپ ہے اور یہاں تک  کہ عرب ناموں کی طرح یہاں ناموں کے شروع میں ’’ال‘‘ لگا ہوتا ہے۔ 1942 سے، جب غرناطہ میں مسلم سیاست کا آخری قلعہ مسمار ہوا تھا، اسپین میں مسلمانوں کے زوال کی شروعات ہو گئی تھی اور 120 سال بعد 1612 میں یہ زوال یہاں سے با عمل مسلمانوں کے آخری قافلے کی روانگی کے ساتھ اپنی انتہا کو پہنچ گیا تھا۔ اس سال کے بعد اسپین کے افق سے اسلام بالکل غائب ہو گیا۔ ایک قابل غورنکتہ یہ ہے کہ اسپین میں اسلام کی تنزلی کے اُس دور میں پوری مہذب دنیا پر مسلمانوں کی حکومت تھی۔ ترکی کی عثمانی خلافت قسطنطنیہ پر 1553 میں قبضہ کرچکی تھی اور جزیرہ نما بلقان کا تمام علاقہ اس کے زیر تسلط تھا۔ مصرمیں طاقت ور مملوک حاکم تھے۔ عباسیوں کے زیرحکمرانی ایران اپنے عروج پر تھا اور ہندوستان میں مغلوں کی حکومت تھی۔ اس کے باوجود اسپین کے مسلمانوں کو بچانے کیلئے ان عظیم افواج نے کچھ نہ کیا۔ اسپین میں اسلام کا خاتمہ کیسے ہوا؟ اس صدی کی 30 اور 40 کی دہائی میں ہندوستان کے ہندو فسطائیوں نے اس موضوع میں گہری دلچسپی لی تھی۔ انہوں نے اس کا مطالعہ اس غرض سے کیا تھا تاکہ ہندوستان میں اس کی نقل کی جا سکے۔ اسی کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں اسپین کی کہانی دوہرائے جانے کو روکنے کیلئے مسلمانوں نے اپنے طور پر اس کا مطالعہ کیا تھا کیونکہ سب سے بڑی اقلیت ہونے کی وجہ سے (1981 کی مردم شماری کے مطابق ان کا تناسب 11.35 ہے) وہ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کیلئے سب سے بڑا درد سر بن گئے ہیں۔ مگر ہندوستان کے مسلمان اسپین کی تاریخ اور اس کی بنیاد پر تیار کی جانے والی سازشوں سے لاعلم ہیں۔ یہاں ہمارا مقصد اس موضوع پر کچھ روشنی ڈالنا ہے تاکہ مسلمانوں کا سنجیدہ طبقہ اور ان سے ہمدردی رکھنے والے افراد اس پہلو پر مزید تحقیق کرلیں۔ ہندوستان کی طرح اسپین کے مسلمانوں کی بھی تین اقسام تھیں: 
1۔ اصل عربوں کی  اولادیں؎ 
2۔ عرب باپوں اور اسپینی ماؤں کی اولادیں 
3۔ جنہوں نے عیسائیت چھوڑ کر اسلام قبول کرلیا تھا۔ 
سقوطِ غرناطہ کے بعد اپنی جانیں (دولت نہیں کیونکہ دولت لیجانے کی اجازت نہیں تھی) بچانے کیلئے اصل عرب تیونس اور مراکش چلے گئے۔ بہت سے عیسائی حملہ آوروں کے ہاتھوں مارے گئے۔ وہ عرب جنہوں نے اسپین میں رہنے کو ترجیح دی انہیں بالآخر ’’غیر ملکی‘‘ اور اسپین کو برباد کرنے والے قرار دے دیا گیاِ، جیسا کہ ہندوستان میں کیا جارہا ہے)۔ دیگر مسلمان یعنی مسلمان باپوں اور عیسائی ماؤں کی اولادیں یا عیسائیت چھوڑ کر اسلام قبول کرنے والوں نے مکمل مذہبی آزادی دیے جانے کے شاہ فرنیڈانڈ کے اعلان پر یقین کرتے ہوئے اسپین میں رہتے رہنے کا فیصلہ کیا۔ (ہندوستان میں بھی تو ہمیں یہ ہی بتایا جاتا ہے کہ مسلمانوں کو مکمل مذہبی آزادی اور اقلیتی حقوق حاصل ہیں)۔ شروع کے سالوں میں ان کی زندگی اور املاک پر حملوں کو عارضی رویہ قرار دے کر معاف کردیا جاتا تھا۔ اس کا موازنہ 1947 میں تقسیم کے حالات سے کیجیے۔ (یہ مضمون 1999 میں لکھا گیا تھا۔ اسپین میں مسلمانوں پر حملوں اور قاتلوں اور جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کا موازنہ گجرات، مظفر نگراور مالیگاؤں میں مسلمانوں کے قاتلوں کی یکے بعد دیگرے رہائی اور حکومت وقت کے ذریعے انہیں نوازے جانے سے کیجئے — مترجم)۔ اسپین میں مسلمانوں پر حملے محض اُسی وقت شروع نہیں ہوئے بلکہ 50 سال بعد تک اس سے کم شدت کے ساتھ وقتاً فوقتاً جاری رہے۔ بالکل جس طرح آج ہندوستان میں ہو رہا ہے۔ تقسیم کے بعد ابتدائی سالوں میں ہندوستانی مسلمانوں نے مزاحمت دکھائی اور حملہ آوروں کو جواب دیا۔ سڑکوں پر چھوٹی موٹی جھڑپیں ہوئیں مگر آہستہ آہستہ یہ یک طرفہ حملوں میں بدل گئیں اور شکست مسلمانوں کی ہوئی۔ اور اب تو ہندو پولیس کو مسلمانوں کے قتل کی کھلی چھٹی دے دی جاتی ہے۔ اسپین میں جس وقت منظم عیسائی گروپ قتل عام کا بازار گرم کیے ہوئے تھےِ، فرنیڈانڈ کی حکومت مسلمانوں کا نوکریوں سے صفایا کرنے کیلئے مندرجہ ذیل طریقوں پر عمل پیرا تھی: انتظامیہ سے عربی زبان کو خارج کردیا گیا۔ جو اسکول مساجد سے منسلک تھے ان پر پابندی لگادی گئی کہ غیر مذہبی مضامین، مثلاً سائنس، تاریخ، ریاضی، اور فلسفہ نہ پڑھائیں۔ وہ صرف مذہبی تعلیم دے سکتے تھے۔ تاریخ کی تعلیم جھوٹے واقعات کی بنیاد پر دی جانے لگی جس میں مسلمان دور حکومت ظلم اور صفاکی کا دور بتایا گیا۔ اسپین کی تعمیر میں مسلمانوں کے کردار کو یکسر نظر انداز کردیا گیا۔ ہتھیار جمع کرنے اور خفیہ میٹنگوں کے انعقاد کے الزام کے بہانے مسلمانوں کے گھروں کی آئے دن تلاشی ہوتی تھی۔ نسلاً  اصلی عربوں کے بارے میں مشہور کردیا گیا تھا کہ وہ ملک دشمن ہیں اور یہ کہ انھوں نے اسپین کو تباہ کیا ہے۔ جن عیسائیوں نے اسلام قبول کرلیا تھا ان کو یہ کہہ کر دوبارہ عیسائی بننے کی ترغیب دی گئی کہ ان کے اجداد کو زبردستی مسلمان بنالیا گیا تھا اور اب کیونکہ کوئی دباؤ موجود نہیں رہا، لہٰذا انہیں عیسائیت اختیار کر لینی چاہیے۔ جن مسلمانوں کے اجداد عیسائی اور مسلمان تھے انہیں حرامی قرار دیا جاتا، ان کا مذاق اڑایا جاتا تھا اور ان پر عیسائیت قبول کرنے کیلئے دباؤ ڈالا جاتا تھا۔ اسلامی طریقے سے ہونے والی شادیوں کا عدالت میں جا کر رجسٹریشن کروانا لازمی  کردیا گیااوراسلامی قوانین کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔ اسپین میں اختیار کیا  گیا ہر طریقہ اِس وقت ہندوستان میں نہایت ہوشیاری اورمنظم طریقے کے ساتھ آزمایا جارہا ہے۔ اسپین میں مسلمانوں کا مذاق اڑایا گیا، ان کی تذلیل کی گئی اوران پر مسلسل حملے کیے جاتے رہے۔ مسلمانوں کی معیشت برباد کرنے کیلئے ان کی دوکانوں اور مکانوں کو نظرِآتش کرنے کیلئے اسپین کے لوگوں کو ترغیب دی گئی۔ مسلمانوں کے عیسائیت قبول کرنے کی علامتی تقریبات منعقد  کر کے ان کی تشیہر کی گئی۔ ہندوستان میں ہر طرح کے ہندونازی— آریہ سماج، راما کرشنا مشن، وشوا ہندو پریشد وغیرہ — بالکل یہی کام انجام دے رہے ہیں۔ اسپین کے مسلمانوں کی پہلی دو نسلوں نے اپنے بچوں کو گھروں اور مساجد میں عربی پڑھاکر اور زبانی طور پر انہیں حقیقت سے روشناس کروا کر اپنے مذہب کی حفاظت کا غیر فعال طریقہ اختیار کیا۔ مگر آہستہ آہستہ ان کا جذبہ سرد پڑتا گیا۔ جب یہ حکم نافذ ہوا کہ شادی صرف سرکاری اداروں کے ذریعے ہی کی جا سکے گی توشروع شروع میں مسلمان دو تقریبات منعقد کرتے رہے۔ ایک سرکاری ادارے میں اور دوسری اپنے گھروں پراسلامی طریقے سے۔ آہستہ آہستہ دوسری تقریب پر پابندی عائد کردی گئی اورگھروں میں منعقد کی جانے والی یہ تقاریب بھی غائب ہو گئیں۔ اس دوران مسلم قیادت کے ساتھ مسلمانوں کا رابطہ ختم ہو گیا اورمسلم اشرافیہ نے بڑی تعداد میں ترکی، تیونس، مراکش اورمصرکی جانب ہجرت کرلی جہاں جذبہ ہمدردی کے ساتھ ان کا خیر مقدم کیا گیا۔ اسپین کے غریب مسلمانوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔ بالکل یہی سب کچھ ہندوستان میں ہورہا ہے۔ امیراور انگریزی تعلیم یافتہ مسلمان برہمنی اثرقبول کرتا جاررہا ہے۔ اس نے اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی نقالی شروع کردی ہے کیونکہ وہ  غریب مسلمان (جو 95% ہیں) بد حال بستیوں میں رہتے ہیں اور مراعت یافتہ طبقے کی بانسبت وہ اسلام پرزیادہ عمل کرتے ہیں۔ مسلم کش فسادات میں انہیں لوگوں کی جانیں جاتی ہیں۔ اسپین میں جو بیج نصف صدی کے پہلے حصے میں بوئے گئے تھے، نصف صدی کے بعد ان کی فصل پوری طرح پک کر تیار ہو گئی تھی۔ اب مسلمانوں کی حفاظت کرنے کیلئے نہ کوئی قیادت باقی رہ گئی تھی اور نہ اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کیلئے کوئی با بصیرت شخصیت رہ گئی تھی۔ مذہبی قائدین، جنہیں دینیات کے علاوہ کسی اور چیز کا علم نہیں تھا، نے صورتحال سے نمٹنے کی بھر پور کوشش کی مگرحکومتی اداروں کے پروپیگنڈے، اس کی جانب سے دیا گیا لالچ ،عیسائیت قبول کرنے کے عوض بڑی بڑی پیشکشوں، اسلامی اقدار سے عوام کی ناواقفیت، اوران کے ذہنوں میں منظم طریقے سے پیدا کی گئی احساس کمتری کے سامنے علماء کی کوششیں بہت کمزور تھیں۔ اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے سیاسی قیادت اور ایسی تنظیموں کی ضرورت تھی جن کے پاس حالات سے نمٹنے کیلئے وسا ئل دستیاب ہوں۔ جن مسلمانوں نے ترکی اور مصرکی مسلم حکومتوں سے مدد لینے کی بات کی مسلمانوں نے خود ان کی مخبری حکومت سے کی۔ مسلمانوں میں لڑنے کی خواہش کی عدم موجودگی کی وجہ سے کوئی بھی مسلم ملک ان کی مدد نہ کر سکا۔ جو مسلمان ترکی اور مصر میں ہجرت کرچکے تھے اُنہوں اِن حکومتوں کو اسپین کے مسلمانوں کی مدد کرنے کا خیال دل سے نکالنے کا مشورہ دیا کیونکہ اُن کی سوچ کے مطابق اِس سے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم میں مزید شدت آجاتی۔ اُنہیں ایک احمد شاہ عبدالی کی ضرورت تھی مگر اس کا وہاں کوئی وجود نہیں تھا۔ عام مسلمان اسپین کے قومی دھارے میں شامل ہو گئے اور بے روزگار ہوجانے کی وجہ سے ملّا اسپین چھوڑ چھوڑ کر چلے گئے۔ جن مسلمانوں کواعتقاد کے لحاذ سے سخت سمجھا جاتا تھا ان کا آخری قافلہ اسپین کو  الوداع کہہ کر 1612 میں وہاں سے روانہ ہوگیا۔ ہندوستان میں بھی سیاسی قیادت اُن پارٹیوں کی دم چھلّا بن گئی جن کی قیادت اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے ہاتھ میں ہے۔ صرف عالم دین مولانا ابولحسن ندوی نے ہندوستانی مسلمانوں کی ثقافتی شناخت کی حفاظت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہندوستان میں ’’تجربہ اسپین‘‘ پوری توانائی اور فعالیت کے ساتھ اپنایا جا رہا ہے۔ اردو زبان، جو ہندوستان میں اُتنی ہی اسلامی ہے جتنا اسپین میں عربی اسلامی تھی، کو ختم کیا جارہا ہے۔ اِس صورتحال کا مشاہدہ ہم نے بنگلور میں ہونے والے عالمی تبلیغی اجتماع میں کیا۔ (دلت وائس 15 مارچ 1985)۔ یہ لوگ عوام میں پہنچنے کے بجائے نفسیاتی اور جسمانی گوشہ نشینی کا سہارا لے رہے ہیں۔ مسلمانوں کی جانوں اور املاک کی حفاظت کرنے کی غرض سے اٹھائےجانے والے کسی بھی قدم کو فرقہ واریت کا نام دے دیا جاتا ہے۔ کوئی مسلمان اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی تائید نہ بھی کر رہا ہو بلکہ ان کی محبت کا ڈھونگ کر رہا ہو تو اسے ’’نیشنلسٹ مسلم‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ مسلم عوام اور تعلیم یافتہ امیرمسلمانوں کے درمیان فاصلہ دن بدن بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ مسلمان قیادت خود بھی مسلمانوں کے قتل عام کو فطری بات سمجھتی ہے۔ جب کبھی بھی اس قسم کے مسا ئل کوبین الاقوامی اسلامی پلیٹ فارمز پر اٹھایا جاتا ہے تو اسے ہندوستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ تعلیمی نصاب سے مسلم تاریخ خارج کردی گئی۔ نامورمسلمان جن کی اموات ہندوستان میں اور ہندوستان کیلئے ہوئیں ان کے نام لینے سے گریز کیا جاتا ہے۔ ٹیپو سلطان جس کی شہادت ہندوستان کیلئے ہوئی نئی نسل اُس تک کے نام سے نا آشنا ہے۔ اِس کے برعکس تاتیا ٹوپے، جس نے ہندوستان کیلئے نہیں بلکہ اپنی پینشن کیلئے جنگ کی تھی اور جھانسی لکشمی بائی جو اپنے سوتیلے بیٹے کو اپنے تخت کا وارث بنانے کیلئے لڑی تھی، ان کے نام ہرہندوستانی کے لبوں پر ہیں۔ سائنس، طب، موسیقی، آرٹ  کی خدمت یا بہادری کیلئے کسی مسلمان کو انعام نہیں دیا جاتا۔ انتہا تو یہ ہے کہ مولانا آزاد، قدوائی، سید محمود، ہمایوں کبیروغیرہ جنہوں نے حکمراں پارٹی کانگریس کے پرچم تلے ملک کی آزادی کی لڑائی لڑی، ان کے ناموں پر کسی سڑک کا نام نہیں رکھا جاتا۔ تاریخ دوبارہ لکھی جارہی ہے (Falsifying Indian History یعنی 'تاریخ ہند کو جھوٹ سے آلودہ کرنے کا عمل' دلت وائس 16 اپریل 1985) مسلمانوں کو روزانہ مارا جارہا ہے اور ان کے مکان اور املاک جلائے جارہے ہیں۔ فوج، پولیس اور انتظامیہ کے دروازے ان کیلئے بند ہیں۔ اس کے باوجود اسلام کی حفاظت کی خاطرمسلم تنظیمیں خود رو گھاس کی طرح وجود میں آتی چلی جارہی ہیں۔ ہر کوئی اسلام کی حفاظت کیلئے فکرمند ہے، کوئی بھی مسلمانوں کی حفاظت نہیں کرنا چاہتا۔ ہم اس بارے میں واقعی فکرمند ہیں۔ حکمراں طبقے کی پالیسیوں کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اِس میں اور اسپین میں فرنیڈنانڈ اور ازابیل کی پالیسیوں میں بہت زیادہ مماثلت ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ بیسوی صدی میں اقوام متحدہ کے منشوربرائے انسانی حقوق اور بین الاقوامی رائے عامہ کی وجہ سے اعلیٰ ذات کے ہندو زیادہ تیزاورمکاری میں زیادہ سلیقہ مند ہیں۔ آئے دن کے منظم مسلم کش فسادات میں جانی اورمالی نقصان، سب سے بڑھ کر یہ کہ مسلمانوں میں خوف کی کیفیت، دفاع، افواج اور پولیس میں مسلمانوں کا صفایا کر کے ان شعبوں میں برہمنی سوچ کا فروغ دیا جانا، سرکاری نوکریوں اور اداروں میں تقرری کے دروازے مسلمانوں کیلئے بند کردینا، تعلیم اور ذرائع ابلاغ مثلاً ریڈیو اور ٹیلی ویژن وغیرہ میں برہمنی سوچ کا پھیلادیا جانا، 1947-48 میں، پنجاب، ہریانہ، یوپی، بہاراور مدھیہ پردیش، مہاراشٹرا، آندھرا پردیش، اور کرناٹک کے کچھ علاقوں سے اردو زبان کا خاتمہ،  آہستہ آہستہ اردواسکولوں کا بند کیا جانا، یہ سب مسلم دشمن پالیسیوں کی واضح مثالیں ہیں۔ نفسیاتی جنگ کے محاذ پرمسلم پرسنل لا، جسے اب یکساں سول کوڈ کا نام دے کر اسے تحلیل کرنے کی کوشش کی گئی ہے، ہندو ثقافت کی بڑائی کا شور، ملک کی ترقی اور تعمیر میں مسلمانوں کی خدمات کو کم کرکے دکھانے کیلئے بدنام زمانہ مسلم دشمن شخصیات مثلاً ’’مہاتما‘‘ گاندھی، جی بی تلک، مدن موہن مالویہ، ویر ساورکر، لالا لاجپت رائے کو بطور ہیرو پیش کرنا، ہندوستان کی تاریخ دوبارہ لکھنا، جو کاروبار مسلمانوں کے ہاتھ میں ہیں مثلاً گوشت کا کاروبار، اسے گناہ بتا کر گائے کی حفاظت کی پالیسیوں کو فروغ دینا اور مسلمانوں کے ذریعے امپورٹ ایکسپورٹ کے کاروبار کو اسمگلنگ سے تعبیر کرنا، یہ وہ حرکتیں ہیں جن سے ہندوستان کے سادہ لو عوام کو گمراہ کیا جاتا ہے جس سے مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا ہوتی ہے۔ مسلم اکثریتی حلقہ انتخاب کو مختلف طریقوں سے تقسیم کیا جاتا ہے تاکہ مسلمانوں کے ووٹ بے وزن ہو جائیں اور ان علاقوں پرایسے انتہا پسند سیکولر مسلم لیڈروں کو مسلط کردیا جاتا ہے جنہوں نے اب گائے کی پرستش شروع کردی ہے اوران مناظر کو باقاعدہ ٹیلی ویژن پر دکھایا جاتا ہے۔ بد قسمتی سے حکومت سے ناامید مسلم قائدین ہندوؤں پر مزید انحصار کرنے لگتے ہیں اور اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ  ہندو (دلت) عوام اس پروپیگنڈے کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔ اس وقت تو محض بیج بوئے جا رہے ہیں فصل کاٹے جانے کا وقت تو ابھی آنا ہے۔ اور فصل کاٹے جانے  کے وقت ہندوستان میں جو کچھ کاٹا جا رہا ہوگا وہ وہی ہوگا جو اسپین میں ہوچکا ہے الا یہ کہ مسلمان جلدی سے جوابی اقدامات کی تیاری کرلیں۔ یہی وقت ہے جب مسلمان یا ان میں دانشمند حضرات اٹھ کھڑے ہوں اور ہندوستان میں اسپین کی تاریخ دوہرائے جانے کو روک دیں۔ اسلام کی حفاظت ہمیشہ عوام نے کی ہے نہ کہ اونچے طبقے سے تعلق رکھنے والوں نے۔ دولت مند مسلمانوں کا تناسب (کچھ استشناؤں کے علاوہ) پانچ فی صد بھی نہیں ہے جو استحصال کرنے والے اعلیٰ ذات والوں کے ساتھ شامل ہو رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے یہ طبقہ اسلام کی باتیں کرتا ہو مگر مسلمانوں کو بھول چکا ہے۔ برائے مہربانی یہ بات ذہن میں رکھیں کہ مذہب اپنے ماننے والوں کی حفاظت نہیں کرتا بلکہ مذہب کے ماننے والے مذہب کی حفاظت کرتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ ہندوستان میں اسلام کو بچانے کیلئے مسلمانوں کو بچانا پڑے گا۔ 
http://saagartimes.blogspot.com/2020/05/blog-post_37.html?m=1

No comments:

Post a Comment