Wednesday 27 May 2020

طویل المیعاد قرض کی منہائی؟

طویل المیعاد قرض کی منہائی؟
--------------------------------
---------------------------------
سوال: ایک شخص ہے، جس کے پاس چار لاکھ روپے ہیں، جن میں سے ایک لاکھ قرض چکانا ہے، لیکن اس نے وعدہ کیا ہے کہ وہ چھ ماہ بعد یا دو ماہ بعد قرض ادا کرے گا تو یہ شخص مذکورہ رقم کو منہا کرے گا یا نہیں؟
منہا کرنے کے لئے کتنے دنوں کی واجبی رقوم کا اعتبار کیا جائے گا، ایک مہینہ یا چھ مہینہ، یا پھر ایک سال وغیرہ۔
اس سلسلے میں اصولی بات سے آگاہ فرمادیں
الجواب وباللہ التوفیق:
زکاۃ سالانہ ادا کی جانے والی مالی عبادت ہے 
نصاب کا مالک ہونے کے بعد وجوب ثابت ہوتا اور اس نصاب پہ حولان حول کے بعد ادائی واجب ہوتی ہے 
یہ مسئلہ ائمہ مجتہدین کے یہاں اختلافی ہے کہ قرض وجوب زکاۃ کے لیے مانع ہے یا نہیں؟
شوافع ودیگر فقہاء مطلق قرض کو مانع زکاۃ نہیں سمجھتے ہیں 
جبکہ احناف وموالک کا خیال ہے کہ ایک سال کے اندر اندر ادا کیا جانے والا قرض مانع زکاۃ ہوگا یعنی ایک سال کی ادا طلب اقساطِ قرض منہا کی جائیں گی باقی مال، اگر نصاب کو پہنچے تو اس پر زکاۃ واجب ہوگی۔
ایک سال سے زیادہ کی اقساط والے قرض کی کل رقم کو سالانہ زکاۃ کی ادائی کے وقت منہا نہیں کیا جائے گا 
اگر ایک سال سے زیادہ میعاد والے قرض بھی منہا ہونے لگیں پھر تو آج کل کے اقتصادی ہوشیاری کے زمانے میں (جہاں ارب پتی لوگ اپنا مال سرمایہ کاری میں لگائے رکھتے ہیں اور بینک سے دس بیس سال کی طویل ترین مدتوں اور معمولی شرح سود پہ قرض لئے رہتے ہیں، قرض میں دیئے جانے والے سود سے درجہا زیادہ ان کے وہ منافع ہوتے ہیں جو ذریعہ سرمایہ کاری انہیں موصول ہوتے ہیں) تو اکثر اربوں پتی لوگوں پہ زکاۃ ہی واجب نہ ہوگی! 
اور ظاہر ہے یہ روح شریعت اور فقہ زکاۃ کے صریح خلاف ہے 
اس لئے زیادہ سے زیادہ ایک سال کی اقساط والے قرض کی منہائی ہوگی، اس سے زیادہ میعاد والی اقساط قرض ادائی زکاۃ سے منہا نہیں ہونگی؛ 
ورنہ تو آدمی کروڑ پتی رہتے ہوئے بھی صاحب نصاب نہ بن سکے گا۔
"نصاب حولي" جیسی قیود سے یہ حکم مستفاد معلوم ہوتا ہے۔
شامی میں ہے:
"(وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) نسبة للحول؛ لحولانه عليه (تام) ... (فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد)" الدرالمختار وحاشية ابن عابدين (ردالمحتار) (2/ 259)
مشہور اور ممتاز فقیہ شیخ مصطفی احمد زرقا ارقام فرماتے ہیں:
[الدَّين المؤجل والمُقَسَّط (غيرالحال) لا يمنع الزكاة على المال الذي لدى الشخص، وإنما الذي يطرح من الزكاة هو الدَّين الحال الخاضع للمطالبة حالاً حين وجوب الزكاة بحولان الحول، وبناءً عليه تجب الزكاة في المال الذي يأخذه الشخص قرضاً فيتملكه ويعمل به، ما دام دين القرض المذكور مقسطاً أو مؤجلاً، وليس مطالباً به في الحال دفعةً واحدةً] فتاوى مصطفى الزرقا ص137-138)
واللہ اعلم

No comments:

Post a Comment