Monday 26 February 2018

مہر کے متعلق شرعی احکام Meher In Islam

فقہیات؛ مہر کے متعلق شرعی احکام
گذشتہ دنوں بعض رفقاء کرام نے مہر کی بابت کچھ سوالات، مہر کی شرعی حیثیت، مہر کی صورتیں، مہر کی ادائیگی میں کوتاہیاں اور اس میں راہِ اعتدال کیا ہے؟ پوچھے تھے، اس مناسبت سے چند گزارشات پیش خدمت ہیں، مزید تفصیل کے لئے بڑی کتب کا مطالعہ فرمائیں (سفیان بلند)
مہر کی شرعی حیثیت:
نصوص شرعیہ پر غور کرنے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مہر کی دو حیثیتیں ہیں:
ایک حیثیت یہ ہے کہ وہ عقدِ نکاح کا لازمی تقاضا ہے، اور اس طرح اس میں عوض ہونے کی ایک مشابہت ہے، اس حیثیت کے لحاظ سے قرآن کریم میں اس پر ’’اُجُورھنّ‘‘ کے لفظ کا اطلاق کیا گیا ہے۔
دوسری حقیقت یہ ہے کہ وہ ٹھیٹھ معنی میں کسی مادی چیز کا معاوضہ نہیں ہے، بلکہ عورت کے اعزاز کے لئے مشروع کیا گیا ہے، اسی لئے سورۃ النساء میں فرمایا گیا کہ ’’وآتو النساء صدقتھن نحلۃ‘‘ یہاں مہر کو ’’صدقہ‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
ملاعلی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وسمی بہ لانہ یظھر صدق میل الرجل الی مرأۃ
(مرقات شرح مشکوٰۃ)

حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ الله، ملا علی قاری رحمہ اللہ کی یہ عبارت نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
مہر کو ’’صداق‘‘ اور ’’صدقہ‘‘ اس لئے کہتے ہیں کہ صدق کے اس مادے میں ’’سچ‘‘ کے معنی ہیں، اور مہر سے بھی چونکہ شوہر کا اپنی بیوی کی طرف سچا میلان ظاہر ہوتا ہے ، اس لئے اس مناسبت سے مہر کو ’’صدق‘‘ کہنے لگے۔ (معارف القرآن 299/2)
نیز قرآن کریم نے اس کے ساتھ’’نحلۃ‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے، جو عطیہ کو کہتے ہیں اور امام ابوبکر جصاص رحمہ اللہ اس کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’انما سمی المھر نحلۃ، والنحلۃ فی الاصل العطیۃ والھبۃ فی بعض الوجوہ‘
(أحکام القرآن للجصاص 57/2) تقریباً یہی بات امام رازی رحمہ اللہ نے بھی تحریر فرمائی ہے (تفسیر کبیر 180/9)  قرآن کریم کی اس تعبیر اور امام جصاص اور امام رازی رحمہما اللہ کی اس تشریح سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اصلا مہر کسی بدل کا معاوضہ نہیں ہے، بلکہ عقد کا ایک ایسا تقاضا ہے جس کا منشا محل عقد کی تکریم اور اعزاز ہے، البتہ چونکہ اس کے بعض احکام ایسے ہیں جو عام طور پر معاوضوں کے ہوتے ہیں، مثلاً یہ کہ عورت اس کا مطالبہ کرسکتی ہے اور اسے شوہر کے ذمے دَین یعنی قرض قرار دیا گیا ہے ، وغیرہ، اس لئے اس مشابہت کی وجہ سے قرآن کریم میں بعض جگہ اسے ’’اُجُور‘‘ سے تعبیر کیا گیا (مستفاد از فتاوی عثمانی)
مہر کی صورتیں:
عام طور پر عقد نکاح کے وقت مہر  کے تذکرہ پر یہ پانچ صورتیں بیان کی جاتی ہیں جن کی وضاحت یہ ہے:
1- مہر شرعی: مہر کی کم از کم مقدار جو دس درہم (تقریبا دو تولے ساڑھے سات ماشے چاندی) کے برابر ہو، اگر مہر اقل ِ مہر کی صورت میں ادا کیا جائے تو اس دن کے چاندی کے ریٹ معلوم کرکے مہر ادا کردیا جائے، اگر عقدِ نکاح کے وقت مہر متعین نہ کیا اور نہ ہی مہر فاطمی یا مہر شرعی متعین کیا ، یا مہر شرعی (دس درہم) سے کم متعین کیا تو پھر عورت کو مہر مثل ملے گا۔ (آپکے مسائل و نجم الفتاوی)
2- مہر فاطمی: محقق قول کے مطابق مہر فاطمی 500 دراہم ہے اور 500 دراہم ایک سو اکتیس تولہ اور تین ماشہ ہوتے ہیں اور تین ماشہ تولہ کا چوتھائی حصہ (۴/۱) ہوتا ہے تو گویا مہر فاطمی  131.25 تولہ چاندی ہوا، چاندی کی قیمت آئے دن مارکیٹ میں گھٹتی بڑھتی رہتی ہے، اس لئے کسی خاص دن کی قیمت لکھ دینے سے غلط فہمی ہوسکتی ہے، لہذا خود صرافہ مارکیٹ سے معلوم کرلیا جائے (نجم الفتاوی)
حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اُمّ الموٴمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کا مہر (اپنی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کے لئے) کتنا تھا؟ فرمایا: ساڑھے بارہ اوقیہ، اور یہ پانچ سو درہم ہوتے ہیں۔ (صحیح مسلم، مشکوٰة)
3- مہر مثل: اگر نکاح کے وقت کوئی مہر مقرر کیا گیا ہو (یعنی مہر شرعی یا مہر فاطمی) تو مقرر کی ہوئی مقدار اور تفصیل کے مطابق مہر ادا کردیا جائے، اور اگر کوئی مہر مقرر نہ ہوا، ہو تو بیوی کے خاندان کی عورتوں کا عام طور پر جتنا مہر مقرر ہوتا ہے، مثلا بہنوں کا، اتنا مہر واجب ہوگا جسے مہرمثل کہا جاتا ہے۔ (فتاوی عثمانی)
4 - مہر مؤجل: یہ اجل (بمعنی وقت) سے ہے یعنی وہ مہر جس کی ادائیگی کے لئے کوئی خاص میعاد اور وقت مقرّر کیا  گیا ہو، مہرِ مؤجل  کا مطالبہ مقرّرہ وقت سے پہلے کرنے کی اجازت نہیں۔ (فتاوی عثمانی)
5- مہرِ معجّل: جس کی ادائیگی فوراً یا عورت کے مطالبے پر واجب ہو ، مہرِ معجّل کا مطالبہ عورت جب چاہے کرسکتی ہے۔ (فتاوی عثمانی)
مہر کی کونسی صورت افضل ہے؟
بیویوں کے حقوق میں سب سے پہلا حق مہر ہے، جو شوہر کے ذمہ لازم ہوتا ہے، اس میں شریعت مطہرہ کی تعلیمات یہ ہے کہ اعتدال رکھا جائے، چناچہ فخر کے طور پر زیادہ مہر مقرر کرنا شرعاً پسندیدہ نہیں، زیادہ مہر مقرر کرنے کی حدیث شریف میں مذمت آئی ہے، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ دیکھو! عورتوں کے مہر زیادہ نہ بڑھایا کرو، کیونکہ اگر یہ دُنیا میں عزّت کا موجب اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک تقویٰ کی چیز ہوتی تو حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم تم سے زیادہ اس کے مستحق تھے، مجھے علم نہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے اپنی ازواجِ مطہرات میں سے کسی سے بارہ اوقیہ سے زیادہ مہر پر نکاح کیا ہو، یا اپنی صاحب زادیوں میں سے کسی کا نکاح اس سے زیادہ مہر پر کیا ہو۔ (مشکوٰة ص:۲۷۷)
مہر کی بہتر مقدار کیا ہے اس کے بارے میں اکابر علماء کی دو رائے ہیں:
(۱) شوہر کی حیثیت کے اعتبار سے اتنی مقدار ہوکہ اس کا ادا کرنا شوہر کی استطاعت میں ہو مگر ادا کرنے میں شوہر کچھ دشواری اور بار محسوس کرے، یہ رائے حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ علیہ کی ہے اور أشبہ بالفقہ ہے۔
(۲) دوسری رائے مہر فاطمی کی مقدار کی ہے، یہ رائے حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ علیہ کی اختیار کردہ ہے اور أیسرللعمل ہے، ہمارے بعض اکابر کا معمول رہا ہے کہ اگر ان سے نکاح پڑھانے کی فرمائش کی جاتی تو فرماتے کہ اگر ”مہرِ فاطمی“ رکھوگے تو نکاح پڑھائیں گے، ورنہ کسی اور سے پڑھوالو، حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ اور حضرت مولانا سعید احمد خان صاحب مہاجر مدنی رحمہ اللہ کے ہاں اس کا بڑا اہتمام تھا، عارف باللہ مرشدی حضرت واصف منظور صاحب رحمہ الله بھی اس کی ترغیب دیا کرتے تھے، نکاح کا تعلق ہماری معاشرتی زندگی سے ہے اور معاشرت کے دین کو زندہ کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔
مہر کی ادائیگی میں کوتاہیاں اور راہِ اعتدال:
اس بارے میں بہت سی کوتاہیاں اور بے احتیاطیاں سرزد ہوتی ہیں:
پہلی کوتاہی:
لڑکی کے والدین اور اس کے عزیز و اقارب مہر مقرّر کرتے وقت لڑکے کی حیثیت کا لحاظ نہیں رکھتے، بلکہ زیادہ سے زیادہ مقدار مقرّر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور بسااوقات اس میں تنازع اور جھگڑے کی شکل بھی پیدا ہوجاتی ہے، بلکہ اس سے بڑھ کر بعض موقعوں پر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اسی جھگڑے میں شادی رُک جاتی ہے، لوگ زیادہ مہر مقرّر کرنے کو فخر کی چیز سمجھتے ہیں، لیکن یہ جاہلیت کا فخر ہے، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، ورنہ اگر مہر کا زیادہ ہونا شرف و سیادت کی بات ہوتی تو حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن اور آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی صاحب زادیوں کا مہر زیادہ ہوتا، حالانکہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے اپنی کسی بیوی کا اور کسی صاحب زادی کا مہر پانچ سو درہم سے زیادہ مقرّر نہیں کیا، ہمارے لئے بحیثیت مسلمان حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کا اُسوہٴ حسنہ ہی لائقِ فخر ہونا چاہئے، مہر کی مقدار اتنی رکھنی چاہئے جتنی حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے اپنی مقدس ازواج اور پیاری صاحب زادیوں کے لئے رکھی یا جتنی شوہر  کی حیثیت ہو، آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم  سے بڑھ کر کس کی عزّت ہے؟ گو کہ مہر فاطمی سے زیادہ مہر رکھنے میں بھی کوئی گناہ نہیں، لیکن زیادتی کو فخر کی چیز سمجھنا، اس پر جھگڑے کھڑے کرنا اور باہمی رنجش کی بنیاد بنالینا جاہلیت کے جراثیم ہیں جن سے مسلمانوں کو بچنا چاہئے۔
دوسری کوتاہی:
بعض دیہاتی حلقوں میں سوا بتیس روپے مہر کو ”شرعِ محمدی“ سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ مقدار آج کل مہر کی کم سے کم مقدار بھی نہیں بنتی، مگر لوگ اسی مقدار کو ”شرعِ محمدی“ سمجھتے ہیں جو بالکل غلط ہے، خدا جانے یہ غلطی کہاں سے چلی ہے؟ لیکن افسوس ہے کہ ”میاں جی“ صاحبان بھی لوگوں کو مسئلے سے آگاہ نہیں کرتے، جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ شرعی اعتبار سے مہر کی کم سے کم مقدار دس درہم (تقریبا دو تولے ساڑھے سات ماشے چاندی) ہے۔
تیسری کوتاہی:
آج کل بعض خاندانوں میں مہر ادا کرنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی جاتی، بلکہ رواج یہی بن گیا ہے کہ بیویاں حق مہر معاف کردیا کرتی ہیں،  یہ مسئلہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ بیوی کا مہر بھی شوہر کے ذمہ اسی طرح کا ایک قرض ہے جس طرح دُوسرے قرض واجب الادا ہوتے ہیں، اگر بیوی کُل مہر یا اس کا کچھ حصہ شوہر کو معاف کردے تو صحیح ہے، لیکن شروع ہی سے اس کو واجب الادا  نہ سمجھنا بڑی غلطی ہے، ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص نکاح کرے اور مہر ادا کرنے کی نیت نہ رکھتا ہو، وہ زانی ہے۔
چوتھی کوتاہی:
ہمارے معاشرے میں بعض خاندانوں میں عورتوں کے لئے مہر لینا بھی عیب سمجھا جاتا ہے، اور میراث کا حصہ لینا بھی معیوب سمجھا جاتا ہے، اس لئے وہ چار و ناچار معاف کردینا ہی ضروری سمجھتی ہیں، اگر نہ کریں تو معاشرے میں ”نِکو“ سمجھی جاتی ہیں، دِین دار طبقے کا فرض ہے کہ اس معاشرتی بُرائی کو مٹائیں اور لڑکیوں کو مہر بھی دِلوائیں اور میراث کا حصہ بھی دِلوائیں، اگر وہ معاف کرنا چاہیں تو ان سے کہہ دیا جائے کہ وہ اپنا حق وصول کرلیں اور کچھ عرصہ تک اپنے تصرف میں رکھنے کے بعد اگر چاہیں تو واپس لوٹادیں، اس سلسلے میں ان پر قطعاً جبر نہ کیا جائے۔
پانچویں کوتاہی:
اگر بیوی مرجائے اور اس کا مہر ادا نہ کیا ہو تو اس کو ہضم کرجاتے ہیں، حالانکہ شرعی مسئلہ یہ ہے کہ اگر رخصتی سے اور میاں بیوی کی یکجائی سے پہلے بیویکا انتقال ہوجائے تو نصف مہر واجب الادا ہوتا ہے ، اور اگر میاں بیوی کی خلوَتِ صحیحہ کے بعد اس کا انتقال ہوا ہو تو پورا مہر ادا کرنا واجب ہوتا ہے، اور یہ مہر بھی عورت کے ترکہ میں شامل ہوکر اس کے جائز ورثاء پر تقسیم ہوتا ہے، اس کا مسئلہ علماء سے دریافت کرلینا چاہئے۔
چھٹی کوتاہی:
اگر لڑکی کا انتقال سسرال میں ہو تو اس کا سارا اثاثہ ان کے قبضے میں آجاتا ہے اور وہ لڑکی کے وارثوں کو کچھ نہیں دیتے، اور اگر اس کا انتقال میکے میں ہو تو وہ قابض ہوکر بیٹھ جاتے ہیں اور شوہر کا حق دینے کی ضرورت نہیں سمجھتے، حالانکہ مردے کے مال پر ناجائز قبضہ جمالینا بڑی گری ہوئی بات بھی ہے اور ناجائز مال ہمیشہ نحوست اور بے برکتی کا سبب بنتا ہے، بلکہ بعض اوقات دُوسرے مال کو بھی ساتھ لے ڈُوبتا ہے۔
ساتویں کوتاہی:
شرعی مہر تو وہی ہے جو نکاح کے وقت مقرّر کیا جاتا ہے، اور وہ لڑکے اور لڑکی دونوں کی حیثیت کے مطابق ہونا چاہئے، اگر کسی قبیلے کی کوئی خاص رسم ہو مثلا وہ چالیس ہزار سے لے کر ایک لاکھ روپے تک کی رقم وصول کرتے ہیں تو یہ مہر نہیں بلکہ نہایت قبیح جاہلانہ رسم ہے اور اس کی نوعیت بردہ فروشی کی ہے، اس رسم کی اصلاح کرنی چاہئے اور یہ کام قبیلے کے معزّز لوگ کرسکتے ہیں۔ (ملخص ومستفاد از آپ کے مسائل اور ان کا حل)
آٹھویں کوتاہی:
بعض مقامات پر لڑکی کی منگنی کے معاوضے میں جو رقم لڑکی والے وصول کرتے ہیں ، وہ شرعاً رشوت کے حکم میں ہے ، جس کا لینا اور دینا دونوں ناجائز ہیں، اس رقم کا واپس کرنا لڑکی والوں پر واجب ہے، ہاں! اگر یہ رقم مہر کا جزء بنا کر دی جائے تو یہ لڑکی کو دینی چاہئے تھی ، اور اگر نکاح منعقد ہونے سے پہلے ہی لڑکی کا انتقال ہوگیا تو اب مہر کا بھی کوئی سوال نہیں رہا ، لہٰذا لڑکی والوں پر بہر صورت واجب ہے کہ وہ رقم واپس کریں۔(فتاوی عثمانی)
نویں کوتاہی:
اگر کسی وجہ سے میاں بیوی میں علیحدگی ہوجائے تو عورت کو دیا ہوا مہر ضبط کرلینا اور اس کے جہیز کے سامان کو روک لینا بھی صریحاً ظلم و عدوان ہے، اسی طرح اگر عورت کا انتقال ہوجائے اور حق ِ مہر معاف کرنے کے سلسلے میں اگر عورت کے والدین منکر ہیں اور وہ حق ِ مہر کا مطالبہ کرتے ہیں اور شوہر کے پاس کوئی گواہ نہیں ہے تو معافی کا کچھ اعتبار نہیں ہوگا، اس لئے حق مہر بھی ورثاء میں تقسیم ہوگا۔( مستفاد از فتاوی عثمانی )
اللہ تعالیٰ عقل و ایمان نصیب فرمائے اور جاہلیت کے غلط رسوم و رواج سے محفوظ رکھے۔ آمین
ناشر: دارالریان للنشر کراتشی

In Islam, a Meher is a mandatory payment, in the form of money or possessions paid or promised to be paid by the groom, or by groom's father, to the bride at the time of marriage, that legally becomes her property. While the mahr is often money, it can also be anything agreed upon by the bride such as jewelry, home goods, furniture, a dwelling or some land. Mahr is typically specified in the marriage contract signed during an Islamic marriage.
https://en.wikipedia.org/wiki/Mahr


No comments:

Post a Comment