Wednesday 14 February 2018

امت میں رائج مہلک منکرات ایک جائزہ

امت میں رائج مہلک منکرات ایک جائزہ
اس وقت پوری دنیا میں مادیت اور شہوانیت کا جو سیلاب آیاہوا ہے، اس نے تمام اخلاقی قدریں تہ وبالاد کرڈالی ہیں، معاشرتی نظام بے حیائی، بدکاری اور عریانیت کا مرکب بن چکا ہے، اخلاقیات کے نظام کو بے کرداری اور نفع پرستی کے مزاج نے زیروزبر کردیا ہے، معاملات کو سود اور حرام کی زنجیروں نے کچھ اس طرح چوطرفہ جکڑ رکھا ہے کہ امانت ودیانت، صداقت وراستی اور خیرخواہی کے اوصاف آخری سانس لے رہے ہیں۔
انحراف اور بگاڑ کا یہ سیلاب پورے عالم میں آیا ہوا ہے اور مشرق ومغرب، عرب وعجم، شہرودیہات، کوئی خطہ اس سے محفوظ نہیں ہے۔
احادیث کی صراحتوں سے واضح ہوتا ہے کہ کسی بھی خطے یا معاشرے پر اللہ کی طرف سے اجتماعی قہروعذاب کا نزول تین گناہوں کے رواج عام کے نتیجے میں ہوتا ہے: 
(۱) سودخوری 
(۲) زنا اور بدکاری 
(۳) زکوٰة کی ادائیگی میں مجرمانہ کوتاہی۔
ایک حدیث میں ارشاد فرمایاگیا ہے:
جب کسی قوم میں سود اور زنا عام ہوجائیں تو وہ اپنے کو اللہ کے عذاب کا مستحق بنالیتی ہے۔ (المستدرک:۲/۳۷)
آج یہی صورتِ حال ہمارے سامنے ہے، سودی لین دین اور بدکاری کے فروغ نے وہ شکلیں اختیار کرلی ہیں کہ ان کا تصور بھی لرزہ طاری کردیتا ہے، اسی طرح زکوٰة کے تعلق سے مجرمانہ غفلت اور کوتاہی کی عام فضا بنی ہوئی ہے، ہماری انھیں بداعمالیوں کا خمیازہ قدرتی آفات کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔
سودخوری کی وبا عام
احادیث کی صراحت کے مطابق کسی قوم، خطے اور معاشرے پر اجتماعی آفت وعذاب کے آنے کا ایک بنیادی سبب سودی کاروبار اور سودی لین دین کا عام چلن ہے۔ شریعت نے حرام کاموں اور گناہوں کی جو تفصیل بتائی ہے، اس میں سود کا گناہ سرِفہرست ہے، قرآن وحدیث میں سود کی شناعت وقباحت کے تعلق سے ایسے ایسے الفاظ بیان ہوئے ہیں جو لرزہ طاری کردیتے ہیں۔ سورة البقرہ میں سود کی حرمت اور اس سے اجتناب کے حکم کے بعد ارشاد فرمایاگیا:
فانْ لَمْ تَفْعَلُوْا فَأذَنُوْا بِحَرْبٍ مِنَ اللہِ وَرَسُوْلِہ․ (البقرة/۲۷۹)
ترجمہ: اگر تم سود کا کاروبار نہیں چھوڑوگے تو تم اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ سن لو۔
غور کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ قرآن مجید نے شرک کے بعد بڑے سے بڑے گناہ کے بارے میں بھی اتنے سخت الفاظ اور اتنا سخت لب ولہجہ استعمال نہیں کیا، جتنا سخت لب ولہجہ ولفظ سود کے بارے میں استعمال کیاہے، ”اعلانِ جنگ“ کے الفاظ انتہائی سخت وعید اور بدترین شناعت کے اظہار کے لیے ہیں۔ روایات میں آتا ہے کہ ایک شخص امام مالک بن انس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا: میں نے شراب کا ایک ایسا رسیا اور نشہ میں چور شخص دیکھا جو چاند کو پکڑنے کی کوشش کررہا تھا، اس پر میں نے کہا: اگر انسان کے پیٹ میں شراب سے بھی بدتر کوئی چیز اترنے والی ہوتو میری بیوی کو طلاق، آپ نے فرمایا: ابھی لوجاؤ کہ میں تمہارے مسئلہ میں غور کرلوں، وہ دوسرے دن آیا تو بھی فرمایا: ابھی لوٹ جاؤ کہ میں تمہارے مسئلہ میں غور کرلوں، وہ تیسرے دن آیا تو فرمایا: تمہاری بیوی کو طلاق پڑگئی، اس لیے کہ میں نے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں انتہائی غور وتدبر کیا؛ مگر سود سے بدتر کوئی چیز نظر نہ آئی؛ اس لیے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان جنگ ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن: ۳/۳۶۴)
سود کی بے برکتی اور نحوست کے وبال کو بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا:
یَمْحَقُ اللہُ الرِّبَا ویُرْبِي الصَدَقَاتِ․ (البقرة/۲۷۶)
ترجمہ: اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔
سود اور صدقہ کی حقیقت، نتائج، اغراض اور کیفیات سب متضاد ہوتے ہیں، صدقہ میں اپنا مال بلامعاوضہ دوسرے کو دیا جاتا ہے اور سود میں دوسرے کا مال بلامالی معاوضہ کے لیاجاتا ہے، صدقہ کی غرض رضائے الٰہی اور ثواب آخرت ہوتی ہے؛ جب کہ سود کی غرض اللہ کے غضب سے نڈر ہوکر اپنی موجودہ دولت میں ناجائز اضافے کی ہوس ہوتی ہے، نتیجہ کا فرق قرآن کی اسی آیت نے بتادیا کہ اللہ سود سے حاصل ہونے والے مال کی برکت وخیرمٹادیتے ہیں؛ جب کہ صدقہ کرنے والے کے مال کو اور اس کی برکت کو بڑھا دیتے ہیں، کیفیات کا فرق یہ ہوتا ہے کہ صدقہ دینے والے کو متنوع اعمال خیر کی توفیق عطا ہوتی ہے اور سود خوربالعموم محرومی میں مبتلا کردیا جاتا ہے۔
ایک حدیث میں فرمایاگیا:
اَلرِّبَا وَانْ کَثُرَ فَانَّ عَاقِبَتَہ تَصِیْرُ الیٰ قلٍّ․ (ابن ماجہ/۱۶۵، المستدرک:۲/۳۷)
ترجمہ: سود کا مال اگرچہ بڑھ جائے؛ مگر اس کا انجام ہمیشہ بے برکتی اور کمی کی شکل میں سامنے آتا ہے۔
سودخور کے مال میں سود کی وجہ سے بہ ظاہر کتنا ہی اضافہ کیوں نہ نظر آتا ہوں لیکن:
(۱) سود خور کے مال میں برکت نہیں ہوتی۔
(۲) ایسے مال میں عام طور سے آفتیں لاحق ہوتی ہیں، ناجائز مصارف میں خرچ ہوجاتا ہے یاکسی ناگہانی آفت وحادثے کی نذر ہوجاتا ہے۔
(۳) سودخور مال کے اصل فوائد یعنی عزت وراحت سے محروم رہتا ہے، اسے اسباب راحت چاہے جس قدر حاصل ہوجائیں، حقیقی راحت واطمینان وسکون کی کیفیات حاصل نہیں ہوتیں، پھر اس کی طبیعت میں سودخوری کی وجہ سے شقاوت، تنگ دلی، بزدلی، مجنونانہ حرص وہوس اور دناء ت اور بے رحمی کے جراثیم جڑپکڑ لیتے ہیں، جس کا نتیجہ ہوتا ہے کہ دوسروں کے دلوں میں اس کی کوئی قدرومنزلت اور عزت ومقام باقی نہیں رہ جاتا۔
سورہٴ آل عمران میں ارشاد ہے:
یَا أَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا لا تَأْکُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً وَاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ․ (آل عمران/۱۳۰)
ترجمہ: اے ایمان والو! کئی گنا بڑھا چڑھاکر سود مت کھاؤ اور اللہ سے ڈرو تاکہ تمہیں فلاح حاصل ہو۔
اس آیت میں زمانہٴ جاہلیت میں مروج سود کی ایک خاص صورت کا ذکر بہ طور مثال ہے، ورنہ سود کی حرمت کا حکم عام ہے، وہ کئی گنا بڑھاچڑھاکر ہویا نہ ہو۔
سود کی حرمت وشناعت کے تعلق سے احادیثِ نبویہ میں بہت مواد موجود ہے، بخاری ومسلم کی ایک روایت میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو سات ہلاک وبرباد کرنے والی چیزوں سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے اور ان سات چیزوں میں شرک، جادو، قتل ناحق، میدان جنگ سے فرار ہونا، تہمت طرازی، یتیم کا مال ناحق کھانے کے ساتھ سودخوری کا ذکر صریح الفاظ میں آیا ہے۔ (بخاری:۱/۳۸۸)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں:
لَعَنَ رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آکلَ الرِّبَا وَمُوْکِلَہ وَکَاتِبَہ وَشَاھِدَیْہِ، وَقَالَ: ھُمْ سَوَاءٌ (مسلم:۲/۲۷)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سود کی تحریر لکھنے والے، اور سود پر گواہ بننے والے پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا: یہ سب گناہ میں برابر ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ چار شخص ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر لازم کرلیا ہے کہ ان کو جنت میں داخل نہیں کریں گے اورنہ ان کو جنت کی نعمتوں کا ذائقہ چکھائیں گے: 
(۱) عادی شرابی  
(۲) سود کھانے والا  
(۳) ناحق یتیم کا مال اڑانے والا  
(۴) ماں باپ کی نافرمانی کرنے والا۔ (المستدرک:۲/۳۷)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ  سے مروی حدیث نبوی میں سخت وعید آئی ہے:
الربا ثلاث وسبعون بابا، أیسرھا مثل أن ینکح الرجل أمّہ․ (المستدرک:۲/۳۷)
سود کے وبال تہتر قسم کے ہیں، ان خرابیوں میں سے ادنیٰ اور کمتر قسم ایسی ہے، جیسے کوئی شخص (معاذ اللہ) اپنی ماں کے ساتھ منھ کالا کرے۔
حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں:
الدرھم یصیبہ الرجل من الربا أعظم عند اللہ من ثلاثة وثلاثین زنیة یزنیھا فی الاسلام (أیضًا)
ایک درہم کوئی سود سے حاصل کرے، اللہ کے نزدیک مسلمان ہونے کے باوجود ۳۳ بار زنا کرنے سے بھی زیادہ شدید جرم ہے۔
دوسری روایت میں وارد ہوا:
الربا اثنان وسبعون حوبا، اصغرھا حوبا کمن أتیٰ امہ فی الاسلام، ودرھم من الربا أشد من بضع وثلاثین زنیة․ (شعب الایمان للبیہقی:۴/۳۹۲)
سود کے بہترگناہ ہیں، ان میں سب سے چھوٹا گناہ اس شخص کے گناہ کے برابر ہے، جو مسلمان ہوکر اپنی ماں سے زنا کرے اور ایک درہم سود کا گناہ کچھ اوپر ۳۰ زنا سے زیادہ بدتر ہے۔
حضرت حنظلہ (شہیدِ اسلام، جن کو فرشتوں نے غسل دیا تھا) کے صاحبزادے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں:
درھم ربا یأکلہ الرجل وھو یعلم أشد من ستة وثلاثین زنیة․ (مسند أاحمد: ۵/۶۹، مجمع الزوائد: ۴/۱۱۷)
سود کا ایک درہم جسے کوئی جانتے ہوئے استعمال کرلے ۳۶ مرتبہ زنا کرنے سے بھی زیادہ شدید جرم ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: شبِ معراج میں جب ہم ساتویں آسمان پر پہنچے تو میں نے اوپر کی طرف نظر اٹھاکر دیکھا تو اچانک گرج، بجلی اور کڑک محسوس کی، پھر ایک ایسی قوم پر میرا گزرہوا جن کے پیٹ بڑے بڑے مکانوں جیسے تھے، جن میں سانپ بھرے ہوئے تھے، جو باہر صاف طور سے نظر آرہے تھے، میں نے جبرئیل سے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ انھوں نے بتایا: یہ سودخورلوگ ہیں۔ (ابن ماجہ:۱۶۴، مسند احمد: ۲/۲۵۶)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں:
ما ظاھر فی قوم الزنا والربا الا أحلوا بأنفسھم عذاب اللہ․ (مجمع الزوائد:۴/۱۱۸)
جس قوم میں زنا اور سود پھیل گیا انھوں نے یقینا اللہ کا عذاب اپنے اوپر اتارلیا۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:
ایٴا أراد اللہ بقوم ھلاکا فشافیھم الربا․ (مسند الفردوس الدیلمی: ۲/۲۱۳)
جب اللہ کسی قوم کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں تو ان میں سود پھیل جاتا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ایک حدیث میں انتہائی چشم کشا حقیقت کا بیان ہے:
لیأتین علی الناس زمان لا یبقیٰ منھم أحد الا أکل الربا، فمن لم یأکل أصابہ من غبارہ․ (ابن ماجہ)
ایک زمانہ ضرور ایسا آئے گا کہ کوئی بھی سود سے نہ بچ سکے گا اور کوئی شخص سودخوری سے بچ بھی گیا تو بھی سود کے دھویں اور غبار سے نہیں بچ سکے گا۔ مذکورہ احادیث اور بہ طور خاص اس حدیث کے تناظر میں ہم اگر موجودہ صورتِ حال کا تجزیہ کریں تو واضح ہوتا ہے کہ محتاط اندازے کے مطابق اٹھانوے فیصد افراد سود کی لعنت میں گرفتار ہیں، پورا تجارتی نظام سود پر منحصرہوچکا ہے، دو فی صد باتوفیق بندے ایسے ہیں جو سود خوری سے بچے ہوئے ہیں؛ لیکن سودی نظام کی زنجیرنے عالمی معیشت وتجارت کو اس طرح جکڑ رکھا ہے اور سماج میں سود اس طرح سرایت کرگیاہے کہ ان باتوفیق اور حلال کاروبار کرنے والوں کا حلال مال بھی پورے طور پر سود کے دھویں اور غبار سے محفوظ اور بچا ہوا نہیں رہ جاتا۔ اب جب کہ دنیا سودی لعنت میں جکڑے ہوئے تجارتی ومعاشی نظام کا تجربہ کرچکی ہے اور اس کے اخلاقی، روحانی، تمدنی، اجتماعی اور معاشرتی نقصانات کا سامنا بھی کرچکی ہے اور اس کے نتیجہ میں بار بار مختلف شکلوں میں آنے والے قہرِالٰہی سے بھی دوچار ہوچکی ہے، دنیا کے لیے سود سے بالکل پاک اسلامی نظام معیشت (جو تمام انسانی طبقات کے لیے سراپا رحمت وخیر ہی ہے) کو اپنانے کے سوا کوئی اور متبادل اور چارئہ کار باقی نہیں بچا ہے۔ سود کی مناسبت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی پوری ملت کے لیے انتہائی فکرانگیز ہے:
ان من أربیٰ الربوا الاستطالة فی عرض المسلم بغیر حق․ (أبوداوٴد: کتاب الأدب)
سب سے بڑا سود یہ بھی ہے کہ کوئی کسی مسلمان کی آبرو پر ناحق دست درازی کرے۔ مزید ارشاد ہوا:
ان أربیٰ الربا عرض الرجل المسلم․ (المستدرک:۲/۳۷)
بلاشبہ بدترین سود کسی مسلمان کی آبروریزی ہے۔
واضح ہوکہ کسی مسلمان کی عزت وآبرو سے کھلواڑ، بے جا تہمت طرازی، ناحق دست درازی اسی سود کا ایک حصہ ہے جس کو ماں کے ساتھ زنا سے بدتر اور خدا کے غضب وعذاب کا موجب بتایاگیا ہے۔
بے حیائی کا سیلابِ بلاخیز
بے حیائی، بے پردگی اور بدکاری کی لعنت اللہ کے قہروعذاب کو دعوت دیتی ہے، شریعت نے حیا اور پردے کا انتہائی معقول نظام انسانیت کو دیا ہے اور ہر وہ سوراخ بند کردیا ہے، جہاں سے بے حیائی کے جرثومے ابھرکر آسکتے ہوں، قرآن نے زنا کو صاف الفاظ میں بے حیائی کا عمل، ناپسندیدہ اور برا چلن بتاکر اس کے قبح شرعی، قبح عقلی اور قبح عرفی کا ذکر کیا ہے (النساء/۲۲) اور اسے بے حیائی کا کام اور بری راہ قرار دے کر اس کے قریب تک جانے سے منع کردیا ہے (الاسراء/۳۲) اس طرح بے حیائی، بے پردگی اور فحاشی کے تمام قولی، فعلی، تقریری وتحریری، لباسی وتصویری مظاہروں پر کڑی بندش عائد کردی ہے۔

اس وقت پوری دنیا میں فحاشی کا جو سیلاب بلاخیز آیا اور چھایاہوا ہے، وہ قربِ قیامت کی علامت ہے جس کی پیش گوئی احادیث میں جابجا فرمائی گئی ہے، ایک حدیث میں فرمایاگیا ہے کہ ایسی عورتیں کثرت سے ہوں گی جو بہ ظاہر لباس میں ہوں گی ؛ مگر لباس اتنا باریک ہوگا اور اس سے جسمانی خدوخال اس درجہ نمایاں ہوں گے کہ درحقیقت وہ برہنہ ہوں گی، وہ خود مردوں کی طرف مائل ہوں گی اور مردوں کو اپنی طرف مائل کریں گی، ایسی عورتیں جنت کی خوشبو سے بھی مرحوم کردی جائیں گی۔ (مسلم/۳۹۴۱)
بے حیائی کے اس طوفان کے تین اسباب بالکل نمایاں ہیں:
(۱) نوجوان لڑکوں اورلڑکیوں کی شادی میں بے انتہا تاخیر (اس کے اسباب کچھ بھی ہوں)
(۲) مخلوط نظامِ تعلیم ومعاشرت
(۳) موبائل اور ٹی وی اور نیٹ کے ذریعہ فحاشی کا فروغ
زنا اور عریانیت میں مبتلا سماج پر احادیث کے مطابق عذابِ الٰہی اور امراض وآفات کا نزول ہوکر رہتا ہے، ان آفات سے حفاظت کی تدبیر صرف یہ ہے کہ ملت کا ہر فرد خود بھی عفت مآب بنے اور اپنے گھر، خاندان اور سماج کو بے حیائی اور بے حجابی کی لعنت سے پاک کرنے کی مہم میں لگ جائے۔
زکوٰة کے تعلق سے عمومی کوتاہی
اسلام کے ارکان میں نماز کے بعد دوسرا مقام ”زکوٰة“ کو حاصل ہے، قرآن مجید میں اکثر مقامات پر نماز کے ساتھ زکوٰة کا ،ذکر اور تاکید موجود ہے، یہ وہ فریضہ ہے جسے اسلام میں ستون وبنیاد کا درجہ دیاگیا ہے، کسی انسان کے صاحبِ ایمان ہونے کی شناخت کے لیے جو معیار قرآن نے طے کیا ہے، اس میں توحید ورسالت کے اقرار اور نماز کے بعد زکوٰة ہی کا ذکر ہے۔(التوبہ/۱۱)
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت کے لیے جو شرطیں متعین فرمائی ہیں، ان میں بھی زکوٰة کا ذکر ہے۔ (الحج/۴۱)
جو لوگ اس فرض کو ادا نہیں کرتے، ان کے لیے آخرت میں دردناک عذاب کی دھمکی قرآن وحدیث میں موجود ہے، دنیا میں بھی اس جرم کی نقد سزا کے طور پر بے برکتی، مال کا غلط مصارف میں ضیاع اور نقصان جیسی آفات مسلط کردی جاتی ہیں۔
ممتاز عالم دین حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمة اللہ علیہ نے تحریر فرمایا ہے:
”زکوٰة وصدقات کی برکت سے مال کا بڑھنا اور ان کے روکنے کی نحوست سے مال کا گھٹنا ایک ایسی روشن حقیقت ہے جس سے کسی منصف مزاج کافر کو بھی مجال انکار نہیں؛ مگر افسوس رنگ و بو کی ظلمت نے آج کے مسلمان کی نظر سے اس روشن اور چمکتی حقیقت کو بھی اوجھل کردیا، اس مسلمان معاشرے میں کتنے مسلمان ہیں جو فریضہٴ زکوٰة کے تارک ہیں، انھیں اپنے مال کا چالیسواں حصہ نکالنا گوارہ نہیں؛ مگر دوسری طرف یہ گوارہ ہے کہ امراض ناگہانی آفات وحوادث یا ناجائز مصارف میں اس سے بھی دس گنا زائد مال نکل جائے۔ ذیل میں ایک دشمن اسلام انگریز کا واقعہ درج کیا جارہا ہے، شاید کسی غافل مسلمان کی چشم عبرت وا ہو۔ حضرت اقدس مولانا محمدزکریا صاحب کاندھلوی قدس سرہ فرماتے ہیں:
”میں نے اپنے بچپن میں اپنے والد صاحب سے اور دوسرے کئی لوگوں سے بھی یہ قصہ سنا کہ ضلع سہارنپور میں قصبہ بہیٹ سے آگے انگریزوں کی کچھ کوٹھیاں تھیں، جن میں ان انگریزوں کے کاروبار ہوتے تھے اور ان کے مسلمان ملازم کام کیاکرتے تھے اور وہ انگریز دہلی کلکتہ وغیرہ بڑے شہروں میں رہتے تھے، کبھی کبھی معائنہ کے طور پر آکر اپنے کاروبار کو دیکھ جاتے تھے، ایک مرتبہ اس جنگل میں آگ لگی جو کبھی کبھی مختلف وجوہ سے لگتی رہتی تھی اور وہاں کے باغات وجنگلات کو جلادیتی تھی، ایک دفعہ اس جنگل میںآ گ لگی اور قریب قریب ساری کوٹھیاں جل گئیں، ایک کوٹھی کا ملازم اپنے انگریز آقا کے پاس دہلی بھاگا ہوا گیا اور جاکر واقعہ سنایا کہ حضور سب کوٹھیاں جل گئیں، آپ کی بھی جل گئی، وہ انگریز کچھ لکھ رہا تھا، نہایت اطمینان سے لکھتا رہا، اس نے التفات بھی نہیں کیا، ملازم نے دوبارہ زور سے کہا کہ حضور سب جل گیا، اس نے دوسری دفعہ بھی لاپرواہی سے جواب دے دیا کہ میری کوٹھی نہیں جلی اور بے فکری سے لکھتا رہا، ملازم نے جب تیسری دفعہ کہا تو انگریز نے کہا کہ میں مسلمانوں کے طریقہ پر زکوٰة ادا کرتا ہوں؛ اس لیے میرے مال کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا، وہ ملازم تو جواب دہی کے خوف کے مارے بھاگا ہوا گیا تھا کہ صاحب کہیں گے کہ ہمیں خبر بھی نہیں کی، وہ انگریز کی اس لاپرواہی سے جواب سن کر واپس آگیا، آکر دیکھا تو واقعی سب کوٹھیاں جل چکی تھیں؛ مگر انگریز کی کوٹھی باقی تھی۔
فائدہ:- اللہ کی شان کہ اسلامی احکام پر عمل کرکے غیرمسلم تو فائدہ اٹھائیں اور ہم لوگ زکوٰة ادا نہ کرکے اپنے مالوں کو نقصان پہنچائیں، کہیں چوری ہوجائے، کہیں ڈاکہ پڑجائے، کہیں کوئی آفت مسلط ہوجائے۔ (سود خور سے اللہ اور اس کے رسول کا اعلان جنگ/۱۲-۱۳، بحوالہ آپ بیتی: ۲/۸۸)
اس سے آگے بڑھ کر دیکھا جائے، اگراجتماعی طور پر کسی معاشرے یا خطے میں زکوٰة کا اہتمام ختم ہونے لگتا ہے، لوگ زکوٰة کی ادائیگی سے لاپرواہ ہوجاتے ہیں، یا پائی پائی کے مطلوب حساب کے بجائے تخمینی طور پر زکوٰة ادا کردیتے ہیں، تو ان کوتاہیوں کا وبال اجتماعی وبال وآفت (مثلاً قحط سالی ودیگر حادثات) کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے، آج یہی صورتِ حال سامنے ہے، احادیث کی صراحت کے مطابق ایک دور ایسا آئے گا کہ زکوٰة کو تاوان اور بوجھ سمجھا جائے گا، آج کا منظر نامہ اس کی تصدیق کرتا ہے۔
ہمیں زکوٰة کے تعلق سے عمومی کوتاہی کے اس پہلو کو ضرور پیشِ نظر رکھ کر اپنی اصلاح کرنی چاہیے اور پوری ملت کا یہ مجموعی مزاج بننا چاہیے کہ ہر صاحبِ نصاب شریعت کے اصول کے مطابق مکمل حساب کے بعد زکوٰة کی رقم نکالے اور واقعی مستحقین تک اسے پہنچائے۔
حاصل یہ ہے کہ اجتماعی عذاب کا باعث بننے والی مذکورہ تینوں چیزوں: 
(۱) سود خوری کی وبائے عام، 
(۲) بدکاری اور بے حیائی کا سیلاب بلاخیز، 
(۳) زکوٰة کے تعلق سے عمومی کوتاہی﴾ سے امت کا ہر فرد بہ صدق قلب تائب ہو اور مستقبل میں کبھی ان لعنتوں کے قریب نہ جانے کا پختہ عہد کرے، قرآنی بیان کے مطابق اللہ کی رحمت اور آفتوں سے حفاظت نیکوکاروں ہی کے قریب ہوتی ہے۔از: مولانا محمد اسجد قاسمی ندوی
شیخ الحدیث جامعہ عربیہ امدادیہ، مرادآباد
 
http://www.darululoom-deoband.com/urdu/articles/tmp/1508669124%2004-Ummat%20me%20Raij_MDU_3_March_17.htm 
 

No comments:

Post a Comment