Wednesday 21 February 2018

کناروں پر ٹکے ہوئے سترہ کا حکم؟

کناروں پر ٹکے ہوئے سترہ کا حکم؟
سوال (۸۲):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ:
اگر سترہ کے دونوں کنارے زمین پر ٹکے ہوئے ہو‌ں اور بیچ کا حصہ ٹکا ہوا نہ ہو تو یہ سترہ قابل اعتبار ہوگا یا نہیں؟ اگر قابل اعتبار ہے تو زمین اور ستر کے درمیان کتنا فاصلہ ہونا درست ہے؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
اگر سترہ کے دونوں کنارے زمین پر ٹکے ہوئے ہوں تو بیچ کی جگہ خالی رہنے سے کوئی فرق نہ پڑے گا؛ بلکہ یہ پورا سترہ ہی شمار ہوگا، اور زمین سے سترہ کی اونچائی کم سے کم ایک ذراع ہونی چاہئے۔
عن عوف بن أبي جحیفۃ عن أبیہ أن أباہ راٰی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في قبۃ حمراء من أدمٍ، وفیہ: ثم رأیت بلالاً أخرج عنزۃً فرکزہا، وخرج رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في حلۃٍ حمراء مشمرًا، فصلی إلی العنزۃ بالناس رکعتین۔
(صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ / باب سترۃ المصلي ۱؍۱۹۶ رقم: ۵۰۳)
ینبغي أن یکون مقدار طولہا ذراعًا، وینبغي أن یکون في غلظ قدر أصبع۔
(المحیط البرہاني ۲؍۲۱۶، الفتاویٰ التاتارخانیۃ، کتاب الصلاۃ / مسائل السترۃ ۲؍۲۸۶، رقم: ۲۴۴۰ زکریا، الدر المختار ۲؍۴۰۲ زکریا)
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
املاہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۵؍ ۷؍ ۱۴۳۶ھ
الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ
......................
صفوں کے درمیان بطور سترہ کے منتقلی اسٹینڈ کھڑا کرنا؟
سوال(۷۹۵):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: آج کل مساجد میں صفوں کے درمیان تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر بطور ’’سترہ‘‘ کے لوہے یا لکڑی کے تختوں سے بنے ہوئے اسٹینڈ کھڑے کئے جاتے ہیں، جس کے دو پائے ہوتے ہیں؛ تاکہ لوگوں کو نکلنے یا داخل ہونے میں سہولت رہے۔ شرعاً اس کی اونچائی مع پایہ اور موٹائی کتنی مطلوب ہے؟ نیز پرشیٹ (یاپر تختہ) کی ہو یا سلاخوں والی کی بھی گنجائش ہے؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: سترہ کے معنی ’’آڑ‘‘ کے آتے ہیں، اب اگر یہ چھڑی کے مانند کھڑی کی جانے والی کوئی چیز ہے، تو اس کی اونچائی کم از کم ایک ذراع (تقریباً ڈیڑھ فٹ) ہونی چاہئے، اور اَحوط یہ ہے کہ موٹائی ایک انگلی کے بقدر ہو، اور اگر یہ لکڑی وغیرہ کا بنایا ہوا فریم ہے تو یہ پورا فریم خواہ ٹھوس ہو یا درمیان میں سلاخوں سے بنایا گیا ہو، شئ واحد کے حکم میں ہے، اگر یہ ڈیڑھ فٹ کے بقدر اونچاہے تو سترہ کے لئے کافی ہے، اس کی موٹائی اگرچہ ایک انگلی سے کم ہو تب بھی کوئی حرج نہیں؛ کیوںکہ سترہ ’’آڑ‘‘ کا مفہوم اس میں پوری طرح پایا جارہا ہے؛ لہٰذا سوال نامہ میں سترہ کی جو دونوں شکلیں لکھی ہیں، ان میں صرف اونچائی کا لحاظ رکھا جائے گا، پس اگر وہ ایک ذراع کے بقدر اونچے ہیں، تو مساجد میں سترہ کے طور پر ان کا استعمال بلاشبہ درست ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ ۱؍۱۷۱ میرٹھ، احسن الفتاویٰ ۳؍۴۱۰)
عن موسیٰ بن طلحۃ عن أبیہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا وضع أحدکم بین یدیہ مثل مؤخرۃ الرحل، فیصل ولا یبال من مرّ وراء ذٰلک۔ (صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ / باب سترۃ المصلي ۱؍۱۹۵ رقم: ۴۹۹)
ویغرز الإمام وکذا المنفرد سترۃ بقدر ذراع طولاً وغلظ إصبع۔ (شامي ۲؍۴۰۲ زکریا)
http://www.elmedeen.com/read-book-4102&page=465#page-465&viewer-text
...........................
سوال # 61299
ہماری مسجد میں اکثر لوگ جلدی بازی میں نمازیوں کے آگے سے بے دھڑک گذرجاتے ہیں:
(۱) اگر کوئی شخص کسی نماز پڑھنے والے کے آگے سے گذر جائے تو کیا یہ گناہ ہے؟
(۲) کسی نمازی کے آگے سے گذرنے کا طریقہ کیا ہے؟
(۳) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کیا لوگوں کو نماز ی کے آگے سے گذرنے کی اجازت تھی؟
Published on: Nov 26, 2015
جواب # 61299
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 118-101/N=2/1437-U
(۱) جی ہاں! نمازی کے سامنے کسی حائل یا سترہ کے بغیر گذرنے والا گناہ گار ہوتا ہے، البتہ اگر مسجد بڑی ہو یعنی: کم از کم ۶۰/ گز لمبی ہو یا میدان ہو تو خشوع وخضوع کے ساتھ نماز پڑھنے والے کی نظر جہاں تک جاسکتی ہے، اس کے بعد سے گذرنا جائز ہے اور آسانی وسہولت کے لیے اس کا اندازہ سجدہ کی جگہ سے دو تین صف تک کیا گیا ہے؛ لہٰذا بڑی مسجد یا میدان میں تین صف (۱۲/ فٹ) کے بعد نمازی کے آگے سے گذرنے کی اجازت ہے (در مختار وشامی ۲: ۳۹۸، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند، تبیین الحقائق ۱: ۴۰۱، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند، فتاوی دار العلوم دیوبند ۴: ۱۳۶، سوال: ۱۵۸۳، امداد الاحکام ۲: ۵۸، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند، کفایت المفتی جدید ۳: ۴۹۴، مطبوعہ دار الاشاعت کراچی، منتخبات نظام الفتاوی ۲: ۷۱، ۷۲، مطبوعہ: ایفا پبلی کیشنز، دہلی، مسائل امامت حضرت مولانا مفتی حبیب الرحمن صاحب خیرآبادی دامت برکاتہم ص ۳۲۷ وغیرہ)۔ 
(۲) اگر نمازی کے سامنے کوئی ستون یا سترہ وغیرہ ہے تو ستون یا سترہ کے پیچھے سے بلا تکلف گذرسکتے ہیں، اور اگر کوئی ستون وغیرہ نہیں ہے اور مسجد بڑی ہے یا نماز پڑھنے والا میدان میں نماز پڑھ رہا ہے تو تین صف (۱۲/ فٹ) کے بعد گذرسکتے ہیں، اور اگر مسجد چھوٹی ہے تو اگر ممکن ہو تو نماز سے فارغ ہونے کا انتظار کرلیا جائے اور اس میں دقت ودشواری ہو تو کوئی سترہ رکھ کر بھی گذرسکتے ہیں اور اگرسترہ بنانے کی کوئی چیز نہ ہو تو رومال وغیرہ نمازی کے سامنے کردے اور گزرجائے۔ اور اگر اس طرح کی کوئی چیز بھی نہ ہو اور سخت ضرورت در پیش ہو مثلا پیشاب کا شدید تقاضہ ہو تو مجبوری میں نمازی کے سامنے سے گذرنے میں کوئی گناہ نہ ہوگا (شامی ۲: ۳۹۹- ۴۰۱، احسن الفتاوی ۴: ۴۱۰ وغیرہ)۔ 
(۳) جی نہیں! حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازی کے سامنے سے گذرنے سے منع فرمایا ہے اور میدان وغیرہ میں نماز پڑھنے کی صورت میں سترہ کا اہتمام فرماتے تھے اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین بھی ان سب باتوں پر عمل کرتے تھے جیسا کہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے (دیکھئے: مشکوة شریف ص۷۳- ۷۵)؛ اس لیے یہ کہنا صحیح نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نمازی کے آگے سے گذرنے کی اجازت تھی۔ 
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Salah-Prayer/61299
.................
سترہ کے احکام
مسجدِ صغیر اور کبیر کی تعریف اور سامنے سے گذرنے کا حکم
سوال (۷۹۳):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: مسجدِ کبیر اور مسجدِ صغیر کسے کہتے ہیں؟ کیا مسجدِ کبیر میں مصلی کے سامنے سے دو یا تین صفوں کے بعد گزرسکتے ہیں یا نہیں؟ اگر گزرسکتے ہیں تو مسجدِ صغیر میں یہ حکم کیوں نہیں؟ دونوں میں علتِ مفارقت کیا ہے؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مسجدِ کبیر کا اطلاق فقہاء نے اتنی بڑی مسجد پر کیا ہے جو ۶۰ یا ۴۰؍ ہاتھ پر مشتمل ہو، اس کا حکم یہ ہے کہ سجدہ کی جگہ سے تقریباً ایک دو صف آگے سے گزر سکتے ہیں اور جو مسجد چالیس ہاتھ سے چھوٹی ہو اس میں سترہ کے بغیر آگے سے گزرنا درست نہیں ہے۔
قیاس تو اس کا مقتضی تھا کہ مسجدِ کبیر کا بھی یہی حکم ہوتا؛ لیکن وہاں حرج عظیم ہونے کی وجہ سے حکم میں تخفیف کردی گئی ہے اور مسجدِ صغیر میں یہ حکم برقرار ہے؛ اس لئے کہ اس میں زیادہ حرج نہیں ہے۔
والمکروہ المرور بمحل السجود علی الأصح في المسجد الکبیر والصحراء والصغیر مطلقاً۔ وفي الطحطاوي: ہو أن یکون أربعین فأکثر، وقیل: ستین فأکثر، والصغیر بعکسہ۔ (طحطاوي علی المراقي ۱۸۸)
وفي الشامي: بخلاف المسجد الکبیر والصحراء، فإنہ لو جعل کذٰلک لزم الحرج علی المارۃ۔ (شامي ۱؍۶۳۴ کراچی، شامي ۲؍۳۹۸ زکریا) فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۵؍۱۲؍۱۴۱۳ھ
الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ
....................
بڑی مسجد کی مقدار کیا ہے اس میں نمازی کے آگے گزرنا کیسا ہے؟
سوال (۷۹۴):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: بڑی مسجد کی مقدار کیا ہے یعنی مسجد کتنے فٹ لمبی چوڑی ہو، تو اس میں نمازی کے آگے سے بغیر سترہ کے گذر ناجائز ہے، اور گذرنے والا نمازی کے آگے پیروں سے کتنے فاصلہ سے گذرسکتا ہے؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بڑی مسجد کا اطلاق ایسی مسجد پر ہوگا جس کی لمبائی چوڑائی ۴۰-۴۰ ؍ہاتھ ہو، اور ایسی بڑی مسجد میں نمازی کے آگے سے اتنے فاصلہ سے گذرسکتے ہیں کہ نمازی اگر خشوع وخضوع سے سجدہ کی جگہ نگاہ جماکر نماز پڑھے، تو اس کی نظر گذرنے والے پر نہ جاسکے، اس کا اندازہ سجدہ کی جگہ سے ایک یا دو صف سے کیا جاسکتا ہے۔
المسجد الکبیر وہو أن یکون أربعین فأکثر۔ (طحطاوي ۳۴۲، شامي ۱؍۶۳۴ کراچی)
وأصح ما قیل فیہ أن المصلي لو صلی بخشوع، فإلی الموضع الذي یقع بصرہ علی المار یکرہ المرور بین یدیہ، وفیما وراء ذٰلک لایکرہ۔ (المبسوط للسرخسي ۱؍۱۹۲، کذا في الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۲؍۲۸۴ زکریا) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم
کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۴؍۱۱؍۱۴۲۹ھ 
الجواب صحیح: شبیر احمد عفااﷲ عنہ 
http://www.elmedeen.com/read-book-4102&page=465#page-464&viewer-text


No comments:

Post a Comment