Wednesday 14 February 2018

پیٹ؛ صحت کا مرکز

انسانی جسم میں دل کو یقین کا مرکز جبکہ پیٹ کو صحت کا مرکز قرار دیا جاتا ہے۔لیکن اس کا کیا کیجئے کہ جدید طرز زندگی میں ساری مار پیٹ پر ہی پڑ رہی ہے ۔ زندگی گزارنے کا موجودہ طریقہ غضب ڈھارہا ہے۔ ماڈرن دور میںکھانے پینے کا انداز بدل گیا ہے۔اب لوگ کھاتے زیادہ ہیں اور محنت کم کرتے ہیں۔ اسی طریقہ زندگی کی وجہ سے معدے میں غذا کم ہضم ہوتی ہے اور بجائے اس کے کہ معدے کو درست کرنے کی تدابیر اختیار کی جائیں،ہر شخص دن میں دس دس بار کھانے پینے سے باز نہیں آتا۔ سونے پر سہاگہ چکن فارمی مرغ، کڑاہی گوشت،جو پتہ نہیں کس جانور کا ہوتا ہے، جسے کھا کر ہاضمے کا عمل تیز کرنے کے لئے اوپر سے چار،پانچ کولڈ ڈرنکس چڑھا لی جاتی ہیں۔ اس سے معدے کے اندر اوجھڑی کے وہ کانٹے گل سڑ جاتے ہیں جو غذا کو ہضم کرنے میں معاون اور مددگار ہوتے ہیں۔ پھر معدہ کے اس کام کو’ درست‘ کرنے کے لئے مستقل طور پر’ کولڈ ڈرنک‘ کا ہی سہارا لینا پڑتا ہے۔ اگر نہ پئیں تو کھانا ہضم ہی نہیں ہوتا۔ کچھ لوگ شوقیہ طور پر لٹر کی بوتل پکڑ کر ایک سانس میں ڈکار جاتے ہیں۔سند کے طور پر سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کا حاولہ دیتے ہیں کہ وہاں کھانے کے ساتھ پیپسی پی جاتی ہے۔انھیں کیا معلوم کہ اس قسم کی حرکتیں کرنے والے اپنے ساتھ خود ہی دشمنی کررہے ہیں!اسی کے سبب آئے دن پیٹ سے متعلق امراض میں اضافہ ہورہا ہے۔غنیمت ہے کہ ماہرین نے اس سلسلہ میں واضح رہنمائی عطا فرمائی ہے؛
تبخیر معد ہ کی دشواریاں:
معدے میں جب غذا پڑی رہتی ہے اور ہضم نہیں ہوتی تو اس کے اندر ایک طرح کا تغیر رونما ہوتا ہے اس کی چند مثالوں پر غور کیجئے کہ شاید آپ کا طرز زندگی شاید بدل جائے:
1- گھر کا گندھا ہوا آٹا ایک مخصوص مدت تک پڑا رہے تو پھول جاتا ہے۔ جسے خمیرہ آٹا کہتے ہیں۔ اس کا ذائقہ بدل جاتا ہے اور کھانے کے قابل نہیں رہتا۔ اس کے اندر 2 چیزیں پیدا ہوجاتی ہیں جو اسے ناکارہ بنا دیتی ہیں۔
2- گرمیوں میں بند کمرے میں یا بند برتن میں سالن زیادہ دیر تک پڑا رہے تو سڑجاتا ہے، اس کے اندر بدبو پیدا ہوجاتی ہے اور کیمیکل ری ایکشن ہوجاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں سالن کے اندر خودبخود ایک ابال پیدا ہوجاتا ہے اور چکھنے سے تھوڑا کھٹا محسوس ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کھانے میں دو چیزیں اضافی پیدا ہوگئیں ہیں۔ جو یہ ہیں:
1- ہوا یعنی گیس
2- کھٹا پن یا ترشی یا تیزابیت

ان دو مثالوں کو مدنظر رکھ کر غور کیجئے کہ یہ برتن جس کے اندر غذا پڑی ہوئی ہے وہ آپکا معدہ ہے۔ اسی طرح جب معدے کے پٹھے اسکا فعل ہم نے خود خراب کردیا ہو تو معدے کی کمزوری کی وجہ سے غذا زیادہ دیر تک معدے میں پڑی رہتی ہے اور ہضم نہیں ہوتی۔ اس کے اندر بھی بدبو اور ہوا پیدا ہوجاتی ہے۔ اس عمل کو تبخیر، گیس، ریح یا تیزابیت کہتے ہیں۔ اب اگر آپ فرض کریں یہ معدے کے اندر پڑی ہوئی غذا جس کے اندر بدبو بھی ہے، اور تیزابی خراب مادہ بھی ہے یہ ہضم ہوجاتی ہے جلد یا بدیر تو کیا ہوگا؟ تھوڑا غور فرمالیں۔
1- اس سے اچھی قسم کا خون نہیں بنے گا۔ اور اگر بن بھی گیا تو اس ناقص اور ردی خون سےعضلات، شریانیں، پٹھے، گردے، مثانہ، تمام جوڑوں کے نظام میں خرابی پیدا ہوجاتی ہے اور اس کے نتائج بڑے بھیانک اور خطرناک ہو سکتے ہیں۔
2- اس کے باعث، سینے یا پیٹ کی جلن، معدے کا ورم، معدے کے زخم یا السر، دل کی دھڑکن کا بڑھ جانا، پیٹ میں درد، شوگر، دل کی شریانوں کا تنگ ہوجانا، مختلف قسم کے وسوسے، جلدی تھک جانا، جوڑوں کی دردیں، سستی، اعصابی کمزوری، مثانے کی کمزوری، قطرہ قطرہ پیشاب آنا، نیند نہ آنے کا مسئلہ، سرعت انزال، جلدی بڑھاپے کے آثار وغیرہ شامل ہیں۔
3- غذا کے زیادہ دیر معدے میں پڑے رہنے کی وجہ سے اسکی غذائیت ختم ہوجاتی ہے۔ یعنی آپنے صرف اپنا پیٹ بھرا ہے۔ غذا کے اندر موجود وٹامن، فولاد اور کیلشئیم وغیرہ مناسب طور پر جسم میں جذب نہیں ہوتے اور جب جذب نہیں ہوتے تو جسم میں کمزوری پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے، جسم کے اندر کا "ڈاکٹر" جب خود بیمار پڑجائے تو وہ بیماریوں کو جسم میں پیدا ہونے سے بچا نہیں پائےگا۔ جسم کی مدافعتی طاقت ختم ہو کر رہ جائے گی۔
اس کا علاج کیسے کیا جائے؟
اگر معاملہ زیادہ نہ بگڑا ہو تو کسی دوا کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کا علاج آپ کے اپنے پاس ہے۔ اس کے لئے صرف چند احتیاطیں کرلیں، کچھ چیزیں چھوڑ دیں آپ خودبخود تندرست ہوجائیں گے۔ وہ تدابیر میں نیچے دے رہا ہوں آپ عمل کرنے کی طرف آئیں:
1- ہمارے پیارے پیغمبر صل اللہ علیہ وسلم ہمیشہ کھانے سے کچھ وقت پہلے پانی پی لیا کرتے تھے یا کبھی کبھار درمیان میں نوش فرماتے تھے۔ کھانے کے بعد آپ صل اللہ علیہ وسلم کبھی بھی پانی نہیں پیتے تھے۔ اس سے ہوتا کیا ہے؟ ہمارا معدہ ایک بڑے تندور کی طرح کام کرتا ہے۔ اس کے اندر کی فضا بہت گرم ہوتی ہے۔ جب ہم غذا کھاتے ہیں تو معدہ مزید تپ جاتا ہے تاکہ غذا ہضم ہوجائے اور ہم کیا کرتے ہیں اس تپے ہوئے تندور کو تباہ کرڈالتے ہیں۔ اس حالت میں نارمل پانی بھی نقصاندہ ہوتا ہے اور ہم ٹھنڈا پانی یا کولڈ ڈرنک غٹاغٹ معدے میں انڈیل لیتے ہیں۔ کھانا کھانےسے 48 منٹ پہلے پانی پینا چھوڑدیں اور کھانا کھانے یا کوئی بھی چیز کھانے کے کم ازکم آدھ پون گھنٹہ تک پانی نہ پئیں۔
2- کھانا کھانے کے بعد ہلکی پھلکی چہل قدمی ضرور کریں۔ اگروقت نہیں ہے تو 10 یا 15 بیٹھکیں لگالیں۔
3- کولڈ ڈرنک اپنی عادت نہ بنائیں۔ کیا یہ ضروری ہے کہ انسان اپنے ہاتھوں اپنی زندگی پیسے دے کر تباہ کر ڈالے۔ یہ ایک ایسا زہر ہے جو معدے کے کانٹے برباد کردیتا ہے۔ معدہ بیکار اور ہڈیاں بھربھری کردیتا ہے۔ پٹھے کمزور کرتا ہے، گردے ناکارہ کرڈالتا ہے۔
4- رات کا کھانا سونے سے کم از کم 3 گھنٹے پہلے کھایا جائے۔
5- کھانا کھانے کے فوری بعد ہم بستری نہ کی جائے اور مشت زنی کے شوقین بھی اپنا شوق پورا نہ کریں۔ کم از کم بھی 3 گھنٹے کا وقفہ کرکے بیوی کے قریب جائیں۔
6- رات کے کھانے کے بعد کم از کم آدھ گھنٹے کی چہل قدمی کریں۔
7- کھانے کے بعد کوئی میٹھی چیز کھالیں تو بہتر ہے۔اس کے لئے کوئی خاص اہتمام نہ کریں۔اگر میٹھی ڈش میسرنہیں ہے یا آپ گھر سے باہر ہیں یا گھر میں ہیںتو تھوڑا سا گڑ کھانے کے بعد اپنی زندگی کا معمول بنالیں۔ اس میں بہتر ہے زیادہ سفید گڑ نہ لیاجائے کیوں کہ اس کے اندر کیمیکل ہوتا ہے۔ اچھا گڑ وہی ہے جو تھوڑا گہرے رنگ کا ہو۔
8- اکثر لوگ’پھنکی‘ کھانے کے شوقین ہوجاتے ہیں بلاضرورت یا ہروقت پھکی کھانا بھی کولڈ ڈرنک کی طرح معدے کو نقصان دیتا ہے۔
9- زندہ رہنے کے لئے کھائیں۔ نہ کہ کھانے کے لئے زندہ رہیں۔ پیٹ زیادہ نہ بھریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے جو دنیا کی سب سے بڑی حکمت ہے کہ پیٹ کے چار حصے کریں۔ ایک حصہ پانی کے لئے، 2 حصے کھانے کے لئے اور ایک حصہ ہوا کے لئے چھوڑا جائے۔ جو کوئی بھی اس پر عمل کرے گا کبھی بیمار نہیں ہوگا۔ ہم کیا کرتے ہیں کوئی تقریب ہو تو ایک دن پہلے کھانے کا ’فاقہ‘ کرلیتے ہیں اور فارمی چکن یا مٹن گلے تک پیٹ میں بھر لیتے ہیں اور اوپر سے کولڈ ڈرنک پی لیتے ہیں اور گھر آکر طبیعت خراب ہوجاتی ہے۔
10- کھانا ذائقہ لے کر کھائیں۔ خوب چباچباکر کھائیں، منہ کا لعاب ایک بہترین دوائی ہے جو ساتھ ساتھ غذا میں شامل ہوتی رہتی ہے اور کھانا ہضم ہوجاتا ہے۔ سنت کے مطابق کھائیں زیادہ ماڈرن نہ بنیں چمچ کانٹا اپنی زندگی سے نکال دیں۔ اور سب سے بہتر دوا کھانے کے بعد پانی نہ پینا اور ہاتھ کی انگلیاں چاٹنا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل کوعلم طب کے ماہرین نے بھی تسلیم کیا ہے کہ ہاتھ کی انگلیوں کے پوروں میں ایک ایسا مادہ ہوتا ہے جو ہاضمے کے فعل کو ٹھیک رکھتا ہے اور غذا جسم کا حصہ بنتی ہے۔ اگر کوئی آپ کے انگلیاں چاٹنے کے عمل پر کوئی تنقید کرتا ہے یا مذاق کرتا ہے تو یوں سمجھیں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی توہین کامرتکب ہورہا ہے۔ بہت سے لوگوں نے انگلیاں چاٹنے کے عمل پر لطائف بنا رکھے ہیں۔ اللہ سے ڈریں کہیں اسی پر آپکی پکڑ نہ ہوجائے۔سنت کے مطابق انگلیاں چاٹنے کو اپنا معمول بنائیں اور غذا بھی ہضم کریں اور ثواب کے حقدار بھی بنیں۔
11- کھانا کھاتے ہوئے اگر کوئی پاس کھڑا ہے اس کو بھی دعوت دیں، اس سے آپ کے رزق میں کمی نہیں آئےگی بلکہ اضافہ ہی ہوگا۔ اور اگر کسی کو دعوت دینے کا آپکا مزاج نہیں ہے تو پھر کسی کے سامنے کھانے سے گریز کریں۔ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ آپکا کھانا آپ کو ہضم ہی نہ ہوسکے اور نظروں میں آجائے۔ نظر ایک ایسا تیر ہے جو ہاتھی کو بھی گرا دیتی ہے۔ اسی لئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہوا ہے کہ اپنے گھر میں پکا ہوا کھانا اپنے پڑوسی کو بھی بھجواو جس کے گھر میں آپ کے گھر کے کھانے کے پکنے کی خوشبوجارہی ہے۔ اس میں بھی یہی حکمت کارفرما ہے کہ آپ اس کے حسد کا شکار نہ ہوجائیں اور آپ کا یہی کھانا کہیں آپ کی بیماری کا باعث نہ بن جائے۔ زندگی کو بہتر طور پر گذارنا چاہتے ہیں تو اپنی خوراک اور کھانے کا انداز سنت کے مطابق کرلیں۔ اللہ تعالی سہولت اور عافیت کا معاملہ فرمائے!
زینب زنیرا

No comments:

Post a Comment