Sunday, 15 January 2017

چمڑے کے موزوں پر مسح

چمڑے کے موزوں پر مسح 
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا:
جو آدمی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کے نور سے منہ موڑے گا وہ لازما بدعت کے اندھیروں میں بهٹکتا رہے گا.   
منهاج السنة النبوية 6/442
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم کی سورۃ المائدہ ۶ میں ارشاد فرمایا ہے:
اے ایمان والو! جب تم نماز کے لئے اٹھو تو اپنے چہرے کو اور کہنیوں تک اپنے ہاتھوں کو دھولو، اپنے سر کا مسح کرلو، اور اپنے پاؤں (بھی) ٹخنوں تک دھولو۔
اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ نماز پڑھنے سے قبل وضو کرلیا کرو جس میں چار چیزیں ضروری ہیں، جن کے بغیر وضو ہوہی نہیں سکتا۔
۱) پورے چہرہ کا دھونا۔
۲) دونوں ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھونا۔
۳) سر کا مسح کرنا۔
۴) دونوں پیر ٹخنوں سمیت دھونا۔
اہل وسنت والجماعت کے تمام مفسرین ومحدثین وفقہاء وعلماء کرام نے اس آیت ودیگر متواتر احادیث کی روشنی میں تحریر فرمایا ہے کہ وضو میں پیروں کا دھونا ہی شرط ہے، سر کے مسح کی طرح پیروں کا مسح کرنا کافی نہیں ہے۔ لیکن متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   نے بعض مرتبہ پیر دھونے کی بجائے چمڑے کے موزوں پر مسح بھی کیا ہے۔
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ : ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺣﻀﻮﺭ  صلی الله علیہ وسلم ﮐﻮ ﻣﻮﺯﮮ ﮐﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﮐﮯ ﺣﺼﮯ ﭘﺮ ﻣﺴﺢ ﮐﺮﺗﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ۔ ﺍﺑﻮﺩﺍﺅﺩ 162:
حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم میں وضاحت کے ساتھ پیروں کے دھونے کا ذکر آیا ہے، وضو کے صحیح ہونے کے لئے دونوں پیروں کا دھونا شرط ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص وضو کرنے کے بعد (چمڑے کے ) موزے پہن لے تو مقیم ایک دن و ایک رات تک اور مسافر تین دن و تین رات تک وضو میں پیروں کو دھونے کی بجائے (چمڑے کے ) موزوں کے اوپری حصہ پر مسح کرسکتا ہے، جیسا کہ متواتر احادیث سے ثابت ہے۔ اگر کوئی شخص چمڑے کی بجائے سوت یا اون یا نایلون کے موزے پہنے ہوئے ہے تو جمہور فقہاء و علماء کی رائے ہے کہ ان پر مسح کرنا جائز نہیں ہے بلکہ پیروں کا دھونا ہی ضروری ہے۔
موزوں کے اقسام:
اگر موزے صرف چمڑے کے ہوں تو اُنہیں خُفَّین کہا جاتا ہے۔ اگر کپڑے کے موزے کے دونوں طرف یعنی اوپر ونیچے چمڑا بھی لگا ہوا ہے تو اسے مُجَلّدین کہتے ہیں۔ اگر موزے کے صرف نچلے حصہ میں چمڑا لگا ہوا ہے تو اسے مُنَعَّلین کہتے ہیں۔
جَوْرَب: سوت یا اون یا نایلون کے موزوں کو کہا جاتا ہے، اِن کو جُرَّاب بھی کہتے ہیں۔
موزے کی ابتدائی تینوں قسموں پر مسح کرنا جائز ہے، لیکن جمہور فقہاء وعلماء نے احادیث نبویہ کی روشنی میں تحریر کیا ہے کہ جراب یعنی سوت یا اون یا نایلون کے موزوں پر مسح کرنا اسی وقت جائز ہوگا جب ان میں ثخین (یعنی موٹا ہونے) کی شرائط پائی جاتی ہوں، یعنی وہ ایسے سخت اور موٹے کپڑوں کے بنے ہوں کہ اگر ان پر پانی ڈالا جائے تو پاؤں تک نہ پہنچے۔ معلوم ہوا کہ سوت یا اون یا نایلون کے موزوں (جیساکہ موجودہ زمانے میں عموماً پائے جاتے ہیں) پر مسح کرنا جائز نہیں ہے۔
مروجہ اونی یا سوتی جرابوں پر مسح جائز نہیں:
زمانہ جس قدر خیرالقرون سے دور ہوتا جارہا ہے اتنا ہی فتنوں کی تعداد اور افزائش میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ہر روزایک نیا فتنہ سر اٹھا تا ہے اور عوام الناس کو اپنے نئے اعتقاد ،افکار اور اعمال کی طرف دعوت دیتاہے۔ اپنی خواہشات نفسانی کے پیش نظر قرآن وسنت کی وہ تشریح کرتا ہے جو ان کے خود ساختہ مذہب واعمال کے مطابق ہو۔ عوام چونکہ ان کے مکروفریب سے ناواقف ہوتے ہیں۔ لہذا ان کے دام میں پھنس جاتے ہیں اور بعض اوقات اپنے ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔
ان فتنوں میں سے ایک بڑا اور اہم فتنہ غیرمقلدیت کا ہے، جن کا کام امت کے معمول بہا اعتقادات اور اعمال کے مقابلے میں نئے اعتقادات اور اعمال مارکیٹ میں متعارف کروانا ہے۔ یہ فرقہ دعوی تو عمل بالحدیث کا کرتا ہے لیکن درحقیقت عامل علیٰ حدیث النفس ہے۔ انھوں نے اپنا سارا زور فروعی مسائل پر لگایا اور اس حد تک گئے کہ مستحب، اولیٰ وغیر اولیٰ کے اختلاف کو خِلاف کا جامہ پہنا تے ہوئے اہل السنۃ والجماعۃ کے اکثر مسائل کو قرآن وسنت کے خلاف قرار دیا۔ من جملہ ان مسائل میں سے ایک مسئلہ جرابوں پر مسح کرنا بھی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں احکامِ وضوبیان فرماتے ہوئے فرمایا:
یاایھاالذین امنوا۔۔ وارجلکم الی الکعبین (المائدہ: آیت6)
قرآن مجید کی اس آیت کا تقاضایہ تھا کہ وضو میں ہمیشہ پاؤں دھوئے جائیں۔ کسی بھی صورت میں ان پر مسح جائز نہ ہو، لیکن موزوں پر مسح حضور ﷺ کے اتنی قولی ،فعلی اور تقریری احادیث سے ثابت ہے جومعنیً متواتر یا کم از کم مشہور کے درجے تک پہنچی ہوئی ہیں۔ ان روایات کی وجہ سے پوری امت کا اس پر اجماع ہے کہ قرآن مجید کی مذکورہ آیت میں پاؤں دھونے کا حکم تب ہے جب موزےنہ پہنے ہوں اور اگر موزے پہنے ہوں تو تب دوران وضو ان پر مسح کرنا جائز ہوگا ۔
(۱) محدث کبیر امام ابن منذرؒ حضرت حسن بصری ؒ سے نقل فرماتے ہیں:
حدثنی سبعون من اصحاب رسول اللہ ﷺ انہ مسح علی الخفین
(الاوسط لابن المنذر ج1ص430)
ترجمہ: حضرت حسن بصری ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے ستر صحابہ سے سنا کہ حضور ﷺ نے موزوں پر مسح فرمایا۔
2: قد صرح جمع من الحفاظ بان المسح علی الخفین متواتروجمع بعضھم رواتہ فجاوزالثمانین ومنھم العشرة (فتح الباری کتاب الوضوء، باب المسح علی الخفین)
ترجمہ: حدیث کے حفاظ کی ایک بڑی جماعت نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ خفین پر مسح کا حکم متواتر ہے۔ بعض حضرات نے خفین کے مسح کی روایت کرنے والے صحابہ کرامؓ کی تعداد کو جمع کیا تو ان کی تعداد 80سے بھی زیادہ تھی، جن میں عشرہ مبشرہ بھی شامل تھے۔
(۳) حضرت ملاعلی قاریؒ مشکوٰة کی شرح میں تحریر فرماتے ہیں:
قال الحسن البصری ادرکت سبعین نفراًمن الصحابة یرون المسح علی الخفین ولٰہذا قال ابوحنیفة ماقلت بالمسح حتیٰ جاءنی فیہ مثل ضوءالنھار۔ (المرقاة ج 2 ص77)
ترجمہ: حضرت حسن بصریؒ نے فرمایا میں نے ستر ایسے صحابہ کو پایا جو خفین پر مسح کے قائل تھے۔ امام ابوحنیفہ ؒ نے اسی وجہ سے فرمایا کہ میں خفین پر مسح کا اس وقت تک قائل نہ ہواجب تک میرے پاس اس کے دلائل اس حد تک واضح وروشن نہ ہوئے جس طرح دن کی روشنی ہوتی ہے۔
موزوں پر مسح کے جواز اور عدم جواز کے اعتبار سے اصولی طورپر اس کی تین قسمیں بنتی ہیں۔
(۱) حقیقی خفین: (چمڑے کے موزے ) ان پر باجماع امت مسح کرنا جائز ہے۔
(۲) حکمی خفین: (وہ موزے جو چمڑے کے نہ ہوں لیکن موٹے ہونے کی بناءپر ان میں اوصاف چمڑے کے موزوں ہوں) ایسے موزوں پر مسح کے بارے میں فقہاءکا اختلاف ہے، جمہور فقہاء کا فتوی انہی موزوں پر جواز کا ہے۔
(۳) غیر حقیقی غیرحکمی خفین: (مروجہ اونی، سوتی یانائیلون کی جرابیں) ایسی جرابوں کے بارے میں جمہور امت کا اتفاق ہے کہ مسح جائز نہیں۔
(۱ ) ملک العلماءامام علاءالدین ابوبکر بن سعودالکاسانی الحنفی تحریر فرماتے ہیں:
”فان کانا رقیقن یشفان الماءلایجوز المسح علیھا باجماع“ (بدائع الصنائع ج 1 ص 83 کتاب الطہارة)
ترجمہ: اگر موزے اتنے پتلے ہوں کہ ان میں سے پانی چھن جاتا ہو تو ان پر بالاجماع مسح جائز نہیں۔
(۲) امام ابومحمد عبداللہ بن احمد بن قدامہ المقدسی الحنبلی نے اپنی کتاب ”المغنی“ میں مسئلہ ”مسح علی الجوربین“ کے تحت فرمایا ہے:
لایجوز المسح علیہ الا ان یکون مما یثبت بنفسہ ویمکن متابعة المشی فیہ واما الرقیق فلیس بساتر۔ (المغنی لابن قدامہ ج 1ص 377 مسئلہ 85)
ترجمہ: کپڑے کے موزے پر مسح جائز نہیں۔ ہاں اگر موزے اتنے مضبوط ہوں کہ پنڈلی پر خود سے ٹھہرے رہیں اور ان کو پہن کر مسلسل اور غیرمعمولی چلنا ممکن ہو ۔جہاں تک پتلے موزوں کا معاملہ ہے (جن میں مذکورہ شرائط نہ ہوں) تو وہ پاؤں کے لئے ساتر نہیں۔
ہر مسئلے کی طرح لامذہب فرقہ غیرمقلدین نے جمہور امت کے اجماع اور تعامل سے ہٹ کر اپنا ایک نیا اور امتیازی موقف اختیار کیا ہے ۔اور مروجہ اونی ،سوتی یا نائیلون وغیرہ کی جرابوں کو موزوں کی مماثل قرار دے کر ان پر بھی مسح کو جائز کہا۔ (نماز نبوی ص77)
اپنے اس موقف پر چند ان ضعیف روایات کا سہارا لیا جواصول جرح وتعدیل کے اعتبار سے قابل استدلال نہیں۔
غیرمقلدین کے مستدلات اور ان کا جائزہ:
(۱) عن مغیرة بن شعبة قال توضاالنبی ﷺ ومسح علی الجوربین والنعلین)
(سنن ابی داود ج 1 ص 33 باب المسح علی الجوربین)
اس حدیث کے ذیل میں غیرمقلد عالم مولوی عبدالرحمان مبارک پوری نے مختلف ائمہ کے اقوال نقل کرکے اس کو ضعیف اور ناقابل استدلال ٹھہرایا ہے۔چنانچہ لکھا ہے
(۱) 'ضعفہ کثیر من ائمة' الحدیث ترجمہ: حدیث کے کافی سارے اماموں نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔
(۲) امام مسلم بن الحجاج فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے راوی ابوقیس اودی اور ہزیل بن شرحبیل نے حدیث کے بقیہ تمام راویوں کی مخالفت کی ہے باقی رواة نے موزوں پر مسح کو نقل کیا ہے ۔لہذا ابوقیس اور ہذیل جیسے راویوں کی وجہ سے قرآن کو نہیں چھوڑا جاسکتا۔
(تحفة الاحوذی ج 1 ص 346,347 باب ماجاء فی المسح علی الجوربین)
(۳) امام بیہقی ؒ نے اس حدیث کو منکر کہا ہے (سنن البیہقی ج1ص290 کتاب الطہارة ،باب کیف المسح علی الخفین)
عبدالرحمن مبارکپوری حدیث کے ضعف پر ائمہ جرح وتعدیل کے اقوال نقل کرنے کے بعد حدیث کے بارے میں اپنا موقف سناتے ہیں کہ ”میرے نزدیک اس حدیث کا ضعیف قرار دینا مقدم ہے امام ترمذی ؒ کے حسن صحیح کہنے پر“
(تحفة الاحوذی ج1ص347)
دوسری دلیل:
عن ابی موسیٰ ان رسول اللہ ﷺ توضا ومسح علی الجوربین والنعلین۔
(ابن ماجہ ج1ص186کتاب الطہارة باب ماجاءفی المسح علی الجوربین والنعلین)
یہ حدیث بھی غیرمقلدین کے لئے حجت نہیں بنتی۔ اس لئے کہ اس کی سند پر ائمہ جرح وتعدیل نے کافی بحث کی ہے۔ چنانچہ حافظ ابن حجرؒ نے اپنی کتاب تہذیب التہذیب میں امام یحییٰ بن معین کا قول نقل کیا ہے کہ اس حدیث کا راوی عیسیٰ بن سنان ضعیف الحدیث ہے۔
(تہذیب التہذیب ج 8 ص 212)
امام الجرح والتعدیل حافظ شمس الدین الذہبی ؒاپنی کتاب میزان الاعتدال میں عیسیٰ بن سنان کے متعلق لکھتے ہیں کہ اما م احمد بن حنبل ؒ نے اس کے متعلق فرمایا کہ وہ ضعیف ہے۔
(میزان الاعتدال ج 5 ص 376)
مشہور غیرمقلد عالم عبدالرحمن مبارکپوری نے اپنی کتاب تحفۃ الاحوذی میں اس حدیث کی سند پر کلام کرتے ہوئے امام ابوداود کا قول نقل کیا ہے کہ ”یہ حدیث نہ متصل ہے اور نہ قوی ہے“ابوحازم نے حدیث کے راوی سفیان کے متعلق لکھا ہے کہ اس نے حدیث لکھی تو ہیں لیکن بطور استدلال پیش نہیں کی جاسکتیں۔
تیسری دلیل:
عن بلال ؓ ان رسول اللہ ﷺ یمسح علی الخفین والجوربین.
(طبرانی ج 1 ص 350 رقم 1063)
یہ حدیث بھی بطور حجت پیش نہیں کی جاسکتی اس لئے کہ امام زیلعیؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی سند میں یزید بن زیاد ہے اور وہ ضعیف ہے۔
(نصب الرایہ للزیلعی ج 1 ص 185,186)
(۲) حافظ ابن حجر ؒفرماتے ہیں کہ یزید ضعیف تھا، آخری عمر میں اس کی حالت بدل گئی تھی اور وہ شیعہ تھا۔
(تقریب ج  2  ص 365)
چوتھی دلیل:
عن ثوبان قال بعث رسول اللہ ﷺ سریة فاصابھم البرد فامرھم ان یمسحوا علی العمائم والتساخین۔ (ابوداود ج 1 ص 19)
اس حدیث کے بارے میں عبدالرحمن مبارک پوری لکھتاہے کہ یہ حدیث منقطع ہے ۔امام ابن ابی حاتم کتاب المراسیل ص22 پر امام احمدؒ کا قول نقل کرتے ہیں کہ حدیث کے راوی راشد بن سعد کا سماع ثوبان سے ثابت نہیں۔
(تحفة الاحوذی ج 1 ص 330)
(۲) تساخین کے لغت میں تین معانی کئے گئے ہیں۔
(۱) ہانڈیاں
(۲) موزے
(۳) علماءکے سر پر ڈالنے کا کپڑا
(المنجد ص474)
لہذا متعین طور پر اس کو صرف جرابوں پر حمل کرنا درست نہیں۔
مسح علی الجوربین کے بارے میں غیرمقلدین اکابر کی رائے
(۱)غیر مقلدین کے شیخ الکل میاں نذیر حسین دہلوی لکھتا ہے: ”مذکورہ (اونی یا سوتی) جرابوں پر مسح جائز نہیں کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں اور مجوزین نے جن چیزوں سے استدلال کیا ہے اس میں خدشات ہیں.“
(فتاویٰ نذیریہ از نذیرحسین دہلوی ج 1 ص 327)
(۲) دوسری جگہ لکھتا ہے ”خلاصہ یہ ہے کہ (باریک ) جرابوں پر مسح کے جواز پر نہ قرآن سے کوئی دلیل ہے نہ سنت صحیحہ سے نہ قیاس سے۔“
(۳)غیرمقلدین کے مشہور عالم ابوسعید شرف الدین دہلوی کا جرابوں پر مسح کے بارے میں فتویٰ: ”پھر یہ مسئلہ (جرابوں پر مسح) نہ قرآن سے ثابت ہے نہ احادیث مرفوعہ صحیحہ سے نہ اجماع سے نہ قیاس سے نہ چند صحابہ کے فعل سے اور غسل رجلین قرآن سے ثابت ہے ۔لہذا خف چرمی (موزوں) کے سوا جرابوں پر مسح ثابت نہیں۔“ (زبیر علی زئی متروک مردود عند الجمہور نے اس مسئلہ پر اپنی فطرت سے مجبور ہو کر امت مسلمہ کو دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے جسے آئندہ شمارہ میں واضح کیا جائے گا۔) پتہ چلا کہ مسح علی الجوربین ایسا مسئلہ ہے جس کے جواز عدم جواز کے بارے میں غیرمقلدین کے خود آپس متفرق اقوال ہیں۔ لہذا ان ضعیف روایات کے بل بوتے پر پوری امت سے ہٹ کر ڈیڑھ اینٹ کی علیحدہ مسجد بنانا اور جمہور امت کے تعامل کو جو کہ قرآن وسنت وآثار صحابہ وتابعین ؒ کےعین موافق ہے، چھوڑنا ضد اور ہٹ دھرمی کے علاوہ کچھ نہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں سنت صحیحہ کی اتباع کی توفیق نصیب. فرمائے۔
آمین
.............
سوال # 63248
(۱) کیا چمڑا کے سوا کسی اور موزے پر مسح کرنا درست ہے؟
(۲) کیا کتا کے چمڑے کو مصلی بنا سکتے ہیں؟
Published on: Jan 30, 2016 
جواب # 63248
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 300-300/B=4/1437-U
(۱) جی نہیں۔ (سوتی اور نائیلون کے موزے پر مسح درست نہیں)
(۲) دباغت کے بعد احناف کے یہاں کتے کی کھال بھی پاک ہوجاتی ہے، اس لئے اسے مصلی بناسکتے ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
......
میں نے سنا ہے کہ وضو کرکے چمڑے کے موزے پہن لئے جائیں تو دوبارہ وضو کرتے ہوئے پاوں دهونا ضروری نہیں، کیا اس کے لئے کوئی خاص قسم کے چمڑے کے موزے ہوتے ہیں یا آج کل جو مارکیٹ میں دستیاب ہیں وہ بهی ٹهیک ہیں؟دوسرا سوال یہ کہ کتنے گهنٹے تک ہم بلاپیر دهوئے وضو کرسکتے ہیں؟ کیا وضو اتنے گهنٹوں تک برقرار رہے گا؟
اگر موزے مخصوص شرائط پر پورے اترتے ہوں اور پاکی کی حالت میں پہنے گئے ہوں تو پاوں دهونے کی بجائے ان موزوں پر مسح جائز ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ ایسے موزے جو پورے چمڑے کے ہوں یا ان کے اوپر اور نچلے حصے میں چمڑا ہو یا صرف نچلے حصے میں چمڑا ہو ان پر مسح کرنا جائز ہے، اسی طرح ایسی جرابیں جن میں تین شرطیں پائی جائیں:
1 گاڑھے ہوں کہ ان پر پانی ڈالا جائے تو پاوں تک نہ پہنچے.
2 اتنے مضبوط ہوں کہ بغیر جوتوں کے بهی تین میل پیدل چلنا ممکن ہو.
3 سخت بهی ایسی ہوں کہ بغیر باندهے پہننے سے نہ گریں، ان پر بهی مسح جائز ہے، ان کے علاوہ اونی سوتی یانائلون کی مروجہ جرابوں پر مسح جائز نہیں، مسح کرنے کا طریقہ یہ ہے پاوں دهوکر پاکی کی حالت میں موزے پہنے جائیں، اس کے بعد پہلی بار وضو ٹوٹ جانے پر وضو کرتے ہوئے موزوں پر مسح کرسکتے ہیں ، یعنی موزوں کے اوپر والے حصے پر گیلا ہاته پهیریں گے یعنی پاوں کی انگلیوں پر تر ہاته رکه کر اوپر کی طرف کهینچیں گے، مسح کی مدت مقیم کے لئے ایک دن اور ایک رات یعنی چوبیس گهنٹے ہیں، جبکہ مسافر کے لئے تین دن اور تین راتیں یعنی بہتر گهنٹے ہیں، یہ مدت موزے پہننے کے بعد پہلی بار وضو ٹوٹنے کے بعد سے شروع ہوتی ہے، اس دوران اگر کوئی وضو توڑنے والی صورت پیش آئے تو وضو ٹوٹ تو جاتا ہے اور اسی طرح دوبارہ وضو بهی کرنا ہوگا، البتہ پیر دهونے کی بجائے ان پر مسح کرنا جائز ہوتا ہے،
واللہ اعلم
.........
مسح علی الخفین کے شرائط واحکام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭خفین طہارت کی حالت میں پہنے ہوں۔
٭خفین پیر دھونے کے بعد پہنے ہوں۔ اور حدث سے پہلے وضو مکمل ہو گیا ہو ۔
٭خفین نے ٹخنوں کو ڈھانک لیا ہو ۔
٭خفین ۳ چٹّی انگلی کے برابر پھٹے ہوئے نہ ہوں۔
٭پیروں پر بغیر باندھے ہوئے رک جانے والے ہوں۔
٭ان دونوں موزوں کو پہن کر برابر چلنے والا ہو (چلنا ممکن ہو )
٭مسح کے لئے ۳ چھوٹی انگلی کے بقدر پیر پر مسح کیا جا سکے۔
٭مسح کے لئے مسح کرنے والی انگلیاں کھول کر پیر کی انگلیوں کی طرف سے پنڈلی کی جانب کھینچنے کا طریقہ اپنائے۔
( مسح کی مدت، کب تک کیا جا سکتا ہے )
٭مقیم ایک دن رات تک مسح کر سکیگا ۔
٭مسافر ۳ دن رات تک مسح کر سکے گا ۔
٭مسح کی یہ مدت خفین کے پہننے کے وقت سے نہیں بلکہ حدث وبے وضو ی لاحق ہونے سے ہے۔
٭اگر مقیم نے مسح شروع کیا اور مدت پوری ہونے سے پہلے وہ مسافر ہو گیا تو وہ مسافر کی مدت پوری کر لے گا ۔
٭اسی طرح اگر کوئی مسافر ایک دن رات پورا کرنے سے پہلے مقیم ہو جائے تو وہ اس مدت اقامت کو پورا کرے۔
٭اور اگر کوئی مسافر ایک دن رات پورا کرنے سے پہلے مقیم ہو جائے تو وہ اپنی یہ مدت (اقامت )پوری کر لے گا ۔
( مسح علی الخفین ( موزوں کا مسح ) کب ٹوٹ جائے گا کیسے ٹوٹ جائے گا )
(۱) جو چیز یں وضو کو توڑدیتی ہیں وہی موزوں کے مسح کو بھی توڑدیں گی ۔
(۲) موزوں کو اتار دینے سے بھی موزوں کا مسح ٹوٹ جائے گا ۔
(۳) قدم کا اکثر حصہ موزوں کی پنڈلی تک آ جانے سے بھی موزوں کا مسح ٹوٹ جائے گا ۔
(۴) مسح کی مدت پوری ہو جانے سے بھی موزوں کا مسح ٹوٹ جائے گا ۔
(۵) پانی کسی ایک خف کے اکثر حصہ تک پہنچ جائے تو بھی ٹوٹ جائے گا ۔
عمامہ پر ۔ ٹوپی پر سر کے مسح کے عوض میں مسح کرنا کافی وبدل نہیں ہو گا ۔ اسی طرح دستانوں پر بھی دھونے کے عوض میں مسح کر لینا کافی نہیں ہو گا ۔
پٹّی ( زخم پر باندھی ہوئی پٹی پر بھی) مسح کیا جا سکتا ہے جبکہ پٹی کو ہٹا کر دھونا ممکن نہ ہو دشوار ہو ۔ اذیت رساں ہو ۔
اس میں پٹی کے پاک حالت میں باندھنا شرط نہیں ہے ۔
صحیح حصہ کو دھو کرپٹی والے حصہ کا مسح کر لیں گے۔
پٹی کے مسح کے لئے نیت شرط نہیں۔
پٹی گر جانے پر دوسری پٹی باندھ لیں گے اور دوسری پٹی پر مسح کر لینا اچھا ہو گا افضل ہو گا ۔
تیمم کے لئے تو نیت شرط ہے لیکن موزوں پر اور پٹی پر مسح کرنے کے لئے نیت شرط نہیں.
واللہ اعلم بالصواب

Many people who work far from home have a problem of doing Wudu in offices especially in non-muslim society. It is observed that due to laziness of doing wudu by removing shoe and socks made few few to skip thier Salah (Asthaghfirulla). Few other people do masaah on normal cotton socks. Ulema say that masaah can’t be done on cotton socks cause these obsorb the sweat, dust, water resulting in no proper Wudu. Do remember that no Wudu then no Salah. Be careful and do use only Leather (or other hard material) Socks and do masaah on them during wudu.

The right way to do masaah on leather socks is explained in video with Hadith proofs.

Masaah on Leather Socks – Right Procedure:
http://fahm-e-deen.com/masaah-on-leather-socks-right-procedure/
http://fahm-e-deen.com/masaah-on-leather-socks-right-procedure/

No comments:

Post a Comment