Sunday, 1 January 2017

لقطہ یعنی گمشدہ چیز کے احکام

ایس اے ساگر 

ایک شخص کو ایک چیز راستہ میں سے ملی، راستہ بالکل سنسان تھا، اس نے اس چیز کو اپنے گھر میں ایک سال تک رکھا اب فکر لاحق ہوئی اور شرمندہ ہوا اپنے کئے پر کہ بہت بڑی غلطی کردی، پوچھنے والی بات یہ ہے کہ اس چیز کا اب کیا کرے؟
اہل علم حضرات اس سلسلہ میں مشکوۃ شریف، جلد سوم، گری پڑی چیز اٹھانے کا بیان، حدیث 248 کے حوالہ کے ساتھ مندرجہ ذیل عبارت پیش کرتے ہیں؛ 

لقطہ کے معنی اور اس کا مفہوم:
راوی:
لقطہ لام کے پیش اور قاف کے زیر کے ساتھ یعنی لقطہ بھی منقول ہے اور قاف کے جزم کے ساتھ یعنی لقطہ بھی لکھا اور پڑھا جاتا ہے ۔ محدثین کے ہاں قاف کے زبر کے ساتھ یعنی لقطہ مشہور ہے۔
لقطہ اس چیز کو کہتے ہیں جو کہیں (مثلًا راستہ وغیرہ میں) گری پڑی پائی جائے اور اس کے مالک کا کوئی علم نہ ہو۔ اس بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ اگر کہیں کوئی گری پڑی چیز پائی جائے تو اسے (یعنی لقطہ کو) اٹھا لینا مستحب ہے بشرطیکہ اپنے نفس پر یہ اعتماد ہو کہ اس چیز کی تشہیر کرا کر اسے اس کے مالک کے حوالے کر دیا جائے گا اگر اپنے نفس پر یہ اعماد نہ ہو تو پھر اسے وہیں چھوڑ دینا ہی بہتر ہے لیکن اگر یہ خوف ہو کہ اس چیز کو یوں ہی پڑا رہنے دیا گیا تو یہ ضائع ہو جائے گی تو اس صورت میں اسے اٹھا لینا واجب ہوگا اگر دیکھنے والا اسے نہ اٹھائے گا اور وہ چیز ضائع ہو جائے گی تو وہ گنہگار ہوگا یہ لقطہ کا اصولی حکم ہے اب اس کے چند تفصیلی مسائل ملاحظہ کیجئے۔
لقطہ اس شخص کے پاس بطور امانت رہتا ہے جس نے اسے اٹھایا ہے بشرطیکہ وہ اس پر کسی کو گواہ کر لے کہ میں اس چیز کو حفاظت سے رکھنے یا اس کے مالک کے پاس پہنچا دینے کے لئے اٹھاتا ہوں اس صورت میں وہ لقطہ اٹھانے والے کے پاس سے ضائع ہو جائے تو اس پر تاوان واجب نہیں ہوگا اور اگر اٹھانے والے نے کسی کو اس پر گواہ بنایا اور وہ لقطہ اس کے پاس سے تلف ہو گیا تو اس پر تاوان واجب ہوگا بشرطیکہ لقطہ کا مالک یہ انکار کر دے کہ اس نے وہ چیز مجھے دینے کے لئے نہیں اٹھائی تھی۔
تبلیغی مراکز کے لقطہ کا حکم:
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے ہاں ڈیرہ غازی خان میں مدنی تبلیغی مرکزی مسجد ہے اور رائیونڈ سے جماعتوں کی آمدورفت کافی ہے، ہوتا یہ ہے کہ بعض ساتھی اپنا سامان بھول کے چھوڑ جاتے ہیں اور ہم ان کا انتظار کرتے ہیں۔ لیکن وہ نہیں آتے اور جماعتوں سے پوچھتے بھی ہیں کہ بھائی کسی کا کوئی سامان گم ہو تو لقطے کے سامان میں آکر دیکھ لے، پوچھنا یہ ہے کہ اس سامان کو ہم کتنا عرصہ اپنے پاس رکھیں اور کیا اسے اسی طرح جماعت والوں کو جو الله کے راستے میں ہوتے ہیں، ہدیہ مالک کی طرف سے کر دیں یا لقطے کے سامان کو بیچ کر الله کے راستے میں چلنے والوں پر خرچ کرسکتے ہیں یا نہیں؟ برائے کرم آسان حل بیان فرمائیں

جواب…واضح رہے کہ تبلیغی مراکز میں میں بھول کر رہ جانے والا سامان عام طور پر دو طرح کا ہوتا ہے:
1… معمولی قیمت کا سامان… جیسے تکیہ، پلیٹ، کپڑے، ربر کے جوتے وغیرہ۔
2… قیمتی سامان… جیسے نقدی، موبائل، گھڑی، سردیوں کا بستر وغیرہ۔

دونوں قسم کے سامان کی قیمت میں چوں کہ تفاوت واضح ہے، اس لیے دونوں کے حکم لقطہ میں بھی فرق ہو گا۔ لہٰذا جو سامان پہلی قسم ( معمولی قیمت) کا ہوتا ہے چوں کہ عام طور پر جس سے یہ سامان رہ جاتا ہے تو اس کا مالک نہ ہی دوبارہ آکر اپنی گم شدہ چیز کا پوچھتا ہے اور نہ ہی کسی دوسرے کے ذمے لگا کر منگواتا ہے۔

لہٰذا اس کا حکم یہ ہے کہ اس سامان کے ملنے کے بعد صرف اتنے دن تک مرکز میں رکھا جائے جتنے دن کے لیے عموماً ایک جماعت کی تشکیل مرکز کے علاقے میں ہوتی ہے اور یہ مدت تقریباً پچیس دن یا ایک ماہ کا عرصہ ہے۔

اسی طرح جو دوسری قسم کا قیمتی سامان ہے چوں کہ یقینی طور پر اس کا مالک اپنی چیز کے گم ہونے پر فکر مند اور پریشان ہوتا ہے اور اکثر خود آکر یا دوسرے کے ذریعے سے اپنی چیز کے بارے میں پوچھتا ہے، لہٰذا اہل مرکز پر لازم ہے کہ اس سامان کو اپنے پاس بحفاظت رکھیں او رحتی الوسع اپنی طرف سے پوری کوشش کرکے اس سامان کو اس کے مالک کا پتہ وغیرہ معلوم کرکے واپس کریں۔

پھر اگر کوشش کے باوجود مالک کا کچھ علم نہ ہو، مثلاً سال گذر جائے اور دل یہ کہے کہ اب مالک بھی اپنی چیز سے مایوس ہو گیا ہو گاتو اب اہل مرکز کو یہ اختیار ہو گا کہ دونوں قسم کے سامان یا اس کو فروخت کرکے اس کی قیمت کو غریب ( مستحق زکوٰة) لوگوں پر سامان کے مالکان کی طرف سے صدقہ کر دیں۔ خواہ وہ الله کے راستے کے مہمان ہی کیوں نہ ہوں۔

لیکن یہ بات واضح رہے کہ دونوں قسم کے سامان کو صدقہ کرنے کے بعداگر اس کے مالک نے آکر اپنی چیز کا مطالبہ کر لیا اور صدقہ کرنے پر راضی نہ ہوا تو اہل مرکز کو اس کی مطلوبہ چیزیا اس کی قیمت دینا ہو گی۔


الشیخ محمد صالح المنجد کے نزدیک

لقطہ یعنی گمشدہ چيز کےاحکام
اگرکسی کوراستے میں مال ملے تو اس کا حکم کیا ہے ، کیا اس کے لیے وہ مال اٹھا لینا جائز ہے ؟
Published Date: 2004-06-07
الحمدللہ

یہ سوال لقطہ یعنی گمشدہ اشیاء کے بارہ میں ہے جوکہ فقہ اسلامی کے ابواب میں شامل ہوتا ہے ۔

لقطہ : مالک سے گمشدہ چيز کولقطہ یا گمشدہ چيزکہا جاتا ہے ۔

اس دین حنیف نے مال ودولت کی دیکھ بھال اورحفاظت کا بھی خیال رکھا ہے اوراس کے بارہ میں احکام بھی بیان کئے ہیں ، اورمسلمان کے مال کی حفاظت اوراس کے احترام کوبھی بیان کیا ، جس میں لقطہ بھی شامل ہے ۔

جب مالک کی کوئي چيز گم ہوجاۓ تو وہ تین حالات سے خالی نہیں ہوسکتی ۔

پہلی حالت :

وہ چیز لوگوں کی توجہ کے قابل اور اہم نہ ہو ، مثلا چھڑی، روٹی، جانور ھانکنے والی چھڑی ، پھل وغیرہ ، لھذا یہ اشیاء اٹھا کراستعمال کی جاسکتی ہیں اوران کے اعلان کی کوئی ضرورت نہیں ۔

جیسا کہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی بیان ہے جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ :

( رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چھڑی ، رسی ، اورکوڑا اٹھانے کی اجازت دی ہے ) سنن ابوداود ۔

دوسری حالت :

وہ چيز چھوٹے درندوں سے اپنے آپ کوبچا سکتی ہو ، یا تواپنی ضخامت کی وجہ سے مثلا اونٹ ، گاۓ ، گھوڑا ، خچر ، یا وہ اڑ کر واپنی حفاظت کرسکتی ہو، مثلا اڑنے والے پرندے ، یا تیزرفتاری کے سبب مثلا ھرن ، یا پھر اپنی کچلیوں سے اپنا دفاع کرسکتی ہو ، مثلا چیتا وغیرہ ۔

تواس قسم کے جانوروں کوپکڑنا حرام ہے اوراعلان کے باوجود اس کی ملکیت ثابت نہیں ہوتی اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گمشدہ اونٹ کے بارہ میں فرمایا تھا :

( آپ کواس کا کیا اس کے پاس توپینے کے لیے بھی ہے اورچلنے کی طاقت بھی ، پانی پیۓ اوردرختوں کے پتے کھاۓ گا حتی کہ اس کا مالک اسے حاصل کرلے ) صحیح بخاری و صحیح مسلم ۔

عمر رضي اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں :

جس نے بھی گمشدہ چيز اٹھائي وہ غلطی پر ہے ۔ یعنی اس نے صحیح نہیں کیا ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تواس حدیث ميں یہ حکم دیا ہے کہ اسے پکڑا نہ جاۓ بلکہ وہ خود ہی کھاتا پیتا رہے گا حتی کہ اس کا مالک اسے تلاش کرلے ۔

اوراس قسم میں بڑی بڑی اشیاء بھی ملحق کی جاسکتی ہیں مثلا : بڑی دیگ ، اورضخیم لکڑیاں اورلوہا ، اوروہ اشیاء جوخود ہی محفوظ رہتی ہوں اوران کے ضائع ہونے کا اندیشہ نہیں اورنہ ہی وہ خود اپنی جگہ سے منتقل ہوسکتی ہیں ان کا اٹھانا بھی حرام ہے بلکہ باولی حرام ہے ۔

تیسری حالت :

گمشدہ اشیاء مال ودولت ہو : مثلا پیسے ، سامان ، اوروہ جوچھوٹے درندوں سے اپنی حفاظت نہ کرسکے ، مثلا بکری ، گاۓ وغیرہ کا بچھڑا وغیرہ ، تواس میں حکم یہ ہے کہ اگر پانے والے کواپنے آپ پر بھروسہ ہے تواس کے لیےاٹھانا جائز ہے ۔

اس کی تین اقسام ہیں :

پہلی قسم : کھانے والے جانور ، مثلا مرغی ، بکری ، بکری اورگاۓ کا بچہ وغیرہ ، تواسے اٹھانے والے پر تین امور میں سے کوئی کرنا ضروری ہے :

پہلا : اسے کھالے اوراس حالت میں وہ اس کی قیمت ادا کرے گا ۔

دوسرا : اس کے اوصاف وغیرہ یا د رکھے اوراسے بیچ کراوراس کی قیمت مالک کے لیے محفوظ کرلے ۔

تیسرا : اس کی حفاظت کرے اوراپنے مال سے اس پر خرچ کرے لیکن وہ اس کی ملکیت نہیں بنے گی وہ اس نفقہ سمیت مالک کے آنے پر اسےواپس کی جاۓ گی ۔

اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جب بکری کے متعلق سوال کیا گیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا :

( اسے پکڑ لو ، اس لیے کہ یا تو وہ آپ کے لیے ہے یا پھر آپ کے بھائي کی یا پھر بھیڑیا کھا جاۓ‌ گا ) صحیح بخاری ، صحیح مسلم ۔

اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ : بکری کمزورہے وہ ہلاک ہوجا‌ۓ گی یا تواسے آپ پکڑلیں یا پھر کوئي اور پکڑلے وگرنہ اسے بھیڑیا کھا جاۓ گا ۔

ابن قیم رحمہ اللہ تعالی اس حدیث پر کلام کرتے ہوۓ کہتے ہیں :

( اس حدیث میں بکری کے پکڑنے کا جواز پایا جاتا ہے ، اگر بکری کا مالک نہ آۓ تووہ پکڑنے والے کی ملکیت ہونے کی بنا پر اسے اختیار ہے کہ وہ اسے فی الحال کھا لے اورقیمت ادا کردے ، یا پھر اسے بیچ کراس کی قیمت محفوظ کرلے ، یا اسے اپنے پاس رکھے اوراپنے مال میں سے اسے چارہ کھلاۓ ، علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر کھانے سے پہلے مالک آجاۓ‌ توبکری لے جا سکتا ہے ) ۔

دوسری قسم :

جس کے ضائع ہونے کا خدشہ ہو : مثلا تربوز ، اوردوسرے پھل وغیرہ تواس میں اٹھانے والے کومالک کے لیےبہتر کام کرنا چاہیے کہ اسے کھالے اورمالک کوقیمت ادا کردے ، یا پھر اسے بیچ دے اورمالک کے آنے تک اس کی قیمت محفوظ رکھے ۔

تیسری قسم :

اوپروالی قسموں کے علاوہ باقی سارا مال : مثلا نقدی ، اوربرتن وغیرہ ، اس میں ضروری ہے کہ وہ اس کی حفاظت کرے اوریہ اس پاس امانت رہے گی اوراسے لوگوں کے جمع ہونے والی جگہوں پر اس کا اعلان کرنا ہوگا ۔

- کوئی بھی گری ہوئی چيز اس وقت تک اٹھا سکتا ہے جب اسے اپنے آپ پر بھروسہ ہو کہ وہ اس کا اعلان کرے گا ۔

اس کی دلیل یہ حدیث ہے زيد بن خالد جھنی رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( اس کا تھیلی اوررسی کی پہچان کرلو اوراس کا ایک برس تک اعلان کرتے رہو اگرمالک نہ آۓ تواسے خرچ کرلو لیکن وہ آپ کے پاس امانت ہے اگراس کا مالک کسی دن تیرے پاس آجاۓ تواسے واپس کردو ) ۔

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا :

( اسے پکڑ لو اس لیے کہ یا تو وہ آپ کے لیے ہے یا پھر آپ کے بھائي کے لیے اوریا پھر بھیڑیے کے لیے ) ۔

اورجب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گمشدہ اونٹ کے بارہ میں سوال کیا گیا توآپ نے فرمایا :

( آپ کواس سے کیا ؟ ! اس کے پاس پینے کے لیے بھی ہے اورچلنے کےلیے بھی وہ پانی پر جاۓ گا اوردرختوں کے پتے کھاتا پھرے گا حتی کہ اس کا مالک اسے حاصل کرلے ) صحیح بخاری و صحیح مسلم ۔

- نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان ( اس کی تھیلی اورتسمہ کی پہچان کرلو ) کا معنی یہ ہے کہ : وہ رسی یا تسمہ جس سے رقم اورپیسے کی تھیلی کوباندھا جاتا ہے ، اورعفاص اس تھیلی کوکہتے ہیں جس میں مال و رقم ہوتی ہے ۔

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ( پھر ایک برس تک اس کا اعلان کرتے رہو ) یعنی لوگوں کےجمع ہونے کی جگہوں بازاروں اورمساجد کے دروازوں کے باہراوردوسری جمع ہونے والی جگہوں وغیرہ میں اس کا اعلان کرتے رہو ۔

( ایک برس ) یعنی پورے ایک سال تک ، چيزملنے کے پہلے ہفتہ میں روزانہ اعلان کرے ، اس لیے کہ پہلے ہفتے میں مالک کےڈھونڈتے ہوۓ آنے کی زيادہ امید ہے ، پھر اس ہفتہ کے بعد وہ لوگوں کی عادت کے مطابق اعلان کرتا رہے ۔

( اوراگریہ طریقہ گزشتہ ادوار میں موجود رہا ہے تواب اسے آج کے دور کے مطابق اعلان کرنا چاہیے اہم یہ ہے کہ مقصد حاصل ہوجاۓ کہ حتی الامکان اس کے مالک تک پہنچا جاسکے ) ۔

- حدیث گمشدہ چيز کے اعلان کے وجوب پر دلالت کرتی ہے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ( اس کی تھیلی اورتسمہ پہچان لو ) میں اس کی صفات اورنشانیوں کی پہچان کرنے کے وجوب کی دلیل پائی جاتی ہے ، تا کہ جب اس کا مالک آۓ اور اس کے مطابق نشانی بتاۓ تواسے یہ مال واپس کیا جاسکے ، اور اگر اس کی بتائي ہوئی نشانی صحیح نہ ہوتووہ مال اسے دینا جائز نہيں ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ( اگر اس کے مالک کونہ پاۓ تواسے استعمال کرلو ) یہ اس بات کی دلیل ہے کہ چيزاٹھانے والا ایک برس تک اعلان کرنے کے بعد اس کا مالک بنے گا ، لیکن وہ اس کی نشانیوں کی پہچان سے قبل اس میں کسی قسم کا تصرف نہیں کرسکتا :

یعنی اسے اس کی تھیلی ، باندھنے والی رسی ، مال کی مقدار ، اس کی جنس اورکس طرح کا ہے وغیرہ کی پہچان کرلینی چاہیے ، اگر ایک برس کے بعد اس کا مالک آۓ اوراس کے مطابق نشانی بتاۓ تواسے ادا کردے اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( اگر اس کا مالک کسی بھی روز آجاۓ تواسے وہ مال ادا کردو ) ۔

اوپر جوکچھ بیان کیا گيا ہے اس سے لقطہ یا گمشدہ چيز کے بارہ میں چند ایک امور لازم آتے ہیں :

پہلا : اگرکوئی گری ہوئی چيز پاۓ تواس وقت تک نہ اٹھاۓ جب تک کہ اسے اپنے آپ پر بھروسہ اوراس کے اعلان کرنے کی قوت نہ ہو تا کہ اس کے مالک تک وہ چيز پہنچ جاۓ ، اورجسے اپنے آپ پر بھروسہ ہی نہيں اس کے لیے اسے اٹھانا جائز نہیں ، اگر اس کے باوجود وہ اٹھا لے تو وہ غاصب جیسا ہی ہے اس لیے کہ اس نے کسی دوسرے کا مال ناجائز اٹھایا ہے اورپھر اس میں دوسرے کے مال کا ضیاع بھی ہے ۔

دوسرا : اٹھانے سے قبل اس کی تھیلی اورتسمہ اورمال کی جنس اورمقدار وغیرہ کی معرفت و پہچان ضروری ہے ، تھیلی سے مراد وہ کپڑا یا بٹوہ ہے جس میں رقم رکھی گئي ہو ، اور( وکائھا ) سے مراد وہ رسی یا ڈوری ہے جس سے اس تھیلی کوباندھا گیا اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پہچان کاحکم دیا ہے اورامر وجوب کا متقاضی ہے ۔

تیسرا : ایک برس تک مکمل اس کا اعلان کرنا ضروری ہے پہلے ہفتہ میں روزانہ اور اس کے بعد عادت کے مطابق اعلان ہوگا ، اوراعلان میں یہ کہے کہ : جس کسی کی بھی کوئی چيز گم ہوئی ہو یا اس طرح کے کوئي اور الفاظ ، اوریہ اعلان لوگوں کے جمع ہونے والی جگہوں مثلا بازار ، اورنمازوں کے اوقات میں مساجدکے دروازوں پراعلان کرے ۔

گمشدہ چيزکا اعلان مساجد میں نہیں کیا جاۓ گا کیونکہ مساجد اس لیے نہیں بنائي گئيں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس سے منع فرمایا ہے :

( جوبھی کسی کومسجد میں گمشدہ چيز کا اعلان کرتا ہوا سنے وہ اسے یہ کہے ، اللہ تعالی اس چيز کوتیرے پاس واپس نہ لاۓ ) ۔

چوتھا : جب اس کا مالک تلاش کرتا ہوا آۓ اوراس کے مطابق صفات اورنشانیاں بتاۓ تواسے وہ چيز بغیر کسی قسم اوردلیل کے واپس کرنی واجب ہے اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی حکم دیا ہے ۔

اورپھر وہ صفات و نشانیاں قسم اوردلیل کے قائم مقام ہیں ، بلکہ ہوسکتا ہے کہ اس کی صفات کا بتانا دلیل اورقسم سے بھی سچی اور اظہر ہو ، اوراس کے ساتھ ساتھ اصل چيز کا نفع چاہے وہ متصل ہویا ومنفصل واپس کرنا پڑے گا ۔

لیکن اگر مالک اس کی صفات اورنشانی نہ بتا سکے تو وہ چيز اسے واپس نہیں کرنی چاہيۓ ، اس لیے کہ وہ اس پاس امامنت ہے جسے مالک کے علاوہ کسی اورکودینا جائز نہیں ۔

پانچواں : ایک برس تک اعلان کےبعد بھی اگر مالک نہ آۓ تووہ چيز اٹھانے والے کی ملکیت ہوگی لیکن اس میں تصرف سے قبل اس کی صفات اورنشانیوں کی پہچان ضروری ہے تا کہ اگر کبھی اس کا مالک لینے آۓ تواس کی بتائي ہو‎ئي نشانیوں کی پہچان کرنے کے بعد اگروہ چيز موجود ہوتو واپس کی جاۓ وگرنہ اس کا بدل یا قیمت ادا کردی جاۓ اس لیے کہ مالک کے آنے سے اس کی ملکیت ختم ہوجا‌ۓ گی ۔

تنبیہ :

لقطہ یا گمشدہ چيز کے بارہ میں اسلام کا طریقہ اورھدایت ہے کہ اس کی حفاظت کی جاۓ اورمسلمان کے مال کی حرمت کی بھی حفاظت ہو اوربذات خود اس چيز کی بھی حفاظت ہونی ضروری ہے ۔

اورمجموعی طورپر ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام نے خیرو بھلائي پر ایک دوسرے کا تعاون کرنے پر ابھارا ہے ، ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ ہم سب کودین اسلام پر ثابت قدم رکھے اورہمیں اسلام کی حالت میں ہی موت سے ہمکنار کرے ۔ آمین یا رب العالمین ۔ .

کتاب : الملخص الفقھی تالیف الشيخ صالح بن فوزان آل فوزان ص ( 150 )

https://islamqa.info/ur/5049

1 comment:

  1. ساگر صاحب اپ اپناواٹس ایپ نمبر دیں گے؟

    ReplyDelete