تعزیت مسنونہ، تعزیتی اجلاس کا ثبوت، طعام میت
اور
سوگ میں خموشی
اسلام ایک مکمل دین اور مستقل تہذیب ہے ۔اس میں زندگی کے ہر مسئلہ کا حل موجود ہے ۔کسی بھی دوسرے مذہب اور تہذیب وتمدن سے کچھ لینے اور خوشہ چینی کی ضرورت نہیں۔سورہ البقرہ کی آیت نمبر 208 مسلمانوں سے جو مطالبہ کیا گیا ہے وہ بہت ہی عام ہے کہ اسلامی عقائد واعمال اور احکام وتعلیمات کی صداقت وحقانیت پہ دل ودماغ بھی مطمئن ہو اور اعضاء وجوارح بھی عملی ثبوت پیش کریں۔
یہ حقیقت مسلم ہے کہ یہ دنیا رنج وراحت کا الگ الگ انداز رکھتی ہے۔
یہاں آرام وخوشی کے ساتھ دکھ ورنج بھی ہے۔غمی کے ساتھ شادمانی بھی ہے۔تلخی کے ساتھ شیرینی بھی ہے۔سردی کے ساتھ گرمی بھی یے۔
خوشی اور مسرت وشادمانی کے موقعوں پر مبارکباد دینا "تہنیت " ۔اور غم کے موقعوں سے مصیبت زدہ کے غم میں شریک ہونا ۔اسے تسلی دینا صبر دینا ماتم پرسی کرنا دلاسہ اور ہمت دلانا "تعزیت " کہلاتا ہے۔
معلم اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ میں "تعزیت وتہنیت"
کی تشفی بخش ھدایات موجود ہیں ۔یہاں تفصیل کا موقع نہیں
صرف اس قدر عرض ہے ہر صاحب ایمان بندے کے لئے تعزیت ونصیحت اور تسلی وتشفی دینا "سنت " ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایام جاہلیت کے رواج یافتہ تمام ماتمی رسومات ختم فرماتے ہوئے انسانی فطری غم کے اظہار کے لئے تعزیت کا مسنون طریقہ یہ بتایا ہے کہ موت کے بعد خواہ قبل دفن ہو یا بعد دفن۔تین دن تک میت کے تمام رشتہ داروں سے تعزیت کی جائے خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے۔ہاں عورتوں کے سلسلہ میں یہ قید ہے کہ وہ محرم ہوں۔غیر محرم عورتوں سے تعزیت درست نہیں ۔تین دن کے بعد تعزیت کرنا پسندیدہ نہیں کہ اس سے خواہ مخواہ غم تازہ ہوگا اور شکستگی اور مایوسی تازہ ہوتی جائے گی۔
البتہ اگر تعزیت کرنے والا یا جسکی تعزیت کی جارہی ہے وہاں موجود نہ ہو یا اسے علم نہ ہو تو تین دن کے بعد بھی حرج نہیں اور خط وکتابت کے ذریعہ بھی تعزیت کی جاسکتی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذبن جبل کے بیٹے کے انتقال پہ تعزیت نامہ لکھوایا تھا۔
عن معاذ بن جبل رضي اللّٰہ عنہ أنہ مات لہ ابن، فکتب إلیہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یعزیہ علیہ: بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ من محمد رسول اللّٰہ إلی معاذ بن جبل، سلام علیک، فإني أحمد اللّٰہ إلیک الذي لا إلٰہ إلا ہو۔ أما بعد! فأعظم اللّٰہ لک الأجر، وألہمک الصبر، ورزقنا وإیاک الشکر، فإن أنفسنا وأموالنا وأہلینا وأولادنا من مواہب اللّٰہ عزوجل الہنیئۃ، وعواریہ المستودعۃ، متَّعک بہ في غبطۃٍ وسرورٍ، وقبضہ منک بأجرٍ کبیرٍ، الصلاۃُ والرحمۃُ والہدیٰ إن احتسبتَہ فاصبِر، ولا یحبط جزعُک أجرَک فتندَمَ، واعلم أن الجزع لا یردّ شیئًا، ولا یدفع حزنًا، وما ہو نازلٌ فکان قد۔ والسلام۔ (المستدرک للحاکم، کتاب معرفۃ الصحابۃ / ذکر مناقب أحد الفقہاء الستۃ من الصحابۃ، معاذ بن جبل رضي اللّٰہ عنہ ۳؍۳۰۶ رقم: ۵۱۹۳ دار الکتب العلمیۃ بیروت، المعجم الکبیر للطبراني / محمود بن لبید الأنصاري ۲۰؍۳۲۴ مکتبۃ الزہراء الموصل، وہٰکذا في مجمع الزوائد / باب التعزیۃ ۳؍۳ دار الریان للتراث القاہرۃ)
ولا بأس بتعزیۃ أہلہ وترغیبہم من الصبر، وفي الشامي: أي تصبیرہم والدعاء لہم بہ۔ (الدر المختار مع الشامي ۳؍۱۴۷)
ونقل الطحاوي عن شرح السید: أنہ لا بأس بالجلوس لہا ثلاثۃ أیامٍ من غیر ارتکاب محظورٍ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ / مادۃ تعزیۃ ۱۲؍۲۸۹ کویت)
اگرمیت کے متعلقین تک خود جاکر تعزیت کا موقع نہ ہواور میت ایسی مرکزی شخصیت کی مالک ہوکہ جس کے انتقال سے بہت لوگوں کوصدمہ ہو، یابہت لوگ تعزیت کی ضرورت محسوس کریں اور سب کا پہنچنا دشوار ہو تواس کے لئے سہل صورت یہ ہے کہ ایک جلسہ کرکے تعزیت کردیجائے اس میں بڑی جماعت سفر کی زحمت سے بچ جاتی ہے اور میت کے متعلقین پرکثیر مہمانوں کا بار بھی نہیں پڑتا اور مجمعِ عظیم کی متفقہ دُعاء بھی زیادہ مستحق قبول ہے، بظاہر اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں؛ لیکن بہت جگہ اس نے محض رسم کی صورت اختیار کرلی ہے کہ مقصود یہ ہوتا ہے کہ اخبار میں نام آجائے اور ہماری شہرت ہوجائے؛ اگرہم نے تعزیتی جلسہ نہ کیا تولوگ ملاملت کریں گے وغیرہ وغیرہ؛ اگرچہ یہ صورت ہوتو پھرا س کا ترک کرنا چاہئے۔
(فتاویٰ محمودیہ:۹/۲۵۴،مکتبہ شیخ الاسلام، دیوبند)۔۔۔حضرت مغیرہ بن شعبہ حضرت امیر معاویہ کے عہد امارت میں کوفہ کے والی تھے۔سنہ ٥٠ہجری میں ان کا انتقال ہوا ۔ بیٹے عروہ کو عارضی طور پہ نائب بناگئے تھے تو حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے مسجد کوفہ میں سب کو جمع فرمایا ۔اجتماع عام سے خطاب فرماتے ہوئے حضرت مغیرہ کے اوصاف وکمالات پہ روشنی ڈالی ۔ان کے لئے استغفار فرمایا۔اور یوں تعزیتی جلسہ کا انعقاد عمل میں آیا۔
58 حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ قَالَ سَمِعْتُ جَرِيرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ يَوْمَ مَاتَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ قَامَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَقَالَ عَلَيْكُمْ بِاتِّقَاءِ اللَّهِ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَالْوَقَارِ وَالسَّكِينَةِ حَتَّى يَأْتِيَكُمْ أَمِيرٌ فَإِنَّمَا يَأْتِيكُمْ الْآنَ ثُمَّ قَالَ اسْتَعْفُوا لِأَمِيرِكُمْ فَإِنَّهُ كَانَ يُحِبُّ الْعَفْوَ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ أُبَايِعُكَ عَلَى الْإِسْلَامِ فَشَرَطَ عَلَيَّ وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ فَبَايَعْتُهُ عَلَى هَذَا وَرَبِّ هَذَا الْمَسْجِدِ إِنِّي لَنَاصِحٌ لَكُمْ ثُمَّ اسْتَغْفَرَ وَنَزَلَ
صحيح البخاري. كتاب الإيمان.
باب الدين النصيحة.
وأخرجه مسلم برقم 56 و 83....والترمذي برقم 192....والنساي في سننه برقم 4156....وأحمد برقم 18671.....والدارمي برقم 2540. ).
میت اگر صاحب ایمان تھا تو تعزیت کرنے والے اس کے لئے دعائے مغفرت اور ایصال ثواب کرے۔ اور اہل میت کے لئے تسلی کے کلمات کہے اور صبر کی تلقین کرے۔
تعزیت کے الفاظ اور اس کا مضمون متعین نہیں الگ الگ اور مختلف ہے۔صبر وتسلی کے لئے جو کلمات بھی موزوں اور مناسب ہوں وہ کہے جائیں۔بہتر یہ ہے کہ یہ جملہ کہے :
ان لله ما أخذ وله ما أعطي وكل عنده بأجل مسمى .فالتصبر ولتحتسب. (جو لیا وہ اسی کا تھا اور جو دیا وہ اسی اللہ کا تھا ۔اللہ کے یہاں ہر چیز ایک معین مدت تک کے لئے ہے۔پس صبر کر اور ثواب کی امید رکھ ۔مشکوة صفحہ150۔باب البکاء علی المیت ) ۔۔۔۔۔۔بعض حدیث میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں :
أعظم الله أجرك وأحسن عزاك وغفر لميتك. (اللہ تم کو اجر عظیم عطاء فرمائے ۔تیرے صبر کا اچھا بدلہ دے۔اور تیرے مردے کو بخش دے۔۔درمختار جلد 1۔صفحہ 843۔مطلب فی الثواب علی المعصیہ ۔
اگر میت بچہ یا مجنوں یا کوئی بھی غیر مکلف ہو تو "غفر لمیتک "نہ کہے۔
اسلام کےاعلی اخلاق واقدار کی ہی تعلیم ہے کہ وہ غیر مسلم کی بیماری میں مزاج پرسی کو اللہ کی رضاء وقرب کا ذریعہ قرار دیتا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے غیر مسلم مریض کی عیادت ثابت ہے۔
فقہی کتابوں میں ان کے انتقال کے وقت ان کے رشتہ داروں کے لئے تعزیت کا جواز اور مناسب کلمات تعزیت بھی مصرح ہے۔
غیر مسلم کی تعزیت کے وقت یہ کلمات کہے جائیں:
أعظم الله أجرك وأحسن عزاك
(اس مصیبت پہ اللہ تعالی بڑا اور اچھا بدلہ دے۔۔الموسوعہ 289/12 )
اسی طرح یہ جملہ بھی آیا ہے
"أخلف آلله عليك خيرا واصلحك"
(اللہ اچھا بدلہ دے۔بعد میں اچھی صورت نکالے اور حال درست فرمائے۔۔۔محمودیہ 161/9 )
بتصریح قرآن کریم ہرگروہ اور ہر جماعت خواہ اہل حق میں سے ہو یا اہل باطل میں سے اپنی ہی مزعومات ومعتقدات اور آئیڈیالوجی میں مگن ہے۔"كل حزب بما لديهم فرحون" ( الروم ۔32۔)۔
اس بنیاد پر اگر کسی تہذیب ومعاشرت میں اجتماعی تعزیت کے موقع سے کچھ دیر کی "خاموشی" یا موم بتیاں جلانا یا جھنڈے سر نگوں کرنا مروج ہو تو یہ اس کا " اندرون خانہ" معاملہ ہے ۔کسی کے عمل ،طریقہ اور رواج کی تحقیر وتضحیک کئےبغیر اسلامی طریقہ تعزیت پہ عمل کی کوشش کرنی چاہئے ۔ تعزیت کےیہ طریقے مسلمانوں کے لئے جائز نہیں۔اسلامی طریقہ تعزیت سے ہٹ کے نئے نئے طریقے وضع کرنا افسوس ناک بھی یے اور اسلامی غیرت اور دینی حمیت کے خلاف بھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے
جو شخص کسی دوسری قوم کے اخلاق وعادات اور طور طریقہ کی پیروی کرنے لگے وہ انہی میں سے ہوجاتا ہے۔
اس لئے مسلمانوں کو اپنے ہر عمل کو سنت اور شریعت کی کسوٹی پر جانچنے اور پرکھنے کی ضرورت ہے۔
اگر مسلمان خاموشی والی نوعیت میں کہیں مبتلا ہوجائے تو موقع اور حالات کے لحاظ سے کوئی پہلو یا حکمت عملی اختیار کرلے ۔۔
فتاوی رحیمیہ385/1۔۔۔۔و 84/7۔
خیر الفتاوی 219/3۔۔۔۔اسرار حیات صفحہ 154۔
ترمذی شریف 127/1۔۔۔ابن ماجہ 116۔مشکوة 150۔۔الموسوعہ الفقہیہ 289/12۔۔درمختار 843/1۔
میت کے رشتہ داروں کی طرف سے
پرتکلف کھانے کا اہتمام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس کے گھر میت ہو جائے اس کے پڑوس اور دور کے رشتہ داروں کے لئے یہ حکم ہے کہ ایک دن ایک رات متوسط اور معتدل انداز کا افراط سے پاک قدر ضرورت طعام بناکر اہل میت کے گھر بھیجیں ۔انہیں بزور واصرار کھلائیں۔ان کے یہاں دور دراز سے نماز جنازہ میں شرکت کے لئے جو مہمان آئیں گے انہیں بھی کھلائیں۔
اس طرح صرف ایک دن ایک رات کھانا بھجوانا سنت ہے ۔اس میں بھی یہ شرط ہے کہ نام نمود ریاء وشہرت سے پاک ہو ۔پرتکلف کھانے کا ایسا اہتمام نہ ہو جیسا ولیمہ کے موقع سے کیاجاتا یے۔اگر اس طرح کے انتظامات ہونگے تو پہر کھانے میں قباحت پیدا ہوگی اب تعزیت کے لئے جانے والوں کو نہ کھانا بہتر ہے۔
اس طرح کھانا بھیجنا تو جائز ہے ۔مختلف حدیثوں سے ثابت ہے۔اس کھانے کو "طعام لاھل المیت " کہتے ہیں۔
لیکن بعد دفن اسی روز یا دوسرے تیسرے چالیسویں روز اہل میت کی طرف سے لوگوں کے لئے کھانے کا انتظام کرنا "طعام میت " کہلاتاہے جو امور جاہلیت میں سے ہےبدعت ہے اور گناہ ہے۔ہاں اگر نیت ایصال ثواب کرنے کی ہو تو گنجائش ہے بشرطیکہ کھانے والے صرف فقراء ہوں ،اسراف سے پاک ہو اور تمام ورثاء کی رضامندی سے ہو .
وان اتخذ ولي الميت طعاما للفقراءكان حسنا الا ان يكون في الورثة صغير فلا يتخذ ذلك من التركة .طحطاوي على المراقي 617.
۔ہندوپاک میں یہ رسم بد درآئی ہے کہ ایام مخصوصہ میں اہل میت کی طرف سے یا رشتہ داروں کی طرف سے ولیمہ کی طرح بریانی وقورمہ جیسے پرتکلف کھانے کا انتظام نہیں بلکہ اھتمام کیاجاتا ہے ۔ جس میں امراء غرباء سب ہی شریک ہوتے ہیں حالانکہ دعوت وضیافت کا اھتمام تو خوشی کے مواقع میں ہوتا ہے مصیبت اور غم کے مواقع میں نہیں ۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس طرح کے کھانوں میں نیت نام نمود کی ہوتی ہے ۔اس لئے تمام ہی فقہاء ومحدثین نے اسے ناجائز کہاہے۔ اس قسم کے کھانے سے بہر طور پرہیز کرنا چاہئے ۔
تمام جزئیات کے دلائل ملاحظہ فرمائیں :
ص: 195] بَاب صَنْعَةِ الطَّعَامِ لِأَهْلِ الْمَيِّتِ
3132 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنِي جَعْفَرُ بْنُ خَالِدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اصْنَعُوا لِآلِ جَعْفَرٍ طَعَامًا فَإِنَّهُ قَدْ أَتَاهُمْ أَمْرٌ شَغَلَهُمْ
سنن أبي داؤد۔
( اصنعوا لآل جعفر طعاما ) : فيه مشروعية القيام بمؤنة أهل البيت مما [ ص: 312 ] يحتاجون إليه من الطعام لاشتغالهم عن أنفسهم بما دهمهم من المصيبة . قاله في النيل .
وقال السندي : فيه أنه ينبغي للأقرباء أن يرسلوا لأهل الميت طعاما ( أمر يشغلهم ) : من باب منع أي عن طبخ الطعام لأنفسهم . وعند ابن ماجه قد أتاهم ما يشغلهم أو أمر يشغلهم وفي رواية له إن آل جعفر قد شغلوا بشأن ميتهم فاصنعوا لهم طعاما .
قال ابن الهمام في فتح القدير شرح الهداية : يستحب لجيران أهل الميت والأقرباء الأباعد تهيئة طعام لهم يشبعهم ليلتهم ويومهم ، ويكره اتخاذ الضيافة من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور وهي بدعة مستقبحة انتهى .
ويؤيده حديث جرير بن عبد الله البجلي قال : كنا نرى الاجتماع إلى أهل الميت وصنعة الطعام من النياحة أخرجه ابن ماجه وبوب باب ما جاء في النهي عن الاجتماع إلى أهل الميت وصنعة الطعام ، وهذا الحديث سنده صحيح ورجاله على شرط مسلم . قاله السندي : وقال أيضا : قوله كنا نرى هذا بمنزلة رواية إجماع الصحابة أو تقرير من النبي صلى الله عليه وسلم ، وعلى الثاني فحكمه الرفع وعلى التقديرين فهو حجة .
وبالجملة فهذا عكس الوارد إذ الوارد أن يصنع الناس الطعام لأهل الميت فاجتماع الناس في بيتهم حتى يتكلفوا لأجلهم الطعام قلب لذلك : وقد ذكر كثير من الفقهاء أن الضيافة لأهل الميت قلب للمعقول لأن الضيافة حقا أن تكون للسرور لا للحزن انتهى .
قال المنذري : والحديث أخرجه الترمذي وابن ماجه ، وقال الترمذي حسن صحيح .
عون المعبود
[ص: 323] بَاب مَا جَاءَ فِي الطَّعَامِ يُصْنَعُ لِأَهْلِ الْمَيِّتِ
998 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ لَمَّا جَاءَ نَعْيُ جَعْفَرٍ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اصْنَعُوا لِأَهْلِ جَعْفَرٍ طَعَامًا فَإِنَّهُ قَدْ جَاءَهُمْ مَا يَشْغَلُهُمْ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ كَانَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ يَسْتَحِبُّ أَنْ يُوَجَّهَ إِلَى أَهْلِ الْمَيِّتِ شَيْءٌ لِشُغْلِهِمْ بِالْمُصِيبَةِ وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ قَالَ أَبُو عِيسَى وَجَعْفَرُ بْنُ خَالِدٍ هُوَ ابْنُ سَارَةَ وَهُوَ ثِقَةٌ رَوَى عَنْهُ ابْنُ جُرَيْجٍ
سنن الترمذي. كتاب الجنائز.
قوله : ( لما جاء نعي جعفر ) أي : ابن أبي طالب أي : خبر موته بمؤتة ، وهي موضع عند تبوك سنة ثمان ( ما يشغلهم ) بفتح الياء والغين ، وقيل بضم الأول وكسر الثالث ، قال في القاموس : شغله كمنعه شغلا ويضم ، وأشغله لغة جيدة ، أو قليلة ، أو رديئة ، والمعنى جاءهم ما يمنعهم من الحزن عن تهيئة الطعام لأنفسهم فيحصل الهم ، والضرر ، وهم لا يشعرون ، قال الطيبي : دل على أنه يستحب [ ص: 67 ] للأقارب والجيران تهيئة طعام لأهل الميت . انتهى ، قال ابن العربي في العارضة : والحديث أصل في المشاركات عند الحاجة ، وصححه الترمذي ، والسنة فيه أن يصنع في اليوم الذي مات فيه لقوله صلى الله عليه وسلم فقد جاءهم ما يشغلهم عن حالهم فحزن موت وليهم اقتضى أن يتكلف لهم عيشهم ، وقد كانت للعرب مشاركات ومواصلات في باب الأطعمة باختلاف الأسباب ، وفي حالات اجتماعها . انتهى ، قال القاري ، والمراد طعام يشبعهم يومهم ، وليلتهم ، فإن الغالب أن الحزن الشاغل عن تناول الطعام لا يستمر أكثر من يوم ، ثم إذا صنع لهم ما ذكر سن أن يلح عليهم في الأكل لئلا يضعفوا بتركه استحياء ، أو لفرط جزع . انتهى ، وقال ابن الهمام : ويستحب لجيران أهل الميت والأقرباء الأباعد تهيئة طعام يشبعهم يومهم ، وليلتهم ؛ لقوله صلى الله عليه وسلم اصنعوا لأهل جعفر طعاما ، وقال : يكره اتخاذ الضيافة من أهل الميت ؛ لأنه شرع في السرور لا في الشرور ، وهي بدعة مستقبحة . انتهى " وقال القاري : واصطناع أهل البيت الطعام لأجل اجتماع الناس عليه بدعة مكروهة بل صح عن جرير رضي الله عنه كنا نعده من النياحة ، وهو ظاهر في التحريم . انتهى . قلت : حديث جرير رضي الله عنه أخرجه أحمد وابن ماجه بلفظ : قال كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت ، وصنعة الطعام بعد دفنه من النياحة . انتهى ، وإسناده صحيح .
تحفة الاحوذي شرح سنن الترمذي.
6866 حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ بَابٍ عَنْ إِسْمَاعِيلَ عَنْ قَيْسٍ عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْبَجَلِيِّ قَالَ كُنَّا نَعُدُّ الِاجْتِمَاعَ إِلَى أَهْلِ الْمَيِّتِ وَصَنِيعَةَ الطَّعَامِ بَعْدَ دَفْنِهِ مِنْ النِّيَاحَةِ
مسند أحمد.
بَاب مَا جَاءَ فِي النَّهْيِ عَنْ الِاجْتِمَاعِ إِلَى أَهْلِ الْمَيِّتِ وَصَنْعَةِ الطَّعَامِ
1612 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى قَالَ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ح وَحَدَّثَنَا شُجَاعُ بْنُ مَخْلَدٍ أَبُو الْفَضْلِ قَالَ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْبَجَلِيِّ قَالَ كُنَّا نَرَى الِاجْتِمَاعَ إِلَى أَهْلِ الْمَيِّتِ وَصَنْعَةَ الطَّعَامِ مِنْ النِّيَاحَةِ
سنن ابن ماجة. كتاب الجنائز.
قال فی الشامی فی کتاب الوصیۃ عن آخر الجنائز من الفتح ویکرہ اتخاذ الضیافۃ من الطعام من اہل المیت لانہ شرع فی السرور دون الشرور وہی بدعۃ مستقبحۃ ۔روی الا مام احمد عن جرید بن عبد اللّٰہ قال کنا نعد الا جتماع الی اہل المیت وصنعہم الطعام من النیاحۃ (شامی کتاب الوصیۃ ص ۴۶۴ ج۵)
واللہ اعلم بالصواب
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
No comments:
Post a Comment