Friday, 30 December 2016

مولانا عبدالحق اعظمی کا انتقال

ان الله لا يقبض العلم انتزاعا ينتزعه من العباد ولكن يقبض العلم بقبض العلماء حتي اذا لم يبق عالما اتخذ الناس رؤساجهالا فسئلوا فافتوا بغير علم فضلوا واضلو.

(مشكوة  عن الصحيحين ص 33)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ،
اللہ تعالی علم کو  براہ راست نہیں اٹھا لے گا ... بلکہ علماء کی وفات سے علم اٹھے گا، جب اصلی علماء نہ رہ جائیں گے تو لوگ نقلی علماء کو اپنا پیشوا بنالیں گے،  جب ان سے کچھ پوچھا جائے گا تو ناحق بات کہیں گے، خود گمراہ ہوئے دوسروں کو بھی کریں گے.
آج بروز جمعہ، 30 دسمبر 2016 کو مولانا عبدالحق اعظمی شیخ ثانی دارالعلوم دیوبند مختصر سی بیماری کے بعد داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون۔
مولانا کی عمر 88 برس تھی، ضعف اور کمزوری کے دوران صبح طبیعت خراب ہوئی تو مقامی ڈاکٹر کے یہاں بغرض علاج داخل کئے گئے، حالت بگڑتی گئی اور مولانا مغرب اور عشاء کے درمیان ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رخصت ہوگئے۔ مولانا دارالعلوم دیوبند کے ممتاز اساتذہ میں سے تھے اورایک لمبے عرصے سے بخاری شریف جلد ثانی کا سبق مولانا سے متعلق تھا، وہ شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ، علامہ ابراہیم بلیاوی، مولانا اعزاز علی کے خاص شاگرد تھے ۔ اپنے علاقہ میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد دارالعلوم مئو سے عربی ہفتم تک تعلیم پائی اور پھر تکمیل دورہ کے لئے دارالعلوم میں داخل ہوئے ۔ مختلف جگہوں پر تدریسی خدمت انجام دی ، درس نظامی کی اہم ترین کتابیں اور حدیث کی بنیادی کتابیں آپ کے زیر درس رہیں ۔ 1982میں ارباب شوریٰ کی ایماء پر دارالعلوم دیوبند میں بہ حیثیت مدرس بلائے گئے. وہ ایک صاحب کمال، صاحب علم، صاحب فضل انسان تھے، ان کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے جب ملک اور بیرون ملک میں دین کی خدمت میں مصروف ہیں۔ آپ کے اپنے استاد شیخ الاسلام مدنیؒ کے طرز درس کا اچھا حصہ ملا تھا، چنانچہ بخاری میں جب وہ کتاب المغازی کا درس دیتے تھے تو ان کا انداز اور تیور دیگر ہوتے تھے، وہ کامیاب مدرس تھے اور ان بزرگوں کی تدریسی صلاحیتوں اور کمالات کو زندہ کرتے تھے جن سے دارالعلوم کی تدریسی زندگی تاریخ علم کا خوبصورت عنوان ہے۔ دیوبندکےموجودہ اکابر میں انتہائی مقبول اوراپنی سادگیِ وضع اوربے تکلفانہ اطوارکی وجہ سے آپ اساتذہ و طلبہ سب میں یکساں قدرکی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ آپ کا مستجاب الدعوات ہونا بھی معروف تھا۔ دارالعلوم میں خاص خاص مواقع پرحضرت سے دعا کروانے کااہتمام کروایا جاتا بطورِ خاص بخاری کے اختتام کے دن حضرت کی دعا غیرمعمولی رقت آمیز ہوتی تھی۔ دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث ، لاکھوں علما کے استاذ الاستاذہ، مستجاب الدعوات بزرگ شخصیت، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ کے شاگرد رشید، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب نور اللہ مرقدہ کے مجاز، حضرت مولانا شیخ عبدالحق صاحب اعظمی کے انتقال پر جانشین فدائے ملت، قائد جمعیۃ حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء ہند نے گہرے رنج و غم کا اظہار فرمایا ہے اور مدارس عربیہ، اسلامی اداروں کے ذمہ داران، جمعیۃ علماء ہند کے احباب و کارکنان، ائمہ عظام ، جماعت تبلیغ کی معزز شخصیات اور خانقاہوں سے وابستہ افراد سے پر زور اپیل ہے کہ وہ حضرت کے لئے ایصال ثواب کا اہتمام فرمائیں ۔اور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند فرمائے اور ان کے متعلقین و لواحقین کوے صبر جمیل عطا فرمائے۔ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی صاحب دامت برکاتہم نے حکیم الدین قاسمی سکریٹری جمعیۃ علماء ہند کے ساتھ گفتگو میں فرمایا کہ نماز جنازہ کل 31 دسمبر بروز ہفتہ بعد نماز ظہر دارالعلوم دیوبند میں ادا کی جائے گی۔ مولانا کا انتقال ایک ایسے وقت میں کہ جب امت ممتاز افراد سے محروم ہوتی جارہی ہے ایک بڑاسانحہ ہے۔ ان کے حادثہ وفات کو شدت کے ساتھ محسوس کیا جارہا ہے ، انتقال کی خبر آتے ہی دیوبند کی فضا سوگوار ہوگئی اور دارالعلوم دیوبند اپنے ایک فرزند کے رخصت ہوجانے پر غم کے زیر اثر ہے۔ ہزاروں شاگرد اور ان کے ممتاز ونمایاں شاگرد اپنے نامور استاد کی جدائی کو دل سے محسوس کررہے ہیں ۔ مولانا کے سب بچے اس وقت آبائی وطن اعظم گڑھ میں تھے، ان کے دیوبند پہنچنے کے بعد ہی تدفین کا عمل مکمل ہوگا۔ ان کے انتقال کی خبر سے دارالعلوم دیوبند، دارالعلوم وقف دیوبند سمیت دیگر تمام مدارس کے طلباء و اساتذہ اور دنیا بھر میں پھیلے ان تلامذہ پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی، نائب مہتمم مولانا عبدالخالق مدارسی موقع پر پہنچے اور مولانا کے جسد خاکی کو بذریعہ ایمبولینس احاطہ مولسری میں لایا گیا، جہاں اساتذہ و طلباء کے جم غفیر نے نم آنکھوں کے ساتھ شیخ مرحوم کاآخری دیدارکیا۔ پسماندگان میں چھ صاحبزادے اور تین صاحبزدایاں ہیں۔ یقینا شیخ عبدالحق کا انتقال ایک عہد کاخاتمہ ہے، آپ نے نصف صدی سے زائد عرصہ تک دارالعلوم دیوبند میں علم حدیث کی باکمال خدمات انجام دیں۔ مرحوم اکابر اسلاف دیوبند کی نشانی تھے جو نہ صرف اپنے علمی فن میں زبردست مہارت رکھتے تھے بلکہ سالہا سال سے بخاری شریف کادرس دے رہے تھے۔ ان کے انتقال سے علمی میدان میں جو خلاپیدا ہوا ہے، اس کو پر کرناآسان نہیں ہوگا۔
” اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ ، وارْحمْهُ ، وعافِهِ ، واعْفُ عنْهُ ، وَأَكرِمْ نزُلَهُ ، وَوسِّعْ مُدْخَلَهُ واغْسِلْهُ بِالماءِ والثَّلْجِ والْبرَدِ ، ونَقِّه منَ الخَـطَايَا، كما نَقَّيْتَ الثَّوب الأبْيَضَ منَ الدَّنَس ، وَأَبْدِلْهُ دارا خيراً مِنْ دَارِه ، وَأَهْلاً خَيراً منْ أهْلِهِ، وزَوْجاً خَيْراً منْ زَوْجِهِ ، وأدْخِلْه الجنَّةَ ، وَأَعِذْه منْ عَذَابِ القَبْرِ ، وَمِنْ عَذَابِ النَّار “.

ایس اے ساگر 

No comments:

Post a Comment