تدفین کے بعد فورا قبر کے پاس کھرے ھوکر زور سے اجتماعی دعا کرنا کیساھے اسکا کیا حكم ھے؟
بحوالہ جواب دینے کی زحمت گوارا فرمائیں
Jaaiz he
Hawala galiban fatawa rahimiya me padhaa hoo
Aor
Bazate khud Talibeilm
Dabhel ke buzurg hasti
Molana a gafoor pathan rahmatullahialyh kee qabr par baad tadfeen ke hazrat mufti ahmad khanpoori db ke saath ijtimaai jahri duaa me shamil ho chukaa he
Ye waqia taqriban 1988 kaa hai
.... Is amalko zaruri samajhna...... Sharan be asal he
........................................................
نمازِ جنازہ کے فوراً بعد ہاتھ اٹھا کر میت کے لیے اجتماعی دعا کرنا، قبیح بدعت ہے، قرآن وحد یث میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے، رسول اللہ ﷺ ،خلفائے راشدین ، صحابہ کرام تابعین عظام ، ائمہ دین اور سلف صالحین سے یہ ثابت نہیں ۔
اس کے باوجود” قبوری فرقہ” اس کو جائز قرار دیتا ہے، جنازہ کے متصل بعد اجتماعی طور پر ہاتھ اٹھا کر دعا کر نا اگر جائز ہوتا تو صحابہ کرام جو سب سے بڑھ کر قرآن وحدیث کے معانی، مفاہیم ومطالب اور تقاضوں کو سمجھنے والے اور ان کے مطابق اپنی زند گیوں کو ڈھالنے والے تھے، وہ ضرور اس کا اہتمام کرتے۔
چاروں اماموں سے بھی اس کا جواز یا استحباب منقول نہیں ، امامِ بریلویت جناب احمد یار خان نعیمی صاحب لکھتے ہیں ۔
” ہم مسائل شرعیہ میں امام صاحب (ا بوحنفیہ) کا قول وفعل اپنے لیے دلیل سمجھتے ہیں اور دلائل شرعیہ پر نظر نہیں کرتے ۔ ( جاء الحق” ۱۵/۱)۔
نیز ایک مسئلہ کے بارے میں لکھتے ہیں : ” حنفیوں کے دلائل یہ روایتیں نہیں ، ان کی دلیل صرف قولِ امام ہے۔۔ ( جاء الحق” ۱۰۴،۹/۶)۔
اب مبتد عین پر لازم ہے کہ وہ اپنے امام ابو حنفیہ سے باسند “صحیح” اس کا استحباب ثابت کریں ، ورنہ ماننا پڑے گا کہ اس فرقہ کا امام ابو حنفیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور
أجلی الآ علام بأن الفتوٰی مطلقا علی قول قول الامام
کے نام سے رسالے لکھنے والوں کو ” کشف الغطاء” وغیرہ کے حوالے پیش کرتے وقت شرم کرنی چاہیئے !
واضع رہے کہ بعض حنفی امامو ں نے بھی جنازہ کے متصل بعد دعا کرنے سے منع کیا ہے اور اس کو مکروہ قرار دیا ہے:
۱۔ ابنِ نجیم حنفی ، جنہیں حنفی ابو حنفیہ ثانی کے نام سے یاد کرتے ہیں ، وہ لکھتے ہیں :
ولا ید عو بعد الّتسلیم۔
نمازِ جنازہ کا سلام پھیرنے کے بعد دعا نہ کرے۔” (البحر الرائق لاین نحیم الحنفی: ۱۸۳/۷)۔
طاہر بن احمد الحنفی البخاری (م۵۴۲ھ) لکھتے ہیں۲-
لایقوم بالد عاء فی قرائۃ القرآن لأ جل المیّت بعد صلاۃ الجنازۃ وقبلھا لا یقوم بالدعاء بعد صلاۃ الجنازۃ۔۔
” نمازِ جنازہ سے پہلے اور بعد میت کے لیے قرآن مجید پڑھنے کے لیے مت ٹھہرے اور نمازِ جنازہ کے ( متصل) بعد دعا کی غرض سے بھی مت ٹھہرے ۔” ( خلاصۃ الفتوی: ۲۲۵/۱)
۳۔ ابنِ ہمام حنفی کے شاگرد ابراہیم بن عبد الرحٰمن لکر کی (۸۳۵-۹۲۲ھ) لکھتے ہیں :
والدّعاء بعد صلاۃ الجنازۃ مروہ کما یفعلہ العوّ ا م فی قرأء ۃ الفاتحۃ بعد الصّلاۃ علیہ قبل أن تر فع۔
” نمازِ جنازہ کی ادائیگی کے بعد میت کو اٹھانے سے پہلے سورۂ فاتحہ کو دعا کی غرض سے پڑ ھنا ، جیسا کہ عوام کرتے ہیں ، مکروہ ہے۔” ( فتاوی فیض کرکی : ۸۸)
۴۔ محمد خراسانی حنفی (م ۹۲۶ھ) لکھتے ہیں :
ولا یقوم داعیا لہ ۔
” نمازِ جنازہ کے ( متصل ) بعد میت کے حق میں دعا کے لیے کھڑا نہ ہو۔ ” ( جامع الرموز : ۱۲۵/۱)
اعتراض: ان عبارات سے پتہ چلتا ہے کہ نمازجنازہ کے فوراً بعد کھڑے ہو کر نہیں ، بلکہ بیٹھ کر دعا کرے، مطلق دعا کی نفی بالکل نہیں ۔
جواب : یہ مفہوم کئی وجوہ سے باطل ہے:
۱ ۔ حنفی مذہب کی کسی معتبر کتاب میں یہ مفہوم مذکور نہیں ، لہٰذا مردود باطل ہے۔
۲۔ یہاں ” قیام” کا معنٰی کھڑے ہونا نہیں ، بلکہ ٹھہرا نا مراد ہے، جیساکہ ارشاد ، باری تعالٰی ہے: وَلَا تَقُم عَلیٰ قَبرِ ہ، التوبۃ: ۸۴ یعنی : ” آپ منافقین میں سے کسی کی قبر پر مت ٹھہریں۔” یہ مطلب نہیں کہ منافقین کی قبروں پر کھڑے نہیں ہوسکتے ، بیٹھ کر دعا کرسکتے ہیں ، بلکہ یہاں قیام سے مراد ٹھہرا نا ہے کہ آپ ان کی قبروںپر دعا کے لیے نہیں ٹھہر سکتے ۔
آہئے نمازِ جنازہ کے متصل بعد دعا کے مزعومہ دلائل کا جا ئزہ لیتے ہیں :
دلیل نمبر ۱:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ
” میں دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں ، جب بھی وہ مجھ سے دعا کرے۔”
تبصرہ:
۱-بعض الناس کا عمومی دلائل سے اس کا ثبوت پیش کرنا صحیح نہیں ہے۔
۲۔ نبئ کریم ﷺ اور صحابہ کرام جو قرآن کے مفاہیم ومطالب سب سے بڑھ کر جاننے والے تھے ، ان سے جنازہ کے متصل بعد اجتماعی دعا کرنا ثابت نہیں ، اگر اس آیت کے عموم سے یہ مسئلہ نکلتا تو وہ ضرور دعا کرتے ، لہٰذا یہ کہنا کہ اس آیت کے عموم سے نماز، جنازہ کے فوراً بعد دعا کی ترغیب دی گئی ، واضح جھوٹ ہے۔
۳- خود تقلید پرست جنازہ سے پہلے اجتماعی ہیئت کے ساتھ دعا کرنے کے قائل نہیں ، لہذا ان کا اس آیت کے عموم پر عمل نہیں ۔
۴-اس آیت سے استد لال کسی حنفی امام سے ثابت کریں
دلیل نمبر ۲:
رب تعالیٰ ارشاد فرما تا ہے:
فَاِذَا فَرَغۡتَ فَانۡصَبۡ ۙ﴿۷﴾ وَ اِلٰی رَبِّکَ فَارۡغَبۡ (الانشراح ۸-۷)
تو جب تم نماز سے فارغ ہو تو دعا میں محنت کرو اور اپنےرب ہی کی طرف رغبت کرو۔
اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کے ارشادات
اس کی تفسیر میں سید نا عبد اللہ ،بن عباس ؓ اور قتا دہ ، ضحاک ، مقاتل اور کلبی وغیر ہم سے مروی ہے:
اذا فرغت من الصّلاۃ المکتوبۃ أو مطلق الصّ لاۃ فانصب الی ربّک فی الدّ عاء وار غب الیہ فی المسئلۃ ۔
” جب تم نمازِ فرض یا کسی بھی قسم کی نماز سے فارغ ہو تو اپنے رب سے دعا کرنے میں لگ جاؤ او اس کی بار گاہ میں سوال کرنے میں رغبت کرو۔”
( تفسیر مظہری: ۹۴/۱۰، طبع انڈیا)
تبصرہ
۱۔ اس آیت کریمہ سے کسی ثقہ امام نے نمازِ جنازہ کے متصل بعد اجتماعی ہیئت سے دعا کا جواز ثابت نہیں کیا ہے، لہٰذا یہ استدلال باطل ہے۔
۲۔ سید نا ابنِ عباسؓ سے یہ تفسیر ثابت نہیں ، کیونکہ پہلی روایت میں علی بن ابع طلحہ راوی ہے ، جس کا سید نا ابنِ عباس ؓسے سماع ثابت نہیں ، دوسری روایت میں ” سلسلہ الضعفاء” ہے ، یعنی سسعد بن محمد بن الحسبن عطیہ بن سعد العوفی اور اس کا چچا الحسن بن عطیہ العفی اور الحسن بن عطیہ العو فی اور عطیہ العوفی ، سارے کے سارے راوی ” ضعیف ” ہیں ۔
ضحاک کی روایت ” حُدِّثتُ( مجھے بیا ن کیا گیا ہے) ، یعنی جہالت کے وجہ سے ” ضیعف” ہے۔۔ لہٰذا یہ دونوں روایتیں ” ضعیف ” ہوئیں ۔
۳- مقاتل خود” ضعیف ” ہے۔
۴۔ کلبی خود کذاب اور متروک ہے۔
۵ ۔ قال الطّبریٰ : حدّثنا ابن عبد الأ علیٰ ، قال : ثنا ثور عن معمر عن قتادۃ فی قولہ : فاذا فرغت من صلاتک فانصب فی الدّ عاء ۔ “
امام قتادہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ جب تو اپنی نماز سے فارغ ہوتو دعا میں رغبت کر۔ ” )تفسیر طبری: ۱۵۲/۳، وسندۂصحیح )
اس صحیح تفسیر میں نمازِ جنازہ کا کوئی ذکر نہیں ہے، دوسری بات یہ ہے کہ اس میں اجتماعی ہیئت کے ساتھ دعا کا کوئی ذکر نہیں ، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ جب نماز سے فارغ ہوں تو دعا میں کوشش کریں ، یعنی اذکار منسونہ پڑھیں یا اس آیت کریمہ کا معنیٰ یہ ہے کہ آپ جب دنیاوی امور سے فارغ ہوجائیں تو عبادت میں خوب محنت کریں ۔
تنبیہ
اس آیت کی تفسیر میں خواجہ یعقوب چرخی ( م ۸۷۵ھ) لکھتے ہیں :
” تو جب تم نماز سے فارغ ہوجاؤ تو دعا میں محنت کرو ، نماز کے بعد نیا ز پیش کرکے حق تعالیٰ کی ملاقات ڈھونڈ و اور دنیا و آخرت حق تعالیٰ سے طلب کرو، جب بندہ نماز پڑھ کر دعا نہ کرے تو ( حق تعالیٰ ) اس کی نماز اس کے منہ پر مارتے ہیں ۔”
( تفسیر یعقوب چحرخی : ص ۱۵۷، طبع قدیم ھند)۔
جواب
۱-یعقوب چرخی کا قول بے دلیل ہونے کی وجہ سے باطل ومردود ہے۔
۲۔ یہی بات باسند ِ صحیح امام ابوحنفیہ وغیرہ سے ثابت کی جائے۔
۳۔ اہل سنت والجماعت میں سے کوئی بھی اس نظریہ کا حامل نہیں رہا ہے۔
۴۔اس میں نمازِ جنازہ اور مخصوص ہیئت کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
۵۔ جمہور حنفی فقہا ء کے نزدیک نمازہ جنازہ کے بعد دعا کرنا صحیح نہیں ، لہٰذا یہ قول مرودہے۔
دلیل نمبر ۳:
سید نا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرما یا :
اذا صلّیتم علی المیّت فأ کلصو ال لہ الدّعاء۔ “
جب تم میت پر جنازہ پڑھو تو اس کے لیے خلوص کے ساتھ دعا کرو۔”
( سنن ابی داد ۳۱۹۹، سنن ابن ماجہ : ۱۴۹۷، السنن الکبری للبیھقی: ۴۰/۴، وسندۂ حسن )
اس حدیث کو امام ابنِ حبان ؒ ( ۳۰۷۷-۳۰۷۶) نے ” صحیح ” کہا ہے، اس کا راوی محمد بن اسحاق صاحب المغازی جمہور کے نزدیک “حسن الحدیث “ ہے، صحیح ابنِ حبان میں اس نے سماع کی تصریح کی ہے۔
تبصرہ : اس حدیث سے نمازِ جنازہ کے اندرمیت کے لیے اخلاص کے ساتھ دعا کرنے کا حکم دیا گیا ہے، محدثین کرام نے اس سے یہی مسئلہ اخذ کیا ہے۔
۞ امام ابنِ ماجہ ؒ نےاس پر یوں تبو یب کی ہے:
باب ما جاء فی الدّ عاء فی الصّلاۃ علی الجنازۃ۔ “
نماز جنا زہ کے اندر دعا کرنے کا بیان۔ “
۞ امام ابنِ حبانؒ کی تبویب ان الفاظ سے ہے:
ذکر الأ مر لمن صلّی علی میّت أن یخلص لہ الدّ عاء۔ “
جو آدمی میت پر نمازہ( جنازہ) پڑ ھتا ہے، اس کو میت کے لیے اخلاص کے ساتھ دعا کرنے کے حکم کا بیان۔”
۞ امام بیہقی ؒ یوں باب قائم فرماتے ہیں :
باب فی الدّ عاء فی الصّلاۃ الجنازۃ۔
” نمازِ جنازہ کے اندر دعا کرنے کا بیان۔”
مبتدعین اس حدیث کو نمازِ جنازہ کے متصل بعد اجتماعی دعا کے لیے بطورِ دلیل پیش کرتے ہیں ، یہ ہمارے اس دور کے اہل بد عت کی کار ستانی ہے، بلکہ زبر دست سینہ زوری ہے کہ حدیث کی معنوی تحریف کرکے ایک بد عت ایجاد کر لی ہے، محدثین کرام اور اپنے حنفی فقہاء کے فہم اور اقوال کو نظر انداز کردیا ہے۔
چنا نچہ احمد یار خان نعیمی بریلوی صا حب لکھتے ہیں :
” ف سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کو فوراً بعد دعا کی جاوے ، بلا تاخیر۔ جو لوگ اس کے معنیٰ کرتے ہیں کہ نماز میں اس کے لیے دعا مانگو ، وہ ‘ ف”‘ کے معنیٰ سے غفلت کرتے ہیں ، صلّیتم شرط ہے اور فأ خلصواا س کی جزاء، شرط اور جزاء میں تغایر چاہیے ، نہ یہ کہ اس میں داخل ہو، پھر صلّیتم ماضی ہے اور فأ خلصوا امر ہے، اس سے معلوم ہوا کہ دعا کا حکم نماز پڑھ چکنے کے بعد ہے، جیسے فاذا طعمتم فانتشروا میں کھا کر جانے کا حکم ہے، نہ کہ کھانے کے درمیان۔۔۔۔اور فا سے تاکید ہی معلوم ہوئی۔
( جاء الحق: ۲۷۴)
دیکھا آپ نے کہ ” مفتی” صاحب کس جرأت سے محد ثین کرام اور اپنے حنفی فقہا ء وائمہ کو” غفلت” کا الزام دے رہے ہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایک اعتبار سے یہاں تغایر موجود ہے، وہ ہے کلیت اور جزئیت کا تغایر ، نماز کلیت کے اعتبار سے افعال واقوال کےمجموعہ کا نام ہے، جبکہ دعا ایک جزاء ہے، جسے قول کہا جاتاہے، شرط اور جزاء کے درمیان اتنی سی مغایرت کافی ہے، ورنہ نمازِ جنازہ کو دعاؤں سے خالی کرنا پڑ ےگا، کیونکہ من کل الوجوہ مغایر ت اس وقت ہوگی، جب نمازِ جنازہ کے اندر کوئی بھی دعا نہ ہو۔ اگر شرط اور جزاء میں من وجہ مغایرت کافی ہو تو یہاں بھی مغایرت دموجود ہے۔
ویسے بھی جب ماضی پر” اذا” داخل ہوجائے تو معنیٰ مستقبل کا پیدا ہوجاتا ہے، لہٰذا صحیح معنیٰ اور ترجمہ یہ ہوا کہ ” جب تم نمازِ جنازہ پڑ ھو تو اس میت کے لیے دعا میں اخلاص پیدا کرو۔
جیسا کہ محد ثین کرام کے فہم سے پتا چلتا ہے۔ اگر ہر جگہ فا کا معنی تغاخر کا لیں تو
فإذا قرأت القرآن فاستعذ باللہ من الشّیطن الرّجیم
کا معنی یہ ہوگا کہ قرآ ن پاک پڑھ لینے کے بعد أعوز باللہ ۔۔۔پڑھنا چاہیے ، یہا ں بھی قرأت ماضی اور فاستعذ امر ہے۔
قرآن مجید میں ایک آیت سے بطر یق اشارۃ العص ثابت ہوتا ہے کہ نمازِ جنازہ کے متصل بعد دعا کرنا جائز نہیں ، جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ لَا تُصَلِّ عَلٰیٓ اَحَدٍ مِّنۡہُمۡ مَّاتَ اَبَدًا وَّ لَا تَقُمۡ عَلٰی قَبۡرِہٖ (التوبۃ:۸۴)
” آپ کبھی بھی ان ( منافقین) پر نمازِ جنازہ نہ پڑ ھیں ، نہ ہی ان کی قبر پر( دعاکے لیے) ٹھہریں ۔”
نبی کریم ﷺ مسلمانوں کا جنازہ پڑ ھتے تھے تو منافقین کا جنازہ پڑ ھنے سے روک دیا گیا، اسی طرح اگر آپ نمازِ جنازہ کے متصل بعد مسلمان میت کے لیے اجتماعی دعا کرتے ہوتے تو منافقین کے حق میں اس ے بھی روک دیا جاتا، ثابت ہوا کہ نمازِ جنازہ کے متصل بعد اجتماعی دعا سنتِ نبوی سے ثابت نہیں ہے۔
دلیل نمبر ۴:
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے:
انّ النّبیٰ صلّی اللہ علیہ وسلّم صلّی علی المنفوس ، ثمّ قال : اللّٰھم أعزہ من عذاب القبر۔
” بے شک نبی کریم ﷺ نے ایک نوزائیدہ کی نمازِ جنازہ پڑھی ، پھر دعا فرمائی کہ اے اللہ! اس کو عذاب ( فتنہ ) قبر سے پنا ہ دے۔
” )کنز العمال : ۷۱۶/۱۵، طبع حدید حلب)
جواب
۱ : اس کا ترجمہ غلط کیا گیا ہے صحیح تر جمہ یہ ہے کہ ” بے شک نبی کریم ﷺ نے ایک نوزائیدہ پر نمازِ جنازہ پڑھی اور دعا فرمائی کہ اے اللہ ! اس کو عذابِ ( فتنۂ) قبر سے پناہ دے۔ “
اس روایت میں ثمّ ، واؤ کے معنیٰ میں ہے، یعنی نمازِ جنازہ پڑھی اور اس میں یہ دعا پڑ ھی ، جیسا کہ محد ثین کرام کے فہم سے پتا چلتا ہے، آج تک کسی ثقہ محدث نے اس کو جنازہ کے متصل بعد دعا کے ثبوت میں پیش نہیں کیا ہے۔
۲۔ اس میں اجتماعی ہیئت کے ساتھ اور ہاتھ اٹھا کر دعا کا کوئی ذکر نہیں ۔
۳۔ یہاں حرف ثمّ کا معنیٰ فا، یعنی تعقیب مع الو صل والا کرنا صحیح نہیں ، کیونکہ ثمّ تعقیب مع تراخی کے لیے آتا ہے، اس جگہ بغیر کسی قرینۂ صارفہ کے اس کو تعقیب مع الو صل کی طرف پھیرنا صحیح نہیں ہے، حنفی فقہا کی صراحت سے بھی یہی پتا چلتا ہے۔
دلیل نمبر۵:
سیدنا عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے:
انّ النّبیٰ صلّی اللہ علیہ وسلّم قرأعلی الجنازۃ بفاحۃ الکتاب۔
” بے شک نبی کریم ﷺ نے جنازہ کے موقع پر فاتحہ پڑھی ۔” ( مشکوۃ المصایح مع أشعۃ اللعات: ۶۸۶/۱)
تبصرہ:
یہ حدیث ” حسن” درجہ کی ہے، اس کا ایک شاہداPم شریک کی روایت سے سنن ابنِ ماجہ ( ۱۴۹۶) میں موجود ہے، اس کو امام بطرانی نے اپنی کتاب المعجم الکبیر ( ۹۱/۲۵، ح : ۲۵۲) میں حمّاد بن بشیر الجھضعمی عن أبی عبد اللہ الشّامی ( مرزوق) عن شھر بن حوشب کے طریق سے روایت کیا ہے، اس کے مزید شواہد کے لیے مجمع الزوائد ( ۳۲/۳) دیکھیں ۔
یہ روایت نماز، جنازہ میں سورۂ فاتحہ پڑھنے کی زبردست دلیل ہے، اس کا ترجمہ امام بر یولیت احمد یار خان نعیمی بریلوی نے ان الفاظ میں کیا ہے: “روایت ہے حضرت ابنِ عباس سے کہ نبئ کریم ﷺ نے جنازے پر سورۂ فاتحہ پڑھی۔ ” مشکوۃ شریف ترجمہ ازاحمد یار خان بر یلوی ، تبہ )اسلامیہ اردو بازار لاھور: ۳۲۱/۱، ” حاء الحق”: ۲۷۵/۱)
لہذا اس کا تر جمہ یہ کرنا کہ ” جنازہ کے موقع پر فاتحہ پڑھی” یقیناًمعنوی تحریف ہے۔
الصلاۃ علی المیّتّ سے مراد نمازِ جنازہ ہوتا ہے ، جیساکہ حدیث میں ہے؛ صلّوا علی صاحبکم۔ یعنی: ” تم اپنے ساتھی پر نمازِ جنازہ پڑھو۔”
( صحیح بخاری : ۲۳۹۷، صحیح مسلم : ۱۶۱۹)
قرآن ِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ( ولا تصلّ علی أحد منھم مات أبدا) ( التوبۃ : ۸۴)
” آپ کبھی بھی ان ( منافقین ) پر نمازِ جنازہ نہ پڑھیں ۔”
اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ ” جنازہ کے موقع پر نہ پڑ ھیں ۔”!!!!
۳۔ یہ تر جمہ محدثین کے فہم کے خلاف ہے، کسی ثقہ امام نے اس سے یہ مطلب اخذ نہیں کیا ہے۔
امام ابنِ ماجہؒ ( ۱۴۹۵) نے اس پر باب ماجاء فی القراء ۃ علی الجنازۃ قائم کیا ہے ، اسی طرح امام ترمذی ؒ نے بھی اس پرباب ماجاء فی القراء ۃ علی الجنازۃ قائم کیا ہے ، یعنی نمازِ جنازہ مین قرات کرنے کے بارے میں بیان۔
دوسری صحیح احادیث سے نصاً ثابت ہے کہ نمازِ جنازہ کے اندر سورۂ فاتحہ پڑھی جائے ، لہذا بعض الناس کا احتمال صحیح اور صریح احادیث اور محدثین کرام کے فہم کے خلاف ہونے کی وجہ سے باطل ومردود ہے۔
دلیل نمبر ۶:
عبد اللہ بن ابی بکر تابعی کہتے ہیں :
لمّا التقی النّاس بمئو نۃ جلس رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم علی المنبر وکشف لہ ما بینہ وبین الشام، فھو ینظر الی معر کتھم، فقال علیہ السّلام : أخذ الرّأیۃ زید بن حرثۃ، فمضی حتّی استشھد، وصلّی علیہ ودعا الہ وقال: استخفر والہ وقد دخل الجنّ ۃ ، وھو یسعیٰ ، ثمّ أخذ الرّأیۃ جعفر بن ابی طالب، فمضیٰ حتٰی استشھد، فصلّی علیہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم ودعا لہ وقال: استغفر والہ، وقد دخل الجنّ ۃ ،فھو یطیر فیھا بجنا حیہ حیث شاء۔
جب لوگوں کو کوئی مصیبت پہنچتی تو رسول اللہ ﷺ منبر پر بیٹھتے اور آپ کے لیے شام تک کا علاقہ واضح کردیا جاتا، چنانچہ آپ ﷺ (مسلمانوں ) کے معرکے دیکھتے ، آپ نے فرما یا، زید بن حارثہ نے پرچم اٹھایا ہے اور چلتے رہے حتی کہ شہید کردیئے گئے، آپ نے ان پر نمازِ ( جنازہ) پڑھی اور ان کے لیے دعا کی اور فرمایا، ان کے لیے دعا کرو، وہ جنت میں دوڑتے ہوئے داخل ہوگئے پھر جعفر بن ابی طالب نے پرچم پکڑا اور چلتے رہے حتی کہ وہ شہید کردئیے گئے ، ان پر رسول اللہ ﷺ نے نمازِ ( جنازہ) پڑھی اور ان کے لیے دعا کی اور فرما یا، ان کے لیے دعا کرو، وہ جنت میں داخل ہوگئے ، وہ جنت میں اپنے دونوں پروں کے ساتھ جہاں چاہتے اڑتے پھر رہے تھے۔ ” )کتاب المغاری لسحمد بن عمر الواقدی: ۲۱۱/۲، نصب الریۃ: ۲۸۴/۲)
تبصرہ: ۱ یہ موضوع ( من گھڑت ) روایت ہے، اس کا راوی محمد بن عمر الواقدی جمہور کے نزدیک ” ضعیف، متر وک اور کذاب” ہے، ابنِ ملقن ؒ لکھتے ہیں : وقد ضعّفہ الجمھور۔
” اسے جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔ ” (ابدر المنیرلا بن الملقن: ۲۳۴/۵)
حافظ ابنِ حجر ؒ نے اسے” متروک” کہا ہے۔ ( تقریب التھذیب : ۶۱۷۵)
امام شافعی ؒ فرماتے ہیں : کتب الواقدیّ کذب ۔ ” واقدی کی کتا بیں جھوٹ کا پلندا ہیں ۔ “
( الجرح والتعدیل لا بن ابی حاتم: ۲۱/۸، وسندۂ صحیح )
امام اسحاق بن راہویہ ؒ فرماتے ہیں : لأ نّہ عندی ممّن یضع الحدیث
” میرے نزدیک یہ جھوٹی احادیث گھڑ نے والا ہے۔ ” ( الحرح والتعدیل : ۲۱/۸)
امام احمد بن حنبلؒ نے اسے ” کذاب” قرار دیاہے۔( الکامل لا بن عدی : ۲۴۱/۶، وسندۂ حسن)
امام بخاری ، امام ابوزرعہ، امام نسائی اور امام عقیلی ؒ نے اسے ” متروک الحدیث ” کہا ہے، امام یحیٰ بن بن اور جمہور نے ” ضعیف ” کہا ہے۔
امام ابنِ عدیؒ فرما تے ہیں :
یروی أحادیث غیر محفوظۃ والبلاء منہ ، ومتون أخبار الواقدیّ غیر محفوظۃ، وھو بیّن الضّعف۔ “
یہ غیر احادیث بیا ن کرتا ہے اور یہ مصیبت اسی کی طرف سے ہے، واقدی کی احادیث کے متون غیر محفوط ہیں ، وہ واضح ضعیف راوی ہے۔”
(الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی: ۲۴۳/۶)
۲۔ اس کا راوی عبد الجبار بن عمارہ القاری” مجہول” ہے ، اسے امام ابو حاتم الرزای(الجرح والتعدیل لابن ابی ھاتم: ۳۳/۶) اور حافظ ذہبی ؒ (میزان الاعتدال: ۵۳۴/۲) نے ” مجہول” قرار دیا ہے، صرف امام ابنِ حبان نے اسے ” اثقات” میں ذکر کیا ہے، جو کہ ناکافی ہے۔
۳۔ یہ روایت مرسل تابعی ہے، لہٰذا ارسال کی وجہ سے بھی ” ضعیف ” ہے۔
اس طرح کی روایت سے سنت کا ثبوت محال ہے۔
دلیل نمبر ۷:
ابراہیم ہجری کہتے ہیں :
رأیت ابن أبی أبی أوفیٰ، وکان من أصحاب الژّجرۃ ، ماتت ابنتہ الی ان قال : ثمّ کبّر علیھا أربعا ، ثمّ قام بعد ذلک قدر مابین التّکبیر تین یدعو وقال: رأیت رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کان یصنع ھکذا۔”
میں نے ابن ابی اوفیٰ کو دیکھا جو کہ بیعت ِ رضوان والے صحابی ہیں، ان کی دختر کا انتقال ہوا۔۔۔ آپ نے ان پر چار تکبیریں کہیں ، پھر اس کے بعد دو تکبیروں کے فاصلہ کے بقدر کھڑے ہوکر دعا کی اور فرما یا، میں نبئ اکرم ﷺ کو ایسا کرتے دیکھا ہے۔”
( جاء الحق:: ۲۷۵، مقاس حنفیت: ۵۲۶،بحوالہ کنز العمال : ۲۸۴۴)
تبصرہ ۱: اس روایت کی سند ” ضعیف” ہے، اسمیں ابراہیم بن مسلم ہجری راوی جمہور کے نزدیک ” ضعیف” ہے، اس پر امام ابو حاتم ارازی، اما نسائی، امام بخاری، امام ترمذی، امام ابن عدی، امام یحییٰ بن معین ، امام احمد بن حنبل ، امام جوز جانی، امام ابنِ سعد اور ابنِ جنید ؒ کی سخت جروح ہیں ۔
( دیکھیں تھذیب التھذیب لابن حجر: ۱۴۴-۱۴۳/۱)
حافظ ابنِ حجر ؒ نے اسے ” ضعیف” کہا ہے۔ ( تلخیص السندر ک للذھبی: ۵۵۵/۱)
۲۔ اس میں نماز ِ جنازہ کے اندر چو تھی تکبیر کے بعد دعا کا ثبوت ملتا ہے، نہ کہ سلام کے بعد انفرادی یا اجتماعی دعا کا، ایک روایت میں صراحت بھی ہے کہ: وکبّر علی جنازۃ أربعا، ثمّ قام ساعۃ ید عو، ثمّ قال: أتر ونی کنت أکبّر خمسا، قالوا: لا۔۔۔۔ ” آپ نے ایک جنازہ پر چار تکبیر یں کہہ دیں، پھر کچھ دیر کے لیے دعا کرتے ہوئے کھڑے ہوگئے ، پھر فرما یا، کیا تم نے خیال کیا تھا کہ میں پانچویں تکبیر کہوں گا، لوگوں نے کہا نہیں ۔” (السنن الکبری للبیھقی: ۳۵/۴، وسندۂ حسن ان صح سماع الحسن بن الصباح من أبی یعفور)
نیز امام بیہقی نے اس روایت پر یوں تبویب کی ہے: باب ماروی فی الاسخفار للمیّت والدّعاء لہ مابین التّکبیرہ الرّابعۃ والسّلام۔ ” اس روایت کا بیان جس میں چوتھی تکبیر اور سلام کے درمیان میں میت کے لیے دعا کرنے کا ذکر ہے۔” (السنن الکبری للبیھقی: ۴۳/۴)
ایک محدث اپنی روایت کو اہل بد عت سے بہتر سمجھتا ہے، لہٰذا یہ روایت ہندو ستانی بد عت کو بالکل سہارا نہیں دے سکتی۔
دلیل نمبر۸:
ابو بکر بن مسعد الکا سانی (م ۵۸۷ھ) ایک حدیث بیان کرتے ہیں:
أنّ النّبیّ صلّی اللہ علیہ وسلّم صلّی علی جنازۃ، فلمّا فرغ جاء عمر ومعہ قوم، فأر ادأن یصلّی ثانیا، فقال لہ النّبیّ صلّی اللہ علیہ وسلّم صلّی: الصّلاۃ علی الجنازۃ لا تعاد، ولکن ادع للمیّت واستغفرلہ۔
” بے شک نبئ اکرم ﷺ نے ایک میت کی نمازِ جنازہ پڑھی، جب پڑھ چکے تو حضرت عمر آپہنچے اور ان کے ہمرا ہ ایک گروہ بھی تھا تو انہوں نے ارادہ کیا کہ دوبارہ جنازہ پڑھیں ، تو نبی پاک ﷺ نے اس سے فرما یا کہ نمازِ جنازہ دوبارہ نہیں پڑھی جاتی، ہاں! اب میت کے لیے دعا واستغفار کرلو۔”
( بدالئع الصنائع فی ترتیب الشرالع: ۷۷۷/۲، طبع حذید مصری)
تبصرہ:
1-یہ روایت بے سند ، موضوع (من گھڑت ) ، باطل ، جھوٹی، جعلی، خود ساختہ، بناوٹی ، بے بنیاد اور بے اصل ہے، محمد رسول اللہ ﷺ پر افتر اور جھوٹ ہے۔
۲ذعُ کے الفاظ سے پتا چلتا ہے کہ آپ دعا کریں ، یہ نہیں کہ ہماری دعا میں شامل ہوجائیں-
دلیل نمبر ۱۰:
سید نا معاذ بن جبل ؓ سے روایت کہ رسول اللہ ﷺ نے فرما یا :
تلاوتِ قرآن سے محبت رکھنے والا مؤ من جب انتقال کرتا ہے تو
فتصلّی الملائکۃ علی روحہ فی الأ رواح ، ثمّ تستغفر لہ۔۔۔۔”
تو فرشتے عالم ارواح میں اس کی روح کی نمازِ جنازہ پڑ ھتے ہیں ، پھر اس کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں ۔” (شرح الصدور : ص، معلبوعہ مصر)
تبصرہ: ۱ یہ روایت سخت ترین” ضعیف” ہے، جیسا کہ حافظ سیوطیؒ اس کو ذکر کرنے؛ کے بعد لکھتےہیں:
ھذا حدیث غریب فی اسنادہ جھالۃ وانقطاع۔
” یہ حدیث غریب ہے ،اس کی سند میں مجہول راوی اور انقطاع ہے۔ ” ( شرح الصدور : ۵۳)
حافظ سیوطی کی کتاب سے یہ روایت تو نقل کی گئی ، لیکن اس پر انہوں نے حکم لگا یا تھا، واضح خیانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس ے ذکر نہیں کیا گیا۔
۲۔ اس روایت کے بارے میں امام بزار خود فرما تےہیں : خالد بن معد ان لم یسمع من معاذ۔ ” خالد بن معدان نے سید نا معاذ ؓ سے سماع نہیں کیا۔” ( کشف الاستار: ۸۱۲) حافظ منذ ری ؒ اس وجہ ضعف کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
فی اسناد ہ من لا یعرف حالہ، وفی متنہ غرابۃ کثیر ۃ ،بل نکارۃ ظاھرۃ۔
اس کی سند ایسا راوی بھی ہے جس کے حالات معلوم نہیں ہوسکے اور کے متن میں بہت غرابت ہے، بلکہ ظاہری نکارت ہے۔ “
( الترغیب والترھیب : ۲۴۵/۱)
۳ اس میں نمازِ جنازہ کے متصل بعد دعا کا ذکر نہیں ، یہاں تو اس بات کا ذکر ہے کہ جب وہ ( مؤ حد) انتقال کرتا ہے تو فوراً فرشتے اس کے لیے دعا کرتے ہیں ، فرشتو ں کی صلاۃ سے مراد دعا ہے، مؤ منین کے حق میں فرشتوں کی دعا سے مراد ان کے لیے مغفرت مانگنا ہوتا ہے، نہ کہ نمازِ جنازہ پڑھنا ، جب صلاۃ سے مراد یہاں نماز ہے ہی نہیں تو دعا بعدالصلاۃ ( نماز کے بعد کی دعا) کہاں سے آگئی؟
الیٰ یوم البعث کے الفاط کو خیانت کرتے ہوئے ذکر نہیں کیا جاتا ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ قیامت تک اس کے لیے دعا ئے مغفرت کرتے ہیں ، دوسری بات یہ ہے کہ ہم فرشتوں کے افعال وقوال کے مکلّف نہیں ہیں ، ہمارے لیے شرعی نصوص حجت ہیں ، نہ ہی فرشتے اس شریعت کے مکلّف ہیں ۔
دلیل نمبر ۱۱:
عمیر بن سعد بیا ن کرتے ہیں :
صلّیت مع علیّ علی یزید بن المکفّف ، فکّبر علیہ أربعا، ثمّ مشیی حتّی أتاہ، فقال: اللّٰمّ عبد کہ وابن عبدکہ نزل بک الیوم ، فاغفر لہ ذنبہ ووسّع علیہ مد خلہ ، ، ثمّ مشیی حتّی أتاہ وقال : اللّٰھّم عبدک وابن عبد ک نزل بک الیوم ، فاغفر لہ ذنبہ ووسّع علیہ مد خہ ، فانّا لا نعلم منہ الّا خیر ا وأنت أعلم نہ۔ “
میں نے سید نا علی ؓ کے ہمراہ یزید بن مکفف کی نمازِ جنازہ پڑ ھی ، تو علی ؓ نے اس پر چار تکبیریں (نمازِ جنازہ) پڑھیں ، پھر چل کر قبر کے قریب ہوئے پھر یہ دعا کی کہ اے اللہ ! یہ تیرا بندہ اور تیرے بندے کا بیٹا ہے جو آج تیرے یہا ں حاضر ہوا تواس کے گنا ہ بخش دے اور اس کی قبر اس پر فراخ فرمادے ، پھر آپ چلے اور اس کے مزید قریب ہوکر یہ دعا کرنے لگے کہ اے اللہ ! آج تیری بارگاہ میں تیرا بندہ اور تیرے بندے کا بیٹا حاضر ہوا ، پس تو اس کو اس کے گناہ معاف فرمادےاور اس پر اس کی قبر فراخ کردے ،کیونکہ ہم اس کے بارے میں سوائے بھلائی کے کچھ نہیں جانتے اور تو خود اس کے متعلق بہتر جانتا ہے۔”
( مصنف ابن ابی شیۃ : ۳۳۱/۳، معبو عہ بمبئی ھند)
تبصرہ:
۱- اس روایت کا نمازِ جنازہ کے متصل بعد دعا سے کوئی تعلق نہیں ، اس کا تعلق تو دفن کے بعد قبر پر دعا کرنے کے ساتھ ہے، جیسا کہ محدثین کی تبویب سے پتا چلتا ہے، امام ابنِ ابی شیبہ ؒ نے اس روایت کو فی الدّعاء للمّیت بعد ما ید فن ویسوّی علیہ کے تحت ذکر کیا ہے، یعنی انہوں نے اس حدیث کو میت کو دفن کرنے کے اور مٹی برابر کرنے کے بعد دعا کے بیان میں پیش کیا ہے۔
اسی طرح امام عبدالرزاقؒ نے اس حدیث پر یہ تبویب کی ہے: فی الدّعاء للمّیت حین یفرغ منہ۔ ” دفن کرنے سے فارغ ہوکر میت کے لیے دعا کرنے کا بیان ۔ ” ( مصنف عبد الزراق: ۵۰۹/۳)۔
دیکھیں کہ اہل سنت کے دو بڑےامام اس روایت کو دفن کے بعد دعا کرنے کے ثبوت میں پیش کررہے ہیں محدثین کافہم مقدم ہے، وہ اپنی روایات کو دوسروں سے بہتر جانتے تھے۔
۲ – چلنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نمازِ جنازہ پڑھ کر قبر پر آئے اور قبر پر دفن کے بعد دعا کی ، بلکہ سنن کبریٰ بہیقی(۵۶/۴) کی روایت میں صراحت موجود ہے کہ: وقد أدخل میّتا فی قبرہ ، فقال : اللہھمّ۔۔۔۔” آپ میت کو قبر میں داخل کر چکے تھے تو دعا کی، اے اللہ!۔۔۔۔۔”
۳ – اس روایت میں اجتماعی ہیئت کا بھی ذکر نہیں ہے۔
دلیل نمبر ۱۲:
عن أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ انّنہ صلّی علی المنفوس، ثمّ قال : اللھمّ أعذہ من عذاب القبر۔ “
سید نا ابوہر یرہ ؓ سے روایت ہے کہ آپ نے ایک نومولود پر نمازِ جنازہ پڑھی، پھر یہ دعا کی ، اے اللہ ! اس کو فتنۂ قبر سے اپنی پناہ میں رکھنا۔” (السنن الکبر ی للبیقی: ۹/۴)
تبصرہ :
۱- اس کا تر جمہ غلط کیا گیا ہے، صحیح تر جمہ یہ ہے
روایت ہے حضرت سید بن مسیّب سے کہ فرماتے ہیں ، مین نے حضرت ابو ہریرہ کی اقتداء میں اس بچے پر نماز پڑھی ، جس نے کبھی کوئی خطانہ کی تھی ، لیکن میں نے آپ کو فرماتے سنا کہ الہٰی ! اس عذابِ قبر سے بچا لے۔ّ
( مشکوۃ شریف ترجمہ ازا حمد یار خان نعیمی بریلوی: ۳۶۴/۱)
۲۔ امام اہل سنت امام مالک ؒ نے اس روایت کو باب مایقول المصلّی علی الجنازۃ ” جنازہ پڑ ھنے والا نمازِ جنازہ میں جو پڑ ھے گا، اس کا بیان ” کے تحت لائے ہیں ۔( الؤ طا: ۲۲۸/۱)
۳۔ مزید جوابات حدیث نمبر ۱ کے تحت ملاحطہ فر مائیں۔
۴۔ اس میں نمازِ جنازہ کے متصل بعد فاتحہ اور چار قل کا کوئی ثبوت نہیں ، نہ ہی اجتماعی ہیئت کا کوئی ذکر ہے۔
دلیل نمبر ۱۳
کاسانی نقل کرتے ہیں :
انّ ابن عباس وابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھم فاتتھما سلاۃ علی الجنازۃ ، فلمّا حضرا زادا علی الا ستغفار لہ۔ واللّفط للکا سانی۔ ”
سید نا ابنِ عباس اور ابنِ عمر ایک نمازِ جنازہ سے رہ گئے تو جب حاضر ہوئے تو اس کے لیے دعا ئے مغفرت کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا ۔”
( المبسوط: ۶۷/۲، طبع بیروت ، بدائع الصنائع: ۷۷۷/۲)
تبصرہ : ۱: یہ رویات بے سند ، موضوع(من گھڑت) ، باطل ، جھوٹی ، جعلی ، خود ساختہ، بناوٹی، بے بنیاد اور بے اصل ہے، جھوٹی اور بے سند روایات وہیپیش کرسکتا ہے جو بد عتوں کا شیدائی اور سنتوں کا دشمن ہو مقلدین کے” فقہاء” کی کتا بیں اس طرح کی واہی تباہی سے بھر ی پڑ ی ہیں ، ان کے دین میں سند نام کی کوئی چیز نہیں ، اسی لیے محد ثین کرام ان کو اچھا نہیں سمجھتے تھے ۔ فافہم وتدبّر !
دلیل نمبر ۱۴:
سید نا ابو امامہ الباہلی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے کہا گیا ،کون سی دعا زیادہ قبول ہوتی ہے؟ فرما یا:
جوف اللّیل الآ خر ودہر الصّلوات المکتوابات۔
” رات کے آخری نصف اور فرضی نمازوں کے بعد والی ۔” (سنن الترمذی: ۳۴۹۹، عمل الیوم والیلۃ للنسائی : ۱۰۸)
تبصرہ : ۱: اس کی سند انقطاع کی وجہ سے ” ٖضیعف” ہے، عبد الرحٰمن بن سابہ راوی نے سید نا ابو امامہ ؓ سے سماع نہیں کیا ، امام یحییٰ بن معن فرماتے ہیں کہ عبد الرحمٰن بن سابط نے سید نا ابو امامہ سے سماع نہیں کیا۔ ” ( تاریخ یحیی بن معین : ۳۶۶)
حافظ ابن القطان الفاسی ؒ کہتے ہیں :
واعلم أنّ مایرویہ عبد الرحمن بن سابط عن أبی أما مۃ لیس بمتّصل ، وانّما ھو منقطع ، لم یسمع منہ۔
” یادر ہے کہ جو روایات عبد الرحمٰن بن سابط سید نا ابو امامہ سے بیان کرتے ہیں ، وہ تمام متصل نہیں ہیں ، وہ تو منقظع ہیں ، کیونکہ عبد الرحمٰن بن سابط نے سید نا ابو امامہ ؓ سے نہیں سنا ۔”
(انصف الرایۃ للزیلعی : ۲۳۵/۲، بیان الو ھم والایھا،: ۳۸۵/۲)
دلیل نمبر ۱۵:
سید نا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرما یا:
مامن عبد بسط کفّیہ فی دبر کلّ صلاۃ، ثمّ یقول : اللھمّ الّھی والہ ابراھیم واسحاق ویعقوب الہ جبرئیل ومیکائیل واسرافیل علیھم السّلام ! أسأل أن تستجیب دعوتی ، فانّی مضطرّ، وتعصمنی فی دینی،فانّی مبتلی ، وتنا والنی برحمتک، فانّی مزنب، وتفی عنی الفقر فانّی متمسکن، الّا کان حقّا علی اللہ عزّ وجلّ ان لّا یر دّ یہ خالیتین۔
“جو آدمی بھی اپنی دونوں ہتھیلیاں پھیلا کر ہر نماز کے بعد کہے ، اے اللہ! اے میرے الہ اور ابراہیم، اسحاق ، یعقوب، جبریل ، میکایئل ، اسرافیل ؑکے الہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو میری دعا کو قبو ل کر لے ، میں لا چار ہو، تو مجھے میرے دین میں عصمت دے دے ، میں آزمائشوں میں مبتلا کیا گیا ہوں ، تو مجھے اپنی رحمت دے دے ، میں گنا گارہوں اور تو مجھ سے فقر کو دور کردے ، میں تنگدست ہوں ، اللہ تعالیٰ پر لازم ہے کہ اس کے دونوں ہاتھ خالی نہ لوٹا ئے۔” ( عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی: ۱۲۹)
تبصرہ: یہ روایت موضوع(من گھڑت) ہے، کیونکہ:
۱-اس کا راوی عبد العزیز بن عبد الرحمٰن اقرشی البالسی ” متروک” ہے، امام احمد بن حنبل ؒ فرماتے ہیں : اضرب علی احادیثہ ، ھی کذب ، ا و قال
: موضوعۃ۔ ” اس کی احادیث کو پھینک دے ، وہ جھوٹ ہیں ۔ ” ( الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم: ۳۸۸/۵)
امام نسائی ؒ فرماتے ہیں : لیس بثقۃ۔ ” یہ ثقہ نہیں۔”(الضعفاء والمترو کون : ص۲۱۱)
امام ابن عدی ؒ فرماتے ہیں :
وعبد العزیز ھذا یروی عن خصیف احادیث بواطیل ۔
” یہ عبد العزیز خصیف سے جھوٹی روایات بیان کرتا ہے۔ ” ( الکامل لابن عدی: ۲۸۹/۵)
۲ ۔ عبد العزیز نے روایت خصیف الجزری سے ذکر کی ہے، جو کہ متکلم فیہ راوی ہے، نیز اس کا سید نا انس ؓ سے سما ع بھی نہیں ہے۔
۳۔ اسحاق بن خالد بن یزید البالسی کے بارے میں امام ابنِ عدی ؒ فرماتے ہیں :
وروایاتہ تدلّ عممن روی عنہ بأنّہ ضعیف۔
” اس کی روایات دلالت کرتی ہیں کہ جس سے بھی اس نے روایت لی ہے، بہر حال ضعیف ہے۔” (الکامل لابن عدی: ۳۴۴/ ۱)
قارئین ! اس روایت سے نمازِ جنازہ کے متصل بعد اجتماعی ہئیت سے دعا کا اثبات کرنا انصاف وعلم کا خون کرنے کے مترادف ہے۔
دلیل نمبر ۱۶:
عن عبداللہ بن سلام أنّہ فاتتہ الصّلاۃ علی جنازۃ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، فلمّا حضر قال: ان سبقتمونی باالصّلاۃ علیہ ، فلا تسبقونی بالدّعا ء الہ۔
سید نا عبد اللہ بن سلام ؓ سید نا عمر ؓ کی نمازِ جنازہ سے پیچھے رہ گئے تو جب پہنچے تو فرمایا کہ تم لوگوں نے سید نا عمر ؓ کی نماز جنازہ تو مجھ سے پہلے پڑھ لی ہے تو ان کے لیے دعا کرنے میں تو مجھ سے پہل نہ کرو۔” (المبسوط : ۶۷/۲، طبع بیروت ، بدائع العصنائع۷۷۷۲/۲، طبع حدید مصر)
تبصرہ:
۱- یہ روایت بے سند، موضوع (من گھڑت) ، باطل ، جھوٹی، بے بنیاد اور بے اصل ہے، حدیث کی کسی کتاب میں اس کا وجود نہیں ملتا ، سچ ہے کہ جب تک شیطان اور اس کے حواری دنیا میں موجود ہیں ، جھوٹی روایات کا سلسلہ جاری رہے گا۔
۲- اس کا مطلب ہے کہ اگر تم نے مجھ ن سے پہلے نمازِ جنازہ پڑ ھ لی ہے تو دفن کے بعد دعا میں مجھے شریک کرلینا۔
دلیل نمبر ۱۷:
عبد الو یاب شعرانی لکھتے ہیں :
ومن ذلک قول ابی حنیفۃ: انّ التّعزیۃ سنّۃ قبل الدّفن لابعدہ۔۔۔لأنّ شدّۃ الحزن انّما تکون قبل الدّفن، فیغری ویدعی لہ۔
” اور ان مسائل میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ امام بو حنیفہ کا قول یہ ہے کہ تعزیت کرنا دفن سے پہلے سنت ہے نہ کہ دفن کے بعد۔۔۔۔اس لیے کہ غم کی شدت دفن سے پہلے ہی ہوتی ہے، لہذا(قبل دفن ہی) تعزیت اور میت کے واسطے دعا کی جائی چاہیئے۔(کتا ب میزان الشریعۃ الکبر: ۱۸۵/۱، معلبوعہ مصر)۔
تبصرہ: عبد الوہاب شعرانی سے لے کر ابو حنیفہ تک صحیح سند ثابت کریں ، ورنہ اہل بد عت مانیں کہ وہ امام ابو حنفیہ پر بھی جھوٹ باندھنے سے باز نہیں آتے
دلیل نمبر ۱۸
مفتی ٰ بہ روایت
صاحبِ کشف الغطاء مانعین کا قول نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ” دفن سے پہلے میت کے لیے فاتحہ اور دعا کرنا درست ہے۔ یہی روایت معمو لہ ( مفتٰی بہ) ہے ، ایسا ہی خلاصتہ الفقہ میں ہے۔ ” (االعطابا النبویۃ فی الفتاوی الرضویہ : ۳۰/۴، طبع لائلپور)
تبصرہ:
یہ قول بے دلیل ہونے کی وجہ سے مردود و باطل ہے۔۱-
۲۔ جمہور حنفی فقہا ء کی تصریحات کے خلاف بھی ہے۔
۳- تقلید پرست امام ابو حنیفہ کے مقلد ہیں یا صاحب ” کشف الغطاء” کے، وضاحت کریں !
دلیل نمبر ۱۹:
فضلی حنفی کی تصریح
عبد العلی برجندی محمد بن الفضل سے نقل کرتے ہیں :
قال محمّد بن الفضل : لا بأس بہ (أی بالدّعاء بعد صلاۃ الجنازۃ)۔
” محمد بن الفضل نے فرمایا کہ نمازِ جنازہ کے بعد دعا کرنے میں کچھ حرج نہیں ۔”( برحندی شرح مختصر الوقایۃ: ۱۸۰/۱، طبع نولکشوری)
تبصرہ: ۱۔ برجندی حنفی نے محمد بن فضل کا یہ قول صاحب ” قنیہ” زاہدی جو معتزلی ہے، سے نقل کیا ہے، امامِ بر یلویت احمد یار خان نعیمی گجراتی لکھتے ہیں : ” قنیہ غیر معتبر کتاب ہے، اس پر فتویٰ نہیں دیا جاتا، مقدمہ شامی بحث رسم المفتی میں کہ صاحبِ قنیہ ضعیف روایات بھی لیتا ہے، اس سے فتوی دینا جائز نہیں ، اعلٰحضرت(احمد رضا خان بریلوی) قدس سرہ نے ززل الجوائز میں فرما یا ہے کہ قنیہ والا معتزلی، بد مذہب ہے۔ “
( جاء الحق”: ۲۸۱/۱)
امام بریلویت احمد رضا خان بریلوی خود لکھتےہیں : ” اس کی نقل پر اعتماد نہیں ۔” (بذل الجوائز مندرج فتاوی رضویہ: ۲۵۴/۹)
۲۔ تقلید پرست یہ بتائیں کہ وہ محمد بن فضل کے مقلد ہیں یا امام ابو حنیفہ کے ، اپنے امام سے با سندِ صحیح جنازہ کے متصل بعد اجتماعی دعا کا جواز ثابت کریں ۔
۳۔ محمد بن فضل کا قول جمہور حنفی فقہا ء کے مقابلے میں بھی مردود ہو جائے گا۔
۴۔ اس کتاب میں قنیہ کے حوالے سے لکھا ہے: عن أبی بکر بن أبی حامد أنّ الدّعا ء بعد سلاۃ الجنازۃ مکروہ۔ ” ابو بکر بن حامد حنفی سے روایت ہے کہ نمازِ جنازہ کے بعد دعا مکروہ ہوتی ہے۔ ” اس قول کی تائید فتاویٰ فیض کرکی میں موجود ہے۔
الحاصل:
نمازِ جنازہ کے متصل بعد دعا کرنے کے ثبوت میں پیش کی گئی دونوں آیا تِ قرآنی اور تیسری، چوتھی اور پانچویں دلیل میں پیش کی گئی احادیث کا اس مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں ۔
چھٹی دلیل کے تحت پیش کی گئی حدیث موضوع (من گھڑت) اور باطل ومردود ہے، ساتویں دلیل مذکور حدیث ” ضعیف” ہونے کے ساتھ ساتھ موضوع سے خارج بھی ہے، کیونکہ اس میں چوتھی تکبیر کے بعد اور سلام سے پہلے دعا کا ذکر ہے۔
آٹھویں اور نویں دلیل کے تحت ذکر کی گئی احادیث بھی من گھڑت اور سکت ” ضعیف ” ہیں ، دسویں اور گیارہویں دلیل میں پیش کردہ حدیث کا بھی جنازہ کے متصل بعد ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا سے کوئی تعلق نہیں ۔
لہٰذا اللہ کے فضل وکرم سے اس بدعت کے حق میں پیش کیے جانے والے دلائل کا جائزہ لے کر ہم نے یہ ثابت کردیا ہے کہ نمازِ جنازہ کے متصل بعد دعا کرنا بدعت ِقبیحہ ہے۔
دس سوالات
اس بدعت پر زور دینے والوں سے ان دس سوالات کے جوابات مطلوب ہیں :
۱۔ نبئ کریم ﷺ سے نمازِ جنازہ کے فوراً بعد دعا کے جواز میں نصِ صریح پیش کریں !
۲۔ نبئ کریم ﷺ سے نمازِ جنازہ کے متصل بعد اجتماعی ہئیت کے ساتھ دعا کرنے کے ثبوت پر کم ازکم ایک ” ضعیف” حدیث ہئ پیش کردیں ، جس میں نمازِ جنازہ کے متصل بعد اجتماعی دعا کی صراحت ہو!
۳۔ کسی ایک صحابئ رسول ﷺ سے نمازِ جنازہ کے متصل بعد دعا کرنا باسندِ صحیح ثابت کریں !
۴۔ کسی صحابئ رسول سے نمازِ جنازہ کے متصل بعد دعا کرنے کا ثبوت کسی ” ضعیف ” روایت سے ثابت کریں ، جس میں نماز، جنازہ کے متصل بعددعا کی صراحت موجود ہو!
۵۔ نبئ اکرم ﷺ سے کسی موضوع(من گھڑت) حدیث سے نمازِ جنازہ کے فوراً بعد دعا کا ثبوت پیش کریں !
۶۔ کسی صحابئ سے موضوع(من گھڑت ) روایت پیش کریں ، جس میں اس بات کا ذکر ہو کہ انہوں نے نمازِ جنازہ کے فوراً بعد دعا کی تھی!
۷۔ امام ابو حنیفہ سے باسندِ صحیح نمازِ جنازہ کے متصل بعد دعا کا جواز ثابت کریں !
۸۔ فقہ حنفی کی کسی معتبر ترین کتاب سے اس کا جواز ثابت کریں !
۹۔ کسی ثقہ امام سے نمازِ جنازہ کے فوراً بعد ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا کرنا باسندِ صحیح ثابت کریں !
۱۰۔ کسی ثقہ امام کا نام بتائیں ، جس نے ان مذکورہ دلائل سے نمازِ جنازہ کے فوراً بعد دعا کرنے کا جواز ثابت کیا ہو یا ایسا باب قائم کیا ہو!
No comments:
Post a Comment