Friday 23 December 2016

حدیث و سنّت میں فرق

ایس اے ساگر

عام طور پر حدیث و سنّت میں فرق نہیں کیا جاتا. بعض لوگ مغالطے کا شکار رہتے ہیں، ایک سائل رقمطراز ہیں کہ "محترم مفتی صاحب السلام علیکم ورحمتہ اللہ میں نے ایک دیوبندی اہلسنت عالم ڈاکٹر علامہ خالد محمود حفظہ اللہ صاحب کا درس سنا، انھوں نے فرمایا کہ، ہر حدیث قابل اتباع یا قابل عمل نہیں ہوتی جو حدیث سنت کے درجے کو نہ پہنچے اس پر عمل جائز نہیں۔ انھوں نے کہا کہ حدیث کبھی ضعیف بھی ہوتی ہے مگر سنت کبھی ضعیف نہیں ہوتی۔ نیز فرمایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث علم کا ذخیرہ ہیں اور ان کے اندر سنت کی تلاش یہ علم اور فقہ کا کام ہے۔ کیا مذکورہ عالم صاحب کا حدیث اور سنت میں یہ فرق کرنا درست ہے ؟ مجھے چند مثالوں سے سمجھا دیجئے۔ کیا آئمہ سلف یعنی حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین و تبع تابعین رحمہم اللہ وغیرہ بھی حدیث اور سنت میں اس طرح کا فرق کیا کرتے تھے؟ کیا صرف اہلسنت دیوبند ہی حدیث اور سنت میں مذکورہ فرق کرتے ہیں یا تمام متقدمین محدیثین اور ائمہ اہلسنت اور عصر حضر میں اہل سنت کے دوسرے مسالک بھی اس فرق کو تسلیم کرتے اور بیان کرتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی کونسی بات سنت ہے یہ حدیث مبارکہ ہی سے پتہ چلے گی ۔ ایک عمل کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کہا جائے مگر وہ حدیث سے ثابت نہ ہو ، یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔"

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام؟

اس کے جواب میں جامعہ اسلامیہ، بنوری ٹاؤن کا کہنا ہے کہ "مذکورہ عالم دین کا حدیث اور سنت کے درمیان فرق کرنا درست ہے۔ ایک حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی اور بچہ اٹھایا ہواتھا، اسی طرح ایک حدیث شریف میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ کسی وجہ سے کھڑے ہو کر پیشاب فرمایا، مگریہ دونوں باتیں حدیث سے ثابت ہونے کے باوجود سنت نہیں کہلاتیں، کیونکہ سنت کا معنیٰ ہے چلنے کا راستہ اور چلنے کا راستہ وہی ہوتا ہے جس پر بار بار چلا جائے، اس پر آنا جانا معمول کا حصہ ہو، مذکورہ دونوں عمل معمول کا حصہ نہیں تھے اسی لئے انھیں سنت نہیں کہا گیا۔ یہ فرق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور سے لے کر عصرِحاضر کے علماء تک ملحوظ رکھا آرہا ہے، ہمارے علم کے مطابق اس فرق کو تمام مسالک کے حضرات تسلیم کرتے ہیں، اس قسم کے فرق کو سمجھنے کے لئے جو فطری فہم اور ایمانی فراست درکارہوتی ہے، اسی کا نام علم اور فقہ ہے۔ قرآن ،حدیث اور علم فقہ کا منبع ایک ہی ہے، الگ الگ تقسیم کرنا اور سمجھنا غلط ہے. ان کی باہمی نسبت بالکل ایسی ہے جیسے دودھ، دہی اور مکھن، اگر ایک حقیقت سے نکلی ہوئی ان مختلف چیزوں میں تضاد نہیں سمجھا جاسکتا تو قرآن، حدیث اور فقہ میں بھی تضاد سمجھنا سنگین غلطی ہوگی۔ پس ہر سنت کا حدیث سے ثابت ہونا ضروری ہے مگر ہر حدیث کا سنت ہونا ضروری نہیں، سائل کو اگر آخری تعبیر میں غلطی لگی ہو تو درست کر لینی چاہئے۔ فقط واللہ اعلم."

اس سلسلہ میں قابل غور نکات مندرجہ ذیل ہیں:

" *حدیث:*
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے اقوال، افعال، اوصاف اور تقریرات (یعنی صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سامنے کسی کام کا انجام دینا، بیان کریں لیکن آپ علیہ الصلاة والسلام کا اس پر انکار کرنے کا ذکر نہ کریں) کو کہتے ہیں، 

الحدیث ما أضیف إلی النبي ﷺ- من قولٍ وفعل وتقریر 

(مصطلحات الحدیث ومقدمة شیخ عبد الحق)

اور ”سنت“ الطریقة المسلوکة في الدین کو کہتے ہیں یعنی وہ راہِ عمل جس پر حضور ﷺ نے مواظبت کی 

السنة في الشریعة ہي الطریقة المسلوکة في الدین من غیر افتراض ووجوب فالسنة ما واظب ؑ علیہ مع الترک أحیانا الخ
(التعریفات للجرجاني: ۱/۶۱، ط: بیروت)

ان تعریفوں کے لحاظ سے ”حدیث“ عام ہے، وہ سنت کو بھی شامل ہے یعنی جو چیز سنت ہوگی وہ حدیث ضرور ہوگی؛ لیکن ہرحدیث کے لیے سنت (الطریقة المسلوکة فی الدین) ہونا ضروری نہیں۔

قال الجرجانی وہي (السنة) مشترک بین ما صدر عن النبي -ﷺ- من قول أو فعل أو تقریر وبین ما واظب النبي علیہ بلا وجوب

(۱/۶۲، ط: بیروت)

*سنت کیا ہے؟*

لفظی معنی کے اعتبار سے حدیث یعنی فرمان (saying) اور سنّت یعنی طریقہِ عمل (way/method).

دین کا وہ پسندیدہ معمول و مروج (قائم-شدہ، جاری) طریقہ جو خواہ نبی ﷺ سے ثابت ہو [قرآن =آل عمران :31]، یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے [قرآن =التوب ہ:100]

*الف) سنت کا لغوی معنی*

١)امام لغت مطرزی متوفی ۶۱۰ھ ”لفظ سنن“ کے تحت لکھتے ہیں:

”السنة“ الطریقہ ومنہا الحدیث في مجوس ہَجَر ”سنّوا بہم سنّة اہل الکتاب“ ای اسلکوا بہم طریقہم یعنی عاملوہم معاملة ہٰوٴلاء في اعطاء الامان باخذ الجزیة منہم.

(المُغرِب، ج:۱، ص:۴۱۷)

”سنت“ طریقہ کے معنی میں ہے اسی معنی میں مجوسِ ہجر کے بارے میں حدیث ہے ”سنّوا بہم سنة اہل الکتاب“ ان مجوسیوں کے ساتھ اہل کتاب جیسا طریقہ اختیار کرو یعنی جزیہ لے کر امن دینے کا جو معاملہ اہل کتاب کے ساتھ کرتے ہو یہی معاملہ ان مجوسیوں کے ساتھ کرو۔

۲- امام محی الدین ابوزکریا نووی رحمہ اللہ  متوفی ۶۷۶ھ لفظ ”السنة“ کے تحت رقمطراز ہیں:

”سنة النبي ﷺ أصلہا الطریقہ، وتطلق سنتہ صلی اللّٰہ علیہ علی الأحادیث المرویة عنہ ﷺ، وتطلق السنة علی المندوب، قال جماعة من أصحابنا في أصول الفقہ: السنة، والمندوب، والتطوع، والنفل، والمرغب، والمستحب کلہا بمعنی واحد وہو ما کان فعلہ راجحاً علی ترکہ ولا اثم علی ترکہ“

(تہذیب الاسماء واللغات، ج:۳،ص:۱۵۶)

سنت کا اصل معنی طریقہ ہے اور سنت رسول ﷺ کا لفظ اصطلاحاً رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے مروی احادیث پر بولا جاتا ہے نیز سنت کا اطلاق امر مستحب پر بھی ہوتا ہے ہمارے شوافع فقہائے اصول کی ایک جماعت کا قول ہے کہ سنت، مندوب، تطوع، نفل، مرغّب، اور مستحب یہ سب الفاظ ایک معنی میں ہیں یعنی وہ فعل جس کا کرنا نہ کرنے پر راجح ہے اور اسے چھوڑ دینے پر کوئی گناہ نہیں ہے۔

*ب) حدیث کا لغوی معنی*

۱- لسان العرب میں ہے:

الحدیث نقیض القدیم ... والحدیث کون الشيء لم یکن، ... والحدیث الجدید من الاشیاء، والحدیث الخبر یأتي علی القلیل والکثیر والجمع أحادیث

(ج:۲،ص:۴۳۶ و ۴۳۸فصل الحاء حرف الثاء)

حدیث قدیم کا نقیض (یعنی مقابل مخالف) ہے، حدیث شیٴ کا ہوجانا جو پہلے نہیں تھی، بمعنی جدید اور نئی، بمعنی خبر خواہ وہ قلیل ہو یا کثیر، اور جمع احادیث ہے۔

٢). ابن سیدہ متوفی ۴۵۸ھ المخصص میں لکھتے ہیں:

الحدیث الخبر، وقال سیبویہ: والجمع أحادیث.
(ج:۳،ص:۳۲۳)

حدیث کے معنی خبر کے ہیں اور سیبویہ نے کہا ہے کہ اس کی جمع احادیث ہے۔

*حدیث محدثین کی اصطلاح میں*

شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ متوفی ۸۵۲ھ صحیح بخاری کے باب الحرص علی الحدیث کے تحت لکھتے ہیں:

”المراد بالحدیث في عرف الشرع ما یضاف الی النبي ﷺ وکأنّہ أرید بہ مقابلة القرآن لأنہ قدیم“

(فتح الباری،ج:۱،ص:۲۵۷)

حدیث سے مراد شرعی ودینی عرف واصطلاح میں وہ امور ہیں، جو نبی ﷺ کی جانب منسوب ہیں، ”ما یضاف الی النبی“ میں حافظ عسقلانی رحمة الله عليه نے جس عموم کی جانب اشارہ کیا تھا، ان کے تلمیذ رشید حافظ سخاوی رحمہ اللہ نے اپنی ذکر کردہ تعریف میں اسی کی تشریح و توضیح کی ہے۔ ”واللہ اعلم“

حافظ سخاوی رحمہ اللہ متوفی ۹۰۲ھ ”حدیث“ کی تعریف ان الفاظ سے کرتے ہیں:

”الحدیث“ لغة ضد القدیم، واصطلاحاً: ما أضیف الی النبي ﷺ قولاً لہ أو فعلاً، أو تقریرًا أو صفةً حتی الحرکات والسکنات في الیقظة والمنام، فہو أعمّ من السنة ... وکثیراً ما یقع في کلام أہل الحدیث - ومنہم الناظم - ما یدل لترادفہما“

(فتح المغیث ،ج:۱ ،ص:۹)

حدیث لغت میں حادث ونوپید کے معنی میں ہے اور اصطلاح محدثین میں حدیث وہ سب چیزیں ہیں جو نبی علیہ الصلوٰة والسلام کی جانب منسوب ہیں (یعنی) آپ صلى الله عليه وسلم کا قول، یا فعل، یا آپ کا کسی امر کو ثابت اور برقرار رکھنا، یا آپ کی صفات؛ حتی کہ بیداری اور نید میں آپ کی حرکت وسکون (یہ سب حدیث ہیں لہٰذا اس تعریف کی رو سے یہ سنت سے عام ہے، (جبکہ) علمائے حدیث (جن میں ناظم یعنی الفیة الحدیث کے مصنف حافظ عراقی متوفی ۸۰۶ھ بھی ہیں) کا کلام کثرت سے یوں واقع ہوا ہے، جو حدیث وسنت کے ترادف اور ایک ہونے کو بتارہا ہے۔

*سنت محدثین کی اصطلاح میں*

حافظ الدنیا ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ متوفی ۸۵۲ھ فتح الباری میں لکھتے ہیں:

۱ - والمراد ”بالکتاب“ القرآن المتعبد بتلاوتہ، و”بالسنة“ ما جاء عن النبي صلى الله عليه وسلم من أقوالہ وأفعالہ وتقریرہ وما ہَمَّ بفعلہ، والسنة في أہل اللغة الطریقة وفي اصطلاح الأصولیین والمحدثین ما تقدم.

(کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، ج:۱۳، ص:۳۰۶)

”الکتاب“ سے مراد قرآن ہے جس کی تلاوت کو عبادت گذاری ٹھہرایاگیا ہے، اور ”السنة“ سے مراد نبی علیہ الصلوٰة والسلام کے اقوال، افعال، تقریر اور وہ چیزیں ہیں جن کے کرنے کا آپ ﷺ نے قصد و ارادہ فرمایا، اور سنت اصل لغت میں طریقہ کے معنی میں ہے اور علمائے اصول اور علمائے حدیث کی اصطلاح میں یہی ہے جس کا اوپر بیان ہوا۔

*چند فقہی نکتے اور مثالیں: سنّت یا ثابت*

1] کھڑے ہوکر پیشاب کرنا

[صحیح بخاری، کتاب الوضو، حدیث#۲۲۱]

اور کھڑے ہوکر پانی پینا 

[صحيح البخاري » كِتَاب الْأَشْرِبَةِ » باب الشُّرْبِ قَائِمًا، رقم الحديث: ٥٢١٣(٥٦١٥)]

حدیث سے ثابت ہے،

مگر یہ سنّت (عادت) نہ تھی، بلکہ سنّت (عادت) بیٹھکر پیشاب کرنا

[صحيح البخاري » كِتَاب الْوُضُوءِ » بَاب التَّبَرُّزِ فِي الْبُيُوتِ، رقم الحديث: ١٤٧ (١٤٩)]

اور بیٹھکر پانی پینا تھی، کھڑے ہوکر پینے سے منع فرمایا.

[صحيح مسلم » كِتَاب الْأَشْرِبَةِ » بَاب كَرَاهِيَةِ الشُّرْبِ قَائِمًا، رقم الحديث: ٣٧٧٨ (٢٠٢٥)]

2] وضو میں ہے عضوو کو (حدیث میں) ایک (١) بار دھونا بھی ثابت ہے

[صحيح البخاري » كِتَاب الْوُضُوءِ » بَاب الْوُضُوءِ مَرَّةً مَرَّةً، رقم الحديث: ١٥٥ (١٥٧)]

دو (٢) بار دھونا بھی ثابت ہے

[صحيح البخاري » كِتَاب الْوُضُوءِ » بَاب الْوُضُوءِ مَرَّتَيْنِ مَرَّتَيْنِ، رقم الحديث: ١٥٦ (١٥٨)]

اور تین (٣) بار دھونا بھی ثابت ہے

[صحيح البخاري » كِتَاب الْوُضُوءِ » بَاب الْوُضُوءِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا، رقم الحديث: ١٥٧ (١٥٩)]

مگر عادت ٣،٣ بار دھونا ’’عملی-تواتر‘‘ سنّت ہے.

3] (پاک) نعلین (جوتے) پہن کر نماز "پڑھتے-رہنا" (متواتر-حدیث سے) ثابت ہے

[ صحيح البخاري » كِتَاب الصَّلَاةِ » بَاب الصَّلَاةِ فِي النِّعَالِ، رقم الحديث: ٣٧٦ (٣٨٦)]

ایک بھی حدیث نعلین اتارکر پڑھنے کی بخاری اور مسلم میں نہیں.

مگر ’’عملی تواتر‘‘ اور ’’تعامل/اجماعِ امت‘‘ سے نعلین پہن کر نماز پڑھنا عادت (سنّت) نہیں.

عمرو بن شعیب بسند والد روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو جوتوں سمیت اور (بغیر جوتوں کے) ننگے پاؤں نماز پڑھتے دیکھا ہے۔

[ (١) مصنف ابن أبي شيبة » كتاب الصلاة » أَبْوَابٌ شَتَّى مِنَ الصَّلاةِ » مَنْ رَخَّصَ فِي الصَّلَاةِ فِي النَّعْلَيْنِ،رقم الحديث: ٧٦٨٤ (٧٩٣٥)،
(٢)سنن ابن ماجه » كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا » بَاب الصَّلَاةِ فِي النِّعَالِ، رقم الحديث: ١٠٢٨ (١٠٣٨)،
(٣)سنن أبي داود » كِتَاب الصَّلَاةِ » بَاب الصَّلَاةِ فِي النَّعْلِ، رقم الحديث: ٥٥٦ (٦٥٣) ]

4] نماز میں گردن پر بچی (نبی ﷺ کا اپنی بیٹی زینب کی بیٹی  یعنی نواسي عمامہ بنت ابی العاص) کو اٹھانا حدیث

[صحيح البخاري » كِتَاب الصَّلَاةِ » أَبْوَابُ سُتْرَةِ الْمُصَلِّي » بَاب إِذَا حَمَلَ جَارِيَةً صَغِيرَةً عَلَى عُنُقِهِ ...،رقم الحديث: ٤٨٩ (٥١٦)]

میں فعل ماضی استمراری (past continuous tense) کے الفاظ ’’كان يصلي‘‘ (یعنی ایسے نماز پڑتے تھے) سے ثابت ہے۔

مگر یہ عادت (سنّت) نہ تھی، سو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور جماعت مومنین کی بھی عادت (سنّت) نہ بنی.

*دلیلِ حدیث*

1] أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ , عَزَّ وَجَلَّ , وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ عَبْدًا حَبِشِيًّا ، فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ فَسَيَرَى اخْتِلافًا كَثِيرًا ، "فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ" ، فَتَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ ، فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلالَةٌ 

ترجمہ: میں تم لوگوں کو تقوی اور سننے اور ماننے کی وصیت کرتا ہوں خواہ تمہارا حاکم حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو۔ اس لیے کہ تم میں سے جو زندہ رہے گا وہ بہت سے اختلاف دیکھے گا۔ خبردار (شریعت کے خلاف دین میں) نئی باتوں سے بچنا کیونکہ یہ گمراہی کا راستہ ہے۔ "لہذا تم میں سے جو شخص یہ زمانہ پائے اسے چاہیے کہ میرے اور خلفاء راشدین مہدیین (ہدایت یافتہ) کی سنت کو لازم پکڑے"۔ تم لوگ اسے (سنت کو) دانتوں سے مضبوطی سے پکڑ لو۔ 

[ (١) مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... » مُسْنَدُ الشَّامِيِّينَ، رقم الحديث:١٦٨١٢(١٦٦٩٢)+١٦٨١٤(١٦٦٩٤)+١٦٨١٥(١٦٦٩٥)
(٢) سنن الدارمي» باب إتباع السنة » رقم الحديث: ٩٥
(٣) جامع الترمذي » كِتَاب العلم » باب ما جاء في الأخذ بالسنة ، رقم الحديث: ٢٦٢٠(٢٦٧٦)
(٤) سنن أبي داود » كِتَابُ السنة » بَاب في لزوم السنة ،رقم الحديث: ٣٩٩٤(٤٦٠٧)
(٥) سنن ابن ماجه » المقدمه » إتباع سنة الخلفاء الراشدين » رقم الحديث: ٤٣(٤٤) ]

[2] وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً ، قَالُوا : وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ : "مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي"۔

یعنی میری امّت تہتر (73) فرقوں میں تقسیم ہوگی، ان میں سے ایک کے علاوہ سب جہنمی ہونگے.
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ اے الله کے رسول ﷺ وہ (نجات پانے والے) کون ہونگے؟
(آپ ﷺ نے) فرمایا: جس (طریقے) پر میں اور میرے صحابہ ہیں.

[ (1)ترمذی: ابواب الایمان، افتراق هذه الأمة، 2585 (2641) عبد الله بن عمرو؛
(2)البدع لابن وضاح: 246 (250)
(3)السنة للمروزي:47 (60)
(4)مختصر الأحكام المستخرج على جامع الترمذي: 1592
(5)الشريعة للآجري: 24
(6)الإبانة الكبرى لابن بطة: 197
(7)المعجم الأوسط للطبراني: 726+ 5028+ 8051 (256+ 48867840) أنس بن مالك
(8)أربع مجالس للخطيب البغدادي: 34 ]

*سنّت صحیح/ضعیف نہیں ہوتی، جبکہ حدیث صحیح/ضعیف وغیرہ ہوتی ہے.*

*سنّت و حدیث میں فرق*

1] عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ : " سَيَأْتِيكُمْ عَنِّي أَحَادِيثُ مُخْتَلِفَةٌ , فَمَا جَاءَكُمْ مُوَافِقًا لِكِتَابِ اللَّهِ وَلِسُنَّتِي فَهُوَ مِنِّي , وَمَا جَاءَكُمْ مُخَالِفًا لِكِتَابِ اللَّهِ وَلِسُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي ".

یعنی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے مروی ہیں کہ میری طرف سے کچھ اختلافی احادیث آئینگی، ان میں سے جو کتاب الله اور میری سنّت کے موافق ہونگی، وہ میری طرف سے ہونگی. اور جو کتاب الله اور میری سنّت کے خلاف ہونگی، وہ میری طرف سے نہیں ہونگی.

[ (1) سنن الدارقطني (المتوفى: 385هـ) » كِتَابٌ فِي الأَقْضِيَةِ وَالأَحْكَامِ وَغَيْرِ ذَلِكَ » كتاب عمرؓ إلى أبي موسى الأشعري، رقم الحديث: 3925 (4427)
(2) الكفاية في علم الرواية، للخطيب (المتوفى: 463هـ) » التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ، رقم الحديث: 311 (5004)
(3) الفقيه والمتفقه، للخطيب البغدادي (المتوفى: 463هـ) » بَابُ الْقَوْلِ فِيمَا يَرُدُّ بِهِ خَبَرُ الْوَاحِدِ ۔۔۔ جلد 1، صفحه  353
(4) ذم الكلام وأهله، لعبد الله الأنصاري  (المتوفى: 481هـ)  » الْبَابُ التَّاسِعُ » بَابٌ : ذِكْرُ إِعْلَامِ الْمُصْطَفَى صَلَّى اللَّهُ ... رقم الحديث: 589 (606)
(5) الانتصار للقرآن، للباقلاني (المتوفى: 403هـ) » جلد 2، صفحه 446
(6) الأباطيل والمناكير والصحاح والمشاهير، للجورقاني (المتوفى: 543هـ) » كِتَابُ الْفِتَنِ » بَابُ: الرُّجُوعِ إِلَى الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ » رقم الحديث: 290
(7) إتحاف المهرة، لابن حجر (المتوفى : 852هـ) » كتاب الكنى » ذكوان، أبو صالح السمان، عن أبي هريرة » رقم الحديث: 18365
(8) تذكرة المحتاج ،لابن الملقن (المتوفى: 804هـ) » صفحہ29 (تخريج منهاج الأصول للبيضاوي » صفحہ29)
(9) الفردوس بمأثور الخطاب، للديلميّ (المتوفى: 509هـ) » بَاب السِّين » رقم الحديث: 3456
(10) مفتاح الجنة في الاحتجاج بالسنة، جلال الدين السيوطي (المتوفى: 911هـ) » صفحہ23 ]

2] أبا هريرة يقولا قال رسول الله صلی الله عليه وسلم يکون في آخر الزمان دجالون کذابون يأتونکم من الأحاديث بما لم تسمعوا أنتم ولا آباؤکم فإياکم ۔

[ صحيح مسلم » المقدمہ » بَاب النَّهْيِ عَنِ الرِّوَايَةِ عَنِ الضُّعَفَاءِ، رقم الحديث: 11]

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، آخر زمانہ میں بڑے جھوٹے دجال لوگ ہوں گے، تمھارے پاس ایسی احادیث لائیں گے جن کو نہ تم نے نہ تمھارے آباؤ اجداد نے سنا ہوگا (باپ دادا کے عملی تواتر کے خلاف ہونگی)، تم ایسے لوگوں سے بچے رہنا مبادا وہ تمھیں گمراہ اور فتنہ میں مبتلا نہ کر دیں ۔
ثابت ہوا کہ یہ بعد کے دور کے لوگ ہونگے تو وہ بدعتی بھی ھوۓ.
*یہ ہے سنت اور حدیث میں فرق، اس لئے جو حضرات یہ رٹ لگاتے ہیں کہ حدیث پر عمل کرو حدیث پر عمل کرو، یہ نہ دیکھا جائے کہ آپ ﷺ کی سنت کیا تھی، وہ حدیث کے نام پر سنت کو مٹا رہا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے تو فرمایا تھا:
’’میری سنت کو اپنانا‘‘،
جبکہ آج کل شور وغل ہے کہ حدیث پر عمل کرو حدیث پر۔"
مذکورہ بالا نکات سے متعلق تحقیق طلب امور کے لئے موبائل فون نمبر 8013565814 پیش کیا گیا ہے.
واللہ اعلم

http://www.darululoom-deoband.com/urdu/magazine/new/tmp/03-Hujjiyat%20Hadith%20O%20sunnat_MDU_08_August_10.htm

No comments:

Post a Comment