Tuesday, 27 December 2016

سمبھل میں ہدایت کی ہوائیں

ایس اے ساگر

سمبھل کی تاریخ میں 26 دسمبر بروز پیر دوپہر 12:45 کی حیثیت ناقابل فراموش ہوگئی ہے. شرک و بدعت کے زبردست ماحول میں دعوت و تبلیغ کا عظیم ترین اجتماع حضرت مولانا محمد سعد صاحب کے فکر انگیز بیان اور دلسوز دعا پر اختتام کو پہنچا۔ حضرت مولانا سعد صاحب نے سنبھل کے اپنے سہ روزہ قیام میں مختلف بیانات عمومی و خصوصی طور پر کئے جن میں بہت مرتب انداز میں دعوت و تبلیغ کی محنت کا خیرالقرون حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کی محنت سے استناد ثابت کیا۔ انھوں بڑی تفصیل سے یہ بات واضح کی کہ دعوت و تبلیغ کی محنت دراصل امت کی اجتماعی اصلاح کی عظیم ترین محنت ہے۔ یہ براہ راست وہ کام ہے جو آپ علیہ السلام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور پوری امت کو دے کر گئے تھے۔ خاص طور پر علما کو متبادل تلاش کرنے کے بعد دعوت کے کام کو لےکر اٹھنا چاہئے۔ اللہ تعالی غیب سے ان کی مادی نصرتیں فرمائیں گے۔ انھوں نے علم اور علما کی فضیلت پر تقریبا اپنے تمام بیانات میں مبسوط کلام کیا۔ مدارس کی اہمیت اور دین اسلام کی نشر و اشاعت میں ان مدارس کا کیا کردار ہے، اس پر تفصیلی گفتگو فرمائی۔ عوام الناس سے اپیل کی کہ دین کی کسی بھی دو محنتوں کے مابین تعارض نہیں پیدا ہوسکتا۔ اگر کسی مسجد میں کوئی عالم دین درس قرآن کا حلقہ لگاتا ہے تو ہمارے ساتھی نعمت سمجھ کر اس میں شرکت کریں۔ اور اس میں اپنی ضرورت سمجھ کر شامل ہوں۔ اور کبھی یہ چیز نہیں پیدا ہونی چاہئے کہ حلقہ تفسیر ہمارے امور دعوت میں حرج بن رہا ہے کیوں کہ قرآن کو سمجھے اور پڑھے بغیر دعوت کا کمال متصور نہیں ہے۔ اللہ تعالی مولانا کو جزائے خیر دے اور دعوت وتبلیغ کی مبارک محنت برکتوں سے سارے عالم کو سیرابی عطا فرمائے۔ اخیر میں مولانا ہی کی بڑی ہی دلسوز دعا پر اجتماع اختتام پزیر ہوا۔ سماجی روابط کی ویب سائٹس پر اس کی متعدد کارگذاریاں منظر عام پر آئی ہیں، منجملہ اس کے کہ مولانا ابو معاذ قاسمی رقمطراز ہیں کہ دیار نعمانی (سقی اللہ ثراہ وجعل الجنہ مثواہ ) نے اسے بحسن و خوبی پایہ تکمیل کو پہنچانے میں نایاں کردار ادا کیا، موسم بھی الحمدلللہ بہت ہی سازگار رھا، باطل کی تمام تر کوشش اور طاقت کے باوجود عوام کی کثیر تعداد اور خصوصا مشائخ دارالعلوم دیوبند نائب مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمود صاحب بلند شہری، مفتی فخرالاسلام صاحب، مفتی عثمان غنی صاحب، مفتی وقار صاحب مولانا عبدالہادی صاحب،  مفتی فرقان صاحب مشائخ شاھی مرادآباد، خصوصا شیخین دارالافتاء حضرت مولانا مفتی شبیر صاحب مفتی محمد سلمان صاحب منصور پوری حضرت مولانا اشہد رشیدی صاحب اجتماع سے قبل تشریف لائے اور بیان فرمایا، ناظم اعلی شاھی مرادآباد حضرت مولانا اسعد صاحب، حضرت مولانا سید حبیب احمد صاحب جانشین حضرت باندوی رحمہ اللہ ناظم جامعہ عربیہ ھتورا، حضرت مولانا محمد توفیق صاحب ناظم اعلی جامعہ حسینیہ جونپور، حضرت مولانا عبد العظیم صاحب صاحب زادہ حضرت مولانا عبد الحلیم صاحب جونپوری نوراللہ مرقدہ، مفتی اعظم جامع مسجد امروہہ، مفتی محمد عفان صاحب منصور پوری مولانا محمد حارث صاحب ناظم مدرسہ باب العلوم وام المومنین سیدہ حفصہ للبنات فیض آباد   نیز فضلاء دارالعلوم دیوبند  ودارالعلوم ندوہ مفتی ظہیر الاسلام صاحب مفتی محمد اشرف صاحب مفتی افتخار صاحب مفتی محمد مسلم صاحب مفتی نوال الرحمان صاحب مفتی محمد ریحان صاحب مفتی محمد ساجد صاحب مفتی محمد خالد صاحب مفتی عبد الرحیم صاحب مولانا کفایت اللہ صاحب مفتی عبد القیوم صاحب مفتی صفوان صاحب مفتی افتخار صاحب  اوراطراف و جوانب کے علماء و نظماء مدارس (اللھم اطول اعمارھم وظلالھم واحفظہم من جمیع البلیات والشرور والفتن ویرزقھم توفیقا وکرامہ) کی کثیر تعداد نے شرکت فرمائی اور حضرت مولانا محمد سعد صاحب کاندھلوی ( لازالت شموس فیوضہم بازغہ لکی نطیب ببحرھم الذخار) کے بیانات کی ہر مجلس  کو بغور سماعت فرمایا، حضرت نے کوئی بات بھی اجمالی طور پر بیان نہی فرمائی ھر لفظ کی تفصیل مدلل بیان فرمایا اور علماء امت کے اس مجمع کثیر میں ھر وہ بات  جسے مولانا بیان فرماتے ہیں اسے نصوص و سیرت صحابہ اس طرح مدلل ومفصل بیان  فرمایا کہ سب کو تشفی ہوگئی. آخری نششت میں عوام سے بہت ہی تاکید کے ساتھ فرمایا کہ تمام دینی شعبوں کاتعاون کرو معارض مت بنو  مزید فرمایا دینی ھر شعبے کا تعاون ھر مسلمان پر فرض عین ہے. مسائل کا علم علماء سے سیکھو. سائل کو جواب سے مطمئن کرناعلماء کی ذمہ داری ھے اس یوپی کے صوبے میں علماء اور مدارس کا یہ گہوارہ اور یہ علم کے چمن اللہ تعالی کی وہ نعمت عظمی ھیں جس سے خدا کی قسم کوئی فاسق ھی مستغنی  ھوسکتا ھے ورنہ یہ ھم سب کی بنیادی ضرورت ھے یہ علم کے مراکز ھیں جو ھماری سب سے بنیادی ضرورت ھے اپنے ھر مسئلے میں علماء حق سے رجوع کرنا یہ ھمارے دین کا قوام ھے ( قوام) کا مطلب یہ ھیکہ دین اس کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا کیونکہ اللہ رب العزت نے اپنے اور ملائکہ کے بعد سب سے اونچا درجہ علماء کا رکہا ھے بلکہ اللہ مجھے معاف فرمائے یقین کے بگاڑ نے غیر علماء کی تعظیم اور ان کی حیثیت کو دلوں میں بڑھادیا ھے صرف مال اور عہدوں کی محبت اور ان کے تاثر کی وجہ سے۔ ورنہ اللہ اور ملائکہ کے بعد سب سے اونچا درجہ علماء کا ھے۔ (شھد اللہ انہ لا الہ الا ھو والملائکة واولواالعلم قائما بالقسط) اس لئے میرے دوستو عزیز و علماء کی زیارت کو عبادت یقین کیا کرو جہاں جہاں مساجد میں مدارس میں اور مختلف شعبوں میں علم کے حلقے لگائے جاتے ھیں وھاں ان حلقوں میں اس بات کی  تحقیق کرتے ھوئے کہ یہ حلقے علماء حق کے ھیں ضرور شرکت کرنی چاہئے، ھاں  اس کی تحقیق ضروری ھے کہ یہ حلقہ علماء حق اہل سنت و الجماعت کا ھے یا نہیں؟ ایسا نہ ھو کہ تبلیغی جماعت کے ساتھی کوئی الگ جماعت بن کر رہ جاویں بلکہ مساجد میں تفاسیر کے حلقے یہ ھر امتی کی ضرورت ھے بعض مرتبہ بعض مساجد میں  درس تفسیر ھوتا ھے. ساتھی کہتے ھیں کہ درس تفسیر ہمارے کام میں رکاوٹ ھے تو جب تمہارے کام میں درس تفسیر ھی رکاوٹ بن گیا تو تمھارا کام ہی کیا رہ گیا؟ اگر درس تفسیر تمھارے لئے رکاوٹ ھے تو کیا تمھیں یہ قرآن اور اس کا ترجمہ اور تفسیر مطلوب نہی ھے؟ مفسر صاحب سے کہہ دو. اگر اس وقت آپ کی تفسیر ھے تو ھم اپنا کام دوسرے وقت میں کرلیں گے۔ تعارض بڑی محرومی کا سبب ھے دین کے کسی کام کو دعوت کے لئے اور دعوت کے کسی کام کو دین کے کسی شعبے کے لئے مرکز معارض ومخالف  مت سمجھنا ورنہ بڑا نقصان ھوگا دین کے کسی شعبے کو دعوت کے معارض سمجھنا یہ باطل کیلئے شاہ راہ سے کم نہی ھے۔ اس لئے تاکید کے ساتھ عرض کرتا ھوں کہ اس کا بہت ہی خیال رکھاجائے۔ ذکر کے بغیر علم ظلمت ہی ظلمت ھے کبھی علم کے اشتغال کو ذکر کا بدل مت سمجھ لینا کیونکہ علم ھے راستہ جاننا۔ اور ذکر ھے جانے ھوئے راستے کیلئے روشنی کا ھونا ورنہ اندھیرے میں آدمی اپنے گھر کا جغرافیہ بھول جاتا ھے۔ اور یہ بھی یاد رکھنا کہ صرف ذکر کافی نہی ھے سنو غور سے۔ ذکر کا درجہ اگر استحباب کا ھے تو علم کا درجہ فرض کا ھے۔مولانا الیاس صاحب رحمہ اللہ کا ملفوظ ھے کہ جاھل صوفیاء کو شیطان امت کو گمراہ کرنے کیلیے  استعمال کرلیتا ھے، اسلیے علم اور ذکر آپس میں متلازم ھیں کیونکہ تصوف کا علم کے بغیر تصور ھی نہی کیا جاسکتا۔اسلیے کہ علم وہ فریضہ ھے جسکے بغیر کسی بھی عمل کا اعتبار ھی نہی ھے۔جو شرط عمل کیلئے اخلاص کی ھے خدا کی قسم وہی شرط علم کی ھے کیونکہ دو چیزیں برابر فرض ھے ایک علم اور دوسرا ایمان

حضرت کی ایک نشست مستورات کی بھی ھوئی جیسے ھی حضرت شہر سمبھل پہنچے امت کی بیٹیوں نے اپنی چھتوں سےحضرت پر زبردست گلاب باری سے استقبال کیا تقریبا 10000 مستورات جمع ھوئیں 

ایک اھم بات
مدارس کی اھمیت اور افادیت نیز علماء کا اکرام اتنی اھمیت کے ساتھ واضح فرمایا کہ احقر نے اتنی اھمیت کبھی نہیں سنی۔ انٹر نیٹ پر حضرت کے سارے بیانات موجود ھیں جو بھی چاھے طالب بن کر سن سمجھ  سکتا ھے۔ اس کے علاوہ کسی اور نیت سے اگر سنتا ھے اور اعتراض کرتا ھےتو وہ اپنا سر  دھنے، غلطی مولانا کی یا ان کے محبین کی ھرگز ھرگز نہی ھے۔ بلکہ غلطی ایسے لوگوں کے دل و دماغ  کی تنگی یا ھوس کی ھےجو ھوس کے مارے اپنا آپ کھو بیٹھے ھیں;
اللھم اھدھم ۔
اجتماع میں غالبا ساڑھے چار سو نکاح ھوئے اجتماع کے میزبان اعلی خاندان نعمانی کے دمکتے ھوئے چشم و چراغ حضرت مولانا عبد المومن صاحب نقشبندی مہتمم مدرسہ مدینت العلوم ابن العم حضرت مولانا سجاد صاحب نعمانی مد ظلہ العالی نے تو عشق کی انتہا کردی جان سے مال سے دیوانہ وار خدمات انجام دیں، بلکہ اگر یہ کہا جاے تو ھرگز مبالغہ نہی ھوگا کہ ایک خانقاہی شیخ پیر طریقت کو تبلیغ میں اتنی دیوانگی کے ساتھ لگتے ھوئے نیز اپنے کو چھپاتے ھوئے کم ہی دیکہا گیا ھے۔
(فااعتبروا یااولی الابصار)
مرکز نظام الدین سے منتخب کئے گئے سمبھل اجتماع کے ذمہ داران اور ( بقول ایک پیر طریقت مبنی بر حقیقت انتظامی امور کے بے تاج بادشاہ) حضرت مولانا محمد شریف صاحب اور ڈاکٹر توکل صاحب ( اللہ بارک فی عمرھم وعلمھم وعملھم واخلاصھم ورزقھم واطول ظلالھم علینا ظلالا طویلا لکی نستفید ببحرھم الذخار واحفظ من جمیع البلایا والشیاطین والفتین والحاسدین والذین فی قلوبھم مرض) 25 اکتوبر سے 26 نومبر تک لق ودق میدان میں بسیرا کرکے اجتماع کی محنت کو چار چاند لگانے میں نمایاں ذمہ داریاں اللہ کے فضل سے سرانجام دیں۔ آخیر میں حضرت مولانا سعد صاحب نے تمام دینی شعبوں کی اجتماعیت اور شریعت کے تحفظ کیلئے باطل کے مقابلے میں سینہ سپر علماء کے لئے نیز ہر دینی تنظیم کی حفاظت کے لئے پرسوز دعافرمائی. اجتماع میں پانچ اللہ کے بندے فطری موت شہید ھوئے۔
اللہ اغفرلہم وارحمہم ونور قبورھم وادخلھم جنت الفردوس۔
آمین یارب العالمیں عصر کی نماز کے بعد حضرت مولانا سعد صاحب مدظلہ کا قافلہ۔ مفتی شبیر صاحب مدظلہ کی دعوت پر مدرسہ شاھی مرادآباد کیلئے روانہ ھوا جیسے ھی اھل مرادآباد والوں کو علم ھوا انکی خوشیوں میں چار چاند لگ گئے ھرمقام پر والہانہ استقبال ھوا جیسے ھی قافلہ شھر پہنچا ان گنت کاریں اور موٹر سائیکلوں پر سوار عشاق نے اور علماء نے ایسا استقبال کیا جو قابل دید تھا. مدرسہ پہنچ کر مفتی محمد سلمان صاحب مدظلہ نے اپنے دولت کدہ پر (انزلوالناس منازلھم ) کے مطابق شاندار ضیافت کا اھتمام فرمایا. بعدہ یہ قافلہ جامع مسجد امروہہ بھی پہنچا مشائخ جامع مسجد سے ملاقات کے بعد نصف شب میں نظام الدین واپس ھوا. اس پورے اجتماع میں ان خواتین کی قربانیوں کو بھلا کیسے فراموش کیا جاسکتا ہے جن میں سے بعض نے 11 مہینے تک مسلسل روزے رکھے! 

No comments:

Post a Comment