Sunday 8 February 2015

عمر بن عبدالعزيز رحمةالله عليه

سمر قند کے غیر مسلموں (ذمیّوں ) نے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں ایک وفد بھیجا، اس وفد کے سربراہ نے آپ سے شکایت کی کہ مسلم سپہ سالار نے آپکی اسلامی شریعت کے اصولوں سے انحراف کیا ہے اور ہم سے کوئی بات چیت کئے بغیر ہمارے شہر پر دھاوا بول دیا ہے اور اس پر قبضہ کرلیا ہے۔ لہٰذا آپ سے گزارش ہے کہ آپ ہمیں انصاف دلائیں، آپ نے سمرقند کے گورنر سلیمان ابن ابی سریٰ کو گرامی نامہ لکھا کہ سمر قند کے شہریوں نے مجھ سے اپنے اوپر ہونیوالے ظلم کی شکایت کی ہے، میرا خط ملتے ہی ان کا مقدمہ سننے کیلئے کوئی قاضی مقرر کرو، اگر اس قاضی نے انکے حق میں فیصلہ کردیا، تو وہ لوگ دوبارہ اپنا اقتدار سنبھال لیں گے اور مسلمان پہلے والے مقام پر واپس آجائینگے۔ گورنر نے آپکے حکم کی تعمیل میں ایک قاضی کا تقرر کردیا۔ قاضی صاحب نے اسلامی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے ذمیّوں کے حق میں فیصلہ دیا اور مسلمانوں سے کہا کہ وہ شہر اور چھاونی خالی کردیں اور اپنے پہلے والے مقام پر واپس چلے جائیں۔ وہاں جاکر اہل سمر قند سے مصالحت کی کوشش کریں، اگر مذاکرات کامیاب نہ ہوں تو پھر بیشک جنگ کا راستہ اختیار کریں۔ عدل و انصاف کے اس مظاہرے کو دیکھ کر اہلِ سمرقند بہت حیران ہوئے، انھیں توقع نہ تھی کہ ایک مسلمان قاضی، مسلم لشکر کو علاقہ خالی کرنے کا حکم دیگا۔ انھوں نے متفقہ طور پر طے کیا کہ ہم پہلی والی حالت میں ہی ٹھیک ہیں۔ ہم نے مسلمانوں کا اقتدار دیکھ لیاہے، وہ کوئی ظلم و ستم نہیں کرتے اور ہمارے ساتھ امن وامان کی زندگی بسر کرتے ہیں، جنگ کی صورت میں قتل و خون ہی ہوگا اور نہ جانے کامیابی کس کی ہوگی لہٰذا ہمیں بخوشی مسلمانوں کا اقتدار قبول ہے۔ (تاریخ طبری)

ایک بار حیرہ کے ایک مسلمان نے وہاں کے ایک غیر مسلم شہری کو قتل کردیا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کو خبر ملی تو آپ نے وہاں کے گورنر کو لکھا کہ قاتل کو فوراً گرفتار کرو اور اسکا معاملہ مقتول کے ورثاء کے سپرد کردو، اگر وہ بدلہ میں اسکی جان لینا چاہیں تو انھیں اختیار ہے اگر خون بہایا معافی پر راضی ہوجائیں تو یہ انکی صوابدید ہے چنانچہ قاتل کو گرفتار کرکے معاملہ مقتول کے ورثاء کے سپردکردیا۔ جنہوں نے قتل کے بدلے میں قتل ہی کو پسند کیا۔(نصب الرایۃ)

حضرت امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے جنازے میں شریک ہوا، واپسی کے سفر میں ایک نصرانی راہب نے مجھ سے پوچھا: کیا آپ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے وصال کے وقت وہاں موجود تھے۔ میں نے کہا ہاں! میں اتفاق سے دمشق میں ہی تھا، یہ سن کر اسکی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، میں نے کہا: تم ان کیلئے کیوں رو رہے ہو، وہ کوئی تمہارے ہم مذہب تو نہیں تھے، اس نے کہا: میں ان پر نہیں رو رہا بلکہ میں تو اس نور پر گریہ کررہا ہوں جو زمین پر تھا اور اب بجھا دیا گیا ہے۔ (ابن جوزی)

1 comment:

  1. Bht achey...mazeed agr waqiaat hen to wo b share kren about umer bin abdul aziz

    ReplyDelete