Friday 6 February 2015

ایٹمک انرجی ATOMIC ENERGY

وعلم آدم الاسمآء کلھا 
اور جب آدم کی تخلیق هوگئ تو خالق کائنات نے اس هستی کو تمام چیزوں کےنام بتائے -
چاهےیه علم حیات تھا موالیدثلاثه کا یاتسخیرکواکب کاتھایاپانی اور هوا سےاستفاده کرنےکا آواز کی لهروں کو ریلیز اورجمع کرنےکا یا الیکٹرانک سسٹم میں روشنی کااور برقی پاور سےمشینری نظام کو چلانےکاتھا جب تمام چیزوں کےنام حضرت آدم علیه السلام کو سکھادئے گئے تو الله نےفرشتوں کےاس اعتراض میں جو انهوں نےتخلیق آدم کےوقت کیاتھا قرآن میں سورة بقره میں فرمایا.
ثم عرضھم علی الملائکة فقال انبئونی باسمآءھوء لاء ان کنتم صادقین .
اس مقابلےمیں جب فرشتےعاجز آگئےتوکها.
قالوسبحنک لاعلم لناالاماعلمتناانک انت العلیم الحکیم.
کها اےالله تو پاک هے هم نهیں جانتےسوائےاسکےجوتونےهمیں سکھایابیشک تو علیم اور حکیم هے .
اس آیت کی رو سےدیکھاجائےتوانسان اولاد آدم هونےکےناطےاپنے مورث اعلی حضرت آدم کےعلوم کاوارث هے.
آدمی چاهےجس قوم سےهویاشهرسے. جس بستی سےهوجس بستی یاقریه میں رهتاهو. یه ضروری نهیں که صرف مسلمان هو یاکسی مسلمان ریاست میں رهنےوالاهو . بلکه چاهےوه چائنیز هوں یاجاپانی. امریکی هویایورپی یاافریقن هو اگر وه مسلمان هےتو الحمدلله. اگر یهودی هےیاعیسائ بدھ مت. آرایاء. شودھر یه سب لاشک اولاد آدم هیں . علم نه تو ان اقوام میں سےکسی قوم کی وراثت هے اور مذهب میں سےکسی مذهب کی میراث -
اولاد آدم هونےکےناطے سےعلم سب انسانوں کی میراث هے . هر بڑاانسان جس نےکسی انداز سےبھی بنی نوع انسان کی خدمت کی یابرگزیده هستیوں کاپیروکار رها . انهی لوگوں نے بنی نوع انسان کےلئےاپنی انتھک کاوشوں سےان علوم کےرازکھولے .
انسانیت کی خدمت خالق کی رضاکاعمل هے ایسےلوگ هندو مذهب میں اوتار کادرجه رکھتےهیں. مثال کے طور پر آج سے هزاروں سال کم و بیش پهلے کرشن جی گزرےهیں هندو مذهب میں یه اوتار کادرجه رکھتےتھے.
کشته:
انهی کا ایجاد کرده فن تھا.
کشته دراصل ایک جسم کو تقسیم در تقسیم ذرےتک پهنچانےکاعمل هے جو هر جسم کی اکائ کا درجه اختیار کر جاتاهے. جس کو آج کی زبان میں ایٹم کهتےهیں هرجسم اکائ سے بنتاهے اورتقسیم در تقسیم هوکر دوباره اکائ بن جاتاهے.
کائنات کانظام اور اس سےحیات انهی عوامل سے چل رهی هے یه تحقیق آجکی تحقیق نهیں. آج تو ان تحقیقوں کو ریاضی کی شیرنی سے شوگرکوڈ کرکے نئےسےنئےالفاظوں کاجامه پهناکر اور نوک پلک سنوار کر خوبصورت سے خوبصورت خدوخال کیساتھ پیش کیاجارهاهے آج بھی اگرکسی تھیوری کی تحقیق کی جائے تو یه تھیوری کهیں نه کهیں جاکر پرانےعلوم کاچربه ثابت هوتی هے-
جناب کرشن داس وید جوکه کرشن جی سے تربیت یافته هی نهیں تھےبلکه انکےعلوم کو جاننےوالے رازدان بھی تھے کرشن جی کےفرمودات کیمطابق جو شاشتر لکھےهیں اسمیں ایٹم کو آتم لکھاهے اور ان ایٹموں کےمجموعےکو آتما یعنی زندگی تخلیق دی هے اس کو پرماتماکهاهے.
یونانیوں نےجب اس تھیوری کو پڑھا تو انهوں نے آتم کو ایٹم لکھ دیا اور آج بھی یه آتم اٹامک انرجی کےنظام میں ایٹم هی پکاراجاتاهے. ان بزرگوں نےجن کی تھیوری سے آج کی جوهری تھیوری نےوجود پایا انهوں نے تقسیم درتقسیم کےعمل کےلئےجو پراسیسنگ آلات ایجاد کئے وه هیں کھرل. نباتات جڑی بوٹیوں کاعرق (پانی) یعنی بوٹیوں کا کیمیکلز اور آگ.
یه عوامل تھے جن سے ان لوگوں نےکام لیتےهوئے جسم کو تقسیم در تقسیم کرنے کیلئے بار بار ان عوامل سےگزار کر تقسیم در تقسیم کےمراحل سے اس جسم کوتوڑکر اکائی کےدرجےتک پهنچادیتےتھے. جب یه جسم ناقابلےتقسیم ذروں میں منتقل هوجاتا تو یه حضرات مریض کی زبان پر اسکے چند ایٹم سوئی کے نکےیا تنکے سے لگاتےتو زبان سے یه ایٹم خون میں سرایت کرجاتے اور خون جوبھاری پانی کا کام کرتاهے اس میں یه ایٹم پھٹ کر جسم کوبےحد توانائ فراهم کرتے. یه هےجوهری توانائ کا فارمولا جو ان بزرگوں نےایجادکیا.
اب یه انسان کی اپنی سوچ هے که اس جوهری توانائی سےبیمار انسانیت کی خدمت کرےیا اس تونائی سے بھاری بھر کم مشینوں کو چلائے یا اس جوهری توانائی کے سالمے کو توڑ کر اس سے تباهی پھیلائے.
همارےوه حکماء سائنسدان جو طاقت سے واقف تھے . انهوں نے اس طاقت سے بیمار انسانیت کی خدمت کی مگر انهوں نے اپنی صالح ذهنیت سےلاکھوں انسانوں کی جانوں سے کھیلنےکی جرأت نهیں کی
وه لوگ غور کریں جو کهتےهیں که مسلمانوں نے دهشتگردوں کےسوا دیاهی کیاهے پهچانو که مسلمان سائنسدان کیا کچھ دےگئے هیں.
اگر وه چاهتے تو ان ایٹم کےذروں کو پھاڑ کر اس کی بےپناه طاقت سے انسانیت کیلئے تباهی کا سامان بھی فراهم کرسکتےتھے یه وه سائنسدان تھے جو اپنی مثبت سوچ سے انسانیت کی خدمت کیلئے اس طاقت کو استعمال میں لائے
اور آج کےیه سائنسدان هیں جو اس موذی طاقت سے دنیاکو بھک سے اڑا دینے کا سامان بنائےبیٹھےهیں ذهنیت سے انتقام اور حکمرانی کےنشےمیں لاکھوں بلکه کروڑوں انسانوں کو اس موذی طاقت سے اپنی ناپاک خواهش شیطانیه کی تکمیل کیلئےچند منٹوں میں اتنی بڑی مخلوق خدا کو اپنی نفس پرستی کی تسکین کیلئےبھینٹ چڑھانا چاهتےهیں یا انکو ذهنی ومعاشی غلام بناکر اپنی دھاک انکےدلوں میں مثبت کرناچاهتےهیں .
اس بات کو جسقدر بھی طول دیاجائے اور موازنه کیاجائے اور جتنی بھی بحث کیجائے یه طوالت کا ذریعه بن جائیگی مگر حاصل کلام یهی هے که جس کی تاریخی طور پر وضاحت کردی گئی هے.
اسطرح یه فن جب اقوام عالم میں پھیلا تو هر قوم نےاپنی سوچ کیمطابق اس فن کو استعمال کیا دنیاکی باقی اقوام کی تو هم بات نهیں کرتے جوکه بڑی طویل هے لیکن یه بات ضرور کرنی هے که جب یه فن یهودیوں کےمذهبی رهنماؤں تک پهنچا تو ان ظالموں نے اپنی کاروباری ذهنیت سےکام لیتےهوئے اس کی مدد سے سونا بنانے کے فارمولےمرتب کرتے رهے.
اس ظالم قوم نے پھر لوگوں کو کیسے اپنی گرفت میں کیا اور کیاکیا تخریبی کام کئے یه ان شاءالله آئنده بیان کرونگا.
ایک نصیحت آموز سبق. ایک تاریخی حقیقت 
U.N.A
Mateen Khan

No comments:

Post a Comment