لاک ڈاؤن کے دوران اعتکاف، شب قدر اور عید کے مسائل
السلام علیکم و رحمۃ اللہ
اس سال رمضان جیسے مقدس مہینے میں ہماری مساجد بند ہیں، عام لوگوں کو اجازت نہیں ہے کہ مساجد میں جاکر عبادت کرسکیں تو ایسی صورت میں رمضان المبارک کے اخیر عشرے کے تعلق سے چند سوالات ہیں:
1. بہت سے لوگ ہر سال اعتکاف میں بیٹھا کرتے تھے لیکن اس سال مسجدیں بند ہیں تو جو لوگ اخیر عشرہ میں اعتکاف کی سنت ادا کرناچاہیں تو ان کے لئے کیا راستہ ہے کیا وہ اپنے گھروں میں اعتکاف کرسکتےہیں؟
2. نیز شب قدر میں بھی لوگ عموما مساجد میں آکر عبادات کیا کرتے تھے اب اس سال اس کی کیا شکل ہوگی؟
3. اسی کے ساتھ ساتھ جو بہت ہی اہم مسئلہ ہے وہ یہ ہے کہ اگر لاک ڈاؤن کے چوتھے فیز کا اعلان ہوجاتا ہے جس کا قوی امکان بھی ہے خصوصا ممبئی میں تو پھر عید کی نماز کے تعلق سے شریعت کا کیا حکم ہوگا؟ عید کی نماز کا مختصر طریقہ بھی بتا دیں، براہ مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی ان سوالات کا جواب عنایت فرماکر ممنون ہوں۔
والسلام
مولانا محمود دریابادی
حافظ اقبال چوناوالا
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفیق
1. رمضان کے اخیر عشرے کا اعتکاف سنت موکدہ علی الکفایہ ہے یعنی محلے کا کوئی ایک شخص بھی اگر اعتکاف میں بیٹھ گیا تو سنت ادا ہوجائے گی اور اگر کسی ایک نے بھی اعتکاف نہیں کیا تو سارے محلے والے سنت موکدہ کو ترک کرنےکے مرتکب قرار پائیں گے۔ اس لئے موجودہ حالت میں مساجد میں چونکہ محض چار پانچ لوگوں کو نماز پڑھنے کی اجازت ہے اس لئے انہیں چار پانچ لوگوں میں سے جو صحت مند ہو وہ اعتکاف میں بیٹھ جائے یا محلے کا کوئی دوسرا دیندار صحت مند شخص عشرہ اخیرہ کا اعتکاف کرلے تاکہ اعتکاف کی سنت ادا ہوجائے اور اہل محلہ ترک سنت کے وبال سے بچ جائیں مردوں کا اعتکاف مسجد ہی میں مشروع ہے اس لئے گھروں میں اعتکاف کرنا سنت نہیں ہے۔ جو لوگ ہمیشہ رمضان کے اخیر عشرے میں اعتکاف میں بیٹھا کرتے تھے یا جن لوگوں نے اس سال اعتکاف میں بیٹھنے کی نیت کی تھی لیکن حالات کی وجہ سے وہ اعتکاف نہیں کر پارہے ہیں وہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں، گھر پر ہی رہ کر زیادہ سے زیادہ عبادت کریں، انہیں ان کی نیتوں کی وجہ سے اللہ تعالی اعتکاف کے اجر سے بھی نواز دینگے، انشآءاللہ۔
البتہ عورتیں گھر میں اعتکاف کریں گی، گھر کی وہ جگہ جس کو نماز کے لئے خاص کر رکھا ہے یا گھر کے کسی کونے میں اعتکاف کرسکتی ہیں۔
ثم الاعتكاف لا يصح إلا في مسجد الجماعة لقول حذيفة رضي الله عنه "لا اعتكاف إلا في مسجد جماعة" وعن أبي حنيفة رحمه الله: أنه لا يصح إلا في مسجد يصلى فيه الصلوات الخمس. (فتح القدير)
2. جہاں تک شب قدر کی عبادت کا تعلق ہے تو شبِ قدر کے 27 رمضان کی شب کو ہونے کا زیادہ امکان ضرور ہے لیکن وہ رات شبِ قدر کے لئے متعین نہیں ہے نیز شب قدر میں نہ تو کوئی خاص اجتماعی عمل مشروع ہے اور نہ ہی شب قدر میں عبادت کے لئے مسجد شرط ہے بلکہ انفرادی عبادات کے لئے تو گھر ہی بہتر جگہ ہے اگر خشوع و خضوع حاصل ہوجائے اس لئے ہمیں چاہئے کہ شب قدر کی تلاش میں بشمول ستائیسویں شب، پورے اخیر عشرے کی طاق راتوں میں خصوصا زیادہ سے زیادہ عبادات گھر پر ہی رہ کر کریں۔
"والأفضل في النفل غير التراويح المنزل، إلا لخوف شغل عنها، والأصح أفضلية ما كان أخشع وأخلص". (ردالمحتار؛ 2/22)
3۔ جہاں تک عید کی نماز کا سوال ہے تو عید کی نماز واجب ہے، اس میں چھ زائد تکبیریں واجب ہیں جبکہ خطبہ سنت ہے لیکن اس کا سننا واجب ہے۔ عید کی نماز صحیح ہونے کے لئے امام کے علاوہ کم ازکم تین بالغ مردوں کا ہونا ضروری ہے۔ لہذا اگر عید تک مسجدیں عوام کے لئے نہیں کھلتی ہیں تو عید کی نماز بھی گھر پر ہی ادا کریں، لیکن اگر چار مرد نہ ہوں تو پھر مستحب یہ ہے کہ چاشت کی نماز کی طرح چار رکعت تنہا تنہا پڑھ لے، لیکن یہ عید کی نماز کی قضا نہیں ہے فإن عجز صلى أربعاً كالضحى۔ (ردالمحتار)
عید کی نماز کا طریقہ یہ ہے کہ امام تکبیر تحریمہ کے بعد ثنا پڑھے، پھر ہاتھ اُٹھاکر تین تکبیریں کہے اور ہاتھ چھوڑ دے، تیسری تکبیر کے بعد ناف کے نیچے ہاتھ باندھ لے، مقتدی بھی ایسا ہی کریں۔ پھر امام اعوذباللہ و بسم اللہ کے بعد بلندآواز سے قرات کرے۔ قرات کے بعد حسبِ معمول رکوع و سجود کیے جائیں۔ دوسری رکعت میں پہلے امام قرأت کرے، قرات کے بعد تین مرتبہ ہاتھ اُٹھاکر تکبیریں کہے اور ہاتھ چھوڑ دے، مقتدی بھی امام کے ساتھ ایسا ہی کریں اور چوتھی مرتبہ امام ہاتھ اُٹھائے بغیر تکبیر کہتے ہوئے رکوع کرے، مقتدی بھی ایسا ہی کریں، اس طرح دو رکعت نماز مکمل کی جائے گی۔
نماز عیدین کا وقت آفتاب کے بلند ہوجانے کے بعد زوال سے پہلے تک ہے۔ اس کے بعد امام خطبہ دے۔
خطبہ زبانی یاد نہ ہو تو دیکھ کر پڑھ لے اور اگر خطبہ لکھا ہوا موجود نہ ہوتو پہلے خطبے میں سورہ فاتحہ جبکہ دوسرے خطبے میں درود شریف پڑھ لے۔
(تجب صلاتهما) في الأصح (على من تجب عليه الجمعة بشرائطها) المتقدمة (سوى الخطبة) فإنها سنة بعدها". (رد المحتار: 2 / 166)
واللہ اعلم بالصواب
جسیم الدین قاسمی
مفتی مرکزالمعارف، ممبئی
15/ رمضان المبارک 1441ھ
بحکم حضرت
مفتی عزیز الرحمن صاحب فتحپوری
(مفتی اعظم مہاراشٹر)
تائیدکنندگان:
مفتی سعیدالرحمن فاروقی صدر مفتی دارالعلوم امدادیہ، مفتی سید حذیفہ قاسمی بھیونڈی، مفتی محمد آزاد بیگ صدر مفتی معراج العلوم چیتا کیمپ، مفتی محمد اشفاق دارالعلوم امدادیہ، مفتی جنید پالنپوری مسجد نور قلابہ، مفتی حارث پالنپوری، جوگیشوری، مفتی حسیب الرحمٰن فتح پوری، مفتی محمد انصار قاسمی دارالعلوم منہاج السنہ مالونی، مفتی افضل قاسمی
http://saagartimes.blogspot.com/2020/05/blog-post_9.html?m=1
No comments:
Post a Comment