Wednesday 27 May 2020

حنفیہ کے یہاں ایثار قربات

حنفیہ کے یہاں ایثار قربات 
-------------------------------
--------------------------------
دوسروں کی بھلائی کو اپنی بھلائی پہ مقدم رکھنا جسے “ایثار قربات“ کہتے ہیں، جائز ہے یا نہیں؟ علماء کے مابین یہ اختلافی مسئلہ ہے. 
عام اصول اور فقہی کتابوں میں قربات مقصودہ (جس میں اجر و ثواب کا وعدہ کیا گیا ہو) میں ایثار کو مکروہ لکھا جاتا ہے.
احناف کے یہاں مندوب ومستحب عبادات وقربات (نہ کہ فرائض وواجبات) میں دوسروں کو خود پہ ترجیح دینا بلاکراہت جائز ہے، واجبات و فرائض میں یہ ہمارے یہاں بھی مکروہ ہے.
علامہ ابن نجیم مصری اور شامی کی نقل کے مطابق اس کی گنجائش ہے جبکہ شوافع وحنابلہ  کے یہاں مکروہ کا قول ملتا ہے 
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ کو اپنے حجرے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں تدفین کی اجازت دے کر ایثار فرمایا تھا.
علامہ ابن نجیم لکھتے ہیں:
[وَإِنْ سَبَقَ أَحَدٌ بِالدُّخُولِ إلَى الْمَسْجِدِ مَكَانَهُ فِي الصَّفِّ الْأَوَّلِ فَدَخَلَ رَجُلٌ أَكْبَرُ مِنْهُ سِنًّا أَوْ أَهْلُ عِلْمٍ يَنْبَغِي أَنْ يَتَأَخَّرَ وَيُقَدِّمَهُ تَعْظِيمًا لَهُ] البحرالرائق شرح كنزالدقائق 3/419) 
علامہ شامی لکھتے ہیں: 
وإن سبق أحدٌ إلى الصفّ الأول، فدخل رجلٌ أكبر منه سنّاً أو أهل علمٍ، ينبغي أن يتأخر ويقدّمه تعظيماً له.أ.هـ.فهذا يفيد جواز الإيثار بالقُرَب بلا كراهةٍ،ونقل العلامةُ البيريّ فروعاً تدلّ على عدم الكراهة،ويدلّ عليه قوله تعالى: {وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ} (حاشية الأشباه للحمويّ حاشية ابن عابدين 1/382) اوجز المسالک شرح موطا مالک ج 4. ص 238)
علامہ عزالدین بن عبدالسلام لکھتے ہیں: 
[لا إيثار في القُرَبات، فلا إيثار بماء التيمم، ولا بالصف الأول ولا بستر العورة في الصلاة، لأن الغرض بالعبادات التعظيم والإجلال، فمن آثر به فقد ترك إجلال الإله وتعظيمه، فيصير بمثابة من أمره سيده بأمرٍ فتركه، وقال لغيره: قُم به، فإن هذا مُستقبحٌ عند الناس، لتباعده من إجلال الآمر وقُربه.] القواعدالكبرى 1/259)
امام الحرمین جوینی کے حوالے سے علامہ ابن حجر لکھتے ہیں:
[لا يجوز التبرعُ في العبادات، ويجوز في غيرها.] فتح الباري 10/9)
ابن قیم جوزیہ لکھتے ہیں:
وكذلك كره الإمام أحمدُ التأخرَ عن الصف الأول وإيثار الغير به، لما فيه من الرغبة عن سبب الثواب، قال أحمد في رواية حنبل، وقد سئل عن الرجل يتأخر عن الصف الأول ويقدم أباه في موضعه قال: ما يعجبني هو يقدرُ أن يبرَّ أباه بغير هذا] الروح 1/123.) (مقتبس من مقال ا، د حسام الدین عفانہ)
واللہ اعلم بالصواب 



No comments:

Post a Comment