مدرسۃ البنات: چندمنفی اور مثبت پہلو
عارف باللہ حضرت مولانا حکیم اختر صاحب قدس سرہٗ کے پاس جنوبی افریقہ کے کسی مدرسۃ البنات سے فارغ التحصیل ایک عالمہ نے خط لکھا۔ یہ عالمہ اب کسی مدرسہ میں تدریس بھی انجام دے رہی تھیں یعنی اب وہ معلمہ بھی تھیں. انہوں نے خط میں لکھا کہ دورانِ تعلیم ان کا کسی لڑکے سے حرام تعلق عشق مجازی کا ہوگیا تھا، یہاں تک کہ چھپ کر ملتے تھے، اور اس ملنے میں گناہ گبیرہ کی بھی نوبت آگئی تھی۔بالآخر گھروالوں کو پتہ لگا تو انہوں نے ملاقاتوں پر سخت پابندی عائد کردی۔ دونوں اب گناہ سے توبہ کرکے شرعی طریقے سے نکاح کرکے پاک زندگی گذارنا چاہتے ہیں، لیکن لڑکی کے گھر والے لڑکے کو داماد بنانے کے لئے تیار نہیں۔ اس لڑکی نے لکھا کہ: ”میرے والدین کو معلوم ہے کہ میں اس مسئلے کے بارے میں آپ ہی سے پوچھوں گی، وہ بھی آپ کے جواب کا انتظار کررہے ہیں۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میں اس سے شادی کرلوں۔ لیکن معلوم نہیں آپ کے نزدیک اس مسئلے کا صحیح حل کیا ہے۔ میں آپ سے بھیک مانگتی ہوں کہ میرا مسئلہ حل فرمائیے“۔
حضرت حکیم صاحب قدس سرہٗ نے جواب میں ارشاد فرمایا: یہ سب مدرسۃ البنات کا شاخسانہ ہے۔ حضرت حکیم الامت تھانوی نوراللہ مرقدہٗ نے آج سے تقریباً سو سال پہلے فرمایا تھا کہ: اگر مدرسۃ البنات کھولوگے تو سر پکڑ کر روؤگے۔ یہ سب دین پر عمل نہ کرنے اور بے پردگی کا نتیجہ ہے۔ نامحرم کو دیکھنا، ملنا، بات کرنا سب حرام ہے۔ لیکن جب یہ ہوگیا بلکہ گناہ کبیرہ تک نوبت پہنچ چکی ہے تو اس کا علاج نکاح ہے۔ حدیث پاک میں ہے کہ اگر مردوعورت میں عشق ہوجائے تو ان کا نکاح کردو۔ والدین کو بھی اس پر راضی ہوجانا چاہئے، کیوں کہ اگر نکاح نہ کیا اور دونوں پھر گناہ میں مبتلا ہوئے تو والدین بھی گنہ گار ہوں گے۔
اسی طرح حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب قدس سرہٗ کے پاس ان کے ایک خلیفہ ومجاز کا حیران کن خط آیا۔ یہ خلیفہ محترم ایک مدرسۃ البنات میں پڑھاتے تھے اور پڑھانے کے دوران اپنی ایک شاگردہ کے عشق میں گرفتار ہوگئے ... وہ شاگردہ بھی استاذ محترم کے عشق میں ان سے بھی زیادہ وارفتہ ہوگئیں۔ خلیفہ محترم شادی شدہ تھے اور ان کی تین بچیاں تھیں پھر جب شادی تک بات پہنچی تو انہوں نے مناسب سمجھا کہ شیخ قدس سرہٗ کو اطلاع دے کر اجازت لے لی جائے، اجازت لینے کے سلسلے میں انہوں نے جو خط لکھا وہ اس طرح ہے:
”پریشانی یہ ہے کہ ایک لڑکی جو کہ بندہ کی شاگردہ بھی ہے (کیوں کہ کسی وقت بندہ ایک مدرسۃ البنات میں پڑھاتا تھا مگر اب نہیں پڑھا رہا) اور وہ لڑکی مریدہ بھی ہوگئی تھی۔ اس کے گھروالوں کی طرف سے باربار یہ تقاضا آرہا تھا کہ کسی عالم سے اس کا رشتہ لگادیں تو بندہ نے دو تین جگہ پر بات بھی کروائی مگر رشتہ نہ بن سکا۔ البتہ اس لڑکی کے دنیادار رشتے بھی آرہے تھے مگر وہ رشتہ دینے کو تیار نہیں ہوتے تھے۔ لڑکی کے دو بھائی بھی میرے مرید ہیں ان میں سے ایک شاگرد بھی ہیں، تو میں نے ان کے دینی جذبات کو سامنے رکھتے ہوئے اور لڑکی کے بظاہر اچھے حالات سامنے رکھتے ہوئے لڑکی کے بھائی کو نکاح کا پیغام اپنے لئے بھجوایا تو انہوں نے اپنے طور پر استخارے بھی کئے تو اچھے نتائج وثمرات سامنے آئے۔ میری غرض اس رشتہ سے یہ تھی کہ باصلاحیت لڑکی ہے اس کے ذریعہ مستورات میں خانقاہ کا نظام یا اگر مدرسہ کی ترتیب بنی تو یہ سنبھال لیں گی اور میں خود اس ذریعہ فتنہ نساء سے اسباباً محفوظ رہ سکوں گا۔ تو رشتے کی بات جب چلی تو میں نے اپنی پہلی گھروالی سے اجازت لی تو انہوں نے خوشی سے اجازت دے دی (بندہ کی چھوٹی سی تین بچیاں بھی ہیں) البتہ بندہ کے سسرالی قدرے ناراض ہوئے ہیں۔
اب حضرت! خلاصہ یہ ہے کہ جن لوگوں سے دوسرے رشتہ کی بات ہوئی ہے وہ ذہنی طور پر شدت سے تیار ہیں خاص کروہ شاگردہ، مریدہ لڑکی ذہنی طور پر شدت سے تیار ہے، اس کا بھائی بتارہا تھا وہ وظائف بھی کررہی ہے اور روروکر اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کرتی ہے کہ: ”اے اللہ میں آپ کو پانے کے لئے کسی کو پانا چاہتی ہوں، اگر مقدر میں نہیں تو مقدر فرمادے.“ اور ذہنی طور پر کافی درجہ تک میں بھی رشتہ لینے کے لئے تیار ہوں، پہلے اطلاع نہ دے سکا، معافی چاہتا ہوں اب اگر رشتہ نہیں لیتا تو خطرہ ہے کہ ان لوگوں کو خاص کر لڑکی کو کوئی دماغی اثر نہ ہوجائے۔ اگر نہ لوں تو ساری صورتحال کے پیش نظر کیا کروں، اگر لوں تو کس طرح کروں، معافی چاہتا ہوں معاف فرمادیں۔ جواب کا شدت سے منتظر ہوں تاکہ پریشانی دور ہو“۔
حضرت حکیم صاحب قدس سرہٗ کا جواب:
اللہ رب العزت اپنے اولیاء اور مقربین کو خاص فراست اور ارشادی صلاحتیوں سے نوازتے ہیں۔ یہ صلاحیتیں ان کو من جانب اللہ عطا ہوتی ہیں۔ حضرت صاحب قدس سرہٗ بھی ایسے ہی صاحب فراست اور صاحب ارشاد عالم ربانی تھے۔ انہوں نے اپنے ان خلیفہ محترم اور مسترشد خاص کے خط کے جواب میں جو ہدایت ارشاد فرمائی وہ بہت سبق آموز ہے۔ آپ نے فرمایا:
جب بیوی موجود ہے تو کیا یہ فتنہ نساء سے اسباب ِحفاظت میں سے نہیں ہے؟ اس زمانے میں دو بیویوں میں عدل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ زندگی تلخ ہوگئی اور آخرت کے مواخذہ کا اندیشہ الگ۔ اس زمانے میں ایک ہی بیوی کاحق ادا ہوجائے تو غنیمت ہے، مستورات میں خانقاہی کام اور مدرسہ کی ترتیب بھی نفس کا بہانہ معلوم ہوتا ہے۔تعجب ہے کہ مشورہ بھی نہیں کیا شاید اس لئے کہ مشورہ میں احتمال تھا کہ آپ کی رائے کے خلاف ہوتا۔ مشائخ کا کام دین کا کام کرنا اور لوگوں کو اللہ والا بنانے میں اپنے اوقات کو صرف کرنا ہے نہ کہ شادیاں کرنا۔ مشورہ تو پہلے کیا جاتا ہے، موجودہ صورت میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ ابھی کچھ نہیں بگڑا، خود کو فتنہ میں نہ ڈالیں یعنی دوسری شادی ہرگز نہ کریں۔
حضرت حکیم صاحب قدس سرہ کی مدرسۃ البنات سے متعلق قیمتی نصائح:
ارشاد فرمایاکہ اگر لڑکیوں کا مدرسہ کھولنا ہے تو نہایت تقویٰ سے رہنا پڑے گا، اپنی بیوی یا کسی محرم یعنی سگی بہن، والدہ، خالہ وغیرہ سے مدرسہ کا انتظام کرواؤ۔ عورتوں کا عورتوں ہی سے رابطہ رہے۔خود بالکل الگ رہو اور اگر اتنی ہمت اور تقویٰ نہیں ہے تو مدرسہ بند کردو۔ دوسروں کو جنتی بنانے کے لئے خود جہنم کا راستہ اختیار کرنا کہاں کی عقلمندی ہے کہ ہمارے ذریعہ سے دوسرے تو جنت میں پہنچ جائیں اور ہم نافرمانی سے جہنم میں چلے جائیں۔ نفع لازم مقدم ہے نفع متعدی سے۔ پہلے خود اللہ والے بنو، یہ فرض ہے، تقویٰ فرض عین ہے اور مدرسے کھولنا فرض کفایہ۔ عالم بننا، حافظ بننا سب فرض کفایہ ہے. فرض عین نہیں ہے۔ آج مدرسوں میں فرض کفایہ کی فکر ہے کہ خود مدرسے کھولو۔ خوب حافظ وعالم بناؤ لیکن یہ بتائیے مدرسہ کھولنے والوں کے ذمہ اساتذہ اور طالب علموں کے ذمہ تقویٰ سیکھنا فرض عین ہے یا نہیں؟ لیکن اس راستہ میں کیوں کہ مشکل نظر آتی ہے نفس کو مارنا پڑتا ہے حرام کو چھوڑنا پڑتا ہے. اس لئے فرض عین کو چھوڑدیا اور فرض کفایہ کے پیچھے بھاگے جارہے ہیں۔ جب تقویٰ نہیں تو حدود کی پابندی کیسے ہوگی؟ لہذا یہ بات کہتا ہوں کہ: اگر انتہائی تقویٰ، انتہائی احتیاط اور خوف خدا کے ساتھ لڑکیوں کے مدرسے چلاسکتے ہو تو فبہا ورنہ ان مدرسوں کو بند کردو۔ مدرسہ سے مقصود جنت میں جانا ہے نہ کہ جہنم میں۔
کوئی مرد انتظامی غرض سے بھی لڑکیوں اور استانیوں سے براہ راست خطاب نہ کرے۔ دیکھنا تو حرام ہے ہی ان سے پردہ سے بات کرنا بھی فتنہ سے خالی نہیں ہے۔ جو بھی ہدایات، تنبیہات، انتظامی معاملات وغیرہ ہوں اپنی محرم کو لکھ کردے دے، وہ جاکر ان کو سمجھادے اور عمل کروائے۔ خود ان سے بات نہ کرے۔ عورتوں کی آواز میں کشش ہوتی ہے، اسی لئے قرآن پاک میں حکم ہوا کہ اے نبی کی بیبیو! جب صحابہ کسی ضرورت سے مثلاً سودا وغیرہ لانے کے لئے تم سے کوئی بات کریں "فلاتخضعن بالقول" تو تمہاری آواز میں تمہاری فطری نسوانی لچک بھی نہ رہے بلکہ بہ تکلف آواز بھاری کرکے بات کرو۔ اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ نعوذباللہ! ازواج مطہرات ؓ نرم آواز میں گفتگو کرتی تھیں بلکہ یہ مطلب ہے کہ عورتوں کی آواز میں ایک فطری نسوانی لچک ہوتی ہے اس کو فرمایاکہ اپنی فطری آواز میں بات نہ کرو بلکہ بہ تکلف آواز کو ذرا بھاری کرکے گفتگو کرو۔
حضرت حکیم صاحب نوراللہ مرقدہ نے اپنا ایک واقعہ سنایا:
ایک لڑکیوں کے مدرسہ میں گیا اور چشم دید دیکھا کہ مہتمم صاحب سرمہ لگائے ہوئے اور پان کھائے ہوئے بالغ لڑکیوں کے کمرے میں جارہے ہیں اور پوچھ رہے ہیں کہ آپ لوگوں کو کوئی ضرورت تو نہیں ہے؟ میں نے کہا کہ آپ کمرے میں جاجاکر کیوں پوچھتے ہیں؟ کیا آپ کے لئے پردہ معاف ہوگیا ہے؟ بعد میں اس بستی کے لوگوں سے معلوم ہواکہ مہتمم صاحب رات کو مدرسہ ہی میں ہوتے ہیں اور مدرسہ میں جس عورت کو نائب مہتمم رکھا ہے اس کا کمرہ مہتمم صاحب کے کمرے سے ملا ہوا ہے اور بیچ میں ایک دروازہ ہے۔ اسی لئے میں کہتا ہوں کہ مخلوق کے نفع کی خاطر اپنے لئے دوزخ کا راستہ مت اختیار کرو۔نہایت بین الاقوامی گدھا اور بے وقوف ہے وہ شخص جو دوسروں کو نفع پہنچانے کے لئے اپنے واسطے دوزخ کا راستہ بنارہا ہے۔ ایسے نفع متعدی پر لعنت بھیجو جس سے تمہارا نفع لازمی برباد ہوجائے.
لڑکیوں کے مروجہ مدارس للبنات کی اصلاح کے سلسلے میں قیمتی ہدایات:
ارشاد فرمایا کہ:
(۱) جنوبی افریقہ، ہندوستان، ری یونین وغیرہ میں مدرسۃ البنات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوا کہ احتیاط اسی میں ہے کہ لڑکیوں کا دارالاقامہ قائم نہ کیا جائے۔ اس میں بڑے فتنے ہیں۔ لڑکیاں دن میں پڑھ کر اپنے گھر کو چلی جائیں.
(۲) معلمات صرف خواتین ہوں جو لڑکیوں کو پڑھائیں۔ مرد معلمین پردہ سے بھی تعلیم نہ دیں۔ اس میں بڑے فتنے سامنے آئے ہیں.
(۳) خواتین استانیوں سے مہتمم پردہ سے بھی بات چیت یا کوئی ہدایت براہ راست نہ دے، اپنی بیوی، خالہ یا بیٹی سے استانیوں کو ہدایات اور تنخواہ وغیرہ کا اہتمام ضروری ہے۔ مہتمم اور اولاد مہتمم اور مرد استاذ کے براہ راست بات چیت کرنے سے مدرسۃ البنات کی بجائے عشق البنات میں ابتلا کا اندیشہ ہے.
(۴) کوشش کی جائے کہ پانچ سال سے نوسال تک کی عمر کی طالبات کو ناظرہ قرآن پاک، حفظ قرآن پاک اور تعلیم الاسلام کے چار حصے اور بہشتی زیور تک تعلیم پر اکتفا کیا جائے۔ اگر عالمہ نصاب پڑھانا ہوتو عربی کی مختصر نصاب سے تکمیل کروائیں مگر شرعی پردہ کا سخت اہتمام ضروری ہے ورنہ لڑکیوں کے لئے بہتر یہ ہے کہ ناظرہ قرآن پاک، بہشتی زیور، حکایات صحابہ ؓ وغیرہ پر اکتفا کیا جائے اور معلمات خواتین بھی باپردہ ہوں.
(۵) عالمہ نصاب کی لڑکیوں کو شوہر کے حقوق وآداب کا اہتمام سکھایا جائے اور عالم شوہر کی تلاش ان کے لئے ہو ورنہ اگر غیرعالم ہوتو دین دار ہونے کی شرط ضروری ہے خواہ ڈاکٹر یا انجینئر ہو.
(۶) پورے مدرسۃ البنات میں عورتوں کا رابطہ صرف عورتوں سے رہے، مہتمم اپنی محرم (بیوی، والدہ یا بہن) سے دریافت ِحال تعلیمی یا دریافتِ حال انتظامی کرے۔
اگر اتنی ہمت نہ ہوتو مدرسۃ البنات مت قائم کرو اور مدرسہ بند کردو۔ دوسروں کے نفع کے لئے خود کو جہنم کی راہ پر مت ڈالو۔ مخلوق کے نفع کے لئے لڑکیوں یا عورتوں کو پڑھانا یا پردہ سے بھی بات چیت کرنا فتنہ سے خالی نہیں۔ تجربہ سے معلوم ہوا کہ پردہ سے گفتگو کرنے والے بھی عشقِ مجازی میں مبتلا ہوگئے، لہذا سلامتی کی راہ یہ ہے کہ خواتین سے ہر طرح کی دوری رہے۔
حضرت حکیم صاحب قدس سرہ کے ان ارشادات کی روشنی میں یہ بات زیادہ درست معلوم ہوتی ہے کہ لڑکیوں کے مدارس اگر ہوں تو غیراقامتی ہوں یا پھر وہ تمام احتیاط پیش نظر رہنی چاہئیں جو حضرت والا قدس سرہ نے ارشاد فرمائی ہیں. اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ مدرسہ البنات چلانے والے احتیاط والے باب میں بہت کمزور رہتے ہیں. اس سے جو نتائج برآمد ہوتے ہیں وہ پوری قوم کیلئے مہلک اور خطرناک ہوتے ہیں. میں نے خود بعض ایسے مہتمم حضرات کو ان کے مدرسہ بنات میں بے احتیاطی کے ساتھ دیکھا ہے. خاص طور پر مراہقات لڑکیوں سے تو پردہ بالکل ہی نہیں کیا جاتا. بہت ہی تدبر کی ضرورت ہے. اللہ حفاظت فرمائے آمین
(مفتی خلیل الرحمن قاسمی برنی)
---------------------------------
سوال: مروجہ مدرسۃ البنات کی حکم کیا ہے؟ اگر جائز ہو تو بالشرائط یا بغیر شرائط ؟
بالتفصیل مع الدلائل جاننا چاہتا ہوں – اميد کہ جلدى سے فتوى ارسال کرے -
وفقكم الله تعالى – آمين =
Published on: Apr 29, 2014
جواب # 51536
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 800-262/L=6/1435-U
اسلام کی نظر میں دینی تعلیم مرد وعورت دونوں کے لیے یکساں طور پر مطلوب ہے، اور بنیادی عقائد، فرائض اورحلال حرام کا جاننا ہرمرد وعورت پر فرض ہے، قرآن کریم نے علم کوانسانوں کے لیے بطور انعام الٰہی کے بیان فرمایا ہے اوراس میں کہیں بھی مردوں کی تخصیص نہیں ہے، نیز مستند احادیث میں عورتوں اور اپنے اہل وعیال کو تعلیم دینے کا حکم دیا گیا ہے، چنانچہ صحیح بخاری کتاب العلم (۱/۱۹) میں ہے:
قال مالک بن الحویرث: قال لنا رسول اللہ - صلی اللہ علیہ وسلم- ارجعوا إلی أہلیکم فعلموہم
بلکہ تعلیم کے لیے عورتوں کا ایک جگہ جمع ہونا اور آپ علیہ السلام کا ان کی درخواست پر ان کی تعلیم کے لیے ایک دن مخصوص کرنا بھی صحیح احادیث سے ثابت ہے،اسی وجہ سے امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح (۱/۲۰) میں
ہل یجعل للناس یوماً علی حدة
کے عنوان سے ایک باب قائم فرمایا ہے اور اس کے تحت حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث لائے ہیں، نیز تجربہ سے ثابت ہے کہ اجتماعی تعلیم جس قدر مفید ہوتی ہے انفرادی تعلیم اتنی مفید نہیں ہوتی، اس لیے مدارسِ نسواں کا قائم کرنا اور لڑکیوں وعورتوں کا تعلیم وتعلم کے لیے وہاں جانا اوران کا اپنی صنف کے مطابق علوم وفنون سیکھنا جائز اور مستحسن ہے اس لیے کہ اس کا مبنی تعلیم وتعلم کی تنظیم وتشکیل ہے، البتہ مدارسِ نسواں میں لڑکیوں کو تعلیم دلانے کی کچھ شرائط ہیں جن کی پابندی بہرحال لازم ہے، جہاں یہ شرطیں پائی جائیں گی وہاں لڑکیوں کو تعلیم دلانا جائز اور مباح ہوگا اور جہاں یہ شرائط مفقود ہوں گی وہاں خواتین کا تعلیم کے لیے جانا ناجائز ہوگا، وہ شرائط درج ذیل ہیں:
(۱) خواتین کی تعلیم گاہیں اور اسکول وکالج صرف اور صرف خواتین کے لیے مخصوص ہوں، مخلوط تعلیم نہ ہو اور مردوں کا ان تعلیم گاہوں میں آنا جانا اورعمل دخل ہرگز نہ ہو، مدرسہ کا جائے وقوع فتنہ فساد اور اس کے امکان سے بھی محفوظ ہو۔
(۲) ان تعلیم گاہوں تک خواتین کی آمد ورفت کا شرعی پردہ کے ساتھ ایسا محفوظ انتظام ہو کہ کسی مرحلہ میں بھی فتنہ کا اندیشہ نہ ہو۔
(۳) نیک کردار، پاک دامن عورتوں کو تعلیم کے لیے مقرر کیا جائے، اگر ایسی معلمات نہ مل سکیں تو بدرجہٴ مجبوری نیک صالح اور قابل اعتماد مردوں کو مقرر کیا جائے جو پس پردہ خواتین کو تعلیم دیں۔
(۴) مدرسہ کے حالات کی کڑی نگرانی اور مفاسد وفتن کی روک تھام کا اہتمام بہت ہی اعلیٰ درجہ کا ہو۔
(۵) اگر کوئی مدرسہ شرعی مسافت پر ہو تو وہاں جانے کے لیے عورت کے ساتھ اس کا محرم بھی ہو۔
(۶) مدرسہ والوں کے عقائد اہل سنت والجماعت کے عقائد کے موافق ہوں تاکہ ان مدارس میں تعلیم حاصل کرنے سے عقائد خراب نہ ہوں۔
مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ اگر کسی جگہ تعلیم دی جاتی ہو تو وہاں لڑکیوں کو تعلیم دلانا جائز اورمباح ہوگا۔ واضح رہے کہ لڑکیوں کو تعلیم دلانے میں والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ کوشش کریں کہ کم سے کم عمر میں ہماری لڑکی زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کرلے؛ کیوں کہ بڑی لڑکیوں کو دور دراز بھیجنے میں مفاسد ہیں اس لیے بالکل شروع ہی سے ان کی تعلیم کی طرف توجہ دی جائے۔
No comments:
Post a Comment