Friday 22 May 2020

کیا موبائل فون میں بیلنس ڈلوانے سے زکوٰۃ اداء ہوجائے گی؟

کیا موبائل فون میں بیلنس ڈلوانے سے زکوٰۃ اداء ہوجائے گی؟
کیا مستحق زکوٰۃ کے موبائل فون میں بیلنس ڈلوانے سے زکوٰۃ اداء ہوجائے گی؟
الجواب وباللہ بالتوفیق:
احناف و شوافع کے یہاں تمام اصناف زکاۃ میں اور مالکیہ وحنابلہ کے یہاں بعض اصناف زکاۃ میں مستحق زکاۃ کو مال زکاۃ کا مالک بنانا اور اسے قبضہ دلانا ادائی زکاۃ کی صحت کے لئے ضروری ہے 
مالک بنانا دست بدست بھی ممکن ہے اور آجکل کل کسی کے اکاؤنٹ میں رقوم کی منتقلی بھی مالک بنانے ہی کی ایک شکل ہے 
یہاں یہ بھی خیال رہے کہ عین مال کا قبضہ دلانا ضروری نہیں ہے، بلکہ اس عین مال کے بدلے اس کے بقدر عوض وانتفاعات پہ خودمختاری دیدینا بھی اسی ضمن میں آتا ہے۔
اب قابل غور یہ ہے کہ مالک بنانے کا مفہوم کیا ہے؟ 
علامہ قرافی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب 'الفروق' کے حاشیہ سے مفہوم ہوتا ہے کہ عینِ مال یا اس کی منفعت سے استفادے کا مکمل اختیار مل جانے کو مالک بننا کہتے ہیں:
"تمكن الإنسان شرعاً بنفسه أو بنيابةٍ من الانتفاع بالعين أو المنفعة، ومن أخذ العوض، أو تمكنه من الانتفاع خاصة" (إدرار الشروق، مطبوع على هامش الفروق للقرافي: 3/ 1009)
اس کی روشنی میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص کو موبائل استعمال کی واقعی ضرورت ہو (ڈرامہ یا واہیات دیکھنے والوں کے لئے نہیں) اس کے موبائل میں اگر کوئی مال زکاۃ سے مثلا سو روپے کا بیلنس ڈلوادے تو عین مال تو اسے نہیں پہنچا؛ لیکن سو روپے کی مالیت سے انتفاع و استفادے کا وہ مالک ضرور بن گیا؛ اس لئے تملیک وتملّک کا تحقق ہوگیا، اس صورت میں زکات کی ادائی میرے نزدیک درست ہے. لیکن اس کے ساتھ یہ خیال رکھنا ازبس ضروری ہے کہ زکاۃ بھی نماز روزہ وغیرہ کی طرح ہی ایک عبادت ہے، اس کی ادائی کے لئے متیقن ومحتاط شکلوں کو ہی اختیار کیا جانا چاہئے، جن صورتوں میں ادائی زکاۃ کی صحت مشکوک ہو وہاں زکاۃ صرف کرنے سے احتیاط کرنا چاہئے. 
بینلنس وغیرہ ڈلوانے سے بہتر ہے کہ راست مستحق کو اتنی رقم کا مالک بنادیا جائے۔
الدرالمختار وحاشية ابن عابدين (ردالمحتار) (2/ 344) میں ہے:
(ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا)
امام زیلعی تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق (1/ 305) میں فرماتے ہیں:
'لأن الزكاة إنما تتم التمليك'
علامہ کاسانی (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 39) میں فرماتے ہیں:
 أن الزكاة إخراج جزء من النصاب إلى الله تعالى، وتسليم ذلك إليه يقطع المالك يده عنه بتمليكه من الفقير وتسليمه إليه أو إلى يد من هو نائب عنه وهو المصدق والملك للفقير يثبت من الله تعالى وصاحب المال نائب عن الله تعالى في التمليك والتسليم إلى الفقير والدليل على ذلك قوله تعالى: {ألم يعلموا أن الله هو يقبل التوبة عن عباده ويأخذ الصدقات} [التوبة: 104]، وقول النبي – صلى الله عليه وسلم – «الصدقة تقع في يد الرحمن قبل أن تقع في كف الفقير» وقد أمر الله تعالى الملاك بإيتاء الزكاة لقوله عزو جل: {وآتوا الزكاة} [البقرة: 43] والإيتاء هو التمليك؛ ولذا سمى الله تعالى الزكاة صدقة بقوله عز وجل {إنما الصدقات للفقراء} [التوبة: 60] والتصدق تمليك فيصير المالك مخرجا قدر الزكاة إلى الله تعالى بمقتضى التمليك سابقا عليه۔ 
واللہ اعلم 

No comments:

Post a Comment