حِلم مزاجی اور عفو ودرگزر
حِلم مزاجی اور عفو ودرگزر
موسوعة الشعر العربي"
کے مطالعہ کے دوران آج سیدنا الامام الشافعی المطّلبی کا یہ شعر نظروں سے گزر کر قلب میں پیوست ہوگیا، کس قدر معنی خیز، مبنی برحقیقت، بصیرت افروز، چشم کُشا، چراغ راہ اور اپنے جلو میں علم ومعانی، حقیقت، ادراک وآگہی کا ایک جہاں سموئے ہوئے ہے!
فرماتے ہیں:
يُخَاطِبني السَّفيهُ بِكُلِّ قُبْحٍ .
فأكرهُ أن أكونَ له مجيبا.
يزيدُ سفاهة ً فأزيدُ حلماً,
كعودٍ زادهُ الإحراقُ طِيباً
(نادان مجھے بہت برے انداز میں مخاطب کرتا ہے، پس مجھے اس بات سے کراہت ہوتی ہے کہ میں اُسے جواب دوں۔ جس قدر وہ نادانی و بیہودہ گوئی میں بڑھتا ہے، اُسی قدر میں اپنی برداشت اور ضبط وتحمل بڑھاتا ہوں۔ بالکل اسی طرح جیسے عُود ، کہ اس کوجس قدر آگ جلاتی ہے، اُسی قدر اُس کی خوشبو میں اضافہ ہوتا ہے۔)
حضرت الامام یہ کہنا چاہتے ہیں کہ دلائل سے عاری اور علمی قوت سے خالی عناصر اندر سے بوکھلاہٹ کے شکار ہوکر تلملا اٹھتے ہیں اور سامنے والے شخص کی تضحیک، تنقیص، تحقیر ،تفسیق سے گزر کر اس کے خلاف اوچھے ہتھکنڈوں، منفی پراپیگنڈوں، بے بنیاد الزامات اور من گھڑت فرضی باتوں کے ذریعہ اندر کی آہ نکالتے ہیں۔لیکن حقیقت میں ایسے لوگ کسی طور قابل اعتناء نہیں ہوتے۔
ایسے موقع سے انسان کو بلند حوصلگی، عالی ظرفی، حلم مزاجی اور عفو ودرگزر اور اعراض کی پالیسی اپناتے ہوئے "برہنہ دماغوں" اور "آوارہ زبانوں" سے اجتناب ہی بہتر ہے۔ بیمار زبانوں کی آوارگی کا جواب دینا اسے تسلیم کرلینا ہے۔
آخر خاموش سمندر کو شور وغوغا کرنے والی چھوٹی موٹی ندیوں سے کیا نسبت؟؟؟
بیگوسرائے
No comments:
Post a Comment