Saturday, 16 May 2020

مال زکوۃ کا غریب کو مالک بنانے کا شرعی طریقہ

مال زکوۃ کا غریب کو مالک بنانے کا شرعی طریقہ
سوال 
جناب مفتی شکیل صاحب! دامت برکاتہم 
ضروری عرض تحریر اینکہ :مکان مالک اپنے کرایہ داروں کو ان کے کرایہ کے بقدر زکوة کی رقم کا صراحتا مالک بنادیتے ہیں اور مالک بنانے کے فورا بعد ان کرایہ داروں سے کرایہ کے نام پر دی ہوئی زکوة کی رقم واپس لے لیتے ہیں اور یوں کہتے ہیں کہ ہم نے اس ماہ کا کرایہ معاف کردیا 
کیا اس صورت میں زکوة ادا ہوگی؟ اور کیا کرایہ داروں کا زکوة کی رقم لینا درست اور جائز ہوگا؟؟
الجواب وباللہ التوفیق 
ائمہ اربعہ اور جمہور فقہائے امت اس بات پر متفق ہیں کہ زکوٰة کے جو بھی مصارف قرآنِ پاک میں بیان کیے گئے ہیں، ان میں مستحق کو مالِ زکوٰة کا مالک بنانا شرط ہے، مالک بنائے بغیر زکوٰة ادا نہیں ہوتی: 
ویُشْتَرَطُ أنْ یَکُوْنَ الصَّرْفُ تَمْلِیْکاً لَا ابَاحَةً (درمختار) فَلَا یَکْفِيْ فِیْہا الْاطْعَامُ الاّ بِطَرِیْقِ التَّمْلِیْکِ․ (ردالمحتار ۳/۲۹۱ زکریا دیوبند)
ترجمہ: اور زکوٰة میں مالک بنانے کی شرط لگائی جاتی ہے، اباحت (استفادہ کی اجازت دینا) کافی نہیں ہے؛ لہٰذا ادائے زکوٰة میں کھلا دینا کافی نہیں ہے؛ البتہ بطور تملیک کھلانے سے (زکوٰة ادا ہوجائے گی) یعنی کہ زکاۃ کی ادائی کی صحت کے لئے ضروری ہے کہ مال زکاۃ مستحق کی ذاتی ملکیت میں دیکر اسے مالکانہ حق دیا جائے. غریب کے ہاتھ میں رقم دے کر پہر زبردستی لے لینا شرعا درست نہیں ہاتھ کی ہیرا پہیری کو شرعی تملیک نہیں کہتے، شرعی تملیک یہ ہے کہ زکوة وغیرہ کی رقم مستحقِ زکوة کو دے کر ان کو مالک وقابض بنا دیا جائے اور ان کو مکمل اختیار دیدیا جائے کہ اگروہ اس رقم کواپنے مصرف میں لانا چاہیں تو ان کو اس کا مکمل اختیارہو اس کے بعد اگر وہ بخوشی کسی کو دیدیں تو ان کے لیے ان رقومات کو  خرچ کرنے کا اختیار ہوگا. حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری مدظلہ نے حاشیہ فتاوی دارالعلوم میں تحریر فرمایا ہے:
حیلہ تملیک اس وقت حیلہ ہے جب کہ واقعی تملیک مقصودہو، ورنہ وہ حیلہ ہی نہیں ہے، اور آج کل اہل مدارس وغیرہ جو حیلہ کرتے ہیں: اس میں واقعی تملیک نہیں ہوتی، محض ظاہری طورپر طالب علم وغیرہ کسی غریب کو دیا جاتا ہے پھر اس سے واپس لے لیا جاتا ہے، اور اگر طالب علم وغیرہ فقیراس کو لے کر چل دے تو اس سے زبردستی لے لیا جاتا ہے، یہ قطعًا حیلہ تملیک نہیں ہے، ایسے حیلہ سے کوئی حلت پیدا نہیں ہوتی۔ (حاشیہ فتاوی دارالعلوم: ۱۵/ ۵۹۱)
اس لیے مالک مکان کا غریب کرایہ دار کے ساتھ اس طرح ہاتھ کی ہیرا پہیری کرکے اپنی زکاۃ کو خود ہتھیا لینا درست نہیں مالکانہ قبضہ و تصرف دیئے بغیر تملیک فقیر کا کوئی اعتبار نہیں زکاۃ غرباء کا حق ہے 
مزکی کا مختلف حیلے بہانے سے خود اسے ہڑپ لینا نیچ حرکت اور غیر شرعی عمل ہے۔
واللہ اعلم 

No comments:

Post a Comment