(حضرت جی) محمد سعد کاندھلوی (پیدائش: 8 محرم الحرام 1385ھ مطابق 10 مئی 1965ء) کو بنگلہ والی مسجد، بستی نظام الدین نئی دہلی میں محمد ہارون صاحب کاندھلوی کے گھر میں پیدا ہوئے۔ ان کی بسم اللہ 1392ھ میں والد مرحوم مولانا محمد ہارون نے اپنے آخری حج کے دوران میں سید ابو الحسن علی ندوی سے ریاض الجنہ میں کروائی۔ ان کی پیدائش سے ایک ماہ قبل ان کے دادا محمد یوسف کاندھلوی کی وفات ہوچکی تھی اور پیدائش کے آٹھ سال بعد ان کے والد محمد ہارون کا بھی انتقال کو گیا، چناں چہ ان کی پرورش و تربیت والدہ نے اور نگرانی و سرپرستی ان کے نانا محمد اظہار الحسن کاندھلوی، محمد زکریا کاندھلوی اور تبلیغی جماعت کے اُس وقت کے امیر محمد انعام الحسن کاندھلوی نے کی۔ 1985ء میں مدرسہ کاشف العلوم دہلی سے پڑھ کر فاضل ہوئے اور وہیں پر تاحال علمی ودِینی خدمات میں مصروفِ عمل ہیں۔ اس وقت تبلیغی جماعت کے صف اوّل کے اکابر میں سے ہیں اور بنگلہ والی مسجد کے متولی و ناظم اور مدرسہ کاشف العلوم کے بھی متولی و ناظم اور استاذ الحدیث ہیں، سید محمد سلمان سہارنپوری صاحب (داماد محمد زکریا کاندھلوی و موجودہ ناظم جامعہ مظاہر علوم سہارن پور) کی بڑی صاحب زادی بریرہ خاتون ان کے نکاح میں ہیں جن سے تین فرزند محمد یوسف، محمد سعید اور محمد سعود ہیں۔
سوال: مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ کیا مولانا الیاس رحمتہ اللہ علیہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے نسل میں سے ہیں؟
جواب: مولانا الیاس صاحب رحمہ اللہ صدیقی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، اور سلسلہٴ نسب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مل جاتا ہے، چنانچہ علی میاں صاحب ندوی حضرت کے خاندان کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ”جھنجھانہ اور کاندھلہ کا یہ صدیقی شیوخ کا معتبر گھرانہ تھا جس میں علم اور دین داری پشتہا پشت سے چلی آرہی تھی“ چند سطجروں کے بعد سلسلہ نسب اس طرح بیان کرتے ہیں: ”(مولانا محمد الیاس ابن) مولانا اسماعیل بن غلام حسین بن حکیم کریم بخش بن حکیم غلام محی الدین بن مولوی ساجد بن مولوی فیض بن مولوی شریف بن مولوی حکیم اشرف بن شیخ جمال محمد شاہ بن شیخ بابن شاہ بن شیخ بہاء الدین شاہ بن مولوی شیخ محمد بن شیخ محمد فاضل بن شیخ قطب (نسب نامہ خاندانی مرسلہ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب) ۔ (حضرت مولانا محمد الیاس صاحب اور ان کی دینی دعوت: ص:۴۲، موٴلفہ علی میاں صاحب ندوی) بقیہ نسب سوانح مولانا انعام الحسن کاندھلوی ص:۱۷۱ پر موجود ہے، اور ”حضرت سلمان فارسی کے نسل“ میں سے ہونے کی کہیں صراحت نہیں۔
http://saagartimes.blogspot.com/2020/05/blog-post_30.html?m=1
No comments:
Post a Comment