کرنسی نوٹ کی حقیقت اور زکات میں دی گئی نوٹ کی تبدیلی کا مسئلہ
سوال ::
۱) زید نے مجھے زکات کے ایک ہزار روپے دیا اور کہا کہ خالد کو دیدو، خالد کے پاس میرے ایک ہزار روپے پہلے سے موجود ہیں قرض کے۔ میں نے زید کے ایک ہزار رکھ لیا اور خالد سے کہدیا کہ تمہارے پاس جو میرے ایک ہزار ہیں وہ تم ہی رکھ لو
کیا زکات ادا ہوگئی؟؟؟
۲) زکات کی رقم بینک سے غریب کے اکاؤنٹ میں بھیجا، تو کیا زکات ادا ہوگئی کیونکہ میں نے جو پسیہ جمع کروایا وہ تو بینک والا رکھ لیگا اور غریب کو دوسرا پیسہ دیگا
۳) مذکر نے میرے پاس پانچ سو زکات بھیجی اکاؤنٹ میں۔ میں نے بینک سے نہیں نکلا بلکہ اپنی جیب سے اتنی رقم زکات غریب کو دیدیا، زکات ادا ہوئی؟؟؟
۴) بینک نے میرے اکاؤنٹ میں پانچ سو روپے سود کے ڈالا میں نے بینک سے نہیں نکلا بلکہ اپنی جیب سے اتنی رقم غریب کو بلا نیت ثواب کے دیدیا، سود ادا ہوا؟؟
۵) زید نے مجھے دو ہزار کا نوٹ دیا کہ یہ زکات کی رقم ہے کسی غریب کو دیدو، میں نے دو ہزار رکھ لۓ اور اپنے پاس جو کھُلّے پیسے تھے دو ہزار کے وہ غریب کو دیدیا ، کیا زکات ادا ہوگئی؟
مفتی شاہجہاں قاسمی، مدن پلی، مركز البحوث الإسلامية العالمي
الجواب وباللہ التوفیق:
فرانسیسی زبان کی اصطلاح میں"نوٹ" بینک کے اس کاغذی ٹکڑے یا معدنیاتی سکے کو کہتے ہیں جس کے حامل کو اطلاع کے وقت بینک یا ملکی خزانہ نقد دینے کی ضمانت لیتا ہے:
ورقة البنك هى عملة قابلة لدفع قیمتها عیناً لدی الاطلاع لحاملها وهى یتعامل بها کما یتعامل بالعملة المعدنية نفسها غیر أنه ینبغی أن تکون مضمونة لیثق الناس بها. (بہجة المشتاق صفحہ ٤٨..... بحوالہ مفتی سعید احمد صاحب سہارنپوری رحمہ اللہ)
بنک کا کاغذ (عملہ) وسکہ معدنیہ کا کاغذ ہے اس کی قیمت نقد اس کے حامل کو اطلاع کے وقت اداکرنے کے قابل ہے اس کے ساتھ بالکل معدنی سکہ کی طرح معاملہ کیا جاتا ہے لیکن یہ بات ضروری ہے کہ اس کی ضمانت ہونی چاہئے تاکہ لوگ اس سے معاملہ کرنے میں بھروسہ کرسکیں۔"
اب کرنسی نوٹ سکہ ہے؟ مال متقوم؟ یا سند وحوالہ؟؟ یہ پرانا اختلافی موضوع ہے جس پر علماء کے مختلف نقطہائے نظر ہیں اور ہر فریق کے پاس اپنے موقف پر دلائل بھی ہیں، ہمیں یہاں اس کی فقہی حیثیت پہ بحث نہیں کرنی ہے۔ یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ ہر ملک اپنی آسانی کی خاطر مختلف مالیت کے چھوٹے بڑے نوٹ چھاپتا ہے، ان تمام مختلف مالیت والے نوٹوں کے لئے ایک بنیادی اکائی مقرر ہوتی ہے، جسے حسابی زر' حسابی نوٹ' اور حسابی اکائی کہتے ہیں' اس حسابی اور بنیادی اکائی کے ذریعہ رقم کی گنتی ہوتی ہے ' چیزوں کی قیمت بتائی جاتی ہے' اسی طرح اشیاء وخدمات کا حساب کیا جاتا ہے، یہ بنیادی اور حسابی اکائی ایک روپیہ سے لیکر بڑے تمام نوٹوں میں موجود ہوتی ہے ' اور نوٹوں کے ذریعہ لین دین میں یہی مالیت اور حسابی اکائی ملحوظ ہوتی ہے، متعینہ کاغذی پیپر یا معدنیاتی سکہ کسی کا مقصود نہیں ہوتا ۔
احناف کا مسلک یہ ہے کہ عرض واجناس تو لین دین میں متعین ہوجاتے ہیں؛ لیکن کرنسی نوٹ وسکہ متعین نہیں ہوتے:
والأصل فیہ أن المال نوعان نوع لا یتعین فی العقود کالدراھم والدنانیر و نوع یتعین کالعروض (البحرالرائق، شرح کنز الدقائق، کتاب البیع، فصل فی احکام البیع الفاسد، ج 6 ص 161)
اس بنیادی تمہید کے بعد اب ترتیب وار آپ کے سوال کا جواب دیا جاتا ہے۔
1: زکات میں دئیے جانے والے مال کو مزکی کا اپنے پاس سے جدا کرتے وقت یا فقیر کو خود سے یا وکیل کے ذریعہ مالک بناتے یعنی ادائی کے وقت زکات کی نیت کرنا ضروری ہے، کوئی مال کسی کو دوسری نیتوں سے پہلے دیدیا جائے بعد میں اس میں زکات کی نیت کرلی جائے تو اس سے زکات ادا نہیں ہوگی:
"ولا یجوز أداء الـزکـاۃ إلا بنیۃ مقارنۃ للأداء أو مقارنۃ لعزل مقدار الواجب ۔ (المختصر القدوری: ص 43، الفتاوی الہندیۃ: 170/1، تنویرالأبصار مع الدر علی الرد: 187/3)
’’وأما الزکاۃ فلا یصح أدائها إلا بالنیة. (الأشباہ والنظائر لإبن نجیم الحنفي. ج 1 ص 84)
خالد کو جو ایک ہزار روپے پہلے دیئے تھے وہ قرض کے نام سے تھا زکات کی نیت سے نہیں، اب بعد میں اس قرض کی رقم میں زکات کی نیت کرنا صحیح نہیں، لہذا صورت مذکورہ میں آپ کے ایک ہزار منہائی سے زید کی زکات ادا نہ ہوگی، خالد کو ایک ہزار رقمِ زکات حوالے کریں، بعد قبضہ آپ اپنا قرضہ اس سے وصول لیں، نہ دے تو زبردستی بھی لے سکتے ہیں کہ جنس مال پہ قدرت کے بعد مدیون مطل سے زبردستی بھی قرض وصولنے کا حق حاصل ہے، واضح رہے کہ یہاں نقود کے تعین وعدم تعین کا نہیں، بلکہ ادائی کے وقت نیت زکات کے فقدان کا مسئلہ ہے، جس کے باعث ادائی زکات صحیح نہیں ہورہی ہے۔
2: ہر چیز کا قبضہ اس کے مناسب حال ہوتا ہے، حسی طور پر قبضہ ہی ہر جگہ ضروری نہیں، بینک اکاونٹ میں رقم کی منتقلی بھی قبضہ ہی کی جدید صورت ہے، لہذا مستحق زکات شخص کے اکائونٹ میں زکات کی رقم منتقل کردی گئی تو اس سے قبضہ متحقق ہوگیا اور زکات ادا ہوگئی،
اوپر عرض کرچکا ہوں نقود میں "حسابی اکائی" اور مالیت ملحوظ ہوتی ہے بعینہ کاغذی نوٹ نہیں:
والأصل فیہ أن المال نوعان نوع لا یتعین فی العقود کالدراھم والدنانیر و نوع یتعین کالعروض (البحرالرائق، شرح کنز الدقائق، کتاب البیع، فصل فی احکام البیع الفاسد، ج 6 ص 161)
3: زکات کی رقم اکائونٹ سے نکالے بغیر اپنی جیب سے اتنی مالیت کی رقوم مستحقین میں تقسیم کردے تو کافی ہے، زکات ودیگر معاملات میں "حسابی زر" کا اعتبار ہے، بعینہ مال زکات کی تقسیم لازم نہیں، اتنی مالیت کی رقم دوسروں سے بھی تقسیم کروادے تو جائز ہے:
والاصل فیه أن المال نوعان نوع لا یتعین فی العقود کالدراھم والدنانیر و نوع یتعین کالعروض (البحرالرائق، شرح کنزالدقائق، کتاب البیع، فصل فی احکام البیع الفاسد، ج 6 ص 161)
جس کے اکائونٹ میں زکات کی رقم آئی تھی متعینہ رقم اپنی طرف سے تقسیم کردینے کے بعد وہ رقم حامل اکانوٹ کے لئے جائز ہوجائے گی، بعینہ رقم نکال کر تقسیم کرنا ضروری نہیں: لايشترط الدفع من عين مال الزكوة. ولو أمر غيره بالدفع عنه جاز (ردالمحتار 189/3 ط زکریا)
4: اکائونٹ اور کھاتے میں میں جو سودی رقم بینک دیتا ہے اسے بعینہ نکال کر غربا میں تقسیم کرنا ضروری نہیں، اتنی مالیت کی رقم اپنے پاس سے بھی تقسیم کردے تو جائز ہے ۔حسابی زر کا اعتبار ہے، متعینہ نوٹوں کا نہیں، دلیل اوپر آچکی، اس بابت دارالعلوم دیوبند فتوی بھی ملاحظہ فرمائیں:
سوال: بینک میں میرا سیونگ اکاؤنٹ ہے اور مجھے ہر تین مہینے میں سود ملتا ہے، میرا سوال یہ ہے کہ مثلاً اگر میں مجھے اکاؤنٹ 500 سودی رقم ملتی ہے تو کیا میں یہ رقم اپنی جیب سے غریبوں کو دے سکتاہوں یا مجھے وہی رقم نکال کر دینی ہوگی؟
Published on: Aug 16, 2018
جواب # 163741
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:1414-1231/H=12/1439
بینک میں جو رقم سود کی جمع ہوگئی اس کو بینک سے نکال کر غریبوں کو دیں بہتر یہی ہے البتہ کبھی ایسی ضرورت پیش آجائے کہ فوری طور پر غریبوں کو دینا ضروری ہو اور بینک سے نکالنے کا موقع نہ ہو اور اپنے پاس والی رقم بنیت سود دیدیں اور بینک سے نکال کر اپنے استعمال میں لے لیں تو اس کی بھی گنجائش ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
5: زکات کی رقم چینج اور تبدیل کرکے مستحقین کو دینا جائز ہے:
لايشترط الدفع من عين مال الزكوة. ولو أمر غيره بالدفع عنه جاز (ردالمحتار 189/3 ط زکریا)
حسابی زر کا اعتبار ہے، متعینہ کرنسی کا تعین لازم نہیں:
والاصل فیه أن المال نوعان نوع لا یتعین فی العقود کالدراھم والدنانیر و نوع یتعین کالعروض (البحرالرائق، شرح کنزالدقائق، کتاب البیع، فصل فی احکام البیع الفاسد، ج 6 ص 161)
واللہ اعلم بالصواب
مركز البحوث الإسلامية العالمي
١٨ رمضان المبارك ١٤٤١ هجري
No comments:
Post a Comment