Friday, 29 May 2020

ایک گائوں میں متعدد جمعہ

ایک گائوں میں متعدد جمعہ
-------------------------------
--------------------------------
کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام شرحِ دین متین کہ چار گاؤن ہین جنمیں تین جامع مسجد اور (ایک پنج وقتہ مسجد ہے جس میں تقریباً ٢٠ سال سے جمعہ نہیں ہورہا ہے) اب لوکڈاون کی وجہ سے اس مسجد میں جمعہ ہوا تو اب لوگوں کا اسرار ہے کہ اب ہم لوگ ہمیشہ کے لیے یہاں جمعہ پڑھیں گے جبکہ مقامی کچھ علماء کرام کا کہنا ہے کہ ابھی یہاں جمعہ کا قیام مناسب نہیں ہے کیونکہ ابھی ساری جامع مسجد نہیں بھری ہیں براہ کرم قرآن وحدیث کی روشنی میں مدلل مسلہ کا حکم واضح فرماکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں
الجواب وباللہ التوفیق:
جمعہ کی نماز میں مجمع کی کثرت مطلوبِ شریعت ہے ؛ اسی لئے شہر کی جامع مسجد میں جمعہ کا قیام افضل اور بہتر ہے۔ اگر شہر یا قریہ کبیرہ کی جامع مسجد میں قلت جگہ، بُعدِ مسافت یا کسی اور وجہ سے سارے لوگ پہنچ پاتے ہوں نہ سما سکتے ہوں، تو حسبِ ضرورت شہر کی دوسری متعدد جگہوں میں بھی جمعہ قائم کرنا جائز ہے، اس کے لئے مسجد شرعی ہونا بھی ضروری نہیں ؛ ہاں یہ ضروری ہے کہ وہ جگہ شہر یا قریہ کبیرہ میں ہو۔
اس پنج وقتہ نماز والی مسجد میں قیام جمعہ کے بابت گائوں کے تمام مسلمانوں کی مشاورت و اتفاق رائے بھی شامل حال ہوگئی ہو. باہمی اختلاف و انتشار کا کوئی خدشہ نہ ہو تو اس مسجد میں جمعہ قائم کرنا شرعاً جائز ہے 
فقہ حنفی کے صحیح ومفتی بہ قول کے مطابق شہر کی متعدد جگہوں میں نماز جمعہ کا قیام جائز ودرست ہے:
"(وتؤدى في مصر واحد بمواضع كثيرة) مطلقاً على المذهب، وعليه الفتوى، شرح المجمع للعيني، وإمامة فتح القدير؛ دفعاً للحرج". (قوله: مطلقاً) أي سواء كان المصر كبيراً أو لا، وسواء فصل بين جانبيه نهر كبير كبغداد أو لا، وسواء قطع الجسر أو بقي متصلاً، وسواء كان التعدد في مسجدين أو أكثر، هكذا يفاد من الفتح، ومقتضاه أنه لا يلزم أن يكون التعدد بقدر الحاجة كما يدل عليه، كلام السرخسي الآتي (قوله: على المذهب) فقد ذكر الإمام السرخسي أن الصحيح من مذهب أبي حنيفة جواز إقامتها في مصر واحد في مسجدين وأكثر، به نأخذ لإطلاق: «لاجمعة إلا في مصر» شرط المصر فقط، وبما ذكرنا اندفع ما في البدائع من أن ظاهر الرواية جوازها في موضعين، لا في أكثر، وعليه الاعتماد اهـ فإن المذهب الجواز مطلقاً، بحر"(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (ردالمحتار) (2/ 144)
قولہ: أو مصلاہ: أي مصلی المصر؛ لأنه من توابعه فکان في حکمه۔ والحکم غیر مقصور علی المصلی؛ بل یجوز في جمیع أفنیة المصر؛ لأنها بمنزلة المصر في حوائج أهله۔ والفناء في اللغة: سعة أمام البیوت، وقیل: ما امتد
من جوانبه کذا في المغرب۔ (البحر الرائق، کتاب الصلاۃ / باب صلاۃ الجمعۃ 140/2 کوئٹہ، حلبي کبیر ص: 155 لاہور، طحطاوي علی المراقي ص: 506)
و عبارۃ القہستاني: تقع فرضاً في القصبات، والقریٰ الکبیرۃ التي فیہا أسواق۔ (شامي، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، کراچي 138/2)
واللہ اعلم بالصواب 
شکیل منصور القاسمی

No comments:

Post a Comment