لاک ڈاؤن کی وجہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے عید کی نماز گھر پر پڑھنے کا حکم
سوال: کیا عید کی نماز جماعت کے ساتھ گھر پر پڑھ سکتے ہیں جمعہ کی نماز کی طرح، جیسا کہ جامعہ کہ فتوی میں جمعہ کی نماز گھر میں پڑھنے کی اجازت دی گئی ہے، اس طرح عید کی نماز بھی پڑھی جاسکتی ہے؟
الجواب وباللہ التوفیق:
اللہ تعالیٰ سے خوب تضرع کے ساتھ دعا کرنی چاہئے کہ رمضان المبارک میں ہی یہ حالات بہتر ہوجائیں اور عید کی نماز باجماعت کی اجازت مل جائے، تاہم اگر عید کے موقع پر بھی یہی صورتِ حال رہی یعنی عید کی نماز مساجد یا عیدگاہ میں ادا کرنے پر پابندی کی صورت میں لوگوں کو چاہئے کہ وہ مساجد کے علاوہ جہاں چار یا چار سے زیادہ بالغ مرد جمع ہوسکیں اور ان لوگوں کی طرف سے دوسرے لوگوں کی نماز میں شرکت کی ممانعت نہ ہو، عید کی نماز قائم کرنے کی کوشش کریں۔ شہر، فنائے شہر یا قصبہ میں عید کی نماز میں چوں کہ مسجد کا ہونا شرط نہیں ہے؛ لہٰذا امام کے علاوہ کم از کم تین مرد مقتدی ہوں تو بھی عید کی نماز صحیح ہوجائے گی؛ چناں چہ عید کی نماز کا وقت (یعنی اشراق کا وقت) داخل ہوجانے کے بعد امام دو رکعت نماز پڑھادے اور خطبہ مسنونہ دے، چاہے گھر میں ہوں یا کسی اور جگہ جمع ہوکر نمازِ عید پڑھ لیں، عربی خطبہ اگر یاد نہ ہو تو کوئی خطبہ دیکھ کر پڑھے، ورنہ عربی زبان میں حمد و صلاۃ اور قرآنِ پاک کی چند آیات پڑھ کر دونوں خطبے دے دیں۔ (امام کے بیٹھنے کے لئے اگر منبر موجود ہو تو بہتر، ورنہ کرسی پر بیٹھ جائے اور زمین پر کھڑے ہوکر خطبہ دے تو بھی جمعہ کی نماز صحیح ہوجائے گی۔)
اگر شہر یا فنائے شہر یا قصبہ میں چار بالغ افراد جمع نہ ہوسکیں تو عید کی نماز ادا نہ کریں۔
واضح رہے کہ مذکورہ حکم مجبوری کی حالت کا ہے، ورنہ عید کی نماز میں یہی مطلوب ہے کہ مسلمانوں کا جتنا بڑا اجتماع ہو اور عید گاہ یا جامع مسجد میں عید کی نماز ادا کی جائے اتنا ہی زیادہ بہتر ہے، نیک لوگوں کا جتنا بڑا مجمع ہوگا اتنا ہی دعا کی قبولیت میں مؤثر ہوگا، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ وسلم نے بھی عید کے اجتماع کی اس خصوصیت کی طرف اشارہ فرمایا کہ مسلمانوں کی دعا کا موقع ہوتاہے، نیز عید کی نماز کے اس مجمع پر اللہ تعالیٰ بھی فرشتوں کے سامنے فخر فرماتے ہیں۔ لہٰذا صرف مجبوری کی صورت میں عید کی مختصر جماعتیں قائم کرنے کی اجازت ہوگی، حالات بہتر ہونے کے بعد اس فتوے کی بنیاد پر گھر گھر عید کی نماز قائم کرنا درست نہیں ہوگا۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 166):
"(تجب صلاتهما) في الأصح (على من تجب عليه الجمعة بشرائطها) المتقدمة (سوى الخطبة) فإنها سنة بعدها". فقط و الله أعلم
فتوی نمبر: 144108201830
دارالافتاء: جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
----
اس فتوی کوعام کریں ویسے چودہ سالہ اسلامی تاریخ میں عیدکی نماز گھر پرہوئی ہو اس کاثبوت نہیں ملتا، لیکن مجبورا اس سال گھر پر ہی عید کی نماز ادا کرناپڑے گا عید کی نماز عیدگاہ میں اداکرناسنت ہے لیکن عید کی نماز کے لئے عیدگاہ کاہوناشرط نہیں بلکہ گھروں پر عید کی نماز ہوسکتی ہے، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام سے اس کاکوئی ثبوت نہیں ہے، اللہ سے دعاکریں وباسے نجات ملے اورعید کی نماز کی اجازت ملے ورنہ پھر مجبورا گھروں پر ہی عید کی نماز ادا کرنا پڑے گی، اور بہت سارے مسلمان بھائی عید کی بھی نماز سے محروم رہیں گے کیونکہ ہر گھر میں عید کی نماز پڑھانے والے موجود نہیں، اللہ رحم کامعاملہ فرمائے ہمارے گناہوں کو معاف کردے، اور اس مہلک وبا سے نجات عطاء فرمائے!
http://saagartimes.blogspot.com/2020/05/blog-post_6.html?m=1
No comments:
Post a Comment