گرمی میں ظہر کی نماز کا مستحب وقت
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
حضرات علماء کرام درج ذیل مسئلے کی وضاحت فرمائیں
احناف کے نزدیک گرمی میں ظہر کی نماز تاخیر سے پڑھنی مستحب ہے جیساکہ آج کل اکثر جگہ ڈھائی بجے اور تین بجے کے قریب نمازیں ہورہی ہیں۔ ہماری طرف سے اس مسئلے پر جو روایت پیش کی جاتی ہے"ابردوا بالظھر فان شدۃ الحر من فیح جھنم" اس کی رو سے ظہر کی نماز اس وقت ادا کی جائے جب گرمی کی شدت کم ہوجائے، اس روایت کو اگر عرب میں رہ کر دیکھیں تو تین بجے کے قریب نماز ظہر پڑھنا حدیث کے مطابق ہے کیونکہ وہاں تین بجے کے بعد گرمی کی شدت کم ہوجاتی ہے جیساکہ ہم نے خود تجربہ کیا ہے، لیکن ہندوستان میں تین بجے گرمی کی شدت کم ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ہمارے یہاں کئی روز سے ایک سے دو بجے کے بیچ پارہ تقریباً 44 اور 45 ڈگری ہوتا ہے جبکہ تین سے ساڑھے چار بجے کے بیچ 47 اور 48 ڈگری پہنچ جاتا ہے، ایسے میں تین بجے نماز پڑھ لینا "ابردوا" پر عمل کیوں کر مانا جائے، اب "ابردوا" پر عمل کی دو شکلیں بچتی ہیں، یا تو زوال کے فوراً بعد ظہر پڑھ لی جائے کیونکہ اس وقت پارہ 43 ڈگری کے قریب ہوتا ہے جو تین بجے کے 47 ڈگری کے مقابلے ابراد ہی ہے، یا پھر ساڑھے چار بجے کے بعد ظہر کی نماز ہو جو مساجد میں کسی بھی حال میں ممکن نہیں۔ کئی دنوں سے ذہن میں یہ بات گردش کررہی تھی اور آج عوام میں بھی ایک آدمی نے تقریباً یہی سب باتیں کہہ دیں۔ علماء کرام سے گزارش ہے ناچیز کے اس خلجان کو دور فرمائیں،
سائل: ابوحنظلہ عبد الاحد قاسمی
سوجان گڑھ راجستھان
جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء
-----------------------
خلاصہ جواب از مفتی عبد الرشید صاحب نعمانی کانپور
ابراد بالظہر ایک تعبیر واسلوب ہے، اس سے مراد ٹیمپریچر کا کم ہونا نہیں؛ بلکہ دیواروں اور مکانوں کا سایہ ہوجانا ہے جس میں چل کر انسان مسجد جاسکتا ہو، در و دیوار ومکانات کے سائے ڈھائی بجے کے قریب ہوجاتے ہیں ، ایک حدیث میں کسی صحابی کا یہ قول بھی آیا ہے کہ ہم لوگ دیوار کے سائے میں مسجد آتے تھے اس سے پتہ چلتا ہے کہ ابراد ظہر کی مراد مکانات کا سایہ ظاہر ہوجانا ہے، اگر ابراد سے مراد درجہ حرارت کم ہونا مراد ہو تو پہر یہ تو چار پانچ بجے کے قریب ہوگا جبکہ اس وقت صاحبین کے مسلک کے مطابق ظہر کا وقت نکل چکا ہوتا ہے. الغرض سائنسی اعتبار سے اگرچہ دو ڈھائی بجے ٹیمپریچر بڑھا رہتا ہو لیکن مکانات کا سایہ ضرور ہوجاتا ہے اس لحاظ سے اس وقت اداء ظہر سے ابراد پر عمل ہوجاتا ہے
فقط عبدالرشید (آڈیو جواب کا خلاصہ)
سوال بر جواب:
روایت کے الفاظ ہیں "حتی رأینا فیئ التلول" یہاں عام مکانات وغیرہ کے سائے مراد نہیں بلکہ ٹیلوں کے سائے مراد ہیں، ایک روایت میں ہے "حتی ساوی الظل التلول" ان روایات کی روشنی میں ڈھائی تین بجے قطعاً حدیث ابراد پر عمل نہیں ہوتا کیونکہ آپ خود ریگستانی علاقوں میں جاکر دیکھ لیں اس وقت ٹیلوں کے سائے ان کے برابر تو دور ظاہر بھی نہیں ہوتے. میں نے خود اس کا مشاہدہ کیا ہے. اس سے پتہ چلا کہ حدیث میں مزید تاخیر مراد ہے کیونکہ ٹیلوں کے سائے تقریباً چار بجے کے بعد ہی ظاہر ہونے شروع ہوتے ہیں
عبد الاحد قاسمی
--------------------------
جواب از مفتی سعد مذکر قاسمی
بندے کی ذاتی رائے اس سلسلے میں یہ ہے کہ اگر ہم تمازت شمس اور ٹیمپریچر دونوں کو علیحدہ کر دیں تو شاید یہ اشکال باقی نہ رہے۔ حدیث میں ابراد سے مراد نصف النہار سے تاخیر مراد ہے، نہ کہ باضابطہ مثل ثانی میں ظہر کا اہتمام کرنا، اور یہ حقیقت ہے کہ نصف النہار اور اس سے متصل وقت میں تپش جان لیوا ہوتی ہے، جوں جوں سورج ڈھلتا ہے اس کی حدت کم ہوتی چلی جاتی ہے، اب حدیث کی مراد یہ ہوئی کہ جب شدت کم ہوجائے تو ظہر کی نماز پڑھی جائے، تجربہ یہ کہتا ہے کہ ڈھائی تین بجے سورج کی حدت کم ہوتی چلی جاتی ہے۔
جب کہ ٹیمپریچر کی بنیاد فضا میں موجود گرمی کی شدت ہے، اسی کے ذریعے ٹیمپریچر ناپتے ہیں، ایسا ہر گز نہیں ہے کہ جس وقت ٹیمپریچر نانپا جا رہا ہے اس وقت کی سورج کی گرمی کو بنیاد بنا کر نانپا جائے، بلکہ سورج کی بناء پر جو فضاء میں حدت پیدا ہو گئی ہے خواہ وہ پہلے سے پیدا ہوئی ہو یا ابھی ہوئی ہو، دونوں کے مجموعے کو ملا کر ٹیمپریچر کا تخمینہ کیا جاتا ہے۔ معلوم ہوا کہ تمازت آفتاب اور ٹیمپریچر دونوں میں فرق ہے۔
جو روایت آپ نے ٹیلے سے متعلق بھیجی ہے، اس کی مراد یہ نہیں ہے کہ اس وقت نماز کا دائمی اہتمام کیا جائے، بلکہ اس کو ظہر کے آخر وقت کے لیے مستدل بنایا جاتا ہے، جیسا کہ ادلہ کاملہ میں اس کی تفصیل موجود ہے۔
شامی میں ہے
(والمستحب) للرجل ........ (تأخیر ظہر الصیف) بحیث یمشی فی الظل (مطلقا) کذافی المجمع وغیرہ أی بلا اشتراط شدۃ حرو حرارۃ بلد وقال فی الشرح: تفسیر للاطلاق وعبارۃ ابن مالک فی شرح المجمع أی سوائٌ کان یصلی الظھر وحدہ أوبجماعۃ ای لروایۃ البخاری کان صلی اللّٰہ علیہ وسلم اذا اشتد البرد بکر بالصلوٰۃ واذا اشتد الحرأ برد بالصلاۃ والمراد الظہر وقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان شدۃ الحرمن فیح جہنم فاذا اشتد فأبردوا بالصلوۃ متفق علیہ۔ (جلد ١/ ص ۲۷۰، ۲۶۹۔)
فقط واللہ اعلم باالصواب
سعد مذکر قاسمی
---------------------------------------
جواب از مفتی شکیل منصور القاسمی
الجواب وباللہ التوفیق:
سخت گرمی کے موسم میں ظہر تاخیر سے پڑھنا مردوں کے لئے مستحب وبہتر ہے:
أَبْرِدُوا بالظُّهْرِ فإِنَّ شِدَّةَ الحرِّ من فَيْحِ جهنَّمَ: صحیح البخاری/الموا قیت 9 (533)، صحیح مسلم/المساجد 32 (615)، سنن ابی داود/الصلا ة 4 (402)، سنن الترمذی/الصلاة 5 (157)، سنن النسائی/المواقیت 5 (501)، موطا امام مالک/وقوت الصلاة 7 (28)، مسند احمد (2/229، 238، 256، 266، 348، 377، 393، 400، 411، 462)، سنن الدارمی/الرقاق 119 (2887) (صحیح)
"إبراد" کے معنی ہیں ٹھنڈا کرنا یعنی ٹھنڈے وقت میں ظہر پڑھنا۔ تاخیر یعنی ابرادِ ظہر کی مقدار ومراد کیا ہے؟
سنت رسول میں اس کی کہیں بھی لازمی تحدید وتوقیت نہیں کی گئی ہے. اسی لئے علماء کے درمیان اس کی مراد کی تعیین میں اختلاف ہوا ہے. بعض علماء ابراد ظہر کی مراد زوال کے بعد ہی ظہر پڑھ لینا فرماتے ہیں. علماء شوافع کے یہاں ابراد ظہر کی مراد اتنی تاخیر کرنا ہے کہ اشیائے مستطیلہ یعنی دیوار ومکان کا سایہ ظاہر ہوجائے تاکہ لوگ تمازت شمس سے بچتے ہوئے مسجد آسکیں، یہ تاویل اس لئے قبول نہیں ہے کہ پھر تاخیر ظہر مسجد آنے والوں کے ساتھ ہی خاص ہوجائے گی جبکہ یہ گھر پہ پڑھنے والے منفردین کے لئے بھی مستحب ہے
وقال ابن دقيق العيد في (شرح العمدة): الإبراد: أن تؤخر الصلاة عن أول وقتها بمقدار ما يظهر للحيطان ظل، ولا يحتاج إلى المشي في الشمس. (إحكام الأحكام ٤٨٢/٢)
صحیحین میں حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کی روایت آئی ہے:
كُنَّا مع النبيِّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ في سَفَرٍ، فأرادَ المُؤَذِّنُ أنْ يُؤَذِّنَ، فقالَ له: أبْرِدْ، ثُمَّ أرادَ أنْ يُؤَذِّنَ، فقالَ له: أبْرِدْ، ثُمَّ أرادَ أنْ يُؤَذِّنَ، فقالَ له: أبْرِدْ حتَّى ساوَى الظِّلُّ التُّلُولَ فقالَ النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ: إنَّ شِدَّةَ الحَرِّ مِن فَيْحِ جَهَنَّمَ.صحيح البخاري: 629. ومسلم (616)
ہم نبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کے ساتھ سفر میں تھے مؤذن نے اذان کا ارادہ کیا کہ ظہر کی اذان دے حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ٹھنڈاکر پھر چاہا کہ اذان دے پھر فرمایا: ٹھنڈا کر، یہاں تک کہ ٹیلوں کے سائے ان کے برابر ہوگئے۔ اور مسلم میں ابراہیم کے طریق میں شعبہ سے مؤذن کا تین بار ارادہ اور حضور کا یہی حکم فرمانا وارد ہوا ہے۔ یہ روایت تاخیر ظہر میں مبالغہ کو بتاتی ہے کہ مؤذن رسول نے تین بار اذان کا ارادہ کیا اور ہر دفعہ “ابراد “ کا حکم ہوا. مؤذن رسول ہر دفعہ اس قدر فاصلہ ضرور کیا ہوگا جسے ابراد کہا جاسکے اور وہ وقت بہ نسبت پہلے وقت کے ٹھنڈا ہواہو ورنہ صحابی رسول کے لئے عدم امتثال امر رسول کا اشکال لازم آئے گا جو متصور نہیں، پھر یہ مبالغہ آمیز تاخیر صرف اذان میں ہوئی ہے، وضو اور دیگر حوائج طبعیہ سے فراغت کے لیے لازماً وقت دیا گیا ہوگا، جس سے جماعت ظہر میں مزید تاخیر کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے. ٹیلے عموماً اجسام بسیطہ یعنی پھیلے ہوئے ہوتے ہیں اجسام مستطیلہ نہیں، اجسام بسیطہ کا سایہ آخر وقت ظہر جانے کے بعد ظاہر ہوتا ہے. حضرت عبدالله بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عنہ کی یہ روایت بھی دیکھیں:
كانت قدرُ صلاةِ رسولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم في الصيفِ ثلاثةَ أقدامٍ إلى خمسةِ أقدامٍ ، وفي الشتاءِ خمسةُ أقدامٍ إلى سبعةِ أقدامٍ. صحيح أبي داود: 400.وصحیح النسأی: 502
یعنی گرمی میں حضور سرور عالم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّم ظہر کی نماز کا وقت اس وقت ہوتا تھا جب کہ ہر چیز کے سایہ کی مقدار تین قدم سے پانچ قدم تک ہوتی تھی۔ ایک قدم تیس ۳۰ سینٹی میٹر کے قریب ہوتا ہے، اس لحاظ سے ۹۰ سے ۱۵۰ سینٹی میٹر سایہ ہوجانے کے بعد حضور گرمی میں تاخیر ظہر فرماتے تھے،
بقول علامہ عینی (جلد ۵ ص ۳۲ کتاب المواقیت ۹) یہ تقریب ہے تحدید نہیں؛ یعنی ملکوں اور شہروں کی جغرافیائی احوال کے لحاظ سے اس میں کمی بیشی کا امکان موجود ہے لیکن حرمین شریفین میں گرمی کے موسم میں اس قدر سایہ نہایت دیر میں واقع ہوتا ہے. اس سے پتہ چلتا ہے کہ سنت رسول ظہر کو ٹھنڈا کرکے پڑھنا ہے، گرم ترین علاقوں میں جہاں درجہ حرارت اور ٹیمپریچر ظہر کے بالکل آخر وقت میں کم ہوتا ہو تو وہاں عصر شروع ہونے سے احتیاطا آدھ گھنٹہ قبل تک بھی ظہر پڑھنے کی گنجائش ہے. تاخیر ظہر کی کوئی تحدید وتوقیت شرعا نہیں کی گئی ہے. تین سے پانچ قدم سایہ والی روایت بھی تحدید پہ محمول نہیں ہے. لیکن اتنی تاخیر کی بھی گنجائش نہیں ہے جس سے ظہر کے وقت کے خروج کا مظنہ ہو. ابتدائے وقت عصر سے بیس تیس منٹ پہلے تک گرم ترین علاقوں میں تاخیر ظہر کی جاسکتی ہے ، ٹیلے جیسے اجسام بسیطہ کا سایہ اس سے پہلے ظاہر ہونا خلاف مشاہدہ ہے. وقت ظہر کے خروج کا مظنہ ہو تو اتنی تاخیر کی اجازت نہ ہوگی:
شَكَونا إلى رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ حَرَّ الرَّمضاءِ فلم يُشْكِنا; عن عبدالله بن مسعود. : 64. أخرجه الترمذي في (العلل الكبير) (89) واللفظ له، وابن ماجه (676)
ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دھوپ کی تیزی کی شکایت کی لیکن آپ نے ہماری شکایت نہ مانی“
شکایت اس لئے نہ مانی گئی ہوگی کہ «ابراد» سے قدر زائد تاخیر جو خروج وقت کو مستلزم ہو کا مطالبہ ہوا ہوگا لہذا خروج وقت ظہر کو مستلزم تاخیر کی اجازت نہیں ہے
واللہ اعلم
-----------------------------------------
اس جواب پر سائل کا تبصرہ:
بہترین و عمدہ جواب ہے. آپ کی تحریر کا خلاصہ جو میں سمجھا وہ ذیل ہے:
ابراد کے لیے وقت کی کوئی تحدید نہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا تین بار"ابرد" فرمانا اور صحابی کا ٹیلوں کے سایوں کا حوالہ دینا تاخیر میں مبالغے کی جانب صاف مشیر ہے۔ اس صورت میں اتنے وقت تک تاخیر کرنا جس میں حسّاً و مشاہدۃً تبرید ہوجائے اور دخول عصر کا بھی شائبہ نہ ہو حدیث کا مقتضا ہے، یعنی اکثر بلاد ہند میں جہاں عصر کا وقت تقریباً پانچ بجے کے بعد شروع ہوتا ہے وہاں ساڑھے چار بجے کے قریب نماز ظہر پڑھنا مراد ہے۔ اس صورت میں ڈھائی بجے اور تین بجے نماز پڑھ لینے سے حدیث ابراد پر عمل نہیں ہوتا۔
فجزاکم اللہ احسن الجزاء
عبد الاحد قاسمی
----------------------------------
اس جواب پر مفتی عبدالرشید صاحب کا سوال:
یعنی ابھی کلیر بات نہیں آئی کہ کس وقت ظہر افضل ہے۔ اگر ڈھنگ سے ابراد کی رعایت کی جائے تو صاحبین کے مسلک کے اعتبار سے ظہر اپنے وقت پر نہیں ہو پائے گی اور اگر صاحبین کے مسلک کی رعایت کی جائے جو لازم ہے ورنہ نماز مکروہ ہوگی تو اس سے ابراد نہیں ہوتا۔ پھر حدیث کا محمل کیا ہوگا؟
الجواب وباللہ التوفیق:
انتہائے وقت ظہر میں صاحبین اور امام صاحب دونوں فریق کے قول پہ ہمارے یہاں فتوی دیا گیا ہے
مثلین تک وقت باقی رہنا بھی مفتی بہ ہے اور صاحبین کا قول بھی مفتی بہ ہے. پورا وقت یہاں کامل ہے
ناقص کوئی جز نہیں کہ اس میں نماز مکروہ ہوجائے. علاقے علاقے اور شہروں کی شدت وقلتِ حرارت کے پیش نظر ابراد کی رعایت کرلی جائے. گرم علاقوں میں مثلین سے تھؤرا پہلے تک ابراد کرلے. معتدل علاقوں میں مثل اوّل تک بھی ابراد ممکن ہے. تمام علاقوں میں تاخیر و ابراد ظہر کی ایک متعینہ تحدید گھڑی گھنٹوں سے کرنا مشکل ہے. مثلین تک وقت باقی رہتا ہے. اس کے اختتام سے آدھا گھنٹہ قبل تک ابراد ظہر کرلے
واللہ اعلم
No comments:
Post a Comment