غلاف کعبہ کی تاریخ
کعبہ پر غلاف چڑھانے کی ابتدا کب ہوئی اور آج تک اس کی تاریخ کیا ہے ۔ اس بارے میں تاریخ کا کوئی مؤرخ اس کا قدیم ریکارڈ پیش کرنے سے قاصر ہے ۔ لیکن جو روایات علماءاسلام تک پہنچی ہیں ان کے مطابق کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے کعبۃ اللہ پر غلاف حضرت اسمٰعیل علیہ السلام نے چڑھایا تھا ۔
اس کے بعد صدیوں تک تاریخ خاموش ہے پھر یہ ذکر ملتا ہے کہ عدنان نے کعبہ پر غلاف چڑھایا اس کے بعد پھر عرصہ بعید تک تاریخ خاموش ہے ۔ پھر یمن کا بادشاہ اسد جو زمانہ نبوت سے دو سو 200برس قبل گزرا ہے اس کے متعلق ذکر ملتا ہے کہ اس نے سرخ رنگ کا دھاری دار یمنی کپڑا ”الوسائل“ کا مکمل غلاف چڑھایا ۔ قریش کے انتظام سنبھالنے سے غلاف کعبہ کی مکمل تاریخ ملحق ہے اس قبیلہ کی روایات زمانہ اسلام تک محفوظ ہیں۔
بنی مخزوم کے ایک سردار بنو ربیعہ نے قریش سے یہ بات طے کی کہ ایک سال بنی مخزوم اور ایک سال قریش غلاف چڑھائیں گے ۔ اس کے علاوہ زمانہ جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ عرب کے مختلف قبیلے اور ان کے سردار جب بھی زیارت کے لئے آتے تو اپنے ساتھ قسم قسم کے پردے لاتے۔ جتنے لٹکائے جاسکتے وہ لٹکا دئیے جاتے باقی کعبۃ اللہ کے خزانے میں جمع کردئیے جاتے ۔ جب کوئی پردہ بوسیدہ ہوجاتا تو اس کی جگہ دوسرا پردہ لٹکا دیا جاتا ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بچپن کا ایک واقعہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دادی نے اپنے ایک صاحبزادے کے گم ہونے پر نذر مانی کہ اگر مل جائے تو کعبہ پر ریشمی غلاف چڑھائیں گی ۔ جب وہ مل گئے تو انہوں نے نذر پوری کرتے ہوئے سفید رنگ کا ریشمی غلاف چڑھایا ۔
زمانہ نبوت سے قبل کی قریش کی تعمیر جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی بنفسِ نفیس شریک تھے ۔ تعمیر مکمل ہونے کے بعد اہل مکہ نے بڑے اہتمام کے ساتھ کعبہ پر غلاف چڑھایا ۔
فتح مکہ کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا:
یہ وہ دن ہے کہ اللہ تعالیٰ کعبہ کی عظمت قائم فرمائے گا اور اب ہم اس پر غلاف چڑھائیں گے ۔ اس زمانے کا ایک یہ واقعہ بھی ملتا ہے کہ ایک عورت کعبہ میں خوشبو کی دھونی دے رہی تھی کہ ایک چنگاری اڑ کر ان غلافوں پر گری اور زمانہ جاہلیت کے تمام غلاف جل گئے ۔ تو مسلمانوں نے کعبۃ اللہ پر غلاف چڑھایا یہ دورِ اسلام کا پہلا غلاف ہے ۔ (فتح الباری بروایت سعید بن مسیب رحمہ اللہ)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے اپنے زمانہ میں کعبہ پر یمنی کپڑے کا دھاری دار غلاف چڑھایا۔ جب مصر فتح ہو گیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے اپنے دور خلافت میں اعلیٰ مصری کپڑے (قباطی) کا غلاف بنوا کر چڑھایا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں غلاف کعبہ کے بارے میں روایت خاموش ہے ۔ زمانہ قدیم میں یہ دستور تھا کہ جب حجاج کرام دس محرم تک اپنے اپنے علاقوں کو واپس چلے جاتے تو تب کعبہ پر غلاف چڑھایا جاتا ۔
اسی طریقے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاءکے زمانے میں عمل ہوتا رہا ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں دس محرم کے علاوہ ایک اور غلاف عیدالفطر کے دن بھی چڑھایا پھر اسی طرح یزید اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے اپنے دور میں یہ عمل کیا ۔ خلیفہ عبدالملک بن مروان کے عہد میں یہی مستقل طریقہ بن گیا ۔ جو آج تک جاری ہے ۔
زمانہ جاہلیت میں مختلف لوگ اپنی اپنی طرف سے یہ عمل کرتے تھے لیکن اسلامی دور میں غلاف چڑھانا حکومت کی ذمہ داری قرار پایا ۔
مسند عبدالرزاق کی روایت کے مطابق ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا، کیا ہم کعبہ پر غلاف چڑھائیں؟ انہوں نے فرمایا کہ: اب تمہاری طرف سے اس خدمت کو حکمرانوں نے سنبھال لیا ہے ۔ ایک اور روایت میں ہے: کسوۃ البیت علی الامراء
”بیت اللہ کا غلاف حکمرانوں کے ذمے ہے۔“
عباسی خلافت کے زوال تک غلاف کی تیاری مرکزی حکومت کے زیراہتمام ہوتی تھی ۔ جب مرکزی حکومت کا خاتمہ ہو گیا تو مختلف علاقوں کے حکمران اپنی اپنی طرف سے غلاف بنوا کر بھیجتے رہے اور بسا اوقات ایک وقت میں کئی کئی غلاف چڑھائے جاتے۔
اس سلسلہ میں ایک مرتبہ 466 ھ میں ہندوستان سے غلاف بنواکر بھیجا گیا مصر کے فرماں روا الملک الصالح اسمٰعیل بن ناصر نے 750ھ میں غلاف کعبہ تیار کرانا اپنے ذمے لے لیا ۔ اور اس غرض سے تین گاؤں وقف کردئیے۔ مصر پر ترکوں کے قبضے کے بعد سلطان سلیمان اعظم نے ملک الصالح کے وقف میں سات گاؤں کا اور اضافہ کر دیا ۔ اس عظیم وقف کی آمدنی سے ہر سال کعبہ کا غلاف مصر سے بن کر آنے لگا ۔ اس کے علاوہ خانہ کعبہ کے اندر کے پردے بھی وقتاً فوقتاً اسی وقف سے بنا کر بھیجے جاتے رہے ۔ اس زمانہ میں اس وقف شدہ زمین کی کل آمدنی جو موجودہ زمانہ میں ایک لاکھ پچاس ہزار درہم مصری پونڈ تھے۔
جب مصر کے وائسرائے محمد علی پاشا نے ترکی سلطنت سے بغاوت کر کے خودمختاری حاصل کر لی تو اس نے یہ وقف منسوخ کر دیا اور غلاف کعبہ صرف حکومت مصر کے خرچ پر بنوا کر بھیجنا شروع کر دیا۔
پہلے غلاف مختلف رنگوں کے ہوتے تھے ۔ خلیفہ مامون الرشید کے دور میں سفید رنگ کا غلاف چڑھایا گیا ۔ سلطان محمود غزنوی نے زرد رنگ کا غلاف چڑھایا ۔
٭ خلیفہ ناصر عباسی نے 575ھ تا 622ھ کی ابتدا میں سبز اور پھر سیاہ ریشم کا غلاف بنوا کر بھیجا ۔ تب سے آج تک سیاہ غلاف ہی چڑھایا جا رہا ہے ۔ غلاف کعبہ کے چاروں طرف زری کے کام کی پٹی بنانے اور اس پر کعبۃ اللہ کے متعلق قرآن مجید کی آیات لکھوانے کا یہ سلسلہ سب سے پہلے 761ھ میں مصر کے سلطان حسن نے شروع کیا اس کے بعد سے آج تک یہ طریقہ جاری ہے ۔
ایک طرف آل عمران 97-96 لکھی جاتی ہے:
.ان اول بیت وضع للناس للذی ببکۃ مبرکا وہدی للعلمین [96] فیہ ایت بینت مقام ابرہیم ومن دخلہ کان امنا وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا ومن کفر فان اللہ غنی عن العلمین : آل عمران :96,97
دوسری طرف المائدہ آیت نمبر97:
(( جعل اللہ الکعبۃ البیت الحرام قیما للناس والشہر الحرام والہدی والقلآئد ذلک لتعلموا ان اللہ یعلم ما فی السموت وما فی الارض وان اللہ بکل شیئ علیم)) (المائدہ : 97)
تیسری طرف سورۃ البقرہ آیت نمبر 127,128 :
((واذ یرفع ابرہم القواعد من البیت واسمعیل ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیمo ربنا واجعلنا مسلمین لک ومن ذریتنآ امۃ مسلمۃ لک ص وارنا مناسکنا وتب علینا انک انت التواب الرحیم )) (سورۃ البقرہ : 127, 128)
چوتھی جانب اس فرماں روا کا نام لکھا جاتا ہے جس کی طرف سے غلاف بنا کر بھیجا گیا۔ گزشتہ صدی کے آغاز تک غلاف کعبہ دنیا کے سیاسی حالات سے محفوظ رہا ۔ جنگیں ہوتی رہیں سلطنتوں کے تعلقات بنتے اور بگڑتے رہے ، مگر خانہ کعبہ کے لیے غلاف جہاں سے آیا کرتا تھا وہیں سے آتا رہا ۔ لیکن گزشتہ صدی کے آغاز میں دنیا کے سیاسی حالات اس پر بھی اثر انداز ہوئے ۔ جنگ عظیم اول میں جب ترکی سلطنت جرمنی کے ساتھ شریک جنگ ہوئی تو اسے اندیشہ ہوا کہ مصر سے غلاف کے آنے میں انگریز رکاوٹ بنے گا ۔ ایسے میں ترکی نے ایک شاندار غلاف استنبول سے تیار کرا کے حجاز ریلوے کے ذریعے مدینۃ منورہ بھیج دیا ۔
عین وقت پر مصر سے بھی غلاف پہنچ گیا ۔ تو ترکی سے آیا ہوا غلاف مدینۃ منورہ میں محفوظ کردیا گیا۔
٭ 1923ء میں شریف حسین اور مصر کے حالات آپس میں خراب ہو گئے اور مصری حکومت نے عین حج کے موقع پر جدہ پہنچے ہوئے غلاف کو واپس منگوالیا ۔ خوش قسمتی سے اس وقت جنگ کے زمانہ میں بھیجا ہوا ترکی غلاف کام آ گیا اسے فوری طور پر مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ پہنچایا گیا ۔
٭ 1925ء میں سلطان ابن سعود رحمہ اللہ اور شریف حسین کی لڑائی کے زمانے میں مصر سے پھر غلاف نہ آیا ۔ ابن سعود رحمہ اللہ نے عراق کا بنا ہوا ایک غلاف چڑھا دیا جو شریف حسین نے بنواکر رکھا ہوا تھا ۔
٭ 1927ء میں ٹھیک یکم ذوالحجہ کو حکومت مصر نے غلاف بھیجنے سے پھر انکار کر دیا اور ابن سعود کو فوراً مکہ مکرمہ سے ایک غلاف بنوانا پڑا ۔
٭ 1928ء میں مصر سے غلاف نہ آیا اور امرتسر سے مولانا سید داؤد غزنوی رحمہ اللہ اور مولانا اسمٰعیل غزنوی رحمہ اللہ کے زیراہتمام غلاف بنواکر بھیجا گیا۔
ان تلخ تجربات کی بنا پر مکہ مکرمہ میں ایک دارالکسوۃ قائم کر دیا گیا تا کہ مصر سے آئے دن غلاف نہ آنے کی مصیبت کا مستقل حل کر دیا جائے ۔ اس کارخانے میں مولانا اسمٰعیل غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کی مدد سے ہندوستان کے بہت سے کاریگر فراہم کئے گئے ۔
٭ 1972ءمیں اس کارخانے کو جدید ترین بنانے اور اس کی صلاحیت کو بہتر بنانے کے لیے ایک جدید کارخانہ کی بنیاد 1392ھ کو خادم الحرمین الشریفین (شاہ فہد رحمہ اللہ) نے رکھی جو اس وقت وزیر داخلہ اور مجلس وزرا کے نائب تھے ۔
٭ 1975ءبمطابق 1395ھ میں اس جدید کارخانے کا افتتاح خادم الحرمین الشریفین جو اس وقت ولی عہد تھے نے اپنے ہاتھ سے کیا ۔ اب یہ کارخانہ بنائی اور رنگائی کے جدید ترین آلات سے مزین ہے ۔ لیکن اس کام کو مشین کی بجائے ہاتھ سے ہی انجام دیا جاتا ہے ۔ اس لیے کہ ہاتھ کی کاریگری انسانی کمال کا فنی ورثہ تصور کیا جاتا ہے ۔
غلاف کی لمبائی 14میٹر اور اس کے اوپر والے ایک تہائی حصہ میں غلاف کو باندھنے والی ڈوری ہوتی ہے جس کی چوڑائی سینٹی میٹر ہوتی ہے۔ اور اس پر چاندی اور سونے کی پالش شدہ ڈوری سے قرآنی آیات لکھی جاتی ہیں ۔ اس ڈوری کی لمبائی 47 میٹر کے قریب ہوتی ہے جو 16 ٹکڑوں کا مجموعہ ہوتی ہے ۔ ڈوری والے حصے سے تھوڑا نیچے اسلامی آرٹ (خطاطی) میں سورہ الاخلاص اور چھ قرآنی آیات جن کا تذکرہ پہلے کر آئے ہیں لکھی جاتی ہیں ۔
بیچ والے حصہ میں چند آیات درج ہوتی ہیں یہ آیتیں خط ثلث میں لکھی جاتی ہیں جو عربی کا سب سے خوبصورت خط ہے ۔ کعبے کے دروازے کا غلاف جسے برقعہ کہتے ہیں جو عمدہ اور نفیس کالے ریشم سے بنایاجاتا ہے ۔ جبکہ باقی غلاف بھی اسی رنگ کا ہوتا ہے لیکن اس کی عمدہ اور جاذبِ نظر ترتیب و کتابت اس کو دوسرے حصے سے ممتاز بنا دیتی ہے ۔ ان آیات کے نیچے اسی خط اور انداز میں یہ عبارتیں درج ہوتی ہیں کہ یہ غلاف مکہ مکرمہ میں تیار ہوا اور خادم الحرمین الشریفین کی طرف سے اسے خانہ کعبہ کو بطور تحفہ پیش کیا گیا ۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے۔
اس عمدہ اور نفیس غلاف کی تیاری پر ایک کروڑ ستر لاکھ سعودی ریال خرچ آتا ہے۔ آیات و کلمات سے اس طرح مزین غلاف کعبہ سعودی عرب کی ایک یادگار ہے تاریخ میں اس انداز کا غلاف کعبہ کبھی تیار نہیں کیا گیا۔
http://saagartimes.blogspot.com/2020/05/blog-post_7.html?m=1
No comments:
Post a Comment